جمعرات، 10 مئی، 2018

سفرمیں سنن ونوافل کامسئلہ


بنیادی طورپرنفلی نمازوں کی دوقسمیں ہیں : راتبہ (مؤکّدہ)  اورغیرراتبہ (غیرمؤکّدہ)۔
علماءکا اتفاق ہےکہ غیرمؤکدہ، نفلی نمازیں   یااسباب والی نمازیں سفرمیں پڑھنا مستحب  ہیں  ،  مثلا : چاشت کی نمازیں ، تہجد کی نمازیں ، عام نوافل ، وضوء کی سنتیں، طواف کی سنتیں، سورج اور چاند گرہن  کی نمازیں اورتحیۃ المسجد وغیرہ [1] ۔
لیکن مؤکدہ سنتوں کے سلسلے میں ان کی رائیں مختلف ہیں  ، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما،  سعیدبن المسیّب،سعیدبن جبیراورعلی بن الحسین، امام ابن القیم  رحمہم اللہ وغیرہم     کےنزدیک  سنت فجراوروترکےسوا کوئی بھی سنت مؤکدہ   اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے  ثابت نہیں ہے ۔
امام شافعی اورجمہورکےنزدیک سنت مؤکدہ سفرمیں بھی مستحب ہے ، حسن کی روایت کےمطابق یہ قول عمر، علی ، عبداللہ بن مسعود، جابر، انس ، عبداللہ بن عباس ، ابوذر رضی اللہ عنہم اورتابعین  کی  کثيرتعداد سےبھی مروی ہے [2]  یہ حضرات دلیل میں عام  ندب والی روایتوں کےعلاوہ مندرجہ ذیل نصوص کوپیش کرتےہیں   :
1 -  براء بن عازب رضی اللہ عنہ  فرماتےہیں: "سافرت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثمانية عشر سفراً فلم أره ترك ركعتين عند زيغ الشمس قبل الظهر" [3]  "میں نےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کےساتھ اٹھارہ   مرتبہ سفرکیاہے ، میں نےآپ کوسورج ڈھلنےکےبعد ظہر سےپہلےدورکعتیں کبھی چھوڑتےنہیں دیکھا"۔
2 –  عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "إن النبي صلى الله عليه وسلم كان لايدع أربعاً قبل الظهر وركعتين قبل الغداة"  [4] " اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  ظہرسےپہلےچاررکعتیں اور فجر سےپہلےدورکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے" ۔
3 – عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنھمافرماتے ہیں: "فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة  الحضر والسفر، فكما تصلي في الحضر قبلها وبعدها فصل في السفر قبلها وبعدها" [5]  "اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نےحضراورسفرکی نمازوں کومتعین کردیاہے ، توجیسےتم حضرمیں اس  سےپہلے اور بعد میں ( سنتیں ) پڑھتےہواسی طرح سفرمیں بھی اس سےپہلےاور بعد میں  پڑھو"  ۔
راجح قول
دلائل کی روشنی میں پہلاقول راجح ہے ، کیونکہ  :
1 -   اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے تمام اسفارمیں وتراورفجرکی سنتوں کوچھوڑکر صرف فرض نمازوں پر ہی اکتفاءکیاہے ، امام ابن القیم رقمطراز ہیں: "وكان من هديه صلى الله عليه وسلم في سفره الاقتصار على الفرض ولم يحتفظ عنه صلى الله عليه وسلم أنه صلى سنة الصلاة قبلها ولا بعدها إلا ماكان من الوتر وسنة الفجر، فإنه لم يكن ليدعهما حضراً ولا سفراً" [6]  "اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ تھا کہ آپ سفرمیں  صرف  فرض نمازوں پرہی اکتفاء کرتےتھے، آپ سےیہ منقول نہیں کہ  کوئی سنت  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرض  سےپہلےیابعدمیں پڑھی ہو، ہاں آپ وتراور فجر کی سنتیں پڑھتےتھے، کیونکہ  ان کوسفر یا حضرکہیں نہیں چھوڑتےتھے"  ۔
2 – اگرنوافل راتبہ کوسفرمیں مان لیاجائےتوفرض نمازوں میں تخفیف کی کوئی حیثیت نہیں رہ جائےگی کیونکہ ان میں تخفیف کامقصدہی امت کےبوجھ کوکم کرناہے ، لہذا سنت کوسفرمیں مشروع کرنےسےبہترتھاکہ نمازیں  اتمام کےساتھ مکمل پڑھی جاتیں ، کیونکہ فرائض بہرحال نوافل وسنن سےافضل ہیں ۔
 3 -   عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے اس سلسلےمیں پوچھاگیاتو ان کاجواب تھا: "صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم أره يسبح في السفر، وقال جل  ذكره: (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ) [الأحزاب:21] [7]  "میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ رہا ہوں لیکن آپ کوسفرمیں نوافل پڑھتےنہیں دیکھا، اوراللہ تعالی کاارشادہے:(اللہ کےرسول(صلی اللہ علیہ وسلم )  کی زندگی  میں  تمہارےلیے بہترین نمونہ ہے ) "۔
اورایک روایت میں ہےکہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمافرماتےہیں:"لوكنت مسبحاً لأتممت الصلاة" [8]  "اگرمیں  نفل پڑھتاتواتمام صلاۃ ضرورکرتا"۔
مذکور ہ دلائل سےواضح ہوگیاکہ دوران سفرسنت مؤکدہ کونہ  پڑھناہی سنت ہے ۔
مجوّزین کی دلائل پرایک نظر
      ذیل میں ہم  ان لوگوں کی مذکورہ دلائل کاذکرکرتےہیں جنہوں نےنوافل وسنن رواتب کو دوران سفرمستحب مانا ہے:
ان کی پہلی دلیل براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت کوذکرکرنےکےبعد امام ترمذی فرماتےہیں: "حديث البراء حديث غريب" علامہ البانی نےبھی اس   کی تضعیف کی ہے  [9]  اسی باب میں امام ترمذی نےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دو روایتیں  اس کی تائید میں ذکرکیاہے ، لیکن  یہ روایتیں بھی ضعیف ہونےکی بناپرناقابل استدلال ہیں  [10] ۔
ان کی دوسری دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کاجواب دیتےہوئےامام ابن القیم فرماتےہیں: "ليس بصريح  في فعله ذلك في السفر ولعلها أخبرت عن أكثر أحواله وهو الإقامة، والرجال أعلم بسفره من النساء، وقد أخبر ابن عمر أنه لم يزد، ولم يكن ابن عمر يصلي قبلها ولا بعدها شيئاً" [11] " سفرمیں اداکرنےکی بات  صراحۃ نہیں ہے ، غالباعائشہ رضی اللہ عنہا نےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کےاکثراحوال سےمتعلق خبر دیا ہے اور وہ حضر والی حالت ہے ، نیز مردعورتوں کے مقابلےآپ کےسفرکے بارے میں زیادہ جانتےہیں،اورعبداللہ بن رضی اللہ عنہما کافرماناہےکہ آپ نے (سفرمیں) دو رکعتوں سےزیادہ نہیں پڑھاہے ، اورخودابن عمر رضی اللہ عنہما پہلےیا بعد میں  سنتیں نہیں  پڑھتے تھے"۔
اوریہ حقیقت بھی ہے  کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت اجمالاواردہوئی ہے تواس کی تخصیص وتعیین ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سےہوگی ، چنانچہ اجلہ صحابہ کرام سےبھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرکے دوران سنن  راتبہ کااہتمام نہیں کیا، " وضع عن المسافرین شطرالصلاۃ " بھی اسی کا متقاضی ہے ۔
ان کی تیسری دلیل  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سےاستدلال دووجہوں سےدرست نہیں ہے  :
اول : یہ روایت منکرہے جیساکہ علامہ البانی نے‌ضعیف سنن ابن ماجہ میں اس کی ضراحت کی ہے [12] ۔
دوم : یہاں پرعبداللہ بن عباس   رضی اللہ عنہما ایک  قاعدہ بیان کررہےہیں جومحض قیاس پرمبنی ہے ، اورواضح نصوص کےہوتےقیاس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔
امام نووی کی تاویل
           امام نووی نےعبداللہ بن عمررضی اللہ عنھماکی روایت جس میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےعمل کی صراحت ہےکاجواب دیتےہوئےفرماتےہیں: "لعل النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي الرواتب في رحله ولا يراه ابن عمر فإن النافلة في البيت أفضل ولعله تركها في بعض الأوقات تنبيهاً على جواز تركها" [13]  "شایدنبی  صلی اللہ علیہ وسلم نوافل خیمہ ہی میں اداکرلیاکرتےتھے جسےابن  عمر رضی اللہ عنہما  نہیں دیکھ پاتےتھے، کیونکہ نفل گھرمیں ہی پڑھناافضل ہے ، اور شاید آپ  نےکبھی کبھی اس کےترک کے جواز کوبتانےکےلیے چھوڑدیا "  ۔
امام نووی کی یہ بات بھی محض تاویل اورقیاس  پرمبنی ہے ، کیونکہ آدمی جب سفرمیں کسی کا مصاحب ہواورخاص کریہ مصاحبت کئی مرتبہ کی ہوتوکبھی نہ کبھی ایساوقت آتاہے جب  آدمی  سب کےسامنےنمازاداکرتاہے، پھریہ کیسےکہہ سکتےہیں کہ  ابن عمررضی اللہ عنہماکوآپ کاخیمہ میں  نوافل کاپڑھنامعلوم نہ ہوسکا ؟ ۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےہمیشہ ہی خیمہ میں نمازاداکیا  ہے؟  جبکہ فجرکی دورکعتوں اور وتر کےسلسلےمیں بالصراحت معلوم ہےکہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں سفروحضرکہیں نہیں چھوڑا، جب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوان دونوں سنتوں کےسلسلےمیں معلوم ہوگیاتوباقی سنتوں کےبارےمیں کیوں  کرمعلوم نہ ہو سکا؟ نیزیہ کہناکہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکوآپ کاسنتوں کاپڑھنامعلوم نہ ہوسکا ، آخرکس دلیل کی بنیادپرہے؟
اورامام نووی کا" في بعض الأوقات " کہنےکی بنیادکیاہے ؟ کیاکسی وقت پڑھنابھی ثابت ہے ؟ " في بعض الأوقات " تواس وقت کہاجاتاہے جب کسی مرحلےمیں اس کابالنص الصریح ثبوت ہو، لیکن یہاں پرکوئی ایسی دلیل موجودنہیں  ہے  ۔
صاحب  المغنی کی تطبیق
امام ابن قدامہ نےدونوں قسم کی روایتوں کےدرمیان جمع کی کوشش کی ہے ، وہ کہتےہیں کہ: "حسن بصری کی صحابہٴ  کرام  رضی  اللہ  عنہم سےروایات اس بات پردال ہیں کہ سفر میں  رواتب کی ادائیگی  میں  کوئی حرج نہیں ہے ، اورعبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما)کی روایت بتاتی ہے کہ انہیں چھوڑنےمیں کوئی حرج نہیں "  [14] .


  [1]  دیکھئے : شرح النووی لصحیح مسلم (5/205) ومجموع فتاوی ومقالات للامام ابن باز(11/390 – 391)
[2]   دیکھئے : مصنف ابن ابی شیبہ (1/382)
 [3]   أبوداؤد : كتاب الصلاة /276 باب التطوع في السفر(2/19) الترمذي : أبواب الصلاة/41 ماجاءفي التطوع في السفر(2/435) أحمد(4/295) البيهقي(3/158)
 [4]   البخاري : كتاب التهجد /34 باب الركعتين قبل الظهر(3/58) أبوداؤد: الصلاة /290 باب تفريع أبواب التطوع وركعات السنۃ(2/44) النسائي : قيام الليل/ 56 باب المحافظۃ على الركعتين قبل الفجر(3/251)
 [5]   ابن ماجہ: كتاب إقامۃالصلاة /75 باب التطوع في السفر(1/341)أحمد (1/232) البيهقي (3/158) علامہ البانی نےاس روایت کومنکر قرار دیا ہے ،  دیکھئے : ضعیف سنن ابن ماجہ/ رقم 222    ( ص 79)
   [6]  زاد المعاد(1/473)
  [7]   البخاري : كتاب تقصيرالصلاة /11 باب من لم يتطوع في السفر دبرالصلاة (2/577)
[8]    المصنف لعبدالرزاق (2/557)
[9]    دیکھئے : ضعیف سنن ابی داؤد/ رقم (222)  وضعیف سنن الترمذی/ رقم (556)
 [10]  دیکھئے : ضعیف سنن الترمذی/ رقم (557)
[11]    زاد المعاد( 1/475)
 [12]   دیکھئے  :  ‌ضعیف سنن ابن ماجہ/ رقم 222(ص 79)
 [13]  دیکھئے : نیل الاوطار(3/250)
[14]   المغنی ( 3/155- 157  )
 [15]  البخاري : كتاب الصلاة /31 باب التوجہ نحوالقبلۃ حيث كان (1/503) وكتاب الوتر/6 باب الوترفي السفر(2/489) و كتاب تقصيرالصلاة/7 باب صلاة التطوع على الدواب وحيثماتوجهت بہ (2/573) و/8 باب الإيماءعلى الدابۃ (2/574) و/9 باب ينزل للمكتوبۃ (2/574) و/10 باب صلاة التطوع على الحمار(2/576) و/12 باب من تطوع في السفر غيردبرالصلاة وقبلها(2/578) وكتاب المغازي /33 باب غزوة أنمار(7/429) مسلم : كتاب صلاة المسافرين /4 باب جوازصلاة النافلۃعلى الدابۃ في السفر حيث توجهت (1/486) أبوداؤد: كتاب الصلاة/277 باب التطوع على الراحلۃ والوتر (2/20) الترمذي : أبواب الصلاة /144 باب الصلاة على الدابۃحيثماتوجهت بہ(2/182) و/228 باب ماجاءفي الوترعلى الراحلۃ(2/335) النسائي: كتاب الصلاة/23 باب الحالۃالتي يجوزفيهااستقبال غيرالقبلۃ(1/243)  وكتاب القبلۃ/2 باب الحال التي يجوزعليهااستقبال غيرالقبلۃ(2/61) وكتاب قيام الليل وتطوع النهار/33 باب الوترعلى الراحلۃ(3/232)  ابن ماجۃ: كتاب إقامۃالصلاة والسنۃفيها/127 باب ماجاء في الوترعلى الراحلۃ (1/379)  الدارمي(1/311) الدارقطني(1/395) البيهقي(2/5)
 [16]   المستدرك للحاكم (1/275) امام حاکم نےاس حدیث کوصحیح الإسنادکہاہے ، اورامام ذہبی نےان کی تائیدکی ہے ۔
[17]    المصنف لعبدالرزاق ( 2/581 -583 )
[18]) ) تحفۃ الإخوان ( ص 84) باختصار ۔

کوئی تبصرے نہیں: