اتوار، 6 مئی، 2018

سفرکے احکام ومسائل قرآن وسنت کی روشنی میں

اثنائے سفرکاقیام
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں سفرکےدوران قیام فرماتے اوررات کاوقت ہوتا تو سوجاتے  اور اگرصبح سےکچھ پہلےکاوقت ہوتاتوبازوکو کھڑا کرکےہتھیلی پرسررکھ لیتے [1] اہل علم کہتےہیں کہ آپ ایسا اس لیےکرتےکہ کہیں گہری  نندنہ آجائےاورفجرکی نمازفوت ہوجائے ۔
سفرسے جلدواپسی مستحب ہے
مسافرغریب الوطنی میں مختلف پریشانیوں سےدوچارہوتاہے ،نیزکاروبارکے جھمیلے اورآل واولاد کی فکر اسے ہرلمحے مشغول اور مضطرب  رکھتےہیں ، اسی لیے  سفر کوعذاب  کاٹکڑاکہاگیاہے اورسفر سےجلدواپسی کومستحب قرار دیا گیا ہے، ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: "‌السفرقطعة من العذاب يمنع أحدكم طعامه وشرابه ونومه، فإذاقضى نهمته فليعجل إلى أهله"[2] "سفرعذاب کاایک حصّہ ہےجوکھانا،  پانی اورنیند سے روک دیتاہے، اس لیےجب ضرورت پوری کرلےتو اپنےاہل کےپاس فورالوٹ آئے " ۔
سفرسےواپسی پردن میں گھرآنامستحب ہے
            جابر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے ، وہ فرماتےہیں : "نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يطرق أهله ليلاً"[3] " نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے (سفرسےواپسی پر) اپنی اہل کےپاس رات  کوجانےسےمنع فرمایا " اورمسلم کی  روایت میں ہے: "أن يتخونهم أو يتطلب عثراتهم" "تاکہ گھروالوں کی چوری یا خیانت کوپکڑےیا ان کاقصورڈھونڈھے" کیوں کہ اس میں بدگمانی پائی جاتی ہے جو شریعت میں منع ہے اورعورت کی دل شکنی کاباعث اوربسااوقات نفس کی تباہی کاسبب ہوتاہے  ۔
انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے ،وہ فرماتےہیں: "كان  النبي صلى الله عليه وسلم لايطرق أهله كان لايدخل إلاّغداوة أوعشية"[4] "نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم (سفر سے واپسی پر) اپنی اہل کےپاس رات کو نہیں جاتے، ہاں صبح کو یاشام کوجاتے"۔
فائدہ  :  مذکورہ دونوں روایتوں سے کسی کےذہن میں یہ خیال آسکتاہے کہ  سفر سے واپسی پر آخررات کوگھرآنے سےکیوں منع کیا گیاہے ؟ جب کہ آدمی سفرسے تھکاماندہ واپس آتاہے، اوراپنی اہل وعیال میں جلدپہنچنے کامحتاج ہوتا ہے، تاکہ سفرکے تھکان اور منتشرذہنیت سےچھٹکارہ پاسکے۔ لیکن غورکرنےکےبعداس امرمیں بہت ساری حکمتوں کاپتہ چلتاہے ، حافظ ابن حجراس علّت کی بابت فرماتےہیں : "طول الغيبة" کی قیدلگاکراس بات کی طرف اشارہ کیاگیاہےکہ علّت  نہی "طول الغيبة " "لمبی مدّت تک غائب رہنا " ہےاگر کوئی آدمی دن کوجاتاہے اوررات کو واپس آجاتاہےتو اس وقت یہ علّت نہیں پائی جائےگی  " پھرآگےچل کرلکھتےہیں : " اگرکوئی شخص زیادہ دن پر گھرواپس آتاہے ، اوررات کواپنی اہل کےپاس آتاہے توہوسکتاہےکہ اس کی بیوی صاف ستھری نہ ہوجو ایک عورت سے (اپنےشوہرکے لیے) مطلوب ہے اوریہ چیزدونوں کےدرمیان تنفّراور کھینچاؤ کاسبب بن جائے اسی کی طرف "كي تستحد  المغيبات" (یعنی وہ عورت جس کاخاوند غائب  تھا  وہ پاکی حاصل کرلے)اور"تمتشط الشعثة " (یعنی پراگندہ بال عورت کنگھی کرلے)[5]اشارہ کرتاہے ، یایہ کہ بیوی غیرمناسب  حالت میں ہو جبکہ اسلام ستر وپردہ  پرابھارتا ہے ، اسی بات کی طرف "أن يتخونهم أويتطلب عثراتهم" سےاشارہ ہے [6]۔
حافظ ابن حجرکی اس تشریح اورمختلف روایات کواکٹھاکرنےکےبعد جوبات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ : اسلام امن ومحبت کاداعی ہے ، خاص کرمحبت بین الزوجین  کا نہایت  ہی خیال  اورلحاظ کرتاہے  ، اب اگرکوئی شخص سفرسےلمبی مدّت کےبعد گھر واپس آتاہے اوربغیراطلاع گھرمیں داخل ہوگاتو اپنی بیوی کوان حالات میں پاسکتاہے جواسے ناپسند ہو،کیوں کہ عام طورسےعورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنےبناؤ سنگھارکی طرف سےلاپرواہ ہوتی ہیں، اگر اچانک شوہرسے ایسی حالت میں سامناہو جائےتو یہ محبت میں کمی اورمستقبل میں تناؤاورتنفّرکاسبب بھی بن سکتاہے ۔ حافظ ابن حجرنےاس ضمن میں ابوعوانۃ کےحوالہ سےایک روایت نقل کی ہے کہ: عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ  رات کواپنی بیوی کے پاس آئےاس وقت ان کی بیوی کےپاس ایک عورت تھی جوان کوکنگھاکررہی تھی ، انہوں نےسمجھاکوئی مردہے، اس لیےتلواراٹھالی ،جب اس واقعہ کاذکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےکیاگیاتوآپ نے (سفرکےبعد) رات کوبیوی کے پاس آنے  سےمنع فرمادیا"[7]۔
موجودہ دورمیں  وسائل اعلام کی توفیرنےاس مشکل کاحل نہایت خوش اسلوبی سےکر دیا ہے، جس سےآدمی ہمہ دم اپنےگھروالوں سے جڑارہتاہے، سفرمیں کب کہاں اور کیسے ہے سب کوپتاہوتاہے اس لیےوہ علت جورات میں یااچانک گھرواپسی میں پائی جاتی ہے مفقود ہے، اسی  طرح  موجودہ  دور  میں  ہر  طرح  کی  سواریوں  اور  وسائل  سفر  کے  اوقات  کے  مسافر  کے  اپنے  بس  میں  نہ  ہونے  کی  وجہ  سے  مذکورہ  کراہیت  معاف  ہے۔  ہاں اگرکسی کےساتھ ایسی آسانیاں نہیں ہیں یااہل کےساتھ جاسوسی اورخیانت کاقصدہوتو اس علّت کی موجودگی  اس مسئلہ میں مذکورہ کراہت  کی موجب ہے ،کیونکہ یہی فساداہل اوردیگرفتنوں کاسبب بن جاتاہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
سفرسےواپسی کی دعاء
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جنگ ، حج یا عمرہ سےواپس ہوتےتوہربلندی والی جگہ پرتین بار" اللہ اکبر" کہتےپھر مندرجہ ذیل دعاء پڑھتے :
"لاإله إلاّ اللهُ وَحْدَه، لَا شَرِيْكَ لَه، لَه الْمُلْكُ وَلَه الْحَمْدُ وَهُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْر، آئبِوُنَ، تَائبِوُنَ، عَابِدُوْنَ، سَاجِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَاِمدُوْنَ، صَدَقَ اللهُ وَعْدَه،وَنَصَرَ عَبْدَه، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَه"[8]"اللہ کےسوا کوئی سچی عبادت کے لائق  نہیں ہے ،اس کاکوئی شریک و ساجھی نہیں ،  اسی کےلیے بادشاہت ہے ، تمام تعریفیں اسی کےلیےہیں اوروہ ہرچیزپرقادرہے ، ہم اسی کی جانب لوٹنےوالےہیں ، توبہ کرنے والےہیں ، اسی کی عبادت کرنےوالےہیں ، اسی کوسجدہ کرنےوالےہیں ، اورہم اپنےرب کی تعریف بیان کرتےہیں  اللہ تعالی نےاپناوعدہ پورا کر دکھایا اوراپنےبندےکی مددکی اورتنہاہی لشکروں کو شکست دیدی "۔
سفرسےواپسی پرپہلےمسجدمیں جاکردورکعتیں  نمازاداکرنامستحب ہے
                مختلف روایتوں میں آتاہےکہ اللہ  کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفرسے واپس آتےتوپہلےمسجدمیں جاکردو رکعتیں  نماز اداکرتے ،کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سےمروی ہے، وہ کہتے ہیں :"إن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قدم من سفر ضحىً دخل المسجد فصلى الركعتين قبل أن يجلس"[9] "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کےوقت کسی سفرسےواپس ہوتے تومسجدمیں آتےاوربیٹھنےسےقبل دورکعتیں نمازادافرماتے"جابررضی اللہ عنہ سے مروی  ہے،وہ فرماتےہیں:"كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فلما قدمنا المدينة قال لي: ادخل فصلّ ركعتين"[10] "ایک سفر میں میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ تھا، جب ہم مدینہ پہنچےتوآپ نےمجھ سے فرمایا  : مسجدمیں جاکردورکعتیں  نماز اداکرو" ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسےمروی ہے، وہ فرماتےہیں: "إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أقبل من حجته دخل المدينة فأناخ على باب مسجده ثم دخل فركع فيه ركعتين ثم انصرف إلى بيته"[11] "اللہ کےرسو ل صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کافریضہ اداکرکے واپس آئے اورمدینہ میں داخل ہوئےتو اپنےاونٹ کومسجدکےدروازےپربٹھایا پھر مسجد میں گئے اور دورکعتیں  نماز اداکی اور پھراپنےگھر کی طرف پلٹے"۔
سفرسےواپسی پردعوت کرنا
           سفرسےواپسی پرذبیحہ کرنا اورلوگوں کی دعوت کرنا مستحب ہے، جابربن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہے : "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة نحر جزوراً أو بقرة"[12] "رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب (سفرسے) مدینہ واپس آئےتو اونٹ یاگائےذبح کیا "جابررضی اللہ عنہ ہی کی روایت میں یہ اضافہ ہے: "اشترى مني  النبي صلى الله عليه وسلم بعيراً بأوقيتين ودرهم أو درهمين فلما قدم صراراً أمر ببقرة فذبحت فأكلوا منها ...."[13] "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھ سےدواوقیہ اورایک درہم میں یادودرہم میں ایک اونٹ خریدااورجب مقام صرار[14]پہنچےتواسے ذبح کیا اورسب نےاسے کھایا " ۔
واضح ہوکہ سفرکےبعدجودعوت کی جاتی ہےاس کانام "النقيعة"ہے جو" نقع"سے مستفادہےجس کامطلب غبارہوتاہے کیونکہ جب مسافرسفرسےواپس آتاہے توغبار سے  اٹا ہوتاہے[15]۔
ابن بطال فرماتے ہیں: "فيه إطعام الإمام والرئيس أصحابه عند القدوم من السفر، وهو مستحب عند السلف"اس کےاندرامام اوررئیس کےلیےسفرسےواپسی پراپنےلوگوں کی دعوت کرنےکاجواز ہے،جوسلف کےنزدیک مستحب  ہے " حافظ ابن حجرفرماتےہیں: وكان ابن عمريفطر أول قدومه من السفر، ولا يصوم لأجل الذين يغشونه للسلام عليه والتهنئة بالقدوم "عبداللہ بن  عمررضی اللہ عنہماسفرسےواپسی کےوقت روزہ نہیں رکھتےتھے، کیونکہ لوگ ان سےسلام ودعاءکےلیے اورسفرسے (بخیریت)واپسی پرمبارکباد دینے آتے تھے"[16]  ۔
سفرسےواپسی پرگرم جوش استقبال
        انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ : " صحابہ کرام جب ایک دوسرے سےملتے تو مصافحہ کرتے اورسفرسےواپس آتےتو ایک دوسرے سےگلےملتے [17]اسی طرح جب کوئی سفرسےآئےتو نہایت ہی گرم جوشی کےساتھ اس کا استقبال کرنا چاہئے،جیساکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ تبوک سےواپس آئے تو لوگوں نےثنیۃ الوداع میں جاکرآپ کااستقبال کیا[18].



[1]  مسلم  :  المساجدومواضع الصلاة/   باب قضاءالصلاة الفائتۃ رقم  ( 683 )
[2] البخاري : كتاب العمرة /19 باب السفرقطعۃ  من العذا ب (3/622) مسلم : كتاب الإمارات /55 ‌السفرقطعۃ  من العذا ب......بعدقضاء شغلہ (3/1526) ابن ماجہ : المناسك /1 باب الخروج إلى الحج (2/962) مالك في المؤطا : كتاب الاستئذان /15باب مايؤمربہ من الكلام في السفر(2/980) أحمد (2/236, 445, 496) الدارمي (2/198)     
[3]البخاري : كتاب العمرة/16 باب لايطرق أهلہ ليلاًإذابلغ المدينۃ  (3/620) وكتاب النكاح /120  باب لايطرق أهلہ ليلاًإذاطال الغيبۃ ....(9/339)مسلم : كتاب الإمارة /56 باب كراهيۃ  الطروق =    = وهوالدخول ليلاً......(3/1527) الترمذي : الاستئذان /19 باب ماجاءفي كراهيۃطروق الرجل أهلہ ليلاً(5/66) أحمد(1/ 175  عن سعدبن أبي وقاص)
[4]  البخاري : كتاب العمرة/15 باب الدخول بالعشي إذابلغ المدينۃ (3/619)  أحمد(3/125, 204 , 240)
[5]  مسلم : كتاب الإمارة /56 باب كراهيۃ الطروق ( 3/1527) ابن حبان (4/172)
  [6]  دیکھئے  : فتح الباری ( 9/340 مختصرا)
 [7]دیکھئے   : فتح الباری (9/341)
[8] البخاري : كتاب العمرة/12 باب مايقول إذارجع من الحج أوالعمرةأوالغزو(3/618) وكتاب الجهاد/133 باب التكبيرإذاعلاشرفاً(6/135) 197 12 باب مايقول إذارجع من الغزو(3/192) وكتاب المغازي /29 باب غزوة الخندق وهي الأحزاب (7/406) وكتاب الدعوات /52 باب الدعاء إذاأراد سفراً أورجع (11/188) مسلم : كتاب الحج /76 باب مايقول إذاقفل من سفرالحج وغيره (2/980) أبوداؤد:كتاب الجهاد/17 باب في التكبيرعلى كل شرف في المسير(3/213) النسائي (الكبرى) : كتاب السير/117 (تحفۃالأشراف 6/210)  وأحمد(2/15, 38) .
 ([9]) البخاري : الجهاد/198 باب الصلاة لمن قدم من سفر (6/193) مسلم : كتاب صلاة المسافرين/12 باب استحباب الركعتين في المسجدلمن قدم من سفرأوّل قدومہ    (1/496) أبوداؤد: كتاب الجهاد /178 باب في الصلاةعندالقدوم من السفر (3/220) النسائي (الكبرى) : كتاب السير/118/ 2, 3 , 4 (تحفۃ الأشراف  8/313)
 ([10]) البخاري : الجهاد/198 باب الصلاة لمن قدم من سفر (6/193)
  [11]  أبوداؤد: كتاب الجهاد /178 باب في الصلاةعندالقدوم من السفر (3/221) علامہ البانی نےاس روایت کوصحیح قراردیاہے  ، دیکھئے : صحیح سنن ابي داؤد رقم ( 2419)
[12] البخاري : الجهاد/198 باب الطعام عندالقدوم /رقم ( 3089)
[13] البخاري : الجهاد/198 باب الطعام عندالقدوم /رقم( 3089)
[14]  مدینہ کےمشرقی جانب تین میل کی دوری پرواقع ہے   دیکھئے : فتح الباری ( 6/194)
[15]  دیکھئے : النھایۃ لابن الاثیر( 5/109  ) والقاموس المحیط  (ص 992 )
[16] دیکھئے :  فتح الباري  (  6/224).
[17] رواه الطبراني في الأوسط   دیکھئے : مجمع البحرین 5/262 ہیثمی نےاسےمجمع الزوائد (8/36) میں ذکرکیاہےاورکہاہےکہ اس کےرجال صحیح کےرجال ہیں أرنؤوط نے بھی اس کےرجال کوصحیح قراردیا ہے  دیکھئے : تحقيقہ لزاد المعاد ( 2/415 )
[18] البخاري :الجهاد والسير رقم (2917) أبوداؤد :الجهاد/ رقم (2779) الترمذي : الجهاد/ رقم (1718) وأحمد (3/449) ثنیۃ الوداع مدینہ میں ایک جگہ ہے جہاں سے مسافروں کووداع کیاجاتاتھا اوروہی  پران کا استقبال بھی کیاجاتاتھا۔

2 تبصرے:

Unknown کہا...

کیا سفر سے واپسی پر ہاتھ منہ دھونا ثابت ہے

عبدالعلیم کہا...

اگرتھکاوٹ اور گردوغبار کی وجہ سے دھولنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہو تو دھلنا چاہئے ورنہ کوئی ضروری نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب