منگل، 8 مئی، 2018

مسافت قصر


قصرکی مسافت سےمتعلق علماءکےمختلف اقوال ملتےہیں  :
پہلاقول  : ایک میل کی مسافت  تک کےسفرکےلیےنکلےتواس پرقصرہے ، یہ  مسلک داؤد ظاہری کاہے[1] ابن حزم ظاہری بھی اسی کی طرف گئےہیں[2]،  یہ لوگ دلیل میں قرآن کریم کی ایک آیت اورایک اثرپیش کرتے ہیں  :اللہ تعالی کاارشادہے  : (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُواْ لَكُمْ عَدُوّاً مُّبِيناً) [النساء:101] (اگرتم زمین میں سفرکی غرض سےچلو اورتمہیں ڈرہوکہ کافرتمہیں ستائیں گےتوتمہارےلیے نماز کا قصرکرنےمیں کوئی حرج نہیں ہے، واقعی کافرتمہارے کھلےہوئےدشمن ہیں ) ۔
اس آیت کی عمومیت  سےاستدلال کرتےہوئےکہتےہیں کہ  قرآن وسنت میں  اس قصر کی کوئی تعیین وتحدید نہیں  کی گئی ہے ، نیزاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میل سےکم کی مسافت پرقصرنہیں کیاہے، مثلا آپ کااورصحابہ کرام کابقیع کی طرف نکلنا اورقصرنہ کرنااسی طرح حوائج ضروریہ کےلیےریگستان کی طرف نکلنااورقصرنہ کرنا، اس بات پردال ہے کہ  ایک میل سےکم پرقصرنہیں ہے[3]۔
دوسری دلیل جبلہ بن سحیم کی روایت ہے، جسےابن ابی شیبہ  نے نقل کیاہے ، جبلہ کہتے ہیں کہ میں نےعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکویہ فرماتےہوئےسنا: "لوخرجت ميلاً قصرت الصلاة"[4]"اگرمیں ایک میل تک نکلتاتوقصرکرتا"۔
دوسراقول: تین میل پرقصرہے ، عام ظاہریہ اسی کےقائل ہیں[5] ، دلیل میں انس رضی اللہ عنہ  کی روایت پیش کرتے ہیں:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج مسيرة ثلاثة أميال – أو فراسخ – قصر الصلاة"[6]" اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم جب تین  میل –  یاتین فرسخ-     تک نکلتے  تونماز کا قصرکرتے "۔
حافظ ابن حجرلکھتے ہیں : " هوأصح حديث وردفي بيان ذلك و أصرحه" [7]   "یہ اس سلسلےکی صحیح  اور صریح  ترین حدیث ہے "۔
تیسراقول: تین فرسخ  (نومیل ) پرقصرہے ، علامہ عبیداللہ مبارکپوری لکھتےہیں  : "ہمارےزمانےکےبہت سارےعلما‏ئےاہل حدیث  اس طرف گئےہیں کہ مسافت قصر تین فرسخ ہے"  [8] ۔
دلیل میں انس رضی اللہ عنہ   کی مذکورہ روایت کوپیش کرتےہیں جس میں شعبہ کےشک کےساتھ "اوفراسخ" کالفظ واردہے  ، اورچونکہ تین فرسخ میں تین میل داخل ہے اس لیےزیادہ کولیاجائےگااورتین فرسخ متعین ہوجائےگا ، علامہ شوکانی رقمطرازہیں : "۔۔۔انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث تین فرسخ اور تین میل کےدرمیان مترددہے ،  اورتین میل  تین فرسخ کےاندرداخل ہے ، اس لیےاحتیاطا اکثر کواختیار  کیاجائےگا" [9]  ۔
موجودہ زمانےمیں تحقیق کےاعتبارسےتین فرسخ کانومیل ہوتاہے جو(1،4.14) کیلو میٹریا (۱،۳.21) کیلومیٹر  بنتاہے،علامہ البانی  نے اس کی تحدید 24کیلومیٹرسےکی ہے [10] اورعصرحاضر کے بعض  علماء کی طرف منسوب کرتےہیں  کہ میل 1680 میٹرکاہوتاہے [11]  اورالمعجم الوسیط میں ایک  میل کی تحدید 1609 میٹرسےکی گئی ہے [12] ۔
چوتھاقولاڑتالیس میل پرقصرہے ، یہ مسلک جمہورکاہے ، علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری اسی کوراجح قرار دیتے ہوئے رقمطرازہیں: "والراجح عندي ماذهب إليه الأئمة الثلاثة أنه لايقصر الصلاة في أقل من ثمانية وأربعين ميلاً بالهاشمي وذلك أربعة برد، أي ستة عشر فرسخاً وهي مسيرة يوم وليلة بالسير الحثيث" [13] " میرےنزدیک راجح وہی ہے جس کی طرف ائمۂ ثلاثہ گئےہیں کہ نمازکواڑتالیس میل  ہاشمی سےکم پر قصر نہیں کیاجائےگا،اڑتالیس میل چاربردہوتاہے یعنی سولہ فرسخ اور یہ درمیانی چال سےایک دن اورایک رات کی مسافت ہوتی ہے "اس رائےکے حاملین مندرجہ ذیل روایات سے استدلال کرتےہیں :
1 – امام بخاری نے تعلیقا [14]  اورابن المنذرنےموصولا [15]  روایت کیاہے کہ عبداللہ بن عمراورعبداللہ بن عباس  چاربرداوراس سےزیادہ کی مسافت پردورکعتیں  پڑھاکرتے تھےاورروزہ نہیں رکھتےتھے"۔
2 – امام مالک نےدلیل میں کئی ایک روایتیں پیش کی ہیں فرماتےہیں کہ  :"سالم بن عبداللہ اپنےوالدسےروایت کرتےہیں کہ انہوں نےریم تک کاسفرکیااوراس مسافت میں قصرکیا،جس کی مسافت تیس میل کی ہے" [16]  ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں: " عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانےذات النصب تک کاسفرکیااوراس مسافت میں قصرکیا" [17]  امام مالک فرماتےہیں کہ مدینہ اورذات النصب کےدرمیان چاربردکی مسافت ہے ،  اورآگےعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کااثربیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں: "عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مکہ اورطائف جتنی دوری کےسفرمیں قصرکرتے تھے،اسی طرح مکہ اورعسفان اورمکہ اورجدہ جتنی دوری کےسفرمیں قصرکرتے تھے" [18]  مذکورہ آثارکوذکرکرنےکےبعد لکھتےہیں  :" یہ تمام چاربردکی مسافت پرہیں اورقصرکےسلسلےمیں میرےنزدیک یہی راجح ہے "  [19]  ایک روایت  نافع سےکرتے ہیں کہ وہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکےساتھ ایک بریدکاسفر کرتےتوقصرنہیں کرتے [20]  اس روایت میں صراحت ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماایک بردپرقصر نہیں کرتے تھے اور چونکہ  دوسری روایتوں میں ان سےچاربردپرقصرثابت ہےاس لیے چاربردیعنی اڑتالیس میل متعین ہوجاتاہے  ۔
3 – عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتےہیں: "لاتقصروا الصلاة إلا في اليوم ولا تقصروا فيما دون اليوم" [21] "قصرصرف ایک دن کی مسافت میں کرو ایک دن سےکم کی مسافت میں نہیں "۔
ابن ابی شیبہ نےدوسرےطریق سےصحیح سندکےساتھ روایت کیاہے ، وہ فرماتےہیں: "تقصروا الصلاة في مسيرة يوم وليلة" [22]  "ایک دن اورایک رات کی مسافت والے سفرمیں نمازقصرکےساتھ پڑھو"۔
ان دونوں روایتوں کونقل کرنےکےبعدحافظ ابن حجرلکھتےہیں :" چاربرداورایک دن اورایک رات  والی روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہےکہ ممکن ہےکہ  چاربردکے سفر کی مسافت ایک دن  اورایک رات کےسفرکی مسافت کےبرابرہو" [23]  ۔
شیخ ابن عثیمین الشرح الممتع کےاندرفرماتےہیں: "برد : بریدکی جمع ہے اوربرید آدھے دن کی مسافت ہوتی ہے ، اس کانام بریداس لیے پڑاکہ  گزرے زمانےمیں جب تیز رفتارمراسلات بھیجتےتواسے بریدکے اعتبارسے بھیجتے،وہ اس طرح کہ ہرآدھےدن کی مسافت کے مابین ایک ٹھکانہ بناتے،جہاں پرایک تازہ دم گھوڑاہوتا ،مراسل جب وہاں پہنچتاتوآرام کرنےکے لیے پہلے والےگھوڑےسے اترجاتا اور پھرآدھےدن کی مسافت کےلیے دوسرےگھوڑےپرسوارہوجاتااورپھرآدھےدن کی مسافت طے کرنےکےبعدایک دوسراآرام گاہ پاتااورپھروہاں سے دوسرےگھوڑا پرسوار ہوکر آگے بڑھتا،یہ تیزرفتار مراسلت کے لیے کیاجاتا، اورواپسی میں بھی یہی تکنیک اپنائی جاتی ،لہذابریدان کے نزدیک آدھے دن کی مسافت کاہوتا،اس اعتبارسے چاربرددودن کا ہواجس کااندازہ زمینی  ناپ کے اعتبارسے چارفرسخ کالگایاگیاہے اس اعتبارسے چاربردسولہ فرسخ کاہوا،اورفرسخ کااندازہ تین میل سے لگایاگیاہے،جوکہ اڑتالیس میل بنتاہے،اوریہی قصرکی مسافت ہے"۔
اس حساب سےچاربرد   8. 76  کیلومیٹر ہواجوکہ دودن کی مسافت ہوئی اوراس کا نصف یعنی ایک دن 38.4  کیلومیٹرکاہوا۔
پانچواں قول:   ایک بریدپرقصرہے ۔ [24]  ۔
ان کی دلیل  ابوہریرہ کی مندرجہ ذیل روایت ہے جس کےالفاظ ہیں: "لايحل لإمرأة تسافربريداً إلا ومعها محرم"  [25]  "کسی عورت کےلیے  بغیرمحرم کےایک بریدتک کاسفرکرناجائزنہیں ہے "۔
چھٹاقول: چوبیس فرسخ پرقصرہے ، یہ مسلک حنفیہ کاہے  [26]  دلیل میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی حدیث پیش کرتےہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "لاتسافر المرأة ثلاثة أيام إلا مع ذي محرم" [27]  "عورت تین دنوں تک کاسفرنہ کرےالا یہ  کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو" وجہ استدلال یہ ہے کہ اونٹ کی عام چال ہردن آٹھ فرسخ ہوتی ہے [28] ،  اس اعتبار سے تین دنوں میں اونٹ پرچوبیس فرسخ طےکیاجاسکتاہے، لہذا مذکورہ روایت میں بیان کردہ حکم کے مطابق سفرکااطلاق تین دنوں کےسفرپرہی ہوتاہے ، اورجب اونٹ پر سفر کیاجائےتوتین دنوں میں  چوبیس فرسخ کی مسافت طےہوتی ہے ۔
ساتواں قول  :قصرکےلیےکوئی مسافت متعین نہیں ہے ، یہ قول امام ابن تیمیہ ، امام ابن القیم اورامام ابن قدامہ کاہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ  فرماتےہیں :"جولوگ قصراور روزہ نہ رکھنےکو جنس سفرمیں مشروع مانتےہیں اورکسی (متعین مسافت والے) سفرکےساتھ مخصوص  نہیں مانتے ان کےساتھ دلیل ہے اوریہی قول صحیح ہے ،اس لیےکہ قرآن وسنت میں  سفرکامطلق بیان ہواہے ، اللہ تعالی فرماتاہے: ( فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ –الآية) [البقرة:184] (جوتم میں سےبیمارہویابحالت سفرہوتو(اس کےبدلے) دوسرےدنون میں روزہ رکھے ۔ ) اسی طرح آیۃ تیمم میں ارشادہے(L إِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ –) [النساء:43 والمائدة: 6] (اگرتم بیماریاسفرکی حالت میں ہو اور۔۔ توپاک مٹی سےتیمم کرلو) اسی طرح نصوص ودلائل گزرچکےہیں  جوبتاتےہیں کہ مسافردورکعتیں ہی پڑھےگاکسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےیہ نقل نہیں کیاکہ آپ نےکسی سفرکومخصوص کیا ہو،باوجودیکہ آپ کوعلم تھاکہ سفرحرام وحلال دونوں طرح کا ہوتاہے ، اگریہ کسی سفر کےساتھ مخصوص ہوتاتواس کی وضاحت ضروری ہوتی ، اورآپ نےبیان کیا ہوتا توامت نےضرورنقل کیاہوتاحالانکہ مجھےعلم نہیں کہ کسی صحابی نےاسےبیان کیا ہے" [29] ۔
امام ابن القیم فرماتےہیں :"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی امت کےلیےقصراور روزہ نہ رکھنے کے لیے کسی محدود مسافت کومتعین نہیں کیاہے بلکہ  ان کےلیےمطلق سفرکابیان کیاہے، جیساکہ ان کے لیے ہرسفرمیں تیمم کومطلقا بیان فرمایاہے ، اورآپ سےایک ، دویاتین دنوں کی جوتحدید روایت کی جاتی ہے تواس میں سےکچھ بھی صحیح نہیں ہے" [30] ۔
امام ابن قدامہ لکھتےہیں :"دلیل ان لوگو ں کےساتھ ہے جوقصرکوہرسفرمیں مباح قرار دیتے ہیں، الا یہ کہ اس کےخلاف اجماع ثابت ہوجائے"  [31] ۔
کیلومیٹرمیں مسافت قصرکی تحدید: حبیب بن طاہرنےقصرکی مسافت کےلیے(77.66)کیلومیٹرکی تحدیدکی ہے [32] اورعبدالکریم نملہ نے (82)کیلومیٹرکی ہے  [33] ،وہبہ زحیلی کے مطابق مسافت قصر تقریبا (103) کیلو میٹرہے [34] ،اوردائمی کمیٹی برائے فتاوی کے اندرجمہورکی رائے کا اعتبار کرتےہوئے  مباح  قصرکی مسافت تقریبا (80 ) کیلومیٹرہے [35] ۔
راجح قول :مسافت قصرسےمتعلق جتنےبھی اقوال ہیں  تما م کی بنیادصحابہ کرام کے آثارہیں یا قیاس، اوراگر کوئی روایت ہے بھی تووہ ضعیف ومعلل ہے ، سوائے انس رضی اللہ عنہ سےمروی مسلم کی وہ روایت جس میں شعبہ کےشک کےساتھ تین میل یاتین فرسخ کابیان ہے ،اورچونکہ تین میل تین فرسخ میں مندرج ہے اس لیےعلمائے اہل حدیث نےاسی کواختیارکیاہے ، البتہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی رائےکچھ حدتک قوی ہے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں شعبہ کاشک کےساتھ  بیان کرنااس بات کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ اس میں جومسافت بیان کی گئی ہے وہ بھی تخمیناہے نہ کہ تحدیدا، اس لیےتین میل یاتین فرسخ کومتعین ماننامحل نظرہے کیونکہ اس ایک روایت کےعلاوہ کوئی دوسری روایت نہیں ہے جس میں یہ صراحت ہوکہ مذکورہ مسافت  ہی متعین ہے  ،اس کےبرخلاف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےاغلب عمل اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کےآثارسےپتہ چلتاہے کہ قصر کے لیےجنس سفر(یعنی عرف عام میں جسے سفرکہاجائے) کافی ہے  ۔
اگردیکھا جائےتو  مسافت کی تعیین وتحدیدایک طرح سےتکلیف مالایطاق کےقبیل سے ہوجاتی ہے کیونکہ موجودہ دورمیں وقت، دن یامسافت  کی تعیین ایک مشکل امر ہے کیونکہ بدلتےوقت کےساتھ وسائل وذرائع کےاختیاراوران کےاندرپائی جانے والی آسانیوں نےمسافت ووقت کو سمیٹ دیاہے اورہزاروں کیلومیٹرکا سفرآدمی گھنٹوں میں طےکرڈالتاہے مثلاہندستان سے سعودی عرب اورسعودی  عرب سے ہندستان کاسفر صرف آٹھ نوگھنٹےمیں طےکر ڈالتا ہے ،  پھرایسی صورت میں مسافت کی تعیین وتحدید کوئی معنی نہیں رکھتا   ۔ 




[1]   دیکھئے : سبل السلام  (2/39) الروض النضیر(2/364)
[2]    دیکھئے : نیل الاوطار(3/23) مرعاۃ المفاتیح (4/380)
[3]   دیکھئے : نیل الاوطار(3/234)
[4]    المصنف (2/445)
[5]   سبل السلام (2/39)
[6]  مسلم : كتاب المسافرين /1باب صلاة المسافرين وقصرها (1/481)أبوداؤد : كتاب الصلاة /271 باب متى يقصرالمسافر (2/8) أحمد(3/129)  ابن أبي شيبۃ في المصنف (2/442)
[7]    فتح الباري  (2/567)
[8]    مرعاۃ المفاتیح (4/381)                     [9] نیل الاوطار(3/235)
  [10]  سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /رقم 163 (1/98)
 [11]    سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /رقم 163 (1/98)
[12]      المعجم الوسیط (ص894)
 [13]    مرعاة المفاتيح  (4/381)
 [14]    البخاري : كتاب تقصيرالصلاة /4 باب في كم يقصرالصلاة (2/565)
[15]   دیکھئے : فتح الباری ( 2/566)
 [16]  مؤطا : كتاب قصرالصلاة في السفر /3 باب مايجب فيہ قصرالصلاة (1/147) و المصنف لعبدالرزاق (4301)
[17]     مؤطا : كتاب قصرالصلاة في السفر /3 باب مايجب فيہ قصرالصلاة (1/147) المصنف لابن أبي شيبۃ    (2/444)
[18]     مؤطا : كتاب قصرالصلاة في السفر /3  باب مايجب فيہ قصرالصلاة  (1/148)
[19]   مؤطا (1/148)
[20]    مؤطا (1/148)  المصنف لعبدالرزاق (4295)
[21]     المصنف لعبدالرزاق (2/524) وابن أبي شيبۃ (2/446)
 [22]    المصنف  (2/443)
 [23]    فتح الباری (2/566)
[24]    دیکھئے : سبل السلام ( 2/39)
 [25]  أبوداؤد : كتاب المناسك /2 باب في المرأة تحج بغيرمحرم (2/347) الحاكم (1/442) ابن حبان (6/439) رقم (2727) ابن خزيمۃ  (4/136) رقم (2526) والبيهقي (3/139) علامہ البانی نےاس روایت کوصحیح سنن ابی داؤد سےخارج کردیاہے ۔
 [26]   دیکھئے : سبل السلام (2/39)
[27]  البخاري كتاب تقصيرالصلاة /4 باب في كم يقصرالصلاة (2/566) مسلم : كتاب الحج /74 باب سفرالمرأة مع محرم إلى حج وغيره (2/975) أبوداؤد : كتاب المناسك /2 باب في المرأة تحج بغيرمحرم (2/348)
[28]  دیکھئے : سبل السلام ( 2/39)
[29]    مجموع فتاوی ابن تیمیہ (24/109)
[30]    زادالمعاد(1/481)
 [31]   المغنی (2/258)
  [32]   الفقہ المالكي وأدلتہ ( 1/315)
 [33]     تيسيرالفقہ (1/666)
 [34]    الفقہ الحنبلي وأدلتہ (1/361)
 [35]  فتاوى اللجنۃ الدائمۃ /السؤال السابع /رقم (6261)

کوئی تبصرے نہیں: