منگل، 1 مئی، 2018

جمع بین الصلاتین (دونمازوں کواکٹھی کرکےاداکرنا)



      شریعت مطہّرہ نےمسافرکی مشقتوں،اوروقت پرپابندی کےساتھ نمازادا کرنے میں پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے دونمازوں کو اکٹھا کرکےاداکرنےکی اجازت دےرکھی ہے، یعنی مسافرظہراور عصرکو ایک  ساتھ ظہرکے وقت  میں (جمع تقدیم  کےساتھ) یاعصر کے وقت میں (جمع تاخیرکےساتھ) اورمغرب  اورعشاءکوایک ساتھ مغرب کے وقت  میں (جمع تقدیم  کےساتھ)یا عشاءکےوقت میں (جمع تاخیرکےساتھ) پڑھ سکتا ہے ۔ خود اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےعمل کےذریعے اس  کو جاری کیاہے ، عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ سے اس کی حکمت کےبارےمیں سوال کیاگیاتوآپ نےفرمایا: "أراد أن لايحرج أمته[1] " آپ نےاپنی  امت کو حرج میں نہیں ڈالناچاہا" اورایک روایت میں ہے: "أراد التوسعة على أمته[2]  " اپنی امت  پرتوسع کرنا چاہا"۔
جمع بین الصلاتین اورائمہ کےدرمیان اختلاف
اس مسئلہ کےاندرعلماءکےمختلف اقوال واردہیں ، جن کوذیل میں ذکرکیاجارہاہے  :
1 - جمع اس کےلیےہےجوسفرکررہاہو،یعنی جودوران سفرکہیں قیام پذیرہواس کے لیے جمع جائز نہیں  ہے ، یہ قول ابن حبیب مالکی کاہے   ۔
دلیل : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ فرماتےہیں: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين صلاة الظهر والعصر إذا كان على ظهر سير و يجمع بين المغرب والعشاء[3]  " اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  جب سفرکررہےہوتےتو ظہراور عصر  کےدرمیان جمع کرتے اور مغرب اورعشاءکےدرمیان بھی جمع کرتے" ۔
2 -   صاحب عذرجمع کرسکتاہے ، یہ قول امام اوزاعی کاہے  [4]  ۔
3 –جنہیں سفرمیں عجلت درپیش ہووہ  جمع کرسکتےہیں ، یہ قول امام لیث کاہے ، [5] امام مالک کی طرف بھی یہ قول منسوب کیاجاتاہے  [6]  امام مالک کی طرف ایک قول یہ بھی منسوب کیاجاتاہے کہ وہ جمع بین الصلاتین کومکروہ سمجھتےتھے، ابن العربی کہتےہیں کہ مصریوں نےاس قول کوامام مالک سےروایت کیاہے [7]  ۔
دلیل :  عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ فرماتےہیں: "كان النبي صلى الله عليه وسلم يجمع بين المغرب والعشاء إذا جدبه السير[8] "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کوجب سفرمیں عجلت  درپیش ہوتی تومغرب اورعشاءکےدرمیان جمع کرتے"۔
4 -  جمع تاخیرجائزہے جمع تقدیم نہیں ، یہ قول امام احمدسےروایت کیاجاتاہے ،ابن حزم نےبھی اسی  کواختیارکیاہے ، نیزامام مالک سےبھی ایک قول یہی مروی ہے  [9]   ۔
دلیل : یہ دلیل میں انس  رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کرتےہیں ،جس میں  ہے : "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رحل قبل أن تزيغ الشمس أخّر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل يجمع بينهما فإن زاغت قبل أن يرتحل صلى الظهرثم ركب[10]  "اللہ کےرسول    صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنےسےپہلےسفرکرتےتوظہرکو عصرکےوقت تک  مؤخر  کرتےاور سواری سےاترکر دونوں کوایک ساتھ پڑھتےاوراگرسفرسے پہلے سورج  ڈھل جاتاتو ظہرکی نمازپڑھتےپھرسواری پرسوارہوتے"۔
اورمسلم کی ایک روایت میں ہے: "كان إذا أراد أن يجمع بين الصلاتين في السفر يؤخر الظهر حتى يدخل أول وقت العصر ثم يجمع بينهما[11]  "جب  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں دونمازوں کےدرمیان جمع کرناچاہتےتو ظہرکومؤخرکر دیتے یہاں تک کہ عصرکااول وقت ہوجاتا پھردونوں کےدرمیان جمع کرتے "۔
5 – عرفہ اورمزدلفہ کےعلاوہ جمع بین الصلاتین جائزنہیں ہے ، یہ قول امام ابوحنیفہ ، صاحبین اورحسن وغیرہ کا ہے([12]) ابن قدامہ نےامام مالک کی طرف بھی یہ قول منسوب  کیاہے  [13]   ۔
دلیل : اللہ تعالی کافرمان  : (إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَّوْقُوتاً) [النساء:103] (نمازمؤمنین پرمقررہ  وقت سےفرض ہے )
6 -  جمع بین الصلاتین مطلق جائزہے،جمع تقدیم ہو،جمع تاخیرہو، نازل (دوران سفر حالت قیام میں) ہو،سائرفی السفرہو،عجلت درپیش ہوخواہ نہ ہو،ہرحالت میں جمع جائز ہے ، اس کےقائلین اکثر صحابہ کرام ، تابعین ،فقہاءمیں سےامام ثوری ، امام شافعی ، امام  احمد، اسحاق بن راہویہ ، اشہب، طاؤ س، مجاہد،عکرمہ ، مالک ، ابوثور، ابن المنذراور اہل علم کی کثیرتعدادہیں   [14]  ۔
دلائل   :
1 -  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  کی روایت: "أراد أن لايحرج أمته[15]    " آپ نےاپنی  امت کو حرج میں نہیں ڈالناچاہا" ہے ،جس میں صراحت ہےکہ جمع بین الصلاتین امت کوحرج اور مشقت سےنکالنےاوراس پرآسانی پیداکرنے کے لیے مشروع کیا گیاہے ، جس سے اس کےبلا کسی قیدکےمطلقاجوازکاپتہ چلتاہے ، پھراگراس میں کوئی قیدلگادی جائےتوامت کوایک ایسی چیزکا پابند بنانالازم آئےگاجواس کے لیےشریعت  نےمطلقامشروع کیاہے  ۔
2 -  معاذبن جبل  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ  فرماتےہیں: "إن النبي صلى الله عليه وسلم أخر الصلاة في غزوة تبوك ثم خرج فصلى الظهروالعصرجميعاً،ثم دخل ثم خرج فصلى المغرب و العشاء جميعاً[16]  "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےغزوۂ تبوک میں نمازکومؤخرکیا پھرنکلے اور ظہراورعصرکی نمازکوایک ساتھ پڑھی ، پھرداخل ہوئے پھرنکلےاورمغرب اورعشاء کی نمازایک ساتھ ادا کیا" اس اجمال کی تفصیل ابوداؤداورترمذی کی روایت میں کچھ یوں ہے: "إن النبي صلى الله عليه وسلم كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى أن يجمعها إلى العصر فيصليهما جميعاً، و إذا ارتحل بعد زيغ الشمس عجل العصر إلى الظهر وصلى الظهر والعصر جميعاً ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، و إذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب[17] "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک میں تھے، جب  سورج ڈھلنےسےقبل سفر کرتےتو ظہرکی نمازکوعصر تک  مؤخرکرکے  دونوں کوایک ساتھ پڑھتے ، اور جب سورج ڈھلنےکے بعدسفر شروع  کرتےتوعصرکوظہرتک مقدم کرکےدونوں کوایک ساتھ ادا کرتے، پھرچلتے، جب  مغرب سےقبل سفرکرتےتو مغرب کی نماز کو مؤخرکردیتے اور اسے  عشاء کے ساتھ  پڑھتے ، اورجب مغرب کے بعدسفرشروع کرتےتوعشاء  مقدم کر دیتے  اور اسے مغرب  کے ساتھ اداکرتے "۔
3 – عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: "كان إذا زاغت الشمس في منزله جمع بين الظهر والعصر قبل أن يركب، وإذا لم تزغ له في منزله سار حتى إذا حانت العصر نزل فجمع بين الظهر والعصر، وإذا حانت المغرب في منزله جمع بينها وبين العشاء وإذا لم تحن في منزله ركب حتى إذا حانت العشاء نزل فجمع بينهما[18]  "اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جب جائے قیام پر رہتے اورسورج ڈھل جاتاتوظہراورعصرکےدرمیان  سوارہونے سے قبل ہی جمع کرتے، اوراگر سورج نہیں ڈھلتاتوچل دیتےیہاں تک کہ جب عصرکی نمازکاوقت قریب ہوجاتاتو اترتے اور ظہراورعصر کے درمیان جمع کرتے،اورجب مغرب کاوقت جائے قیام پرہی ہوجاتاتو مغرب اورعشاءکےدرمیان جمع کرتےاوراگر جائےقیام پرمغرب کاوقت نہیں ہوتاتو سوارہوتےیہاں تک کہ عشاءکاوقت قریب ہوجاتاتوآپ اترتے  اور مغرب اور عشاء کو جمع  کرکےپڑھتے"۔
4 -   جابررضی اللہ عنہ فرماتےہیں: "إن النبي صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاءفي السفر[19] "نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نےسفرمیں  ظہروعصراورمغرب وعشاء کے درمیان  جمع کیا"۔
اس حدیث میں  بلاکسی تقییدکےجمع کاذکرہے، اگرکسی قسم کاقیدہوتاتوضرورنقل کرتے، یاکسی خاص  حالت  کےساتھ مخصوص ہوتاتو ضروراس کی وضاحت کردیتے ۔
5 -  انس  رضی اللہ عنہ کی  مذکورہ روایت ،جس میں  ہے: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رحل قبل أن تزيغ الشمس أخّر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل يجمع بينهما فإن زاغت قبل أن يرتحل صلى الظهر ثم ركب[20]  "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلےسفرکرتےتوظہرکو عصرکےوقت تک مؤخرکرتےاور سواری  سے اترکر دونوں کوایک ساتھ پڑھتے، اور اگرسفرسےپہلےسورج  ڈھل جاتاتو ظہرکی نمازپڑھتے پھرسواری پرسوارہوتے"  ۔
حاکم نے اس کواربعین کےاندران الفاظ کےساتھ روایت  کیاہے: "صلى الظهر والعصر ثم ركب" "ظہراورعصرکی نماز ادا کرتے پھرسوارہوتے"۔
اورابونعیم نےمستخرج مسلم کےاندرروایت کیاہے: "كان إذا كان في سفر فزالت الشمس صلى الظهر والعصر جميعاً ثم ارتحل[21]  "جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں ہوتے اورسورج ڈھل جاتا توظہراورعصرکواکٹھا کرکے پڑھتےاورپھرسفر شروع  کرتے " ۔
راجح مسلک اوردیگراقوال کی دلائل پرایک نظر
     روایات کےاطلاق اوردلائل کی روشنی میں آخری قول راجح ہے کہ جمع بین الصلاتین بلاکسی قیدکےمشروع ہےکیونکہ شریعت نےجس چیز کو مطلقا بیان کیاہواسےعلی الاطلاق  ہی رہنے دینا چاہئے،الایہ کہ  تخصیص وتقیید کےلیےکوئی دلیل آجائے، ذیل میں  ہم دیگر اقوال  کی تائیدمیں پیش کردہ دلائل کاجائزہ لیتےہیں  :
پہلےدوسرےاورتیسرےاقوال کےقائلین عبداللہ بن عباس اورعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم کی روایتوں سے استدلال کرتےہیں جن میں"جدبه السير"یا"على ظهر سير" کےالفاظ واردہیں ، حافظ ابن حجران کا جواب دیتےہوئےفرماتےہیں:  "لیکن  مؤطاکےاندرمعاذبن جبل کی حدیث میں صراحت واردہے ، جس کےالفاظ ہیں: "أخرالصلاة في غزوة تبوك ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعاً، ثم دخل ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعاً" "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےغزوۂ تبوک میں نمازکومؤخرکیا پھرنکلے اور ظہراورعصرکی نمازکوایک ساتھ پڑھی ، پھرداخل ہوئے پھرنکلے اورمغرب اورعشاء کی نمازایک ساتھ ادا کیا" امام شافعی کتاب الام میں فرماتےہیں  :"ان ( معاذبن جبل رضی اللہ عنہ  ) کا "دخل ثم خرج" کہناحالت نزول میں ہی ہوسکتاہے ، لہذامسافر کےلیے سفر اورنزول دونوں حالتوں میں جمع کرناجائزہے" ابن عبدالبرکہتےہیں :" اس کےاندران لوگوں پرواضح ترین ردہے جوکہتےہیں کہ جس کوسفرمیں جلدی درپیش ہووہی جمع کرسکتاہے ، یہ التباس کوقطع کرنےوالاہے "  [22]   ۔
اورامام اوزاعی کاعذرکاقیدلگانابےمعنی ہے کیونکہ سفربجائےخودعذرہے اس لیےعذر کا قیدلگانا بےمعنی ہے  ۔
اورچوتھےقول میں مکروہ والی بات بھی کمزورہے ،کیونکہ  کتاب وسنت میں کوئی ایسی دلیل وارد نہیں ہےجس کی بنا پر اسےمکروہ قراردیاجاسکے، اورچونکہ سنت سے بصراحت  جمع ثابت ہے اس لیے اسے مکروہ  کہناغیرمناسب ہے  ۔
اورامام ابن حزم کایہ کہناکہ جمع تاخیرجائزہے جمع تقدیم نہیں  اوران کاانس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت سے استدلال کرناجس میں جمع  تقدیم کاذکرنہیں ہے بھی غیرمناسب ہے،کیونکہ اس روایت میں گرچہ جمع تقدیم کاذکرنہیں ہے لیکن دیگرصحیح روایتوں میں موجودہے جس سےاس روایت کی تفصیل ہوجاتی ہے ۔
اورحنفیہ وغیرہ کہتےہیں کہ عرفہ  ومزدلفہ کےسوا جمع جائزنہیں  ، اوردلیل میں قرآن کریم کی آیت : ( إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَّوْقُوتاً) [النساء:103] (نمازمؤمنین پرمقررہ وقت سےفرض ہے )سےاستدلال کرتے ہیں ، جس میں  "موقوتا" کی  تفسیر عبداللہ  بن عباس رضی اللہ عنہ نے "مفروضا" سےکی ہے ، یعنی  "إن للصلاة وقتاً كوقت الحج" حج کی طرح نمازکابھی ایک متعین وقت ہے" [23]   ۔
 لیکن حنفیہ کامذکورہ آیت اوراس کی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر سےاستدلال درست نہیں ہے، کیونکہ  بلاشبہ نمازاپنےوقت کےساتھ فرض ومتعین ہےلیکن سنت نبوی نے اس کی اجازت دی ہے کہ بحالت سفراور مجبوری  جمع  کرلیا جائے، چنانچہ جس طرح  خودان کےقول میں عرفہ اورمزدلفہ کےاندرسنت  سےثبوت کی بناپرجمع  جائزہے  ٹھیک اسی طرح عام سفرمیں سنت سےثبوت کی بناپرجمع جائزہے ۔
اسی طرح ان کامواقیت والی روایتوں سےاستدلال بھی مذکورہ  توضیح کی بنیادپرناقابل قبول ہے ۔
نیزوہ ایک بات یہ بھی کہتےہیں (جوان کاعام اصول ہے) کہ جوچیزکتاب وسنت سے بالتواترثابت ہےاسےخبرآحادکی وجہ سےنہیں چھوڑسکتے، اس لیےکہ خبرآحادسے قرآن وسنت سےبالتواتر ثابت  شدہ  آیات واحادیث پرزیادتی جائزنہیں ہے   ۔ 
لیکن ان کایہ کہنادرست نہیں ہے، کیونکہ  یہاں پرخبرواحد کی بناپرقرآن وسنت کا ترک لازم نہیں آرہا ہے ، بلکہ  اس سےقرآن وسنت میں واردایک عام حکم کی تخصیص ہورہی ہے ، اوریہ دین کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی صحیح حدیث سےخواہ وہ خبر واحدہی کیوں نہ ہومتواترکی تخصیص جائز ہے ۔
حنفیہ اپنےدلائل ذکرکرنےکےبعددیگرروایتوں کی جن میں جمع کاثبوت ہے تاویل کرتےہیں کہ ان میں جمع سے مرادجمع صوری ہے  [24]  اس سلسلےمیں سب سے پہلے امام طحاوی رحمہ اللہ  نےبحث کی ہے ، اوران تمام احادیث کی صحت کااقرار کرتےہوئے کہا ہےکہ جمع سےمرادجمع صوری ہے  [25] لیکن محدثین اورفقہاءنے ان کےاس اشکال کا مفصل جواب دیاہے ، امام خطابی فرماتےہیں :" جمع بین الصلاتین  ایک رخصت ہے ، اگریہ اس شکل میں ہوتاجو انہوں نےبیان کیاہے ، تویہ ہرنماز کواپنےوقت پرادا کرنے سےبھی زیادہ مشقت والاہوتا، اس لیےکہ اوائل اور اواخر اوقات ان چیزوں میں سے  ہیں جن کاادراک  خا ص لوگوں کوبھی نہیں ہوپاتاچہ جائے کہ عام لوگ "  [26] 
اورابن قدامہ لکھتےہیں :" یہ (حنفیہ کی بیان کردہ جمع صوری کی تعبیر) دووجہوں سے فاسدہے  :
اول : حدیث  میں بالصراحت واردہے کہ آپ دونوں کوایک کےوقت میں جمع کیا کرتے تھے ، جسےہم عنقریب ذکر کریں گے، اورانس کےقول "أخّر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل ...کی  بناپر، لہذا( ان کی ) تاویل باطل ہے ۔
دوم  : جمع رخصت ہے ، اگریہ ان  کےبیان کردہ طریقہ کےمطابق ہوتاتویہ ہرنماز کو اس کےوقت پراداکرنے سے بھی زیادہ حرج والااورمشقت انگیزہوتا، کیونکہ ہر نمازکو اس کےوقت پر ادا کرنا بہ نسبت دونوں وقتوں کی اس حیثیت سےرعایت کرنےکےکہ  پہلےوقت میں سےصرف اس نماز کےاداکرنےکاوقت بچےزیادہ آسان ہے ، اورجواس کےاندرغورکرےگا ہمارے بیان کردہ صفت کےمطابق ہی پائے گا ،  اوراگرایسےہی (جمع صوری ) ہوتا تو مغرب اور عشاء  اورعشاءاورفجر کے درمیان جمع جائزہوتا، جب کہ امت کےاندراس کے عدم جوازپرکو‏ئی اختلاف نہیں ہے ، لہذا ذہن میں پہلےمرحلہ میں متبادرہونےوالی وجہ پرخیر کے ساتھ عمل اس  تکلیف سےاولی ہے جس سے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کےکلام کواس  تاویل سےمحفوظ رکھا  جائے"  [27] ۔
علامہ عبدالحئی لکھنوی  رقمطرازہیں :"حنفیہ نےجمع سےمتعلق وارد احادیث کوجمع صوری پرمحمول کیاہے ،اورامام طحاوی نےشرح معانی الآثارکےاندراس پرمفصل بحث  کی ہے   [28]  ، لیکن میں نہیں جانتاکہ ان روایتوں کےسلسلےمیں کیاکیا جائےگاجوبخاری  ، مسلم اورابوداؤدوغیرہ جیسی ان لوگوں کےنزدیک معتمدکتابوں  میں جوان پرگہری نگاہ رکھتے ہیں صراحت  واردہے کہ جمع وقت نکل جانےکےبعدہی تھا،اگریہ ماناجاتا ہےکہ روا ۃ کو اس سلسلےمیں امتیازنہیں ہوپایا توانہوں نےوقت کےنکل جانےکے قریب کی خبردے دی تویہ چیزبھی صراحت کےخوگرصحابہ کرام سےبعیدہے ، اور اگرروایتوں کی سندمیں گڑبڑی کی وجہ سےان کوترک کردیاجائے تویہ بعید ترہے ، جبکہ ائمۂ کرام نےاس کی  تخریج کی ہے اوران کی صحت کی گواہی دی ہے ، اوراگر ان روایتوں سےمعارضہ کیاجائےجن میں صراحت ہے کہ جمع تاخیرآخری وقت تک  اورجمع تقدیم اول وقت میں ہے تو یہ اورزیادہ تعجب خیزبات ہے ، اس لیےکہ  مختلف احوال پران کےجمع کومحمول کرنا نہ یہ کہ ممکن ہے بلکہ یہی   ظاہرہے " [29] ۔
جمع بین الصلاتین کےلیے اذان واقامت کامسئلہ
        جب دونمازوں کےدرمیان جمع کیاجائےتوان کےلیےایک  ہی اذان واقامت کافی ہے یاہرایک کے لیےالگ الگ اذان  واقامت ضروری ہے ؟اس مسئلہ کےاندربھی علماء کےمختلف اقوال ہیں  :
پہلاقول  -  ہرنمازکےلیےالگ الگ اذان اوراقامت ضروری ہے ، یہ قول مالکیہ کا ہے ۔
دلائل  :
1 -   عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ  میں عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کےساتھ مزدلفہ میں  تھا توآپ  نےدونمازیں  ہرایک کواذان اوراقامت کےساتھ پڑھیں اوران دونوں کے درمیان    رات کاکھاناکھایا ۔۔۔۔۔۔الخ   [1] ۔
2 -  عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ  ہی کی روایت ہے کہ انہوں نےمزدلفہ میں ہرنمازکےلیے اذان  اوراقامت کاحکم دیا   [2] ۔
    لیکن ابن حزم نےان روایتوں کویہ کہتےہوئےردکردیاہے کہ  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے  کہ آپ ہرنمازکےلیےالگ الگ  اذان اوراقامت کہلواتے ، اگریہ ثابت ہوتاتومیں ضرور کہتا۔ 
نیزاس کی تاویل کرتےہیں کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ  کےاس عمل کواس بات پر محمول کیا جائے گاکہ ان کے اصحاب   متفرق ہو گئےتھےاس لیےانہوں نےان کوجمع کرنے کے لیےاذان دلوائی تھی  [3]  ۔
دوسراقول -  ہرنمازکےلیےاقامت ضروری ہے ، اوراذان کسی کےلیےنہیں ، یہ قول امام شافعی ، قاسم بن محمد اورسالم بن عبداللہ بن عمررحمہم اللہ کاہے ، امام احمد سےبھی ایک روایت یہی منقول ہے ۔
دلیل :   اسامہ رضی اللہ عنہ   فرماتےہیں: "إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لماجاء المزدلفة  نزل فتوضأ فأسبغ الوضوء، ثم أقيمت الصلاة فصلى المغرب، ثم أناخ كل إنسان بعيره في منزله، ثم أقيمت الصلاة فصلاها ولم يصل بينهما شيئاً" [4]  "اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ آئےتواترےاورخوب اچھی طرح سےوضوء کیا،  پھر  نمازکھڑی کی گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمغرب کی نمازپڑھی ، پھرہرآدمی نےاپنی جگہ پراپنےاونٹوں کوبٹھایا، پھرنمازکھڑی کی گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاسے  اداکیااوران دونوں کےدرمیان کچھ نہیں  پڑھا"۔
کہتے ہیں کہ مذکورہ روایت میں چونکہ  اذان کاذکرنہیں   اس لیے صرف اقامت کہی جائےگی  اور اذان  ضروری نہیں ہوگی۔
تیسراقول -  شروع میں ایک اذان دی جائےگی اوردونوں نمازوں کےلیےالگ الگ اقامت کہی جائےگی ، یہ قول امام احمد، ابن حزم ، ابن الماجشون ، طحاوی ، ابوثور اورہادویہ کاہے  ۔
دلیل : جابررضی اللہ عنہ کی طویل روایت ہے جس میں ہےکہ اللہ کےرسول     صلی اللہ علیہ وسلم نےعرفہ میں دونمازیں ایک اذان اوردواقامت سےپڑھی ،اورپھر مزدلفہ آئےاوروہاں مغرب اورعشاءایک اذان اوردو اقامت  سےاداکی اوردونوں کے درمیان کوئی نفل یاسنت ادانہیں کیا ۔ ۔۔۔۔۔۔ الحدیث "  [5] ۔
چوتھاقول - دونوں نمازیں ایک ہی اقامت سےپڑھی جائیں گی ، یہ قول امام ثوری اوراورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکا ہے ۔
دلیل : عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی روایت ہے،وہ فرماتےہیں :"اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ  میں مغرب اورعشاءکےدرمیان جمع کیا، مغرب کی نماز تین  اورعشاءکی دورکعتیں ایک ہی اقامت سے" [6]
امام شوکانی وغیرہ نےجابررضی اللہ عنہ والی روایت کوراجح قراردیاہے  [7] ۔
راجح قول:  اس  سلسلے  میں  راجح  تیسرا  قول  ہے،  کیوں کہ  دیگر  اقوال  کی  مستدل  روایات  میں  ابہام  ہے،  جب  کہ  تیسرے  قول  کی  مستدل  جابر  رضی  اللہ  عنہ کی روایت  میں  صراحت  ہے  کہ  ایک  اذان  اور  دو  اقامت  سے  مغرب  وعشاء  پڑھی،  اور  چونکہ اذان  لوگوں  کو  جمع  کرنے  کے  لیے  ہوتی  ہے،  اور  وہاں  پہلے  سے  ہی  سے  جمع  تھے،  رہی  اقامت  ،  تو  یہ  ہر  نماز  شروع  کرنے  کا  اعلان  واعلام  ہے  اس  لیے  ہر  ایک  کے  لیے  اقامت  کہی  جائے  گی،  (احمد  مجتبی  سلفی)


 [1] البخاري : كتاب الحج /99 باب متى يصلي الفجربجمع (3/530) النسائي : المناسك ( الكبرى) (2/213) بحوالہ: تحفۃ الأشراف (7/86)  أحمد (1/418)
 [2]    البخاري : كتاب الحج /97 باب من أذّن وأقام لكل واحدة منهما (3/524)
 [3]   دیکھئے : نیل الاوطار(3/251) الفتح الربانی (5/139)
[4]    البخاري:كتاب الطهارة/6 باب إسباغ الوضوء(1/239) وكتاب الحج /95 باب الجمع بين الصلاتين بالمزدلفۃ(3/523) مسلم : كتاب الحج /47 باب الإفاضۃمن عرفات ‘لى المزدلفۃ ....(2/934) أبوداؤد : كتاب الحج / 64 باب الدفعۃ من عرفۃ (2/473) النسائي : كتاب المناسك /206 باب النزول بعدالدفع من عرفۃ (5/259) الدارمي (1/385) أحمد(5/202)
 [5]    مسلم : كتاب الحج /19 باب حجۃالنبي صلى الله عليہ وسلم (2/886) أبوداؤد : كتاب المناسك /57 باب صفۃ حجۃالنبي صلى الله عليہ وسلم (2/455) النسائي في الكبرى كمافي تحفۃالأشراف (2/271) ابن ماجہ : كتاب المناسك /84 باب حجۃالرسول صلى الله عليہ وسلم (2/1022) 
 [6]    مسلم : كتاب الحج /47 باب الإفاضۃ من عرفات إلى المزدلفۃ واستحباب صلاتي المغرب والعشاء جميعاًبالمزدلفۃ في هذه الليلۃ (2/938) أبوداؤد : الحج /65 باب الصلاة بجمع (2/476) الترمذي : الحج /56 باب ماجاء في الجمع بين المغرب والعشاء بالمزدلفۃ(3/235) النسائي : المناسك /207 باب الجمع بين الصلاتين بالمزدلفۃ (5/220) وفي الكبرى (1/209) و (3/209) كمافي تحفۃ الأشراف (5/423) و أحمد (2/18)
[7]   دیکھئے : نیل الاوطار( 3/151)





 [1]   مسلم : كتاب صلاة المسافرين /6 باب الجمع بين الصلاتين ......(1/490) أبوداؤد: كتاب الصلاة /274 باب الجمع بين الصلاتين (2/14) ابن خزيمہ / رقم 66(281) عن معاذبن جبل , و/رقم 971(2/85) وأحمد(1/223 , 283)
[2]   المصنف لابن أبي شيبۃ (2/456)
 [3] البخاري :كتاب تقصير الصلاة /13 باب الجمع بين الصلاتين في السفربين المغرب والعشاء(2/579) النكت على كتاب ابن صلاح  (1/326)
 [4]دیکھئے : فتح الباری (2/580) مرعاۃ المفاتیح (4/396) نیل الاوطار(3/242)
  [5]دیکھئے  : فتح الباری (2/580) مرعاۃ المفاتیح (4/397) نیل الاوطار(3/242)
  [6]دیکھئے  : فتح الباری (2/580) مرعاۃ المفاتیح (4/396)
[7]   دیکھئے : مرعاۃ المفاتیح (4/397)
 [8]البخاري : كتاب تقصير الصلاة /6 باب يصلي المغرب ثلاثاًفي السفر(2/572) و/13باب الجمع في السفربين المغرب والعشاء(2/581) وكتاب العمرة /20 باب المسافرإذاجدبہ السيريعجل إلى أهلہ(3/624) وكتاب الجهاد/136 باب السرعۃفي السير(6/139)  مسلم : كتاب صلاة المسافرين/5 باب جوازالجمع  بين الصلاتين في السفر (1/488) مؤطاالإمام مالك : كتاب قصرالصلاة في السفر/1 باب الجمع بين الصلاتين في الحضروالسفر(1/144) النسائي : كتاب المواقيت /46 باب الحالة التي يجمع فيها بين الصلاتين(1/289) الترمذي : كتاب الصلاة /42 ماجاء في الجمع بين الصلاتين (2/441)  ابن خزيمۃ  /  رقم 964 –  965 (2/81) البيهقي (3/159) الدارمي(1/295) الدارقطني(2/393) المصنف لعبدالرزاق (2/546)
[9] فتح الباری (2/580) ونیل الاوطار(3/242)
[10]البخاري : كتاب تقصير الصلاة / إذاارتحل بعدمازاغت الشمس   صلى الظهرثم ركب (2/582)  مسلم : كتاب صلاة المسافرين/5 باب جوازالجمع  بين الصلاتين في السفر (1/489) أبوداؤد : كتاب الصلاة /274 باب الجمع بين الصلاتين (2/17) ) النسائي : كتاب المواقيت /42 باب الوقت الذي يجمع فيہ المسافربين الظهروالعصر(1/284) البيهقي (3/161) الدارقطني(1/389)
[11]  مسلم : كتاب صلاة المسافرين/5 باب جوازالجمع  بين الصلاتين في السفر (1/489 )
[12]   دیکھئے : فتح الباری (2/580) نیل الاوطار(3/242) المغنی (2/271) سبل السلام (2/41) مرعاۃ المفاتیح (4/397)
[13]  دیکھئے : المغنی (2/271)
[14]  دیکھئے : فتح الباری (2/580) نیل الاوطار(3/242) المغنی (2/271)
 [15]مسلم : كتاب صلاة المسافرين /6 باب الجمع بين الصلاتين ......(1/490)  أبوداؤد: كتاب الصلاة /274 باب الجمع بين الصلاتين (2/14) ابن خزيمۃ / رقم 66(281) عن معاذبن جبل , ورقم 971(2/85) وأحمد(1/223 , 283)
  [16]مسلم : كتاب صلاة المسافرين/5 باب جوازالجمع  بين الصلاتين في السفر (1/490 ) وكتاب الفضائل /1 باب فضل نسب النبي صلى الله عليہ وسلم....(4/1784) مؤطاالإمام مالك : كتاب قصرالصلاة / 1  باب الجمع = بين الصلاتين (1/143) أبوداؤد: كتاب الصلاة /274 باب الجمع بين الصلاتين (2/12 – 13 ) الترمذي:كتاب الصلاة /42ماجاء في الجمع بين الصلاتين (2/438) البيهقي (3/162) المصنف لابن أبي شيبۃ (2/456) المصنف لعبدالرزاق(2/545) مواردالظمآن (ص 45)
 ([17]) الترمذي : كتاب الجمعۃ/   ماجاء في الجمع بين الصلاتين رقم 553  ) أبوداؤد: كتاب الصلاة /  باب الجمع بين الصلاتين 1120 , 1208 شیخ البانی نےاس کی تصحیح کی ہے ، دیکھئے:ارواء الغلیل  /رقم 578 (3/38) صحیح سنن الترمذی (1/307) وصحیح سنن ابی داؤد(1/330)
 [18]أحمد(1/367 – 368) الدارقطني (1/388)البيهقي(3/163) اس روایت کی سندمیں حسین نامی راوی ضعیف ہیں ‏دیکھئے : التلخیص الحبیر (2/48) امام ترمذی سےنقل کیاجاتاہےکہ انہوں نےمتابعات کودیکھتےہوئےاس کی تحسین کی ہے ، علامہ البانی لکھتےہیں :" ان متابعات وطرق کی بنیادپرعبداللہ بن عباس کی روایت صحیح ہے ، اورشواہدکی بناپرامام بیہقی نےاسےقوی کہاہے نیزیہ قتیبہ سےمروی معاذبن جبل کی روایت کےلئےدوسراشاہد ہےجوان کےحفظ اورقوت حدیث پردال ہے ، دیکھئے : ارواء الغلیل ( 3/32)
[19]   ابن حبان كمافي الموارد (ص145)
 [20] البخاري : كتاب تقصير الصلاة /  إذاارتحل بعدمازاغت الشمس   صلى الظهرثم ركب (2/582)  مسلم : كتاب صلاة المسافرين/5 باب جوازالجمع  بين الصلاتين  في السفر (1/489) أبوداؤد : كتاب الصلاة /274 باب الجمع بين الصلاتين (2/17)  النسائي : كتاب المواقيت /42 باب الوقت الذي يجمع فيہ المسافربين الظهروالعصر(1/284) البيهقي (3/161) الدارقطني(1/389)
[21]حافظ ابن حجرنےبلوغ المرام کےاندر  مستخرج ابونعیم  کی طرف اس کی نسبت کی ہے ، امام صنعانی سبل السلام کےاندرلکھتےہیں :" اس روایت کے اندر کوئی کلام نہیں ہے" علامہ البانی اس کےمختلف طرق کوذکرکرنےکےبعدلکھتےہیں " مذکورہ باتوں سےانس کی مذکورہ تین طرق سےمروی روایت سےجمع تقدیم کاثبوت واضح ہوجاتاہے " دیکھئے : ارواء الغلیل ( 3/32 -33  ، 34)
[22] دیکھئے  : فتح الباری ( 2/583)
[23]دیکھئے : تفسیرابن کثير(1/550)
[24]جمع صوری کہتےہیں ظہرکی نمازکواس کےآخری وقت میں پڑھنااورجب نمازسےفارغ ہواسی وقت عصرکاوقت شروع ہوجائےتوعصرکی نمازکوایک دم اول وقت میں پڑھ لے، اسی طرح مغرب اورعشاء کےدرمیان ۔
[25]دیکھئے :  شرح معانی الآثار( 1/166)
[26]دیکھئے : فتح الباری (2/580) و مرعاۃ المفاتیح (4/397)
  [27]  المغنی ( 2/272)
 [28] شرح معانی الآثار(1/160)
   [29]التعلیق الممجد( ص129) بحوالہ : مرعاۃ المفاتیح ( 4/397) 

کوئی تبصرے نہیں: