منگل، 8 مئی، 2018

قصرصلاۃ (نماز میں قصرکرنے) کا مسئلہ


ہرمسلمان جانتاہے کہ نمازہربالغ مرد اورعورت پردن میں پانچ مرتبہ فرض ہے ،اورمغرب اورفجر کو چھوڑکرہرنمازچاررکعتوں پرمشتمل ہے ،  واضح رہےکہ ابتدا میں ساری نمازیں دودورکعتیں ہی تھیں، پھر ظہرعصر اور عشاء کی نمازوں میں اضافہ کرکے ان کو چارچاررکعتوں کی اورمغرب کو تین رکعتوں کی کردیا گیا ، لیکن اول الذکر تین نمازیں  مسافر کےلیے دودورکعتوں والی ہی رکھی گئیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہاسےمروی ہے،وہ فرماتی ہیں : "فرض الله الصلاة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر فأقرّت صلاة السفر وزيد في صلاة الحضر[1]  "جب اللہ تعالی نے نماز فرض کیاتودودورکعتیں فرض  کیا ، پھرسفر کی نمازدو رکعتیں باقی رکھی گئیں اورحضرکی نمازمیں اضافہ کردیاگیا " ۔
اورعبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہماکی روایت ہے ،وہ فرماتےہیں : "فرض الله الصلاة على لسان نبيكم صلى الله عليه وسلم في الحضر أربعا وفي السفر ركعتين وفي الخوف ركعة[2]  "تمہارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ تعالی نے نمازکوحالت حضرمیں چارچاررکعتیں اورسفرمیں دودورکعتیں اورحالت خوف میں ایک رکعت فرض کیاہے " ۔
اورعمربن خطّاب رضی اللہ عنہ سےمروی ہے: "صلاة الجمعة ركعتان والفطر ركعتان والنحر ركعتان والسفر ركعتان تمام غير قصر على لسان النبي صلى الله عليه وسلم[3]  "جمعہ کی نماز دورکعتیں ہیں ، عیدالفطر کی نماز دورکعتیں ہیں، قربانی کی نماز دورکعتیں ہیں اورسفر کی نماز دورکعتیں ہیں، تمہارےنبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی  مکمل ہیں قصرنہیں " ۔
نمازکےقصرکےمسئلہ میں ائمہ کرام کااختلاف
نمازکےقصرسےمتعلق مذکورہ روایتوں کےپیش کرنےکےبعدایک نظراس مسئلہ میں علماء کرام کےمختلف آراء اوران کےپیش کردہ دلائل پرڈالتےہیں  ۔
سبب اختلاف
بنیادی طورپراس مسئلہ میں  اختلاف کاسبب ایک توبعض ضعیف روایات میں اتمام کاوارد ہوناہے ، جیسے : عائشہ  رضی اللہ عنہا سےمروی یہ روایت: "إن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقصر في السفر ويتم ويفطر ويصوم" ہیثمی مجمع الزوائد  [4]  میں اسے ذکرکرنےکےبعد لکھتےہیں: "رواه البزاروفيه المغيرةبن زيادواختلف في الاحتجاج به"امام احمد فرماتے ہیں: "ضعيف الحديث وله مناكير" امام نسائی فرماتےہیں :"ليس بالقوي[5]  امام حاکم کہتےہیں: "ليس بالمتين عندهم"حافظ ابن حجرلکھتے ہیں: "صدوق له أوهام[6]   عائشہ  رضی اللہ عنہا سےہی امام بیہقی نےایک روایت نقل کی ہے جس میں طلحہ بن عمروالمکی ہیں جومتروک ہیں [7]  امام دارقطنی نے دوسرے طریق سےعائشہ سےایک روایت نقل کی ہےجس کی سند میں سعیدبن محمد بن ثواب ہیں جومجہول ہیں  [8]  حافظ ابن حجرلکھتےہیں: "رواه الدارقطني ورواته ثقات إلا أنه معلول، والمحفوظ عن عائشة من فعلها وقالت: إنه لايشق علي[9]  "اسے دارقطنی  نےروایت کیا ہے اوراس کےرواۃ ثقہ ہیں،لیکن یہ روایت معلول ہے ،جب کہ محفوظ یہ ہےکہ یہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کااپنافعل تھا،ان کاقول ہے کہ (اتمام کرنا) میرےاوپرشاق نہیں گزرتا" ۔
  اوردوسراسبب بعض صحابہ کرام کاسفرمیں اتمام کرناہے ، جیسے عثمان غنی  اورعائشہ رضی اللہ عنہما کااتمام کرنا [10] اب وہ قصر والی روایتوں کی تاویل کرکےاتمام کرتے  تھے،  یا سفر کی تاویل کرکے ، لیکن اتناضرورہے کہ وہ روایتوں کی تاویل کرکے ہی قصرکوغیرواجب قراردیتے ہیں ۔
مذکورہ اسباب کی بناپرعلماءکےمختلف النوع اقوال ملتےہیں :
پہلاقول : قصر واجب اورفرض ہے ، یہ قول امام ابوحنیفہ ، ان کےاصحاب اورتمام کوفیوں کا ہے ،  [11]  ہادویہ کابھی یہی مسلک ہے [12] نیزیہی مسلک امام عمربن عبدالعزیز ، حمادبن ابی سلیمان اوربعض اصحاب مالک کابھی ہے  ، امام مالک سے ایک روایت وجوب ہی کےسلسلےمیں ہے ، اوریہی قول ان کامشہورقول ہے [13]  ابن حزم بھی وجوب ہی کی طرف گئےہیں  [14] علی ، عمر ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس ، قتادہ اورحسن بھی اسی جانب گئےہیں  [15] امام شوکانی نےوجوب والےقول کوہی راجح قراردیاہے [16] علامہ عبید اللہ مبارکپوری لکھتےہیں: "والراجح عندي أن لايتم المسافر الصلاة، بل يلازم القصر كما لازمه صلى الله عليه وسلم، فالقصر في السفر كالعزيمة عندي، لكن لو خالف ذلك وأتم الصلاة أجزأ، سواء قعد القعدة الأولى أو نسيها ولم يقعد، فلا تلزم الإعادة فيكون الإتمام مجزئا[17]  "میرےنزدیک راجح یہ ہےکہ مسافراتمام نہیں کرے گابلکہ ہمیشہ قصرہی کرے گا،جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاس پر مداومت کیا ہے،توگویاقصرمیرےنزدیک عزیمت کی طرح ہے،لیکن جب اس کےبرخلاف کرےگا اوراتمام کرلےگا تویہ کافی ہوگا، خواہ قعدۂ اولی میں بیٹھےیابھول کرنہ بیٹھےتواس پر اعادہ نہیں ہے، لہذااس وقت اتمام کرنا کافی ہوگا"۔
امام خطابی فرماتےہیں:"الأولى أن يقصر المسافرالصلاة لأنهم أجمعوا على جوازها واختلفوا فيها إذا أتمّ والإجماع مقدم على الاختلاف[18]  "بہتریہی ہےکہ مسافرقصرکرےگااس لیےکہ اس کے جواز پر اجماع ہےاورجب کو‏ئی اتمام کرلےتواس میں اختلاف ہےاوراجماع اختلاف پرمقدّم ہے"۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں:من شأن متبعي السنن النبوية ومقتفي الآثار المصطفوية أن يلازموا القصر في السفر كما لازمه - صلى الله عليه وسلم- ولو كان القصر غير واجب فاتباع السنة في القصر في السفر هو المتعين. ولا حاجة لهم أن يتموا في السفرويتأولوا كما تأولت عائشة وتأول عثمان رضي الله عنهما".
"سنت نبویہ کے متبعین اورآثارمصطفی کے متلاشی کی کاشیوہ ہے کہ وہ سفرمیں قصرکولازم پکڑیں جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرمداومت برتی تھی ، اگر قصر  واجب نہ بھی ہوتومسئلہ قصرمیں اتباع سنت متعین ہے۔اور لوگوں کوسفرمیں اتمام کرنےاورعثمان اورعائشہ رضی اللہ عنہماکی طرح تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے" [19] ۔
قائلین وجوب کےدلائل
1 -  عائشہ  رضی اللہ عنہاسےمروی ہے وہ فرماتی ہیں: "إن الله فرض الصلاة ركعتين ركعتين فلما هاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة زيد في صلاة الحضر وأقرّت صلاة السفر[20] " اللہ تعالی نےابتداءمیں نمازکودورکعتیں ہی فرض کیا،پھرجب اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہجرت  کرکےمدینہ آگئے توحضرکی نماز میں اضافہ کردیا گيا اورسفر کی نماز(دورکعتیں  ہی) باقی رکھی گئی  " ۔
2 -   عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہماکی روایت ہے ،وہ فرماتےہیں: "فرض الله الصلاة على لسان نبيكم صلى الله عليه وسلم في الحضر أربعا وفي السفر ركعتين وفي الخوف ركعة[21]  "تمہارےنبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ تعالی نے نمازکوحالت حضرمیں چارچاررکعتیں اورسفرمیں دودورکعتیں اورحالت خوف میں ایک رکعت فرض کیاہے " ۔
مذکورہ دونوں روایتوں میں سفرکی نمازکےلیے لفظ " فرض " کااستعمال کیاگیاہے جواس بات کی طرف واضح اشارہ کرتاہے کہ جس طرح حضرمیں چاررکعتیں فرض کی گئیں اسی طرح سفرمیں دورکعتیں ہی فرض کی گئیں ، نیز یہ کہیں ثابت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےمغرب کےعلاوہ دورکعتوں سےزیادہ ادا کی ہویاآپ نےکسی کو اس سےزیادہ پڑھنےکی اجازت دی ہو ۔
3 - عمربن خطّاب  رضی اللہ عنہ سےمروی ہے: "صلاة الجمعة ركعتان والفطر ركعتان والنحر ركعتان والسفر ركعتان تمام غير قصر على لسان النبي صلى الله عليه وسلم[22]  "جمعہ کی نماز دو رکعتیں ہیں ، عیدالفطر کی نماز دورکعتیں ہیں ، قربانی کی نماز دورکعتیں ہیں اورسفر کی نماز دو رکعتیں ہیں، تمہارےنبی کی زبانی  مکمل ہیں قصرنہیں "۔
اس روایت میں " السفررکعتان " سےاس بات کی  وضاحت کی گئی ہےکہ سفرکی اصل نماز دورکعتیں ہی ہیں، نہ کم نہ زیادہ  ،لہذا اس  میں زیادتی کاکوئی جوازہی نہیں ہے،  نیز"تمام غيرقصر" سے بھی اس کی تاکیدکی گئی ہے  ۔
4 – عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی روایت ہے، وہ فرماتےہیں: "صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان لايزيد في السفر على ركعتين و أبابكروعمروعثمان كذلك رضي الله عنهم[23]  "میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہاآپ سفرمیں دو رکعتوں سےزیادہ نہیں  پڑھتے  تھے، نیزابوبکر، عمراورعثمان رضی اللہ عنھم کی صحبت میں بھی رہایہ لوگ بھی سفرمیں دورکعتوں سےزیادہ نہیں پڑھتےتھے "۔
5 -  عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماہی کی روایت ہے، وہ فرماتےہیں: "كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خرج من هذه المدينة لم يزد على ركعتين حتى يرجع إليها[24]  " نبی اکرم جب اس مدینہ سےنکلتےتودورکعتوں سےزیادہ نماز نہیں پڑھتےیہاں تک مدینہ واپس آجاتے " ۔
مذکورہ دونوں روایتوں میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی  صراحت موجود ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورنہ ہی خلفاء ثلاثہ ابوبکر، عمراورعثمان غنی رضی اللہ عنہم سفرمیں دورکعتوں سےزائدپڑھتےتھے بلکہ اس بات کی صراحت بھی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے سفرکےلیےنکلتےتودورکعتوں سےزیادہ پڑھتے ہی  نہیں یہاں تک کہ پھرمدینہ واپس آجاتے ۔
6 -  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ فرماتےہیں: "سافرت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر كلهم صلّى من حين يخرج من المدينة إلى أن يرجع إليها ركعتين في المسير والمقام بمكة"  [25]  "میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنھماکےساتھ سفرکیاہے، یہ سب حضرات جب مدینہ سےنکلتےتودوہی رکعتیں پڑھتے مکہ کے اندر سفراورقیام دونوں حالتوں میں یہاں تک کہ مدینہ واپس آجاتے "۔
7 –  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام خصوصاخلفاء ثلاثہ ابوبکر وعمر و عثمان  رضی اللہ عنہم کاسفرمیں قصر پر مداومت اورعدم اتمام قصرکےوجوب پردلالت کرتاہے۔
8 – امام ابن تیمیہ فرماتےہیں: فقد قال صفوان بن محرز: قلت لابن عمر: حدّثني عن صلاة السفر! قال: أتخشى أن يكذب عليّ؟ قلت: لا، قال: ’’ركعتان، من خالف السنة كفر‘‘ وهذا معروف رواه أبو التيّاح عن مورق العجلي عنه وهو مشهور في كتب الآثار، وفي لفظ: ’’صلاة السفر ركعتان، ومن خالف السنة كفر‘‘ وبعضهم رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فبيّن أن صلاة السفر ركعتان وإن ذلك من السنة التي من خالفها فاعتقد خلافها فقد كفر[26] صفوان بن محرزکہتےہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسےسفرکی نمازسےمتعلق پوچھا تو انہوں نےکہا : کیاتمہیں ڈرہےکہ مجھ پرجھوٹ باندھاجائےگا؟ میں نےکہا : نہیں  ، توانہوں نے کہا : "(سفرکی نماز) دورکعتیں ہیں ، جس نےسنّت کی مخالفت کی اس نےکفرکیا "اوریہ معروف ہےجسےابوالتیاح نےمورق العجلی سےروایت کیاہے اوریہ کتب آثارمیں مشہورہے ، اور دوسرےالفاظ میں یوں مروی ہے : "سفرکی نماز دورکعتیں ہیں ، جس نےسنّت کی مخالفت کی اس نےکفرکیا " اورکچھ لوگوں نےاسےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےمرفوعا روایت کیاہے ، لہذایہ ظاہرہوگیاکہ سفرکی نمازدورکعتیں ہی ہیں اوریہ ان سنّتوں میں سےہے کہ کسی نے اگران کی مخالفت، ان کےخلاف اعتقادرکھتے  ہوئے کی تووہ کفرکامرتکب ہوگا ۔
9 –  جابراورعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم کااثرہے ، وہ فرماتےہیں: "ليس الركعتين في السفر بقصر[27]  دورکعتیں سفرمیں قصرنہیں ( بلکہ اصل ہیں یعنی  قصرہی اتمام ہے ) ۔
10 –  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے، وہ فرماتےہیں: "من صلى في السفر أربعاً كمن صلّى في الحضرركعتين[28] "جس نےسفرمیں چار رکعتیں پڑھیں گویااس نے حضرمیں دورکعتیں پڑھیں  (یعنی جس طرح حضرمیں دو رکعتیں پڑھنےوالےکی نمازناقص ہوگی اسی طرح سفرمیں چاررکعتیں پڑھنے والے کی نمازمیں بھی نقص ہوگا ) ۔
11 –  یعلی بن امیّہ کی روایت ہے ، وہ فرماتےہیں: قلت لعمر بن الخطاّب (رضي الله عنه) : ( فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ) [النساء:101] فقد أمن الناس، قال: عجبتُ مما عجبتَ منه فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:’’صدقة تصدق الله بهاعليكم فاقبلواصدقته‘‘  [29]  میں نے عمر بن الخطّاب رضی اللہ عنہ سےکہا : (آیت) ( فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ) [النساء:101] (میں توخوف کاذکرہے جب کہ ) اب لوگ امن کی حالت میں ہیں  ، توانہوں نےکہا :جس سےتمہیں تعجّب ہے اس پرمجھےبھی تعجّب ہواتھا، تومیں نےاس بارےمیں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :" یہ اللہ تعالی کا تم پرایک صدقہ ہے لہذاتم اس کےصدقےکوقبول کرو" اس روایت میں " فاقبلوا صدقته " بصیغۂ امر واردہے جو وجوب پردلالت کرتاہے ،اوریہاں کوئی ایساقرینہ بھی نہیں ہےکہ اسے وجوب کےمعنی سے پھیر دے۔
12 -  صحیحین کی وہ روایت جس میں ہے کہ عثمان غنی  رضی اللہ عنہ کےمنی میں اتمام کرنےپر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےانکارکیاتھا ، جب ان کوخبرپہنچی کہ عثمان رضی اللہ عنہ  نےمنی میں چاررکعتیں  پڑھائی ہے ، توانہوں نے  "إنا لله وإنا إليه راجعون" پڑھی اورفرمایا: "صلّيت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين وصلّيت مع أبي بكر رضي الله عنه بمنى ركعتين، صلّيت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه بمنى ركعتين، فليت حظي من أربع ركعات ركعتان متقبلتان[30] "میں نےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ منی میں دورکعتیں پڑھی اورابوبکر‎ رضی اللہ عنہ کےساتھ منی میں دورکعتیں پڑھی اورعمربن خطاب رضی اللہ عنہ  کےساتھ منی میں دورکعتیں پڑھی،  کیا ہی اچھا ہوتاکہ میرے  حصّےمیں چاررکعتوں کے بجائےوہی دورکعتیں ہوتیں "۔
دوسراقول : قصرواجب نہیں  ہے ، بلکہ مسافرکوقصراوراتمام کےدرمیان اختیار ہے، لیکن قصرافضل ہے  ۔ امام شافعی  [31]   ابوثور [32] امام مالک [33] اورامام احمد [34] کایہی مسلک ہے،ابن قدامہ لکھتے ہیں: "والمشهور عن أحمد أن المسافر على الاختيار إن شاء صلّى ركعتين وإن شاء أتمّ والقصر عنده أفضل وأعجب[35]  "امام احمدکامشہورقول ہے کہ  مسافرکو اختیارہے دورکعتیں پڑھےخواہ اتمام کرے،لیکن ان کے نزدیک قصرہی افضل اورپسندیدہ  ہے "امام خطابی لکھتےہیں: "قدروي الإتمام في السفرعن عثمان وسعد ابن أبي وقاص وقد أتمها ابن مسعود مع عثمان بمنى وهو مسافر[36] "سفرمیں اتمام عثمان غنی  رضی اللہ عنہ اورسعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ سےمروی ہے ، عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نےبھی منی کےاندرعثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اتمام کےساتھ ہی نمازپڑھی تھی ، جب کہ وہ مسافرتھے " امام نووی فرماتےہیں :  "اکثرعلماءکایہی مذہب ہے " [37] ۔          
دلائل
ان لوگوں نےاس سلسلےمیں مختلف دلائل دیےہیں جوذیل میں پیش کیےجارہےہیں  :
1 -  اللہ تعالی کافرمان  : ( فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ) [النساء:101] کہتےہیں   کہ یہاں پرجناح کی نفی وجوب وعزیمت کےبجائے رخصت پردلالت کرتی ہے [38] ۔
2 –   اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان: "صدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته [39] .
"یہ  اللہ تعالی کا تم پرایک صدقہ ہے،  لہذاتم اس کےصدقےکوقبول کرو" ۔
اس حدیث میں قصرصلاۃ کوصدقہ کہاگیاہے، جس کامطلب ہے کہ قصرکےساتھ نمازرخصت ہے، عزیمت ووجوب نہیں  اس لیےکہ صدقہ قبول کرنااختیاری چیزہے ، بندے کواس میں اختیارہے اسےقبول کرےخواہ نہ کرے،خطابی لکھتے ہیں: ’’وفي هذا حجة لمن ذهب إلى أن الإتمام هو الأصل، ألا ترى  أنهما (يعلى بن أميّة وعمر) قد تعجبا من القصر مع عدم شروط الخوف، فلو كان أصل صلاة المسافر ركعتين لم يتعجبا من ذلك، فدلّ على أن القصر إنّما هو عن أصل كامل  قد تقدمه فحذف بعضه وأبقي بعضه، وفي قوله: ’’صدقة تصدق الله بها عليكم‘‘ دليل على أنه رخصة رخص لهم فيها والرخصة إنما تكون إباحة لاعزيمة‘‘ [40] " اس کےاندران لوگوں  کےلیےدلیل ہے جواس بات کی طرف  گئےہیں کہ اتمام ہی اصل ہے ، آپ دیکھتےنہیں کہ ان دونوں ( یعلی بن امیہ اورعمر) نےخوف کےنہ  پائے  جانے  کے  باوجود قصرپرتعجب کااظہارکیاہے، تواگر مسافر کی اصل نمازدورکعتیں ہی ہوتی تواس پر وہ  دونوں تعجب کااظہارنہیں کرتے، لہذایہ پتا چلاکہ قصرتو ماسبق اصل کامل سےہے جس میں سے بعض کوحذف کردیاگیا اوربعض کو باقی  رکھاگیا اوراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےفرمان "صدقة تصدق الله بها عليكم" میں اس بات کی  دلیل ہے کہ یہ وہ رخصت ہے جس میں مسافرکوچھوٹ دی گئی ہے،  اوررخصت اباحت ہوتی ہے نہ کہ عزیمت "  ۔
3 – تیسری دلیل سےمتعلق امام شوکانی رقمطرازہیں : [41]  "الحجة الثالثة ما في صحيح مسلم وغيره أن الصحابة كانوا يسافرون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فمنهم القاصر ومنهم المتم ومنهم  الصائم ومنهم المفطر لايعيب بعضهم على بعض، كذا قال النووي في شرح مسلم" "تیسری دلیل وہ روایتیں ہیں جوصحیح مسلم کےاندرہیں کہ صحابہ کرام اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفرکرتےتوان میں سےکچھ قصر کرتےاور کچھ اتمام کرتے اوربعض روزہ  رکھتےاوربعض بغیرروزہ کےہوتے اوران میں  سےکوئی کسی پرعیب نہیں لگاتا ، نووی نےمسلم کی شرح میں کچھ ایسےہی کہاہے " اورصاحب عون المعبودلکھتےہیں: "واحتج الشافعي وموافقوه بالأحاديث المشهورة في صحيح مسلم وغيره أن الصحابة كانوا يسافرون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فمنهم القاصر ومنهم المتم، ومنهم الصائم ومنهم المفطر، لايعيب بعضهم على بعض[42]  "امام شافعی اوران کےموافقین صحیح مسلم وغیرہ کی مشہورروایت سےاستدلال کرتے ہیں کہ  صحابہ کرام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کےساتھ سفرکرتےتوان میں سے کچھ قصر کرتےاورکچھ اتمام کرتےاوربعض روزہ  رکھتےاوربعض بغیرروزہ کےہوتے اور ان میں سےکوئی کسی پرعیب نہیں لگاتا " ۔
4 –  عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں: خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم في عمرة رمضان فأفطر وصمت وقصر وأتممت، فقلت: بأمي أنت وأمي أفطرتَ وصمتُ وقصرتَ وأتممتُ، فقال: ’’أحسنت يا عائشة‘‘ [43]  "میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ رمضان میں عمرہ کےلیےنکلی توآپ روزہ سےنہیں تھےجبکہ میں روزہ سےتھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےقصرکیاجب کہ میں نےاتمام کیا، پھرمیں نےآپ سے پوچھا: میرےماں باپ آپ پرقربان اے اللہ کےرسول آپ روزہ سےنہیں ہیں جبکہ میں روزہ سےہوں  اورآپ نےقصر کیا جب  کہ میں نےاتمام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "اےعائشہ تم نےاچھاکیا " ۔
5 -  عائشہ رضی اللہ عنہا کی  ہی روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں : "إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقصر في السفر ويتم ويفطر ويصوم[44]  "اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں قصربھی کرتے تھے اوراتمام بھی کرتےتھے اورروز ہ نہیں بھی رکھتے اور(کبھی ) رکھتےبھی   تھے " ۔
6 – بعض صحابہ کرام کاتعامل : جیسےعثمان رضی اللہ عنہ  کامکہ میں اتمام کرنا اسی طرح عائشہ  رضی اللہ عنہاکے سلسلےمیں آتا ہے کہ وہ سفر میں اتمام کرتی تھیں  [45] ۔
7 -  قیاس:مسافرجب مقیم کی اقتدامیں نماز پڑھتاہے تومقیم کی اقتداکرتےہوئے اتمام کے ساتھ  چاررکعتیں ہی پڑھتاہے ، اگر قصر واجب  ہوتاتومسافرکامقیم کےساتھ اس کی  اقتدامیں اتمام کرکےکیسےپڑھ سکتاہے [46]  .
مذکورہ دلائل پرایک نظر
1 – قائلین عدم وجوب  کی پہلی دلیل کےکئی جوابات دئےجاتےہیں ، علامہ عبیداللہ مبارکپوری لکھتےہیں: "وأجيب عنها بوجوه: منها: أن الآية وردت في قصرصفة الصلاة بترك الركوع والسجود إلى الإيماء وترك القيام إلى الركوب في الخوف، فالمراد بالقصر في الآية إدخال التخفيف في كيفية أداء الركعات في الخوف دون القصر في عدد الركعات في صلاة السفر.
ومنها: أن المراد بالقصر في الآية القصر في كمية الركعات وعددها وبالصلاة صلاة الخوف لاصلاة المسافر، فالآية نزلت في قصر العدد، في صلاة الخوف لا في صلاة السفر.
ومنها: أنه أتى بهذه العبارة لأن المسلمين لكمال ولغهم بالعبادة وتكثيرها وأداءها بالتمام كأنهم كانوا يتحرجون في القصر وكانوا يعدونه جناحاً، فقال: ( فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ ....) ولا حرج فإن الركعتين في حكم الأربعة كما قال الذين ذهبوا إلى وجوب السعي بين الصفا والمروة في قوله تعالى: ( فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا) [البقرة:158]  [47] .
"اس کےچندجواب دئےجاتےہیں : ایک تویہ کہ:  یہ آیت نمازکی صفت کے  قصرسے متعلق واردہے،یعنی خوف کی حالت  میں رکوع اورسجدہ چھوڑکر اشارہ سے اورسواری کی طرف قیام کوچھوڑ کرنمازپڑھی جائے، لہذااس آیت میں قصر سے  مراد بحالت خوف رکعات کی ادائیگی کی  کیفیت میں تخفیف کرناہے، نہ کہ سفرکی نمازمیں رکعات کی تعدادمیں قصرکرنا  ۔
ایک جواب یہ ہے کہ: اس آیت میں قصرسےمرادرکعات کی کمیت اوراس کےعدد میں قصرکرناہےاورصلاۃ سےمرادخوف کی نمازہےنہ کہ مسافرکی نماز،لہذاآیت کریمہ نمازخوف میں  عددکےقصرکےسلسلےمیں نازل ہوئی ہے نہ کہ سفرکی نمازکےسلسلےمیں ۔
اورایک جواب یہ ہےکہ  : (یہاں ) یہ اسلوب اس لیےاختیارکیاگیاہےکہ مسلمان  نماز کی مکمل ادائیگی کےاتنے حریص تھے کہ وہ نمازکوقصرکےساتھ پڑھنےمیں حرج محسوس  کرتےتھے اوراسے"جناح" شمارکرتےتھے، اسی لیے ( فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ ....) فرمایا اوراس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے اس لیےکہ دو رکعتیں چار رکعتوں کے حکم میں ہیں ، ٹھیک اسی طرح جس طرح سعی بین الصفاو المروۃ کےوجوب کے قائلین اللہ تعالی کےفرمان: ( فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا) کےسلسلےمیں کہتےہیں "۔
اورعلامہ ابن القیم فرماتےہیں: "وقد يقال: إن الآية اقتضت قصراً يتناول قصر الأركان بالتخفيف وقصر العدد بنقصان ركعتين، وقيد ذلك بأمرين: الضرب في الأرض والخوف، فإذا وجد الأمران أبيح القصران فيصلون صلاة الخوف مقصورة عددها وأركانها وإن انتفى الأمران فكانوا آمنين مقيمين انتفى القصران فيصلون صلاة تامة كاملة وإن وجد أحدالسببين ترتب عليه قصره وحده، فإذا وجد الخوف والإقامة قصرت الأركان واستوفى العدد، وهذا نوع قصر وليس بالقصر المطلق  في الآية، فإن وجد السفر والأمن قصر العدد، واستوفى الأركان وسميت صلاة أمن وهذ انوع قصر وليس بالقصر المطلق، وقد تسمى هذه الصلاة مقصورة باعتبار نقصان العدد، وقد تسمى تامة باعتبار إتمام أركانها، وأنها لم تدخل  في قصر آية، والأول اصطلاح كثير من الفقهاء المتأخرين، والثاني يدل عليه كلام الصحابة[48] "کہاجاتاہےکہ یہ آیت  ایسےقصرکومقتضی ہے جوتخفیف کے ساتھ قصرارکان کوشامل ہے اورقصرعدد کودورکعتوں کی کمی کےساتھ شامل ہے ،اور اسے دو امرکےساتھ مقیدکیاجا سکتاہے(اوروہ ہیں:) سفراور خوف، جب دونوں پائے جائیں گےتو دونوں قصرمباح ہوگااورخوف کی نمازعدداورارکان دونوں کے قصرکے ساتھ اداکریں گےاوراگر دونوں مفقودہوں تومامون اورمقیم ہوں گے (ایسی صورت میں )دونوں قصرمفقودہونگے اورپوری نماز پڑھی جائےگی،اوراگر دونوں سببوں میں سے کوئی ایک سبب پایاجا‏ئے توصرف قصرکیاجائےگا اور جب خوف اوراقامت پا‏ئی جائے توارکان کاقصرکیاجائےگا اورعدد پوری کی جائےگی اوریہ قصرکی ایک قسم ہے  ۔
(یہاں  آیت میں )قصرمطلق مرادنہیں ہے اوراگرسفراورامن پایاجائےتوعددکا قصر کیا جا‏ئے گااورارکان پورے کئے  جائیں گے اوراس کانام صلاۃ امن ہوگا،اوریہ بھی قصرکی ایک قسم ہے، اوریہ قصر مطلق نہیں ہے عددکی کمی کےاعتبار سےکبھی اسےمقصور کہاجاتاہے اوراتمام ارکان کےاعتبار سےصلاۃ تام کہاجاتاہے ،اوریہ آیت کےقصرمیں داخل نہیں ہے،  پہلی اصطلاح بہت سارے متأخرین  فقہاء  کی ہے اوردوسری پرصحابہ کرام کاکلام دال ہے "۔
2 – اور  رہا اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم   کایہ  فرمان:"صدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته[49] ۔ "یہ اللہ تعالی کا تم پرایک صدقہ ہے لہذاتم اس کے صدقےکوقبول کرو"۔
توکہتےہیں کہ صدقہ  کا مطلب  رخصت ہوتاہے جس میں قبول اورعدم قبول کااختیارہوتا ہے، جیسا کہ  امام خطابی کے قول میں گزرا۔
اس روایت کےالفاظ پرغورکرنےکےبعد ان کےاستدلال کی کمزوری عیاں ہوجاتی ہے کیوں کہ "فاقبلواصدقته" میں "اقبلوا "بصیغۂ امرواردہے جووجوب کےلیےآتا ہے،  الایہ کہ کوئی قرینہ صارفہ موجود  ہو جووجوب کےمعنی کوپھیر دے جویہاں مفقود ہے، علامہ عبیداللہ مبارکپوری  اس استدلال کا جواب دیتے ہوئےرقمطرازہیں: "وأجيب عن ذلك  بأن الأمر بقبولها يقتضي وجوب القبول  وأنه لا محيص عنها، فإن أصل الأمر للوجوب، فلا يبقى له خيارا لرد شرعاً، وجواز الإتمام رد لها لاقبول، على أن الصدقة من الله فيما لايحتمل التمليك عبارة عن الإسقاط فلا يحتمل اختيار القبول وعدمه وأيضاً العبد فقير فإعراضه عن صدقة ربه يكون قبيحاً ويكون من قبيل +أن رآه استغنى" وفي رد صدقة أحد عليه من التأذي عادة مالا يخفى فهذه من إمارات الوجوب ويوافقه حديث: أنها تمام غير قصر[50] "اس کاجواب یہ ہےکہ صدقہ قبول کرنےکا امروجوب قبول کا مقتضی ہے، اوراس سےکوئی  راہ فرار نہیں کیونکہ امرکااصل وجوب کےلیےہوتاہے ، لہذا شرعا رد وانکارکا اختیار نہیں ہوتا،اوراتمام کاجوازاس کاانکاروردہی ہے نہ کہ قبول، اس لیےکہ اللہ کےجانب سے  ایساصدقہ جس کےاندرتملیک کااحتمال نہ ہواسقاط سےعبارت ہے جوقبولیت کے اختیار اورعدم اختیارکااحتمال  نہیں رکھتاہے، نیزبندہ فقیرہے لہذااس کااپنےرب کے عطاکردہ صدقہ سےاعراض کرناقبیح ہے (اوریہ اعراض) اپنےکواس چیز سےبےنیاز سمجھنےکے قبیل سےہوگا اور(یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ) کسی کاصدقہ اس کوواپس کردینا باعث تکلیف ہوتاہے، لہذا یہ تمام باتیں وجوب کی علامتوں میں سےہیں جس کی تائید "أنها تمام غيرقصر" والی روایت سے ہوتی ہے "۔
3شوافع کی تیسری دلیل کےسلسلےمیں امام شوکانی اورعلامہ عظیم آبادی نےذکر کیاہےکہ یہ لوگ صحیح مسلم کی ان روایات سےاستدلال کرتےہیں جن میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفرمیں قصراوراتمام دونوں کرتے اورکوئی کسی پرطعن وتشنیع نہیں کرتا .
اس کےجواب میں امام شوکانی آگےچل کرلکھتےہیں: "ولم نجد في صحيح مسلم قوله ’’فمنهم القاصر ومنهم المتم‘‘ وليس فيه إلا أحاديث الصوم والإفطار، وإذا ثبت ذلك فليس فيه أن النبي صلى الله عليه وسلم اطلع على ذلك وقررهم عليه، وقد نادت أقواله وأفعاله بخلاف ذلك"  [51]  "ہم نےان کاقول: "فمنهم القاصر ومنهم المتم"   صحیح مسلم کےاندرنہیں پایا، مسلم میں صرف صوم اور افطار کی حدیثیں ہیں اور اگریہ ثابت ہوبھی جاتاہے تواس میں یہ نہیں ہے کہ آپ کواس کی خبر بھی ہوئی ہواور آپ نےان کواس پربرقراربھی رکھاہو، جب کہ آپ کےاقوال وافعال اس کےخلاف ہیں "۔
4 - رہی عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت ہے: خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم في عمرة رمضان فأفطر وصمت وقصر وأتممت، فقلت: بأمي أنت وأمي أفطرت وصمت وقصرت وأتممت، فقال: ’’أحسنت يا عائشة‘‘ [52] "میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ رمضان میں عمرہ کےلیےنکلی توآپ روزہ سےنہیں تھےجبکہ میں روزہ سےتھی، اورآپ نےقصرکیاجب کہ میں نےاتمام کیا، پھرمیں نےآپ سےپوچھا: میرےماں باپ آپ پرقربان اے اللہ کےرسول!آپ روزہ سےنہیں ہیں جبکہ میں روزہ سےہوں  اورآپ نےقصر کیا ہےجب  کہ میں نےاتمام کیا ہے؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا  : "اے عائشہ !  تم نےاچھاکیا " .
تویہ روایت سنداورمتن ہردواعتبارسےمعلول اورناقابل احتجاج ہے  ۔ اس کی سندکچھ یوں ہے : "عن العلاء بن زهير، عن عبد الرحمن بن أسود، عن أبيه، عن عائشة" اورعلاء بن زھیر ضعیف ہیں  ، ابن حبان کہتےہیں : "يروي عن الثقات ما لا يشبه حديث الأثبات فبطل الاحتجاج به فيما لم يوافق الثقات" "یہ ثقات سے ایسی روایتیں کرتےہیں جواثبات کی حدیثو ں کی مشابہ نہیں ہوتیں اس لیےان  کی  اُن  حدیثوں  سے  احتجاج  باطل  ہے  جو  اثبات  کی  روایتوں  کی  موافق  نہ  ہوں" اورابن معین کہتےہیں :" یہ ثقہ ہیں "  ۔
اسی طرح عبدالرحمن کاعائشہ رضی اللہ عنہا سےسماع سےمتعلق کافی اختلاف ہے ، دارقطنی کہتےہیں :"انہوں نے عائشہ  رضی اللہ عنہا کوپایاہے، ان کےپاس اس وقت گئےتھےجب یہ بلوغت کونہیں پہنچےتھے" حافظ ابن حجرنےبھی کچھ اس طرح کی بات کہی ہے ، تاریخ بخاری وغیرہ میں بھی اسی  کی تا‏ئیدکرتی بات موجودہے ، ابوحاتم کہتےہیں :  " عبدالرحمن بچپنےمیں عائشہ رضی اللہ عنہا کےپاس گئےاور ان سےسماع نہیں کیا " ابن ابی شیبہ اورطحاوی نےعائشہ  رضی اللہ عنہاسےان کےسماع کادعوی کیاہے ، دارقطنی کی ایک روایت میں "عن عبدالرحمن عن أبيه عن عائشة " ہے ، ابوبکر نیساپوری کہتےہیں :" جس نےان کاسماع عائشہ  رضی اللہ عنہاسےثابت کیا ہے وہ غلطی پر ہے " اوردارقطنی کاقول اس سلسلےمیں مختلف ہے ، سنن میں کہتےہیں :" اس کی سندحسن ہے " علل میں رقمطراز ہیں :" مرسل ہوناأشبہ ہے" اورالبدرالمنیرمیں لکھتے ہیں :" اس حدیث کےمتن میں نکارت ہے "  [53] ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتےہیں :" ابوبکرنیساپوری کی بات درست ہے کہ یہ حدیث متصل نہیں ہے ، کیونکہ عبدالرحمن بچپن میں عائشہ رضی اللہ عنہاکےپاس گئے اورجوکچھ عائشہ نےکہااسےضبط نہ کرسکے ، اس سلسلےمیں ابن حزم کہتےہیں کہ: اس حدیث کوبیان کرنےمیں علاءبن زہیرازدی منفردہیں ،ان کےعلاوہ کسی نےبھی اسےروایت نہیں کیاہے اوروہ خودمجہول ہیں اورحدیث قطعی خطاہے"  [54] ۔
اورعلامہ البانی لکھتےہیں: "میں کہتاہوں کہ اس حدیث کی علّت غالبااس کامرسل ہونا ہی ہے ، اور بعض لوگوں نےعلاء بن زہیرکی وجہ سے،ابن حبان کےقول "يروي عن الثقات مالايشبه حديث الأثبات فبطل الاحتجاج به فيما لم يوافق  الثقات" "یہ ان ثقات سےایسی روایت کرتےہیں جواثبات کی حدیثوں کی مشابہ نہیں ہوتیں اس لیےان  کی  ان  حدیثوں  سے  احتجاج  باطل  ہے  جو  اثبات  کی  روایتوں  کی  موافق  نہیں ہوتیں" کی بناپر اسےمعلول قراردیا ہے،لیکن امام ذہبی اورعسقلانی نےاس قول کی  تردید کی ہے، اس لیےکہ یحیی بن معین نے ان کی توثیق کی ہے، لہذا اسی کااعتبارہوگانہ کہ ابن حبان کی تضعیف کا جب کہ انہوں نےخودان کو "الثقات " میں ذکرکیاہے ،چنانچہ یہ خود تناقض کاشکارہوگئے " [55]   .
ناقدین کی مذکورہ توضیحات سےاس روایت کی سند کاسقم واضح ہوگیا، اسی طرح اس کےمتن کے اندربھی نکارت پائی جاتی ہے ، علامہ ابن القیّم فرماتےہیں :" میں نےشیخ الاسلام ابن تیمیہ کو فرماتےہوئےسنا کہ :"یہ حدیث عائشہ  رضی اللہ عنہاپرتہمت ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورجملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےخلاف نماز نہیں پڑھ سکتی تھیں، حالانکہ  وہ ان کوقصرکرتے ہوئے دیکھتی تھیں پھر اکیلے بلاکسی وجہ کہ اتمام کیسےکرسکتی ہیں ؟ جبکہ خودہی روایت کرتی ہیں کہ : "نمازدودورکعتیں فرض کی گئی،  پھرحضرکی نمازمیں اضافہ کردیاگیااورسفرکی نمازکو( اپنے حال پر) باقی  رکھاگیا" پھریہ کیسےگمان کیا جاسکتا ہے کہ  وہ اللہ تعالی کےفرض کردہ رکعات سےزیادہ پڑھ سکتی ہیں اوراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصجابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مخالفت کرسکتی ہیں "  [56] ۔
 نیزاس روایت میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا رمضان میں عمرہ کرنے کا ذکر ہے، حالانکہ  نسائی کی روایت میں رمضان کالفظ واردنہیں ہے لیکن دارقطنی اور بیہقی کی روایت میں اس کی  صراحت موجودہے،  اور یہ امرقطعا ثابت شدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی رمضان میں عمرہ کرنےکاثبوت نہیں ہے، آپ نے اپنی پوری مدنی زندگی میں صرف چارعمرےکئےہیں اوروہ بھی تین ذی القعدہ میں اورایک ذ ی الحجہ میں  [57] ، جن کی  تفصیل کچھ یوں ہے:
1 – عمرۃ الحدیبیہ : ذ ی القعدہ سنہ 6 ہجری میں  ۔
2 – عمرۃ القضاء :  ذ ی القعدہ سنہ 7ہجری میں  ۔
3 – عمرۃ الجعرانہ : فتح مکہ کےبعد ‎ ذ ی القعدہ سنہ 8 ہجری میں .
4 – اورایک عمرہ حجۃ الوداع کےساتھ سنہ  10 ہجری میں  .
صاحب التنقیح لکھتےہیں:"هذاالمتن منكرفإن النبي صلى الله عليه وسلم لم يعتمر في رمضان قط[58] "یہ متن منکرہے اس لیےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےکبھی بھی رمضان میں عمرہ نہیں کیا ہے " اورامام نووی " الخلاصۃ " میں فرماتےہیں: "في هذا الحديث إشكال فإن المعروف أنه عليه السلام لم يعتمر إلا أربع كلهن في ذي القعدة[59]  "اس حدیث میں اشکال ہے اس لیےکہ یہ بات معروف ہے کا آپ نےصرف چار عمرے کئےہیں اوروہ بھی کل کےکل ذی قعدہ میں " .
خلاصۃ الکلام یہ کہ مذکورہ روایت مندرجہ ذیل چندوجوہات وعلل کی بناپرناقابل استدلال ہے :
ا  –   سند کامعلول ہونا  .
ب  -  عائشہ  رضی اللہ عنہاکےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام  رضوان  اللہ اجمعین کےعمل کےخلاف عمل کرنےکی بات،  جبکہ یہ معلوم ہے کہ صحابہ کرام سنّت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی کےکس قدرشیدائی تھے، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی شخصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کےخلاف کریں بعیدازقیاس ہے  ۔
ج –  عائشہ رضی اللہ عنہاسےمتعددطرق سےمروی ہے جس میں نماز کے  قصرکے سلسلےمیں لفظ " فرضت رکعتین " بیان کیاگیاہے اوروہ خوداپنےاس قول کی مخالفت کریں  ناقابل تسلیم ہے ۔
د –  اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کےرمضان میں عمرہ کرنےکی صراحت ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےرمضان میں کبھی بھی عمرہ نہیں کیاہے ۔
5 - اور عائشہ  رضی اللہ عنہاکی یہ  روایت ہے کہ: "إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقصر في السفر ويتم ويفطر ويصوم[60]  " اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں قصربھی کرتے تھےاوراتمام بھی کرتے  تھے  اور روز ہ نہیں بھی رکھتے اور (کبھی) رکھتےبھی  "۔
تواسےابن ابی شیبہ نےبطریق " مغیرہ بن زیادعن عطاء عن عائشہ  رضی اللہ عنہا" روایت کیاہے اور دارقطنی  نےبطریق "مغیرہ وطلحہ بن عمرووعمروبن سعیدعن عطاءعن عائشہ رضی اللہ عنہا"روایت کیاہے،امام دارقطنی فرماتےہیں : "هذا إسنادصحيح"۔"اس کی سندصحیح ہے " [61] امام بیہقی دارقطنی سےنقل کرتے ہیں: "لهذا شاهد من حديث دلهم بن صالح والمغيرة بن زياد وطلحة بن عمرووكلهم ضعيف[62] "اس کی شاہددلہم بن صالح ، مغیرہ بن زیاداورطلحہ ابن عمروکی حدیثیں ہیں لیکن تمام کی تمام ضعیف ہیں "۔
امام دارقطنی کاسعیدبن محمدبن ثواب والی حدیث کےسلسلےمیں "هذاإسناد  صحيح" کہنامحل نظر ہے، کیونکہ سعیدبن محمد بن ثواب مجہول  الحال ہیں ، خطیب بغدادی نےان کواپنی تاریخ میں ذکر کیاہے اورجرحاوتعدیلاکوئی بات نہیں کہی ہے [63] علامہ البانی لکھتے ہیں: "هو مجهول الحال فلا تطمئن النفس لصحة هذا الحديث[64]  "وہ مجہول الحال ہیں اس لیےدل اس حدیث کی صحت پر مطمئن نہیں ہوتا" پھرآگےچل کرانہوں نےعمربن ذرکی مغیرہ بن زیاد اور طلحہ بن عمروکی مخالفت کاذکرکیاہے کہ انہوں نےان دونوں کی مخالفت کی ہے ، وہ کہتےہیں کہ : "ہمیں عطاء بن ابی رباح نےخبردی کہ عائشہ  رضی اللہ عنہاسفرمیں فرض نمازیں چارچار رکعتیں پڑھاکرتی تھیں" اس روایت کوامام بیہقی نے ذکرکیاہے [65]  اورعمربن ذرکی توثیق کی ہے ، علامہ البانی فرماتےہیں : "عمروبن ذرکی روایت زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کےاندرعائشہ  رضی اللہ عنہاسےموقوفااتمام ثابت ہے جومختلف طرق سےصحیحین وغیرہ کے اندربھی ہے [66]  ، اورجہاں تک اس کےمرفوع ہونے کا سوال  ہے تویہ کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے " [67] ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتےہیں: "هو كذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم[68]  "(یہ کہناکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں اتمام کیا کرتےتھے) آپ  پرجھوٹ باندھناہے " ۔
بعض ضعیف روایتوں میں "يقصر ويتم ويفطر ويصوم" کے بجائے "يقصر وتتم ويفطر وتصوم" ہے [69]  جواپنےضعف کی وجہ سےناقابل استدلال ہے، اوراگراسےصحیح مان لیاجاتاہے توعائشہ رضی اللہ عنہا کاتمام صحابہ کرام اورخوداللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنالازم آئےگاجیساکہ پہلے بیان کیا گیا  ، البتہ صحیحین کی روایتوں سےاتناثابت ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کےبعدیہ تاویل کرکےاتمام کیاکرتی تھیں جس پرمکمّل بحث ان شاءاللہ آئندہ صفحات میں آرہی ہے  ۔
نیزعائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث  عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی مندرجہ ذیل روایت کےخلاف بھی ہے ،وہ فرماتےہیں: "صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم  في السفر، فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله، وصحبت أبابكر السفر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله، وصحبت عمر السفر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله، وصحبت عثمان السفر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله، وقد قال تعالى: ( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) [الأحزاب:21] [70]  "میں اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ میں رہاآپ نے سفرمیں دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھایہاں تک کہ اللہ نےآپ کی روح قبض کرلی    ،اورابوبکر کےساتھ میں رہاانہوں نے بھی  دورکعتوں سےزیادہ نہیں پڑھایہاں تک کہ اللہ نےان  کی روح قبض کرلی    ،اورعمر کےساتھ میں رہاانہوں نے بھی  دورکعتوں سےزیادہ نہیں پڑھایہاں تک کہ اللہ نےان  کی روح قبض کرلی    اورعثمان کےساتھ میں رہاانہوں نے بھی  دورکعتوں سےزیادہ نہیں پڑھایہاں تک کہ اللہ نےان  کی روح قبض کرلی   اوراللہ تعالی کاارشادہے ( تمہارےلیےرسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کےاندراسوہ ہے ) " ۔
اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت صحیحین حتی کہ سنن اربعہ کی بھی نہیں ہے جبکہ عبداللہ بن عمرکی مذکورہ روایت صحیحین کے علاوہ  ابوداؤد، نسائی اورابن ماجہ کی ہے ، اس لیےابن عمررضی اللہ عنہماکی روایت راجح اور عائشہ  رضی اللہ عنہاکی روایت مرجوح قرار پائےگی  ۔
6 – ان کی چھٹی دلیل عثمان اورعائشہ  رضی اللہ عنہماکاتعامل ہے  ۔
یہاں کئی باتیں قابل غورہیں ؛مثلا :
1 –   ان لوگوں نےاتمام کیوں کیا ؟
2 –  کیا اتمام کےلیےان کی تاویلیں درست تھیں ؟
3 –  کیااللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےقولی ، فعلی اورتقریری حدیثوں کےہوتے ان دو صحابہ کرام کے عمل کوقابل احتجاج ماناجاسکتا ہے؟
علامہ ابن القیّم نےزادالمعاد [71] کےاندرعثمان  رضی اللہ عنہ کےمنی کےاندراتمام کرنےسے متعلق وارد تاویلات کوذکرکرکےاس پرمفصل بحث کی ہے ، جس کاخلاصہ ذیل میں پیش کیاجارہاہے  :
1 -  اس سال دیہاتی لوگ مختلف اطراف سےحج کرنےآئےتھےاس لیےعثمان  رضی  اللہ  عنہ نےقصر نہیں  کیامباداوہ یہ  سمجھ لیں کہ نمازیں چارکی بجائےدودورکعتیں ہی فرض ہیں ۔
امام بیہقی نےعبدالرحمن بن حمیدسےروایت کیاہے ، وہ اپنےباپ سےروایت کرتےہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے منی میں اتمام کیااورفرمایا:  "ياأيها الناس! إن السنة سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة صاحبيه لكنه حدث العام من الناس فخفت أن يستنوا" "لوگو ! بیشک سنت اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اورآپ کےدونوں اصحاب کی سنت ہے ، لیکن اس سال بہت سارےلوگ مسلمان ہوئے ہیں لہذامجھےخوف ہوا کہ یہ لوگ اسی کوصحیح نہ سمجھ لیں" (یعنی یہ  نہ سمجھ لیں کہ ساری  نمازیں  ہمیشہ دو  دورکعتیں ہی ہیں) [72] ۔
جواب: ان کی یہ تاویل  صحیح نہیں ہے کیونکہ جب اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےحج کیاتھااس وقت  بھی دیہاتی لوگ جوق درجوق حج کرنےآئےتھے ،اس وقت  نماز کےفرض ہوئےزیادہ دن نہیں ہوئے تھے،اورخوب احتمال تھاکہ اعراب یہ سمجھ لیں کہ نمازیں دودورکعتیں ہی فرض ہوئی ہیں  اس کے باوجودآپ نے قصرہی کیا ۔
2 -   امام جہاں بھی (دوران سفر) قیام کرتاہے وہی اس کاوطن ہوتاہے ،اورعثمان رضی اللہ عنہ  چونکہ خلیفہ تھے اس لیےمکہ میں اتمام کیا ۔
جواب : یہ تاویل بھی صحیح نہیں ہے اس لیےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام خلائق کےبالاطلاق امام تھے ( اگر ایسی بات ہوتی کہ امام جہاں بھی اترےوہی اس کاوطن ہوگا) تو آپ کااتمام کرنازیادہ اولی تھا ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاتمام نہیں کیا  ۔ 
3 -  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےعہدمیں منی صرف ریگستان تھاجب کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدمیں اس میں بہت سارےمکانات بنادئےگئےتھے،لہذاعثمان  رضی اللہ عنہ نےتاویل کی کہ قصرحالت سفرمیں ہوتاہے نہ کہ حالت قیام میں ، گرچہ دوران سفرہی کیوں نہ ہو  ۔
جواب  : یہ تاویل بھی باطل ہے، کیونکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم   نےمکہ شہر میں دس دنوں تک قیام کیا اورقصر کرتے رہے ۔
4 -  عثمان رضی اللہ عنہ نےمکہ میں تین دنوں تک قیام کیااوراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاہے: "يقيم المهاجر بعد قضاء نسكه ثلاثاً[73] "نسک کی ادائیگی کےبعدمہاجر(مکہ میں ) تین دنوں تک قیام کرسکتاہے " اس حدیث میں مہاجرکےمکہ میں حج وعمرہ کےبعدتین دنوں تک ٹھہرنےکوقیام سےتعبیرکیاگیاہے اورمقیم مسافرنہیں ہوتاہے  ۔
جواب : یہ تاویل بھی باطل ہے اس لیےکہ یہاں پرجس قیام کابیان ہے وہ اثناء سفرکاقیام ہے نہ کہ وہ قیا م جوسفرکاقسیم اورضدہے ، خوداللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےمکہ میں دس دنوں تک قیام کیا اورقصر کرتےرہے، نیزمناسک حج کی ادائگی کےبعد ایّام جمار کے دوران  تین دنوں تک منی میں قیام پذیر رہےاورقصرکرتےرہے  ۔
5 -  عثمان  رضی اللہ عنہ نےمنی میں اقامت اورتوطن کاارادہ کرلیاتھانیزاس کودار الخلافہ بھی بنانا چاہتے تھے اس لیےاتمام کیا، پھر بعدمیں ارادہ ملتوی کردیااورمدینہ واپس چلےگئے۔
جواب  :  یہ تاویل بھی  صحیح نہیں ہے اس لیےکہ عثمان رضی اللہ عنہ مہاجرین اولین میں سےتھےاورمہاجرین کو جہاں سےوہ ہجرت کرچکےہوں وہاں سکونت اختیار  کرنےسےمنع کردیاگیاہے ، البتہ حج میں ھدي  وغیرہ کےبعدان کومحض تین دنوں تک مکہ میں اقامت کی اجازت دی گئی ہے نیزجوچیزاللہ کےراستےمیں چھوڑدی گئی  ہواس کو دوبارہ لوٹاناجائزنہیں ہے، جیساکہ صدقہ کےسلسلےمیں ہے کہ اگرکوئی آدمی کوئی چیز کسی کوصدقہ کردیتاہےتوپھراس  کےلیےمصدّق علیہ سےواپس لیناخواہ وہ اس سے خریدکر ہی کیوں نہ لےرہاہو جائز نہیں ہے،  توپھرعثمان رضی اللہ عنہ  ہجرت کےبعد مکہ میں دو بارہ سکونت کاارادہ کیسےکرلیتے ؟ 
6 -  انہوں نےمنی میں شادی کرلی تھی ،اورمسافرجب کہیں قیام کرتاہے اوروہاں شادی کرلیتا ہے ،  یاوہاں پراس کی بیوی رہ رہی ہوتواسےاتمام کرنا چاہئے ، ابن ابی ذباب اپنےوالدسےروایت کرتے ہیں: صلى عثمان بأهل منى أربعاً وقال: ياأيها الناس! لما قدمت تأهلت بها وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ’’إذا تأهل رجل ببلدة فإنه يصلى بها صلاة مقيم‘‘ [74]  عثمان  رضی اللہ عنہ نےمنی والو ں کوچاررکعتیں نماز پڑھائی ، اورفرمایا: لوگو! میں جب یہاں آیاتویہیں پرشادی کرلی اورمیں نےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتےہوئےسناہے کہ : "جب کوئی کسی شہرمیں شادی کرلےتواسےوہاں مقیم کی نمازپڑھنی چاہئے" ۔
علامہ ابن القیم فرماتےہیں: "هذاأحسن مااعتذربه عن عثمان[75]  "یہ عثمان  رضی اللہ عنہ کی طرف سےپیش کردہ عذروں  میں  سے سب  سےبہتر عذرہے "۔
 حافظ ابن حجرلکھتےہیں: "عثمان رضی اللہ عنہ کےاتمام کےسبب سےمتعلق منقول ہے کہ  وہ قصرکومسلسل چلنے والےکےلیےخاص سمجھتےتھے اوراگراس نےاثنائےسفرقیام کیاہے تووہ مقیم کےحکم میں ہے، لہذاوہ اتمام کرےگا، اس کی دلیل مسنداحمدکی وہ روایت ہے جسےعبادبن عبداللہ بن زبیرسےبسندحسن روایت کیاہے ، وہ فرماتےہیں کہ جب معاویہ ہمارےپاس حج کےلیےآئےتوہمیں ظہرکی نماز دورکعتیں پڑھائی پھر دارالندوہ کی طرف گئے،آپ کےپاس مروان اورعمروبن عثمان آئے اوران سےکہاکہ آپ نےاپنےچچازادبھائی کےمعاملےکومعیوب سمجھاہے کیونکہ وہ اتمام کیاکرتےتھے ، تومعاویہ نےجواب دیاکہ عثمان اس وقت اتمام کرتےتھےجب مکہ آتےتھے، آپ مکہ میں ظہر، عصراورعشاء چارچاررکعتیں پڑھتے، پھرجب منی اورعرفہ کی طرف جاتے تو قصر کرتے اورجب حج سےفارغ ہوجاتےاورمنی میں قیام ہوتاتواتمام کرتے " [76] ۔
اورابن بطال کہتےہیں: "اس سلسلےمیں صحیح بات یہ ہےکہ عثمان اورعائشہ رضی اللہ عنہما دونوں یہ سمجھتے  تھےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی امّت پرآسانی  کرنے کے لیے قصر کیا اوران دونوں نےاپنےلیےمشکل چیزکو اختیار کیا"  [77] ۔
حاکم کہتےہیں کہ:"صحیح بات یہ ہےکہ آپ قصرکورخصت سمجھتےتھے،توجس طرح عائشہ  رضی اللہ عنہانےاتمام کو جائزجانااسی طرح انہوں نےبھی جائزسمجھا " [78] ۔
اورعائشہ رضی اللہ عنہاکےاتمام کرنےسےمتعلق امام بیہقی نےایک روایت ہشام بن عروہ کےطریق  سےنقل کیا ہے جواپنےباپ سے روایت کرتےہیں کہ آپ سفرمیں چار رکعتیں پڑھتی تھیں ، میں نےان سےکہاکہ آپ کودو رکعتیں ہی پڑھنی چاہئے ! تو انہوں نےکہا: "يا ابن أختي إنه لا يشق عليّ"  [79] "میرے  بھانجے ! یہ (چاررکعتیں ) میرےاوپرشاق نہیں گزرتیں "۔
اب دوسراسوال یہ ہےکہ کیاان کی تاویلیں درست تھیں  ؟ جب کہ ہمارےسامنےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی قولی ، فعلی اورتقریری حدیثیں موجودہیں ، نیز آپ اور آپ کےصاحبین  ابوبکراورعمر رضی اللہ عنہماسے  بھی کہیں  اتمام کاثبوت نہیں ہے   ۔
اورتیسری بات یہ کہ واضح مرفوع قولی اورعملی حدیثوں کی موجودگی میں کیاکسی صجابی کا فتوی یا عمل  قابل  احتجاج وعمل ہوسکتاہے،خواہ وہ کسی مصلحت کی بناپرہی کیوں نہ ہو؟  ۔
محدثین سلف صالحین کےدرمیان یہ اصول مسلّم ہے کہ کسی صحابی سےایک حدیث مرفوعامنقول ہواوراس کےخلاف اس کافتوی ہوتوروایت کوتقدّم حاصل ہوگا "الحجة فيما روى لا فيما رأى" اس ضمن میں زیادہ طویل کلام نہ کرکےصرف ایک واقعہ پیش خدمت ہے (حالانکہ احادیث وسیرکی کتابیں اس قسم کی روایتوں اورواقعات سے پر ہیں) جس میں یہ وضاحت ہے کہ کس طرح ایک صحابی دوسرےصحابی کےقول کےمقابل اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کواول رکھتےتھے : مروان بن حکم سےمروی ہے ، وہ کہتےہیں کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ  انہوں نےعلی  رضی اللہ عنہ کوعمرہ اورحج کاایک ساتھ تلبیہ پکارتےہوئےسنا ، توان سےکہاکہ کیاآپ کواس سےنہیں منع کیاگیاہے ؟ توعلی رضی اللہ عنہ نےفرمایا: "بلى ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي بهما جميعاً فلم أدع  قول رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولك[80]  "ہاں  (سناہے !) لیکن میں نےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   کوان دونوں کاایک ساتھ تلبیہ  پکارتے ہو‏ئے سنا ہے ،  میں آپ کےقول کی بناپراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےقول کو نہیں چھوڑ سکتا"۔
مذکورہ روایت کےمطابق جب عثمان رضی اللہ عنہ  جیسےجلیل القدرصحابی نےاپنے  اجتہاداوربعض ظروف کی بنا پرحج قران سےمنع کردیاتوعلی رضی اللہ عنہ  نےان کی مخالفت کرکےامت کویہ بتلادیاکہ ہرانسان کےمقام و مرتبہ سےقطع نظرہر معاملہ میں اللہ   کافرمان اوراس کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم کاقول وعمل ہی قابل عمل رہےگا  ۔
7 -   قیاس :مسافرجب مقیم کی اقتدامیں نماز پڑھتاہے تومقیم کی اقتداکرتےہوئے اتمام کے ساتھ  چاررکعتیں ہی پڑھتاہے ، اگرقصرواجب ہوتاتومسافرکامقیم کےساتھ اس کی اقتدامیں اتمام کرکےکیسےپڑھ سکتاہے؟  [81] ۔
جواب: مسافرکامقیم کی اقتداءمیں اتمام کرکےچاررکعتیں پڑھناایک شرعی ضرورت ہے کیونکہ امام کی اتباع واجب ہے اورعدم اتمام کی صورت میں امام کی مخالفت لازم آئےگی ،    لہذامسافرکامقیم کی اتباع میں اتمام  کرناضرورت وسبب کی بنیادپرہےنہ کہ قصرکوغیرواجب سمجھ کر،ٹھیک اسی طرح جیسےحالت سفرمیں دورکعتیں اورحالت خوف میں ایک رکعت ضرورت اورسبب کی بنیادپرہےنہ کہ نماز کی چاررکعتوں کی فرضیت کاانکارکرکے ۔
تیسراقول  : قصرصلا ۃ سنّت ہے [82] یہ امام مالک کامشہورقول ہے ، وہ کہتےہیں کہ :   یہ ایسی سنت  ہے جس کےاندررخصت اورتوسّع ہے [83]  ۔
ان کےدلائل بھی تقریباوہی ہیں جو شافعیہ کےہیں ، ایک طرف یہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کاقصر پر مداومت دیکھتےہیں اوردوسری طرف مذکورہ دلائل جن سےعدم وجوب کاپتہ چلتاہے ،اس لیے کہتےہیں کہ قصرسنت مسنونہ ہے ۔ لیکن ان کااستدلال بھی کمزورہے کیونکہ گزشتہ صفحات میں قصرکےوجوب پرڈھیرو ں دلائل گزر چکےہیں جن سےوجوب کاحتمی فیصلہ سمجھ میں آرہاہے، نیز شافعیہ کی جانب سےپیش کردہ دلائل پرمکمل بحث بھی گزر چکی ہے ، البتہ اتناہوسکتاہے کہ قصر کو عزیمت مان لیاجائےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےہمیشہ ہی قصر کیاہے ، آپ سےکبھی بھی اتمام کا ثبوت نہیں ہے، اس لیےمسافرکوہمیشہ ہی قصرکرناچاہئےاوراگرکسی وجہ سےاتمام کردیا تو اسے کافی سمجھناچاہئے،جیساکہ علامہ عبیداللہ مبارکپوری نے مرعاۃ کےاندراس کی وضاحت کی ہے [84] ۔



[1]    البخاري : كتاب الصلاة/1 باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء(1/464) وكتاب تقصيرالصلاة / 5 باب يقصرإذاخرج من موضعہ (2/569) وكتاب مناقب الأنصار /48 باب التاريخ  من أين أرخواالتاريخ (7/267) مسلم : كتاب صلاة المسافرين وقصرها /1 باب صلاة المسافرين وقصرها (1/478)  مالك في المؤطا : كتاب قصرالصلاة في السفر /2 باب قصرالصلاة في السفر (1/146) أبوداؤد : كتاب الصلاة /270 باب صلاة المسافر (2/5) النسائي : كتاب الصلاة /3 باب كيف فرضت الصلاة (1/225) ابن حبان (4/180) ابن خزيمۃ (2/70 – 71) .
  [2] مسلم : كتاب صلاة المسافرين وقصرها /1 باب صلاة المسافرين وقصرها (1/479) أبوداؤد : كتاب الصلاة /287 باب من قال يصلي بكل طائفۃركعۃ ولايقضون  (2/40) النسائي : كتاب الصلاة /3 باب كيف فرضت الصلاة(3/226)وكتاب تقصيرالصلاة (3/118 – 119) وكتاب صلاة الخوف (3/169) ابن ماجہ: كتاب الإقامۃ/73 باب تقصيرالصلاة في السفر (1/339) أحمد (1/232) وابن خزيمۃ  (2/70) .
[3]    ابن ماجہ : كتاب الإقامۃ /73 باب تقصيرالصلاة في السفر (1/338) أحمد (1/37) علامہ البانی نےاس حدیث کی تصحیح کی ہے ، دیکھئے : صحیح سنن النسائی رقم 1364 (1/312) اور صحیح سنن ابن ماجہ /رقم 871 ( 1/175) ۔
[4]   دیکھئے  : (2/157)
 [5]   دیکھئے  :  الضعفاء  (ص 226)
[6]  دیکھئے  : التقريب ( ص 345)
[7]  دیکھئے : تقریب التہذیب ( ص 157)  
[8]   دیکھئے  : سنن الدارقطنی  (2/189)
 [9]   دیکھئے  : بلوغ المرام مع سبل السلام  (2/38)
[10]   البخاري  : كتاب تقصيرالصلاة /5 باب يقصر إذاخرج من موضعہ (2/569) ومسلم : كتاب صلاة المسافرين  (1/478)
   [11] دیکھئے  : مجموع فتاوی ابن تیمیہ  (24/109) عون المعبود(1/466) ومرعاۃ المفاتیح (4/379)
  [12]  دیکھئے  : نیل الاوطار(3/227)
 [13]  دیکھئے  : التمھیدلابن عبدالبر(16/295)
 ([14]) دیکھئے  : مجموع فتاوی ابن تیمیہ (24/109)
[15]   دیکھئے : نیل الاوطار(3/227) ومعالم السنن للخطابی (2/47)
[16]   دیکھئے : نیل الاوطار(3/229)
[17]   دیکھئے :مرعاۃ المفاتیح (3/380)  
  ([18]) دیکھئے :معالم السنن (2/48)  
 [19]  دیکھئے :تحفۃ الاحوذی (  3/86)
 [20]   البخاري : كتاب الصلاة/1 باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء(1/464)وكتاب تقصيرالصلاة / 5 باب يقصرإذاخرج من موضعہ (2/569) وكتاب مناقب الأنصار /48باب التاريخ  من أين  أرخواالتاريخ (7/267) مسلم : كتاب صلاة المسافرين وقصرها /1 باب صلاة المسافرين وقصرها (1/478)  مالك في المؤطا : كتاب قصرالصلاة في السفر /2 باب قصرالصلاة في السفر (1/146) أبوداؤد : كتاب الصلاة /270 باب صلاة المسافر (2/5) النسائي : كتاب الصلاة /3 باب كيف فرضت الصلاة (1/225) ابن حبان (4/180) ابن خزيمۃ (2/70 – 71)  ۔
([21]) مسلم : كتاب صلاة المسافرين وقصرها /1 باب صلاة المسافرين وقصرها (1/479) أبوداؤد : كتاب الصلاة /287 باب من قال يصلي بكل طائفۃ ركعۃ ولايقضون  (2/40) النسائي : كتاب الصلاة /3 باب كيف فرضت الصلاة(3/226) وكتاب تقصيرالصلاة (3/118 – 119) وكتاب صلاة الخوف (3/169) ابن ماجہ : كتاب الإقامۃ /73 باب تقصيرالصلاة في السفر (1/339) أحمد (1/232) وابن خزيمۃ  (2/70)
[22]  ابن ماجہ : كتاب الإقامۃ/73 باب تقصيرالصلاة في السفر (1/338) أحمد (1/37) علامہ البانی نےاس حدیث کی تصحیح کی ہے ، دیکھئے : صحیح سنن النسائی رقم 1364 (1/312) اور صحیح سنن ابن ماجہ رقم/ 871 ( 1/175) ۔
 [23]   البخاري :كتاب تقصيرالصلاة / 11 باب من لم يتطوع في السفردبرالصلاة وقبلها (2/577)     مسلم: كتاب صلاة المسافرين/ 1 باب صلاة المسافرين وقصرها(1/479) أبوداؤد: كتاب   الصلاة/276 باب   التطوع في السفر(2/20) النسائي : كتاب تقصيرالصلاة في السفر/5 باب ترك التطوع في السفر (3/122) ابن ماجہ: كتاب الإقامۃ/75 باب التطوع في السفر(1/340)  .
 [24]  ابن ماجہ: كتاب الإقامۃ/73 باب تقصيرالصلاة في السفر (1/339) علامہ البانی نےاس حدیث کو         " حسن صحیح " کہا ہے ، دیکھئے : صحیح سنن ابن ماجہ   رقم/875 ( 1/176) ۔
 [25]   ہیثمی لکھتےہیں :" رواه أبويعلى والطبراني في الأوسط , ورجال أبي يعلى رجال الصحيح " دیکھئے : مجمع الزوائد (2/156)
 [26]   مجموع فتاوى ابن تيميہ (24/108) عبداللہ بن عمرکےقول کوطبرانی نےروایت کیاہے ، دیکھئے  : مجمع الزوائد (2/154)
 [27]   دیکھئے  : التمھیدلابن عبدالبر(16/298)
[28]  دیکھئے  : التمھیدلابن عبدالبر(16/298)
 [29]  مسلم : كتاب صلاة المسافرين /1 باب صلاة المسارين (1/478) أبوداؤد : كتاب الصلاة /270 باب صلاة المسافر(2/5) الترمذي : كتاب تفسيرالقرآن (5/243) النسائي : كتاب تقصيرالصلاة في السفر/1(3/116) ابن ماجہ : كتاب الإقامۃ/73 باب تقصيرالصلاة في السفر(1/339) أحمد (1/25)
 [30]   البخاري : كتاب التقصير/2 باب الصلاة بمنى (2/563) وكتاب الحج/84 باب الصلاة بمنى (3/509)  مسلم : كتاب تقصيرالصلاة /2 باب قصرالصلاة بمنى (1/483) النسائي : كتاب تقصيرالصلاة/3 باب الصلاة بمنى (3/120)
[31]  دیکھئے  : نیل الاوطارللشوکانی (3/227) مرعاۃ المفاتیح للمبارکپوری (4/379) عون المعبود(1/464) معالم السنن (2/48) ترتیب مسندالامام الشافعی (1/179) سبل السلام للصنعانی (2/37) وبذل المجھود(6/271) 
 [32]    دیکھئے  : معالم السنن (2/48)
 [33]  دیکھئے  : نیل الاوطارللشوکانی (3/227) عون المعبود(1/464) وبذل المجھود(6/271) 
 [34]    دیکھئے  : نیل الاوطارللشوکانی (3/227) وبذل المجھود(6/271) 
  [35]    دیکھئے  :  مرعاۃ المفاتیح للمبارکپوری (4/380 – 381 )
 [36]    دیکھئے  : معالم السنن (2/48)
([37])     دیکھئے  : نیل الاوطارللشوکانی (3/227 – 228 )
 [38]     دیکھئے  : ترتیب مسندالامام الشافعی (1/180)
 [39]  مسلم : كتاب صلاة المسافرين /1 باب صلاة المسارين (1/478) أبوداؤد : كتاب الصلاة /270 باب صلاة المسافر(2/5) الترمذي : كتاب تفسيرالقرآن (5/243) النسائي : كتاب تقصيرالصلاة في السفر/1(3/116) ابن ماجہ: كتاب الإقامۃ/73 باب تقصيرالصلاة في السفر(1/339) أحمد (1/25)
 [40]  دیکھئے  : معالم السنن (2/48 - 49)
 [41]  دیکھئے   : نیل الاوطار(3/229)
([42])  دیکھئے   : عون المعبود (1/464)
  [43] النسائي : كتاب تقصيرالصلاة /4 باب المقام الذي يقصربمثله الصلاة (3/121) الدارقطني : كتاب الصيام (2/188) البيهقي : كتاب الصلاة (3/142)
 [44]  كتاب الأم للشافعي : كتاب المسافر(1/179) بحوالہ: الفتح السماوي (2/518)المصنف لابن أبي شيبۃ (2/452) رواه البزاركما في كشف الأستار (1/329) الدارقطني : كتاب الصيام (2/189) البيهقي في الكبرى(3/141)
[45]   البخاري : كتاب التقصير/5 باب يقصرإذاخرج من موضعہ(2/569) مسلم : كتاب صلاة المسافرين /1 باب صلاة المسافرين(1/478)
 [46]   دیکھئے   : معالم السنن (2/48)
 [47]  دیکھئے  : مرعاۃ المفاتیح (4/387)
   [48]دیکھئے  : زادالمعاد (1/466 – 467)
 [49] مسلم : كتاب صلاة المسافرين /1 باب صلاة المسارين (1/478) أبوداؤد : كتاب الصلاة /270 باب صلاة المسافر(2/5) الترمذي : كتاب تفسيرالقرآن (5/243) النسائي : كتاب تقصيرالصلاة في السفر/1(3/116) ابن ماجہ : كتاب الإقامۃ/73 باب تقصيرالصلاة في السفر(1/339) أحمد (1/25)
 [50]  دیکھئے   : مرعاۃ المفاتیح  (4/386)
 [51] نيل الأوطار(3/229)
 [52]   النسائي : كتاب تقصيرالصلاة /4 باب المقام الذي يقصربمثلہ الصلاة (3/121) الدارقطني : كتاب الصيام (2/188)  البيهقي : كتاب الصلاة (3/142)
[53]   دیکھئے : نیل الاوطار (3/230) باختصار۔
 [54]   دیکھئے : مجموع فتاوی  ابن تیمیہ (24/147)
[55]   دیکھئے : ارواءالغلیل (3/8- 9)
 [56] دیکھئے : زادالمعاد (1/472)
 [57]  حوالہ کےلئےدیکھئے :البخاري : كتاب العمرة /3 باب كم اعتمر النبي صلى الله عليہ وسلم (3/599) وكتاب المغازي /35 باب غزوة الحديبيۃ (7/439)/43 باب عمرة القضاء(7/508)   مسلم : كتاب الحج /باب بيان عددعمرة النبي صلى الله عليہ وسلم وزمانهن (2/916) أبوداؤد : كتاب المناسك /80 باب العمرة (2/505 – 506 ) الترمذي : كتاب الحج /93 باب ماجاء في عمرة رجب (3/275) النسائي : كتاب المناسك ( الكبرى) (1/284 , 286 ) (2/284) بحوالہ : تحفۃ الأشراف (6/26) الدارمي (1/379)  ۔
 [58]   دیکھئے : نصب الرایۃ  (2/191)
 [59]  دیکھئے : نصب الرایۃ (2/192)
 [60]   كتاب الأم للشافعي : كتاب المسافر(1/179) بحوالہ : الفتح السماوي (2/518) المصنف لابن أبي شيبۃ (2/452) رواه البزاركما في كشف الأستار(1/329) الدارقطني : كتاب الصيام (2/189) البيهقي في الكبرى(3/141)
[61]    السنن (2/189)
 [62]  السنن الكبرى (3/141)
[63]    دیکھئے : تاریخ بغداد (9/94 – 95)
 [64]    إرواء الغليل/ رقم  563(3/6)
[65]   السنن الكبرى (3/141)
  [66]تفصیل کےلئےدیکھئے : البخاري : كتاب التقصير/  باب يقصرإذاخرج من موضعہ (2/569) مسلم :   كتاب صلاة المسافرين /1 باب صلاة المسافرين وقصرها (1/478)
[67]   إرواء الغليل/ رقم 563(3/7)
[68]    مجموع فتاوى ابن تيميہ(24/144)
 [69]    دیکھئے  : مجموع فتاوى ابن تيميہ (24/145)
  [70]البخاري : كتاب تقصيرالصلاة / 11 باب من لم يتطوع في السفردبرالصلاة وقبلها (2/577) مسلم: كتاب صلاة المسافرين/ 1 باب صلاة المسافرين وقصرها(1/479) أبوداؤد: كتاب الصلاة/276 باب التطوع في السفر(2/20) النسائي : كتاب تقصيرالصلاة في السفر/5 باب ترك التطوع في السفر (3/122) ابن ماجہ : كتاب الإقامۃ /75 باب التطوع في السفر(1/340)
 [71]   زادالمعاد (10469 – 471)
 [72]  السنن الكبرى للبيهقي (3/144) اس کےراوی یعقوب بن حمید کا سب کےبارےمیں حافظ ابن حجرلکھتےہیں : "صدوق ربماوھم "دیکھئے : تقریب التھذیب ( ص 386)
  [73] البخاري : كناب مناقب الأنصار/47 باب إقامۃ المهاجربمكۃ بعدقضاءنسكہ(7/266) مسلم : كتاب الحج /81 باب جوازالإقامۃ بمكۃ ..........بلازيادة (2/985)أبوداؤد: كتاب المناسك / 92  باب الإقامۃ بمكۃ (2/523) الترمذي : كتاب الحج /103 باب ماجاءأن يمكث المهاجربمكۃبعد الصدر ثلاثاً (3/284) النسائي : (الكبرى ) كتاب المناسك /3/218 دیکھئے  : تحفۃ الأشراف (8/248) ابن ماجہ : كتاب الإقامۃ /76باب كم يقصرالصلاة المسافرإذاأقام بمكۃ (1/341)
[74]  أحمد (1/62) اس میں عکرمہ بن ابراہیم ضعیف راوی ہیں امام بخاری نے ان کوالتاریخ الکبیر(7/50) میں ذکرکیاہے اوران پرکوئی جرح نہیں کی ہے جب کہ ان کی عادت ہے کہ وہ مجروحین کی جرح کوذکرکرتےہیں (دیکھئے : زادالمعاد 1/471) حافظ ابن حجر لکھتےہیں : " یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ منقطع ہے اوراس میں ایساراوی ہے جوناقابل احتجاج ہے " ( فتح الباری 2/570)
 [75]   دیکھئے  :  زادالمعاد (1/471)
 [76] دیکھئے  :  فتح الباری (2/571)
[77]   دیکھئے : فتح الباری (2/571)
[78]   دیکھئے : السنن الكبرى للبيهقي (3/144)
  [79]السنن الكبرى للبيهقي (3/143) حافظ ابن حجرلکھتےہیں کہ اس کی سندصحیح ہے " دیکھئے : فتح الباری (2/571) ۔
  [80]البخاري : كتاب الحج /34 باب التمتع القران والإفرادبالحج (3/ 421 – 423) مسلم : كتاب الحج / 23 باب جوازالتمتع (2/896) أحمد (1/61, 136)
 [81]دیکھئے  : معالم السنن (2/48)
 [82]    دیکھئے  : مرعاۃ المفاتیح  (4/379)
 [83]   التمھید لابن عبدالبر(16/298)
 [84]   دیکھئے : مرعاۃ المفاتیح (4/380) 

کوئی تبصرے نہیں: