اتوار، 6 مئی، 2018

کتاب : (سفرکے احکام ومسائل قرآن وسنت کی روشنی میں ) سے ماخوذ

سفرکی تعریف
سفرکی لغوی تعریف : امام رازی فرماتےہیں : السّفَرَ : قطعُ المسافة والجمع أسفار .. وسفر: خرج إلى السفر .... [1] "سفرکہتےہیں : مسافت طےکرنےکو،جس کی جمع اسفارآتی ہے ۔۔۔ اورسفر(اس وقت کہتےہیں جب):سفرکےلیےآدمی نکلتاہے۔۔۔۔۔۔"۔
ازہری فرماتےہیں : وسُمّي المسافر مسافراً لكشفه قناع الكُنّ عن وجهه، ومنازل الحضر عن مكانه ، ومنزل الخفض عن نفسه، وبروزه إلى الأرض الفضاء. وسُمّي السفر سفراً؛ لأنه يسفر عن وجوه المسافرين وأخلاقهم ، فيظهر ما كان خافياً منها‘‘.
 اورفیومی لکھتےہیں : السَفَرُ بفتحتين وهو قطع المسافة، يقال ذلك إذا خرج للارتحال أو لقصد موضع فوق مسافة العَدْوَى؛ لأنّ العرب لا يسمون مسافة العدوى سفراً، وقال بعض المصنفين : أقل السفر يوم ...[2]
سفرکی اصطلاحی تعریف اوراس کی شرعی تحدید:
ابن العربی مالکی فرماتےہیں : ’’ولم يذكر حدُّ السفر الذي يقع به القصر، لافي القرآن ولافي السُنّة،وإنماكان كذلك لأنّها كانت لفظةعربية مستقرعلمهاعندالعرب الذين خاطبهم الله تعالى بالقرآن‘‘[3] "سفرکی وہ حدجس پرقصرمشروع ہے نہ قرآن میں مذکورہے اورنہ ہی سنت میں ، بلکہ عرب کےنزدیک یہ(سفر) ایک معروف لفظ ہے جن کوکہ اللہ تعالی نےقرآن مجیدکےاندرمخاطب کیا ہے"۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتےہیں :’’حدُّ السفر الذي علّق الشارع به الفطر والقصر، هذا ممّا اضطرب الناس فيه، قيل: ثلاثة أيام، وقيل: يومين قاصدين، وقيل: أقل من ذلك حتى قيل: ميل! والذين حددوا ذلك بالمسافة: منهم من قال: ثمانية وأربعون ميلاً، وقيل: ستة وأربعون، وقيل: خمسة وأربعون، وقيل: أربعة وأربعون، وهذه أقوال عن مالك. [4] "سفرکی  وہ حدجس پر شارع نے روزہ توڑنےاورقصرکومعلق کررکھاہے ان مسائل میں سےہے جن میں لوگ اضطراب کےشکارہیں ، ایک قول کےمطابق : تین دن ، ایک قول کےمطابق : پورےدودن اورایک قول کے مطابق اس سےکم ،یہاں تک کہ ایک میل بھی کہاگیاہے ۔ اورجن لوگوں نےاس  کی تجدیدمسافت سےکی ہےان میں سےبعض نےاڑتالیس میل کہاہے ، اوربعض نےچھیالیس میل ،اورچوالیس اورپینتالیس بھی کہاگیاہے ، اوریہ تمام اقوال امام مالک سے مروی ہیں " ۔
امام ابومحمدالمقدسی فرماتےہیں : ’’لا أعلم لما ذهب إليه الأئمة وجهاً، و هو كما قال رحمه الله فإن التحديد بذلك ليس ثابتاً بنص ولا إجماع ولا قياس، وعامة هؤلاء يفرقون بين السفر الطويل والقصير، ويجعلون ذلك حداً للسفر الطويل، ومنهم من لا يُسمى سفراً إلا ما بلغ هذا الحد، وما دون ذلك لايسميه سفراً......‘‘ إلى أن قال: ’’كل اسم ليس له حدٌّ في اللغة ولا في الشرع فالمرجع فيه إلى العرف، فما كان سفراً في عرف الناس فهو السفر الذي علّق به الشارع الحكيم، وذلك مثل سفر أهل مكة إلى عرفة فإنّ هذه المسافة بريد وهذا سفر ثبت فيه جواز القصروالجمع بالسنة.والبريدهو نصف يوم يسير الإبل والأقدام ...‘‘ "میں ائمہ کرام کی رایوں کی کوئی وجہ نہیں جانتا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نےجو کہاہے وہی درست ہے ،کیونکہ (مسافت ) کی تحدیدکسی نص اورنہ ہی اجماع اورنہ ہی قیاس سےثابت ہے ، ان میں سےزیادہ ترلوگ طویل اورقصیرسفرکےمابین فرق کرتے ہیں،اوراسی کولمبےسفرکی حدمانتےہیں،اوربعض توان میں اس حدکی مسافت کوہی سفر کہتےہیں اوراس سےکم کوسفرکانام ہی نہیں دیتےہیں ۔۔۔۔۔ " آگےچل کر فرماتےہیں :" ہروہ مسمی جس کی نہ لغت میں اورنہ ہی شریعت میں ہی کوئی حد مذکور ہوتوایسی صورت میں عرف عام کودیکھاجائےگا،لہذاجسےعرف عام میں سفرکہا جائےگا وہی وہ سفرہوگاجس کوشارع حکیم نے(مسافت سفرکےساتھ) معلق کررکھاہے، جیسے اہل مکہ کاعرفہ کی جانب سفر  کرناجس کی مسافت ایک بریدکی ہے اوریہ وہ سفرہےجس کےاندرسنت سےقصراورجمع بین الصلاتین جائزہے ۔۔۔۔"۔
سفرکی قسمیں
سفردوطرح کاہوتاہے : سفر حرام اور سفرمباح ۔
حرام سفر: ہروہ سفرجواللہ اوراس کےرسول کی معصیت کےلیےہووہ حرام ہے،مثلا :  
1 –   مزاروں ،میلوں ، ٹھیلوں اور  شرک کی جگہوں کی زیارت ۔
2 –   ا یسی عمارت کی سیاحی جہاں قبریں وغیرہ اورمردوزن کااختلاط ہو۔
3 –   بدعی اعمال وافعال  والی محفلوں  (مثلا : تیجا، چالیسواں ، محفل میلاد ، تعزیہ ، میت کےلیےقرآن خوانی وغیرہ کیونکہ یہ سب اعمال دین میں بدعت ہیں ) میں شرکت کی غرض  سےسفر۔
4 – غیرشرعی اجتماعی مناسبات میں شرکت کی  غرض سےسفر ( مثلا:برتھ ڈے، مرتیوں اورمجسّموں  کی نقاب کشائی وغیرہ )۔ 
۵ - ہروہ جگہ جہاں تعبدکی ‌غرض سےسفرکیاجاتاہو، سوائےتین جگہوں کے ، اوروہ ہیں : مسحدحرام ، مسجدنبوی اور مسجداقصی،اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا: ’’لاتشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجدالحرام، والمسجد الأقصى، ومسجدي‘‘ [5]"سوائےتین مسجدوں کےاورکسی جگہ کےلیے رخت سفرنہیں باندھاجائےگا: مسجدحرام، مسجداقصی اورمیری مسجد (یعنی مسجد  نبوی)"۔
٦کسی قبرکی زیارت کی نیت سے سفر ۔
۷ –  اسی  طرح اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زیارت کی نیت کرکے سفر کرناغیرمشروع ہے ، البتہ مسجدنبوی کی زیارت کی نیت کرکے سفرکرےاورجب وہاں پہنچ جائےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کےاصحاب رضی اللہ عنہماکی قبروں کی زیارت کرےاوران پردرودو سلام  بھیجے۔
۸ -  ہروہ جگہ جہاں مردوزن کااختلاط  اورفحش وعریانی کاسماں ہو۔
مشروع اورمباح سفر :
1 – حج وعمرہ کےلیےسفر۔
2 – حصول علم ‎ کےلیےسفر۔
3 –  دعوت وارشاد کےلیےسفر۔
4 –  جہاد کےلیےسفر۔
5 – مسجد حرام  کی زیارت کےلیےسفر۔
6 – مسجد اقصی کی زیارت  کےلیےسفر۔
7 – مسجد نبوی کی زیارت کےلیےسفر۔
8 –  تجارتی مقاصداورنوکری  کےلیےسفر۔
9 –  قریبی رشتہ داروں کی زیارت کےلیےسفر۔
10 –  بیمارکی عیادت کےلیےسفر۔
11 – شرعی اصول وقواعدکےمطابق انجام پانےوالےاجتماعی مناسبات  (مثلا : شادی ، ولیمہ اورعقیقہ وغیرہ ) میں شرکت کےلیےسفر۔
12 –   ہروہ سفرجوجائزکاموں کےلیےہو۔
سفرمیں غیرشرعی آلات سےاجتناب
           سفرمیں اپنےساتھ غیرشرعی چیزوں کورکھنےسےاجتناب کرناچاہئے، خاص طور سے کتا اور گانےبجانےکےآلات سے  ، ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  "لاتصحب الملائكة رفقة فيهاكلب ولاجرس "[6] "(رحمت کے)  فرشتےان مسافروں کےساتھ نہیں رہتےجن کےساتھ کتایا گھنٹا ہو"۔
موجودہ دورمیں یورپ اورامریکہ کی تہذیبوں سےمتأثرہوکرمسلم نوجوانوں نے سفر میں غیر شرعی  امورکی انجام دہی کواپنافیشن بنالیا ہے ،  ان کےلیےسفرمیں گانے بجانے جیسی چیزیں عام بات ہوگئی ہے ،اورملٹی میڈیا نےتو اس چیزکوان کےلیےاور آسان کردیا ہے،  واللہ المستعان
سفرکےلیےجمعرات کونکلنامستحب ہے
صحیح بخاری کےاندرہے : "عن عبدالرحمن بن كعب بن مالك عن أبيه رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوم الخميس في غزوة تبوك وكان يحب أن يخرج يوم الخميس"[7]" عبدالرحمن بن کعب  بن مالک سےمروی ہے ، وہ اپنےوالد کعب بن مالک سے روایت کرتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک میں جمعرات کو نکلےاورآپ جمعرات ہی کو  نکلناپسندفرماتے تھے"۔
ایک دوسری روایت میں کعب  بن مالک فرماتےہیں : قلماكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج إذاخرج في سفرإلايوم الخميس [8]"نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ ترسفرکےلیے جمعرات ہی کونکلاکرتےتھے " ۔
ملاحظہ : مذکورہ احادیث سےان لوگوں کےعمل کی تردیدہوتی ہےجوجمعرات کوصرف اس وجہ سےسفرکرنے میں حرج سمجھتےہیں کہ ان کاجمعہ چھوٹ جائےگا ۔
جمعہ کےدن سفرکرنےپرمکمل بحث ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں آئےگی لیکن بر سبیل  تذکرہ یہاں یہ بیان کردینا ضروری ہے کہ جمعہ توالگ ہے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم تو قربانی جیسےتہوارسےبھی ایک دودن پہلے سفرپر نکل جایا کرتےتھے ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ فرماتےہیں : "كنامع النبي صلى الله عليه وسلم في سفرفحضرالنحرفاشتركنا في البعير عن عشرة و البقرة عن سبعة"[9] "ایک سفرمیں ہم لوگ اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  تھے کہ قربانی کادن آگیا تو ہم نے ایک اونٹ میں دس آدمیوں کی طرف سے اورایک گائےمیں سات آدمیوں کی طرف سےقربانی کی"۔
صبح کےوقت سفرکےلیے نکلناچاہئے
       اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکرکوکسی مہم پربھیجتےتوصبح کے ابتدائی  حصّے میں بھیجتے ، اورصبح کو سفر کرنےوالےکےلیے دعاء  بھی فرماتے،  صخرغامدی رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :’’اللهم بارك لأمّتي في بكورها‘‘ وكان إذابعث سريّةً أوجيشاً بعثهم من أوّل النهار وكان صخر رجلاً تاجراً وكان يبعث تجارته من أوّل النهار فأثري وكثر ماله [10] "اےاللہ تو میری امّت کےصبح کےوقت نکلنے میں  برکت عطا فرما " (صخرکہتےہیں ) اورآپ جب کوئی سریہ یا لشکربھیجتے توصبح کےوقت بھیجتے(راوی کہتےہیں ) صخرایک تاجرآدمی تھے، وہ اپنےتجارتی مال کوصبح کےوقت بھیجتے تو( اللہ کےفضل اوراس کی برکت سے) وہ مالدارہوگئے اوران کےمال میں اضافہ ہوتاگیا  " ۔
شروع رات میں سفرکرنامکروہ ہے
جابربن عبداللہ سےمروی ہے،وہ فرماتےہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"لاترسلوا فواشيكم وصبيانكم إذاغابت الشمس حتى تذهب فحمة العشاء فإن الشياطين تنبعث إذا غابت الشمس حتى تذهب فحمة العشاء"[11] "اپنےجانوروں اوربچوں کوجب سورج غروب ہو جائے تو(باہر)مت بھیجویہاں تک کہ تاریکی کاابتدائی حصہ ختم ہوجائے، اس لیےکہ شیاطین غروب شمس کےوقت نکلتے ہیں   ، یہاں تک کہ تاریکی کاابتدائی حصہ ختم ہو جائے"۔
البتہ دوران سفررات میں سفرکرنامستحب ہے ، اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : "عليكم بالدلجة فإن الأرض تطوي بالليل"[12] " رات میں سفرکیاکرو کیو ں کہ زمیں رات میں سمٹ جاتی  ہے" ۔


جماعت کےساتھ سفرکرنامستحب ہے
         مختلف روایتوں میں اس بات کی صراحت ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےتنہاسفرکرنے سےمنع فرمایا ہے، یہا ں تک کہ ایک حدیث میں تنہاسفرکرنے والےکوشیطان سے تعبیرکیاگیا ہے ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سےمروی ہے کہ اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا : "لوأن الناس يعلمون من الوحدة ماأعلم ماسار راكب بليل وحده" [13] " اگرلوگ  تنہائی کی قباحت جان لیتےجومیں جانتاہوں توکوئی مسافر رات  کوتنہاسفرنہیں  کرتا "۔
ایک دوسری روایت میں عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہماسےمروی ہے ، فرماتےہیں: "نهى عن الوحدة أن يبيت الرجل وحده أويسافر وحده"[14] "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے تنہا رات گزارنے اورتنہاسفر کرنے  سےمنع فرمایاہے "۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا : "الراكب شيطان والراكبان شيطانان والثلاثة ركب"[15] "ایک سوارشیطان ہے اوردو سواردو شیطان  ہیں (یعنی یہ لوگ شیطان کاکام کرتے ہیں) [16]  اورتین سوارجماعت ہیں ".
مذکورہ روایت سےپتہ چلتاہےکہ اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم نےتنہاسفرکرنے سےمنع فرمایا ہے، امام خطابی اس ممانعت کی مصلحت سےمتعلق  فرماتےہیں : "المنفرد في السفرإن مات لم يكن بحضرته من يقوم بغسله ودفنه وتجهيزه، ولاعنده من يوصي إليه في ماله ويحمل تركته إلى أهله و يورد خبره إليهم، ولامعه في سفره من يعينه على الحمولة، فإذا كانوا ثلاثة تعاونوا وتناوبواالمهنة والحراسة وصلواالجماعة وأحرزواالحظ"[17] "اگرتنہامسافرکی وفات ہوجاتی ہے تو وہاں اسےغسل دینے والا ،  دفن کرنےوالااوراس کی تجہیز وتکفین کرنےوالا کوئی نہ رہے گا ،اورنہ ہی جس کواپنے مال کےسلسلےمیں وصیت کرسکے،جواس کےترکہ کواس کےگھر والوں تک پہنچا سکے، اور اس کی خبراس کےگھروالوں کودے سکے ،اورنہ ہی اس کےساتھ سفرمیں کوئی  ہوگا جوبوجھ وغیرہ اٹھانےمیں اس کی مددکرسکے،لیکن اگروہ تین ہوں گے توایک دوسرے کی  مددکریں  گےاورباری باری سے کام اور پہرہ داری کرسکیں گے،اورجماعت کےساتھ نمازپڑھ سکیں گے،  اور اس طرح بہت سےمنافع حاصل کرسکیں گے"۔
یہاں پریہ امرقابل غورہے کہ مختلف آثارتنہا (اکیلے) سفرکرنےکےجواز پر دال ہیں مثلا :
1 – مختلف امراء کےپاس آپ  نے خطوط لکھےتوقاصدوں اورحاملین خطوط کوتنہا ہی بھیجا۔
2 – علی  رضی اللہ عنہ کوسورۂ براءۃ کےساتھ مکہ تنہاہی بھیجاتھا ۔
3 –  ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کویمن تنہا ہی بھیجاتھا  ۔
4 – اسی طرعلماء ومحدثین قریہ قریہ شہرشہرحصول علم کی خاطرتنہاہی سفرکیاکرتے تھے۔
معلوم ہواکہ تنہا سفرکرنےکی ممانعت مطلق نہیں ہے، بلکہ حالات و ضروریات کے پیش نظربعض حالات کےساتھ مقیدہے ، لہذاممانعت کوتنزیہ پرمحمول کیاجائےگا،ابن المنیرفرماتے ہیں: "والخبر ورد في السفر، فيؤخذ من حديث جابر جواز السفر منفرداً للضرورة والمصلحة التي لاتنظم إلاّ بالإفراد كإرسال الجاسوس والطليعة، والكراهة لما عدا ذلك، ويحتمل أن تكون حالة الجواز مقيدة بالحاجة عند الأمن، وحالة المنع مقيدة بالخوف حيث لاضرورة"[18]۔"خبرسفرکےسلسلےمیں وارد ہے،جابرکی روایت سےضرورت ومصلحت کےوقت تنہا سفر کرنے کے جوازکا ثبوت ملتا ہے،وہ ایسی ضرورت ہوتی ہےجوصرف تنہاہی سفرکرنے سے حاصل  ہوتی ہے،جیسے جاسوس وغیرہ بھیجنا  اورکراہت وممانعت اس کےعلاوہ کے لیے ہے، اوریہ بھی ہوسکتا ہےکہ جوازبوقت امن ضرورت کےساتھ مقیدہواورعدم جواز حالت  خوف  کےساتھ مقیدہو،جبکہ تنہاسفرکرنےکی کوئی ضرورت نہ ہو"۔
سفرمیں  اجتماعیت  کی رعایت
       دوران سفراجتماعیت کی رعایت نہایت ہی ضروری ہے ، کیونکہ اس کے اندرخیرہی خیراوراس کی مخالفت میں شرہی شرہے،اگرسفرمیں مصاحب کی رفاقت چھوٹ جائے تو کن مصائب اورپریشانیوں کاسامناکرناپڑتاہے، ہرسفرکرنے والا اس سے اچھی طرح واقف ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   جب دوران سفرکہیں قیام پذیرہوتے تووادیوں میں پھیل جاتے، تواللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : "إنماتفرقكم في هذه الشعاب والأودية إنما ذلكم من الشيطان"[19] "تمہارا ان گھاٹیوں اوروادیوں میں بکھرناشیطانی عمل ہے"اس کےبعدسےوہ ایک دوسرے کےساتھ اس طرح رہتےکہ اگرایک کپڑا ان پرڈال دیاجاتا تو انہیں ڈھانپ لیتا ۔

           سفرمیں ایک آدمی کوامیربناناجس کی اطاعت کی جائے
ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:  "إذا  خرج ثلاثة في سفر فليؤمروا أحدهم"[20]"جب تین آدمی کسی سفرمیں نکلیں توایک کوامیربنالیں " ۔




[1]    دیکھئے  : مختار الصحاح    لفظ ( سفر )
[2]   دیکھئے  : المصباح  ( ص 16 )
[3]   القرطبي  ( ص 345)
[4]   مجموع فتاوى  ( 24 / 31 )
[5]   البخاري :رقم  ( 1864 ) ومسلم : رقم  (827)
[6] مسلم : كتاب اللباس والزینۃ/  27   باب کراھۃ الکلب  والجرس في السفر(رقم 2113 ) .
[7]   البخاری  : کتاب الجھاد   /103 باب من ارادغزوۃ فورّی غیرھا، ومن احب الخروج یوم الخمیس (6/113) النسائی (الکبری ) :  124 :3     بحوالہ  : تحفۃ الاشراف  (8/320) .
[8]))  البخاری  : کتاب الجھاد   /103 باب من ارادغزوۃ  فورّی غیرھا، ومن احب الخروج یوم الخمیس (6/113)  ابوداؤد : کتاب الجھاد /84 باب فی أي یوم یستحب السفر (3/79) أحمد (3/456) الدارمی : کتاب السیر /2 باب فی الخروج یوم الخمیس (2/134) النسائی (الکبری ) :  124 :3    بحوالہ  تحفۃ الاشراف   (8/320)   .
[9] النسائی : الضحایا /15 باب مایجزئ عنہ البدنۃ    في الضحایا (7/22) الترمذي  : کتاب الحج / 66  باب ماجاء في الاشتراک في البدنۃ‍ والبقرۃ (3/248) وکتاب الأضاحي /باب ماجاء  في الاشتراک في الأضحیۃ (4/89)  ابن ماجہ : کتاب الأضاحي /5 باب عن کم تجزئ البدنۃ‍ والبقرۃ (2/1047) =    = أحمد (1/275) اس حدیث  کی علاّمہ البانی نےتصحیح کی ہے ، دیکھئے : صحیح سنن النسائی  / رقم                    (  4090   ) .
[10] أبوداؤد: کتاب الجھاد /85 باب في الابتکار في السفر(3/79) الترمذي : کتاب البیوع /6 باب ماجاءفي التبکیربالتجارۃ (3/517) ابن ماجہ : کتاب التجارات /41باب مایرجی من البرکۃ في البکور(2/752) اس حدیث  کی علاّمہ البانی نےتصحیح کی ہے ، دیکھئے : صحیح سنن أبي داؤد /  رقم             ( 2270 ) .
[11]  مسلم : الأشربۃ /12 باب الامربتغطیۃ  الإناء۔۔۔۔(3/1594) أبوداؤد : الجھاد/ 83  باب کراھیۃ السیرفي اوّل اللیل (3/78) أحمد (3/312)
[12] أبوداؤد : الجھاد/ باب  في الدلجۃ  (رقم 2571) والحاكم في مستدركہ (1/445) ( وقال  : " صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه  " و وافقہ الذهبي ) والبيهقي في الكبرى (5/256) علامہ البانی نےاس روایت کی تصحیح کی ہے ، دیکھئے : الصحیحہ / رقم ( 681).
[13]  البخاري : كتاب الجهاد/135 باب السيروحده (6/138) الترمذي : كتاب الجهاد/4   باب ماجاءفي كراهیۃ أن يسافر الرجل وحده (4/193) النسائی (الکبری ) :  166 :3 بحوالہ :  تحفۃ  الأشراف   (6/38) ابن ماجہ : الأدب /45 باب كراهیۃ  الوحدة (2/1239) أحمد (2/23,24) الدارمي (2/200).
[14]  أحمد ( 2/91) یہ حدیث صحیح ہے ، دیکھئے : مجمع الزوائد (8/104) .
[15] مالك في المؤطا : كتاب الإستئذان /14 باب ماجاء في الوحدة في السفرللرجال والنساء (2/978) ابوداؤد : الجھاد/86  باب في الرجل يسافروحده (3/80) أحمد (2/186) الترمذي : كتاب   الجهاد/4   باب ماجاءفی کراھیۃأن يسافر الرجل وحده (4/193) امام ترمذی نےاس روایت کوحسن قراردیا ہے،  نیز علامہ البانی نےبھی اس کی تحسین کی ہے ، دیکھئے: صحیح سنن ابی داؤد /رقم  (2271) .
[16]  دیکھئے : عون المعبود ( 2/340).
[17]   دیکھئے  : عون المعبود( 2/340) .
[18]  دیکھئے  : فتح الباری ( 6/138).
[19] أبوداؤد : كتاب الجهاد / باب مايؤمرمن انضمام العسكروسعتہ رقم 2628 علامہ البانی نےاس کی تصحیح کی ہے،  دیکھئے : صحیح سنن ابی داؤد (2/130).
[20]  أبوداؤد : الجھاد/ 87  باب في القوم یسافرون یؤمرون أحدھم (3/81) علامہ البانی نے اس کی تحسین کی ہے،  دیکھئے: صحیح سنن أبی داؤد /رقم (2272).                                         

کوئی تبصرے نہیں: