اتوار، 6 مئی، 2018

کتاب : (سفرکے احکام ومسائل قرآن وسنت کی روشنی میں ) سے ماخوذ

مقدمہ
إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، وسيئات أعمالنا، ومن يهده الله فلامضل له، ومن يضلله فلاهادي له، وأشهد أن لاإله إلا الله وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أمابعد:
     فإن خيرالحديث كتاب الله، وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم، وشر الأمورمحدثاتها وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ) [آل عمران:102] (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً) [النساء:1]  (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيداً.يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيماً)[الأحزاب: 70- 71] .
 اللہ رب العزت کابےپایاں شکرواحسان ہےجس نےاس روئےزمین  پرانسان کو اشرف المخلوقات بناکربھیجااوراس کی رشدوہدایت کی خاطرہرقوم اورہرقبیلےمیں انبیاء اوررسول بھیجتارہا ،جنہوں نےبھٹکی ہوئی انسانیت  کواپنی وسعت اورطاقت کےمطابق صحیح  راستےکی طرف رہنمائی کی۔ سب سےاخیرمیں نبی آخرالزماں محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرمایا ،جنہوں نےراہ راست سےبھٹکی ہوئی انسانیت کی  صراط مستقیم کی طرف رہنمائی  کی اورتخلیق انسانیت کاجو مقصدتھااسےتو بتایا ہی، ساتھ  ہی ساتھ انسان کی زندگی میںپیش آنےوالےتمام مسائل کی وضاحت کر دی ،  اورزندگی کے ہرموڑپران کی مناسب رہنما‏ئی کی ،      اورزندگی کےکسی گوشےکوبھی رہنمائی سےخالی نہ چھوڑا، اللہ تعالی کافرمان : (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً) [المائدة: 3اس کی پوری طرح شہادت دیتاہے ۔
          اسلام جوراہ اعتدال اورصراط مستقیم ہےاس نےانسان کی زندگی میں  روزمرّہ پیش آنےوالےمسائل کےاندرجس قدرآسانیاں فراہم کی ہیں اورانسانی  وسعت وطاقت کالحاظ کیاہے دنیاکےتمام مذاہب وآئیڈیالوجیزاس  سے پرےنظر آتے ہیں .  
        سفرکےدوران پیش آنےوالےمسائل بھی انہیں میں سے ہیں  ، جن کی طرف قدیم ازمنہ سے ہی توجہ دی جاتی رہی ہے ، زمانہ جاہلیت اورموجودہ دورمیں بھی اس بارےمیں بہت کچھ لکھا اورکہاجاتا رہاہے ،لیکن ساری توجیہات وفکرات کےبیچ اسلامی فکروتوجیہ اپنالاثانی مقام رکھتی ہے، ظاہرسی بات ہےکہ  ان مسائل میں تنوع کا پایاجانا ایک بدیہی بات ہے،جس کی توضیح کاہرآدمی محتاج ہے ،ان مسائل میں قدیم و جدید ہرطرح کےمسائل ہیں  ، اوروقت کےساتھ ساتھ نئےمسائل بھی پیداہوتے رہیں گے .
        زمانہ جاہلیت میں جب کوئی آدمی سفرکرنےکاارادہ رکھتاتوتیرسےیاچڑیااڑا کرفال نکالتا اوراسی پراپنےسفرکی بنیادرکھتا  ، اس  بے حقیقت اورغلط عقیدے کی وجہ سےآدمی مختلف  اورمتنوع پریشانیو ں سے دوچار ہوتا رہتا، ایک تواس بدفالی کی بناپراللہ کی تقدیر کا کھلم کھلا انکارلازم آتا اوردوسرےاگراس کاسفراہم اورلابدّی ہوتاتووہ دھرا کا دھرا رہ جاتااور سوا‎ئے  نقصان اورخسارےکےکچھ ہاتھ نہیں لگتا  .
   اسی طرح آدمی اگردوران سفرہوتااورکسی  جانورخاص طورسےکسی بلی ّ  کاگزر ہوجاتاتو وہیں سےاپناسفرملتوی کردیتا (اوریہ بدعقیدگی توآج بھی بہت سارے معاشروں میں  پائی جاتی ہے ) اس صورت میں  آدمی کااہم کام باقی رہ جاتااوراتنی محنت جودورکی مسافت طے کرنے کےلیے کیےہوتا رائیگاں چلی جاتی  .
 لیکن جب مذہب اسلام آیاتواس نےاس اہم مسئلےکی طرف بہت زیادہ توجہ دیااور انسان  کی مناسب اورفائدہ مندرہنمائی کی،سب سےپہلےبدفالی جیسی وباءکاسرے سے انکارکیا،اس سےدوبنیادی فائدے ہوئے: ایک توآدمی تقدیرکےانکارسےبچ گیا ، اور دوسرے اس  بدفالی کی وجہ سےجوذہنی کشمکش ہوتی تھی اس سےنجات  پاگیا اوراللہ پر اس کاتوکل اوربھروسہ مضبوط ہو گیا .
  ہاں آدمی کاذہن جوہمیشہ مدّوجزرکاشکاررہتاہے، اوراوہام وبےجاخیالات کی آماجگاہ  ہوتا ہے، اس کےلیے بطورتریاق چندمفیددعائیں اوراذکارتجویزکردیا تاکہ اللہ کی رحمتوں سے مادّی اورمعنوی فائدوں کواپنے دامن میں سمیٹ کردنیااورآخرت کی  نعمتوں سے مالا مال ہو جائے   .
اس کےعلاوہ سفرکی صعوبتوں اورمشکلات وپریشانیوں کےپیش نظرمسلمانوں پرعائد فرائض  کےاندران کی طاقت ووسعت کےمطابق تخفیف کرکےان عبادات و احکام کو ان کےلیے بارگراں نہ بننےدیا ،مثلا :چاررکعتوں والی نمازیں دو رکعتیں ہی رکھی گئیں، سفرکےدوران روزہ رکھنےاورنہ رکھنےکے درمیان اختیاردےدیاگیا، اورموزوں پرمسح کرنےکی مدّت کوایک دن سےبڑھاکرتین دن کردیاگیا۔اس کےعلاوہ بہت سارے مسائل  ہیں جن کوآپ – ان شاء اللہ-آئندہ صفحات میں ملاحظہ کریں گے- اللہ تعالی ارشادفرماتاہے:(يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ)(اللہ کاارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کانہیں ) [البقرۃ : 185]نیزفرماتاہے : (لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّامَاآتَاهَا)(اللہ تعالی کسی کواتناہی مکلف کرتاہےجتنااسےدےرکھاہے ) [الطلاق:7] نیزایک دوسری جگہ فرماتاہے : (لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا) [البقرة:233] (کوئی نفس اپنی طاقت کےمطابق ہی مکلف کیاجاتا ہے ) نیز ارشاد  فرماتا ہے : (لاَ نُكَلِّفُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا) (ہم کسی کواس کی طاقت کےمطابق ہی مکلف کرتے ہیں )    [الانعام : 152 ،الاعراف: 42، المؤمنون: 62] ۔
نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم جب تک اس دنیامیں باحیات رہےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوپیش آنے والے تمام مسائل کی توضیح  اورہرموڑپران کی رہنمائی کرتے رہے،  اوروہ بھی آپ کی رہنمائی کی خاطرہمہ دم کوشاں رہے، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعد کچھ ایسےمسائل تھے جوبعض صحابہ کرام کومعلوم نہ ہوسکےتھے، یا یہ مسائل ان تک نہ پہنچ سکےتھے ،چنانچہ جب کوئی مسئلہ ان کومعلوم نہ ہوتاتوبحالت مجبوری اس میں اجتہادواستدلال سے کام لیتے ، اوروہ بھی جائزحد تک ، پھرجب کوئی صریح نص مل جاتا تو اپنےاجتہادواستدلال سےفورارجوع کر لیتے.
مرورزمانہ کےساتھ امت کی تعدادکےساتھ ساتھ مسائل اورضروریات بھی بڑھتے گئے ،اورامت ان کی توضیح وتشریح اوربیان کی شدید محتاج ہوتی گئی، ایسےوقت میں علماء  محدثین اور ائمۂ مجتہدین نے قرآن وسنت کی روشنی میں امت کودرپیش مسائل کاتدارک کیا،اورہرموڑ پران کی رہنمائی کی ،انہیں جب کوئی نص صریح نہ ملتاتو مسائل کےتنوع اورحالات واحتیاج اورمالہ وماعلیہ کا دراسہ اورتحقیق وجستجو کرکے اپنے  اجتہادسےکام لیتے،جس کے نتیجےمیں ان مسائل کے اندر وسیع اختلافات اورمتنوع آراء  دیکھنےکوملتےہیں ، لیکن ایک بات ضرورہےکہ ان ائمہ نےاس بات کی قطعی صراحت کردی تھی کہ ان کے انہیں اجتہادات کولیاجائےجوکتاب وسنت سےمیل کھاتےہوں اورجونصوص شرعیہ کےخلاف ہوں انہیں بلا کسی ترددکے چھوڑدیاجائے، خصوصاامام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کےاقوال اس باب میں واضح طورپرمنقول ہیں ۔ اس کےباوجود ان ائمہ کےمتبعین ان کی شخصیت میں غلو  کرنےسے بازنہیں آئے، غلو، شخصیت پرستی  اورتقلیدجامدکاغلبہ ان پراس قدرہوا کہ وہ صحیح سنتوں کو بھلا بیٹھے اور ان ائمہ کےاقوال ، اجتہادات اورفتاؤں کوہی اصل اسلام سمجھ  لیاگیا ،یہاں تک کہ اگرکوئی صحیح حدیث بھی ان ائمہ کےاقوال کےخلاف ملتی تواس کے اندربھی(یہ دلیل دیتےہوئےکہ اگریہ حدیث صحیح ہوتی تواس کاعلم ان کوضرور ہوتا)  کلام سےگریز نہ  کیا جاتا (حدیث رسول کےعلاوہ قرآن مجید کی آیتوں میں تحریف کی مثالیں بھی ملتی ہیں) اسی طرح کچھ لوگو ں نے حدیث کوعقل کی کسوٹی پرپرکھنا شروع کردیا ،اگرکوئی حدیث ان کی عقل کےمعیارپرنہیں اترتی توفورااس کاانکارکر دیتے،ان میں سےبعض توایسےہیں جوسنت کاسرےسےمنکرہیں ، اورکچھ نے انکار تو نہیں کیا لیکن اس کی ایسی تاویل کی جوانکارکی طرف لےجاتی ہے ، اس کی بہت ساری مثالیں موجودہیں  جن کےبیان کایہاں موقع نہیں ہے  ۔
انسانی زندگی میں پیش آنےوالےمسائل میں سفرکےمسائل کوکافی اہمیت حاصل ہے، اس کی ضرورت واہمیت سب کےنزدیک مسلّم ہے، کیوں کہ دوران سفرمختلف اور متنوع مسائل کاپیش آنابدیہی امرہے،  ان مسائل کےاندربھی علماء  کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایاجاتا ہے، احادیث وشروح کی کتابوں کےاندران مسائل کونہایت ہی شرح وبسط کےساتھ بیان کردیاگیاہے  ۔
       اردوزبان میں اس موضوع پرکسی مستقل کتاب کی عدم موجودگی کی بناپراردو داں طبقہ کی رہنمائی کےلیے میں نے  بتوفیق الہی استادمحترم  شیخ احمد مجتبیسلفی مدنی /حفظہ اللہ (سابق استاذ حدیث جامعہ سلفیہ  بنارس) کےحکم کی بجاآوری کرتے ہوئے اس موضوع پرقلم اٹھانےکی جسارت کی ہے ، تاکہ عوام کوسفر کےاحکام اوراس کے ضروری مسائل سےروشناس کرایاجائے، شایدامت کواس سےکچھ فائدہ ہوجائے اور راقم کےلیےتوشہ آخرت ثابت ہو ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے  : ’’إذامات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة: إلامن صدقة جارية، أوعلم ينتفع به، أو ولد صالح يدعوله‘‘ [1] "جب آدمی مرجاتاہے تو اس کےاعمال کاثواب منقطع ہوجاتاہے ، سوائے تین اعمال کے(جن کاثواب جاری رہتاہے) : صدقہ جاریہ ، ایساعلم جس سےفائدہ اٹھایا جائے،یانیک اولادجواس کے لیے دعاءکرے" ۔
            دراصل یہ کتاب  مادرعلمی جامعہ سلفیہ   بنارس میں  لیسانس (عالمیت ) کی سند کےلیے بحث کےطورپرپیش کی گئی تھی  ، اوراب نئی ترتیب اوربعض اضافات کےساتھ قارئین کےہاتھوں میں ہے ، اس امید کےساتھ کہ  اس سے استفادہ عام ہوگااوربہت سارےمسائل کی افہام وتفہیم میں معاون ثابت ہوگی  ،اور یہ سب اللہ رب العزت کی توفیق کےبعدہی ممکن ہے ۔
           میں نےاس کتاب کےاندرحتی الامکان سفرکےاکثرمسائل کوبیان کرنےکی سعی و کوشش کی ہے، اور ہرمسئلہ میں علماء کےدرمیان پائےجانےوالے اختلاف کوبیان کرکے ان  کےدلائل کو بھی بیان کردیاہے ، اوران کےدلائل کوذکرکرکے ان کامختصرجائزہ لیاہے ، اورراجح مسلک کی وضاحت کردی ہے، اوراگرکہیں سکوت اختیار کیا ہے تویاتو اس مسئلہ میں کسی نتیجےپرنہ پہنچنے،یادونوں احکام کےمابین خیاروتوسع کےپیش نظر ایسا کیا گیا ہے ۔اور احادیث وروایات کی تخریج کردی ہے ، تخریج میں کتاب ،باب ،باب نمبراورجابجاحدیث نمبربھی ذکرکردیاہے ، اس کےعلاوہ  ضروری تعلیقات بھی حواشی کےاندرکردیاہے۔
      اخیرمیں  اللہ تبارک تعالی  کی اس توفیق اور اس کی بےپایاں نعمتوں اوررحمتوں  پر اس کا بے انتہاں شکرادا کرتا ہوں،  اوران تمام حضرات کاشکریہ  بھی اداکرتاہوں جنہوں نے میری علمی وعملی زندگی میں کسی بھی طرح کی مدد کی ہے  ، اوراس کتاب کی تیاری میں کسی بھی قسم کاتعاون کیاہے ،خصوصااپنےمربی شیخ احمدمجتبی سلفی مدنی حفظہ اللہ کاجنہوں نےاس بحث کی تیاری میں مشرف  اورمراجع کی حیثيت سے ہرممکن رہنمائی کے علاوہ  خاکسار کی مکمل علمی   سر پرستی کی ہے  ،  اللہ تعالی انہیں جزائے خیردے اور دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنارکرے، اوراس کتاب کولوگوں کےلیےنفع بخش اور خاکسار، والدین  اوراساتذہ  کےلیےتوشۂ آخرت بنائے۔ وصلى الله على خير خلقه وسلم .
               عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی
                           اسلامک دعوت سنٹریدمہ ، نجران ، سعودی عرب
*****



[1]   مسلم : کتاب الوصیۃ   ( 3/1255)  .

کوئی تبصرے نہیں: