پیر، 7 مئی، 2018

جمعہ کےدن سفرکرنےکامسئلہ


اس مسئلہ کےاندردوچیزیں مدّنظرہونی چاہئے: اوّل: جمعہ کےدن زوال سےقبل سفرکرنا، دوم : زوال کےبعد  ۔
زوال سےقبل سفرکرنےکےسلسلےمیں متعدداقوال واردہیں  :
اس سلسلےمیں امام شافعی کے دواقوال منقول ہیں :
 قول قدیم : جائز ہے۔
 قول   جدید :  جائزنہیں ہے ۔
امام مالک کےنزدیک زوال سےقبل سفرکرنےمیں کوئی حرج نہیں ہے ۔
زوال کےبعدسفرکرنےمیں بھی ان علماءکےمختلف اقوال واردہیں :
اس سلسلےمیں امام احمدسےتین اقوال منقول ہیں :
اوّل : جائزہے ۔
دوم : جائزنہیں ہے ۔
 سوم : صرف جہادکےسفرمیں جائزہے ۔
امام شافعی کےنزدیک زوال کےبعدسفرکرناحرام ہے ۔امام مالک فرماتےہیں کہ : زوال کےبعدسفر نہیں کرناچاہئے ۔اورامام ابوحنیفہ  کےنزدیک جمعہ کےدن مطلق سفرکرنا جائزہے [1] مذکورہ اختلاف کاسبب دوقسم کی روایتوں کاواردہوناہے ،پہلی قسم عدم جوازکی روایتوں کی ہے ، جومندرجہ ذیل ہیں :
1 – عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"من سافرمن دارإقامته يوم الجمعةدعت عليه الملائكة أن لايصحب في سفره[2]  "جمعہ کےدن جواپنےقیام کی جگہ سے سفرکرتاہے اس پرفرشتےبددعاءکرتےہیں کہ ا س کے سفرمیں کوئی اس کاساتھی نہ ہو"۔
2 –  ابن جریج کہتےہیں کہ میں نےعطاء سےکہا: آپ کومعلوم ہےکہ یہ بات  کہی جاتی تھی کہ  جب کوئی کسی  جمعہ والی بستی میں  جمعہ کی رات میں شام کرے توسفرنہ کرےیہاں تک کہ  جمعہ پڑھ لے ؟ انہوں نےکہا: ہاں یہ ناپسندیدہ ہے ، میں نےکہا : اورجمعرات کےدن ؟ توفرمایا : اس دن کوئی نقصان نہیں " [3]  ۔
 3 – عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : "إذا أدركتك ليلة الجمعة فلا تخرج حتى تصلّي الجمعة[4]   "جب تمہیں جمعہ کی رات پالےتوجمعہ پڑھ لینے سےقبل سفرمت کرو" ۔
دوسری قسم ان روایتوں کی ہےجوجوازوالی ہیں ، اوروہ مندرجہ ذیل ہیں  :
1 – عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہے ، وہ کہتےہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ  کوایک سریّہ میں بھیجا، اس دن جمعہ کادن پڑرہا تھا، راوی  کہتےہیں : ان کےساتھی لوگ صبح کوہی نکل  گئے اورانہوں نےسوچاکہ میں رک جاتاہوں اوراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ جمعہ پڑھ کراپنےساتھیوں سےجاملوں گا،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےان کودیکھاتوپوچھا  :"تم اپنے ساتھیوں کےساتھ کیوں  نہیں نکلے؟" توانہوں نےکہا : میری خواہش تھی کہ آپ کےساتھ جمعہ پڑھوں گااورپھران سے جاملوں گا ،  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : "لوأنفقت مافي الأرض ماأدركت فضل غدوتهم" "اگرتم روئے زمین کے سارےخزانےخرچ کردوتوان کےصبح نکلنےکی فضیلت  کونہیں پا سکتے" [5] ۔
2 – صالح بن کیسان سےمروی ہے ، وہ کہتےہیں : "إن أباعبيدة خرج يوم الجمعة في بعض أسفاره ولم ينتظرالجمعة" [6] "ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ  اپنےبعض سفرمیں جمعہ کے دن نکلےاورجمعہ کا انتظار نہیں کیا".
3 – عمربن الخطاّب رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :"إن الجمعة لاتمنع السفرمالم يحضروقتها[7]  "جمعہ کادن سفرسےنہیں روکتاجب تک جمعہ  کاوقت نہ ہوجائے"۔
4 – عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ  ہی کی روایت ہے،وہ فرماتےہیں : "إن الجمعة لا تحبس مسافرا فاخرج مالم يحن الرواح[8]  "جمعہ مسافرکونہیں روکتا ، سفرکےلیےنکل سکتےہوجب تک کہ جمعہ کےلیے نکلنے کا وقت  نہ ہوجائے "۔
5 –   عبیداللہ بن عمرسےمروی ہےکہ سالم بن عبداللہ مکہ سے( سفرکےلیے) جمعہ کےدن نکلے" [9] ۔
6 –  صالح بن کثیرامام زہری سےروایت کرتےہیں : "خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم مسافرا يوم الجمعة ضحى قبل الصلاة [10]         " رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کےدن صبح کونمازسےپہلے سفر کےلیےنکلے " .
مذکورہ دونوں قسم کی روایتوں سےہردونظریہ کی تائیدہوتی  ہےلیکن دونوں گروہوں کے پیش کردہ دلائل میں زیادہ تر آثارہیں اوراگرکوئی حدیث پیش بھی کی گئی ہےتووہ ضعیف ہے،  اس کےباوجود یہ سوال پیداہوتاہےکہ اگرکوئی کسی اہم کام کےلیےیاکسی مہم پرجارہا ہویا کوئی اتفاقیہ سفردرپیش ہویاجہازوغیرہ میں عین اسی موقع سے بکنگ ہوتو کیا کرے؟ بلاشبہ ایسی صورت میں  جمعہ کےدن سفرناگزیرہوجائےگا ، ہاں اگرسفرزیادہ اہم اورضروری  نہ ہوتواحتیاطا جمعہ کی نمازپزھ کرسفرکرناچاہئے  .



[1]   دیکھئے : زادالمعاد (382 – 383)
  [2]  امام دارقطنی نےاسے الافرادمیں روایت کیاہے (دیکھئے : زادالمعاد 1/383) اس کی سند میں  ابن لہیعہ ہیں جوبعدمیں اختلاط کاشکارہوگئےتھے ، دیکھئے : تقریب التھذیب ( ص 186 ) اورمیزان الاعتدال (2/475) 
[3]    دیکھئے  : المصنف لعبدالرزاق (3/251 – 252 )
[4]   دیکھئے  : المصنف لابن أبي شيبۃ (  2/106)
   [5]   أحمد (1/224) الترمذي : أبواب الصلاة /28 باب ماجاءفي السفريوم الجمعۃ  (2/405) امام ترمذی فرماتےہیں : "هذاحديث غريب لانعرفہ إلامن هذاالوجہ" اس کی سندمیں ایک راوی حجاج ہیں جومدلس ہیں اورعنعنہ سےروایت کیاہے ، اوریہ معلوم ہے کہ مدلس کاعنعنہ غیرمقبول ہے ، امام ابن القیم فرماتےہیں ":یہ حدیث حکم کی وجہ سےمعلول ہےاس لئےکہ ان کاسما‏ ع مقسم سےثابت نہیں ہے " دیکھئے : زادالمعاد (1/383) علامہ البانی نےبھی اس روایت کوضعیف الاسنادقراردیاہے ، دیکھئے :ضعیف سنن الترمذی /رقم (81)  ۔
 [6]   دیکھئے  : المصنف لابن أبي شيبۃ (2/105) المصنف لعبدالرزاق (3/250)  
 [7]    دیکھئے  : المصنف لعبدالرزاق (3/250)
 [8]   السنن الكبرى للبيهقي (3/187) والمصنف لعبدالرزاق (3/250)   
[9]   دیکھئے  : المصنف لعبدالرزاق (3/250 – 251 )  
[10]    دیکھئے  : المصنف لابن أبي شيبۃ (2/106) المصنف لعبدالرزاق (3/251) السنن الكبرى للبيهقي (3/187 )  یہ روایت مرسل ہے نیزاس کےراوی  صالح بن کثيرمجہول ہیں  ۔

کوئی تبصرے نہیں: