پیر، 7 مئی، 2018

مسافرپرجمعہ واجب ہے یانہیں ؟


اس مسئلہ کےاندربھی دواقوال ہیں :
پہلا قول   : مسافرپرجمعہ نہیں ہے  ، ان کی دلیل مندرجہ ذیل روایتیں ہیں  :
1 –  جابررضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:"من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فعليه الجمعة يوم الجمعة إلا مريض أو مسافر أوإ مرأة أو صبي أو مملوك[1]  "جوآدمی اللہ اورقیامت کےدن پرایمان رکھتا ہو اس پرجمعہ واجب ہے سوائےبیمار،مسافر، عورت،  بچہ یاغلام کے( ان پرجمعہ واجب نہیں ہے )۔
2 – تمیم داری رضی اللہ عنہ  سےمروی ہے کہ ‎ اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"الجمعة واجبة إلا على صبي أو مملوك أو مسافر[2] "بچے ، غلام اورمسافرکےعلاوہ پرجمعہ واجب ہے "۔
3 –  ابودرداء رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ ‎ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا :الجمعة واجبة إلاعلى إمرأة أوصبي أومريض أو عبدأومسافر" [3] "عورت، بچہ،بیمار،غلام اور مسافرکے علاوہ   پر جمعہ  واجب ہے "۔
4 –  ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ ‎ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا : "خمسة لاجمعة عليهم: المرأة والمسافر والعبد والصبي وأهل البادية "  [4] "پانچ قسم کےلوگوں پر جمعہ  واجب نہیں ہے : عورت ، مسافر، غلام ، بچہ اوردیہات میں رہنے والے " ۔
دوسراقول  :مسافراگردوران سفرکہیں قیام پذیرہوتواس پرجمعہ واجب ہے اوراگرسائر  (سفرکرنےوالا ) ہوتواس پرجمعہ واجب نہیں ہے  ۔ یہ قول امام زہری ، امام نخعی ، ابوالعباس ، قاسم اورہادی وغیرہ کاہے ۔ [5] 
لیکن  صحیح بات یہ ہےکہ مسافرپرجمعہ واجب نہیں ہے ، نازل ( قیام پذیر) ہوخواہ سائر، اس لیےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سےیہ بات کہیں منقول نہیں ہےکہ آپ نے سفرمیں جمعہ پڑھاہو ،نیزصحابہ کرام خاص کرخلفاء راشدین سےبھی  جمعہ پڑھناثابت نہیں ہے [6]  ،لہذا اگرمسافرکےلیےجمعہ واجب ہوتاتوصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم ضرور نقل کرتے ، اورجہاں تک جمعہ کےعدم وجوب والی روایتوں کا سوال ہے تو ان کے ضعف کےباوجود  متعددطرق سےآنےکی بناپراس کی کچھ اصل ہے   ۔ امام ابن تیمیہ فرماتےہیں : "الصواب ما عليه سلف الأمة وجماهيرها من الأئمة الأربعة وغيرهم من أن المسافر لا يصلي جمعة ولاغيرها[7]  "صحیح بات وہی ہے جس پرائمہ اربعہ وغیرہم میں سےامت کےاسلاف اورجمہورہیں کہ مسافرجمعہ وغیرہ نہیں پڑھےگا"۔



   [1])سنن الدارقطني (2/3) السنن الكبرى للبيهقي (3/184) اس میں ایک راوی  ابن لھیعہ اور دوسرے معاذبن محمدالانصاری ہیں اوردونوں ضعیف ہیں ، دیکھئے : التلخیص الحبیر(2/65)  ۔
   [2])    السنن الكبرى للبيهقي (3/183) اس کی سند میں ایک راوی حکم بن عمرو ہیں جوضعیف ہیں ، امام ذہبی لکھتےہیں : "قال البخاري: لاتتابع على حديثہ" دیکھئے :میزان الاعتدال (1/587) نیزاس میں دوسرےراوی  ضراربن عمرو  ہیں اوروہ بھی ضعیف ہیں ، دیکھئے  : میزان الاعتدال (2/328)۔
([3])  رواه الطبراني ،دیکھئے : مجمع الزوائد(2/170) اس میں بھی ضراربن عمروالملطی ہیں جوضعیف ہیں ۔
[4]   اس روایت کوامام طبرانی  نےاوسط کےاندرذکرکیاہے ، اوراس کی سندمیں ابراہیم بن  حمادہیں جوضعیف ہیں  ،   دیکھئے :مجمع الزوائد (2/170)
[5]  دیکھئے  : نیل الاوطار ( 3/259)۔
    [6]) دیکھئے  : المغنی ( 2/338) ۔
[7]   دیکھئے   :  مجموع فتاوى ابن تيميہ (17/480) ۔

کوئی تبصرے نہیں: