جمعرات، 14 ستمبر، 2023

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی

 

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ  (ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے)

إنماالموتُ مُنْتهى كُلِّ حيّ  (ہرجاندار کی انتہا موت ہے)

                          ابھی کل ہی کی بات ہے اہلیہ سے فون پر بات ہورہی تھی ، اچانک انہوں نے اپنا ایک خواب بیان کرنا شروع کردیا حالانکہ میں نے انہیں  ہر وہ خواب بیان کرنے سے منع کررکھاہے جو بُرے اور ڈراونے ہوں ،لیکن شاید انہیں یہ خواب بُرا یا ڈراونا نہیں لگا ،     یا  انہیں  لگا ہو کہ جس سے انہیں یگ گونہ محبت ہے گرچہ وہ دنیامیں نہیں ہیں حالت خواب میں  اس سے ملنے جارہی تھیں اس لئے بیا ن کردینےمیں کوئی حرج نہیں ہے۔

خیر میں نے اطمینان سے  ان کا خواب  سنا اور انہیں پھر یاددہانی کرائی کہ میں نے اس طرح کے خواب کوبیان کرنے سے منع کیاتھا،  کہنے لگیں کہ میں نے اس میں کوئی قباحت یا کسی طرح کی کوئی چیز محسوس نہیں کی اس لئے بیان کردیا ، ان کا  خواب تھا کہ : میری بڑی بہن (جن کا انتقال گزشتہ رمضان میں ہواتھا ) سے ملنے جارہی  ہیں  کہ اچانک راستے میں ایک گڑھا آگیا جس کی وجہ سے دروازہ تک جانا مشکل ہوگیا پھر دوسری جانب سے بہن کی کھڑکی پر جاکر انہیں آواز دیا۔

 خواب  معمولی ساتھا لیکن اسے سن کر میرا دل پریشان ہوگیا اورخیال آیا کہ ان کے سامنے شاید کوئی حادثہ ہونے والاہے، اور چونکہ ان کےوالد صاحب کئی سالوں سے صاحب فراش تھے اس لئے ان  کی طرف خیال کا بھٹکنا  بدیہی تھا۔

آج  صبح ناشتہ کرکے آفس میں جوں ہی بیٹھا ان کا فون آیا کہ میکے سے فون آیاتھا والد صاحب کو  کافی بےچینی  محسوس ہورہی ہے ،ان کی کال  کاٹ کر میں نے  فورا  اپنے سالے کوویڈیو کال کیا تاکہ انہیں دیکھ سکوں اور خیریت لینے کے ساتھ  کچھ ہدایات دے سکوں، کافی نحیف نظرآرہے تھے اور گھر کے افراد آس پاس بیٹھےہوئے تھے میں نے سلام کیا تو سلام کا جواب دیا قدرے عافیت میں لگ رہےتھے پھرمیں نے  گھروالوں کو کھانے پینے اورعلاج سے متعلق کچھ ہدایات  دیااور  اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔تقریبا آدھے گھنٹہ کے بعد بڑی بچی کا میسیج ملا کہ نانا کا انتقال ہوگیا ،زبان پر ۔إنا لله وإنا إليه راجعون۔ کا ورد جاری ہوگیا۔

ان کی عمراسی سے  نوے سال کے درمیان رہی ہوگی جب تک ہاتھ پاؤں چلتارہا شاہانہ زندگی بسر کی بڑھاپےمیں بھی غضب کی پھرتی تھی اپنے گھرسے موتیہاری تقریبا پینتالیس کیلومیٹر سائیکل سے آنا جانا کرلیتےتھے، مجھے  بےحد عزیز رکھتے بلکہ اپنے بیٹوں سےزیادہ قدر ومحبت دیتے ، نفاست ایسی تھی کہ ہمیشہ اپنے بستر سے لے کر سائیکل اور دیگر سامان کو صاف ستھرا رکھتے اورکسی کو ان کے قریب بھی نہیں آنے دیتے ،لیکن میں جب بھی ان  کے یہاں  جاتا نہایت ہی محبت سے کپڑا بدلنےکے لئے اپنی لنگی پیش کرتے اور کہتے کہ کہیں جانا ہوتو میری سائیکل لے کرجانا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ  جوانی سے لے کربڑھاپے تک اپنی نفاست پسندی کی وجہ سے  کبھی   بچوں یا ناتی پوتوں کو اپنے قریب نہیں آنے دیا ۔لیکن جب میری بچیاں پیداہوئیں تو انہیں اپنی گود میں لیتے یہاں تک کہ ان کی  ناک وغیر ہ بھی صاف کرتےدیکھےگئے۔جامعہ امام ابن تیمہ میں جب تک رہا  ہر دوسرے تیسرے دن گھر سے سائیکل کے ذریعہ آتے اور ہمار ےبچوں کی ضروریات کی چیزیں لاتے ، اسی طرح جب بھی  گاؤں  جاکر وہاں کچھ دن گزارنا ہوتا یہ سن کر کافی خوش ہوتے اور ہمارے وہاں پہنچنے سے قبل ہی اناج اور دیگر ضروریات کا سامان  خرید کر پہنچ جاتے ۔

آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں ان کی  طبعی عمرمیں وفات کے بعد بھی دل  بےچین ہے ، دنیا کی یہی ریت ہے کہ آنے والا آتاہے اور جانے والا چلا جاتاہے،لیکن دنیا ویسے ہی چلتی رہتی ہے،  ہر چیز اپنے وقت پر مقدر ہے ۔

یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں       اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی

انہوں نے اپنے پیچھے  چھ بیٹے اور  دوبیٹیاں اور ان کے ساتھ بےشمارناتی پوتے چھوڑاہے ۔


عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی  (7/9/2023ء) 

*********

 

کوئی تبصرے نہیں: