خدمت خلق اور اسلام
عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی (سعودی عربیہ)
مذہب اسلام ایک آفاقی مذہب Universal religion ہے،جسے رب کائنات نے قیامت تک کے لئے
ساری دنیاکا آخری اور سچا مذہب قراردیاہے، فرماتاہے : (إِنَّ الدِّينَ
عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ) (اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے)۔ (سورۃ آل عمران:19) اور اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
بارے میں فرماتاہے:( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعَالَمِينَ ) ۔(ہم
نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکربھیجاہے۔)۔(سورۃالانبیاء:107)چنانچہ خالق
باری پرایمان ویقین ، اس کاتصور اور اس کے احکامات پر عمل
اور اس کی دعوت اسلام کا بنیادی عنصرہیں اوریہی ایمان ویقین اورتدبروتعامل ہمیں اس کی کاری گری
میں غوروفکر اس کی مخلوق کی حیثیت اوراس کی ضرورت کو سمجھنے اورپرکھنےکا
راستہ دکھاتاہے، جس کے ذریعہ مخلوق کی واجب ضروریات اور احتیاجات کی تکمیل کی
اہمیت وضرورت کا پتہ چلتاہے ،جسے
ہم عام اصطلاح میں خدمت خلق سے تعبیرکرتے ہیں۔
خدمت خلق اورلوگوں کی ضرورتوں کوپوری کرنا نہایت ہی عظیم فضل کا حامل
اوران اعمال صالحہ میں سے ہے جن کے ذریعہ بندہ اللہ رب العزت کا تقرب حاصل کرتاہے۔
اللہ تبارک وتعالی نے اس نیک عمل کی وصیت بھی کی ہے، فرماتاہے:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُونَ ﴾۔(اےایمان
والو! (اللہ کےلئے) رکوع کرو، سجدہ کرو اپنے رب کی عبادت کرو اورخیروبھلائی کاکام
کرو تاکہ کامیاب ہوسکو)۔ (سورۃالحج: 77)۔ لہذ ا خدمت خلق ایسی نیکی ہےجواللہ
رب العزت کوبہت زیادہ محبوب ہے، یہ ایک عبادت بھی ہے۔ اسی لئےشریعت
اسلامیہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بتلائی گئی ہے۔ اور اس کی اہمیت وضرورت
کونہایت ہی بلیغانہ اندازمیں بیان کرکے مسلمانوں کو خدمت خلق پر ابھارا گیا ہے،اور اگر یہ خدمت انسان کی ہو خواہ
حیوان کی خلوص و للہیت کے ساتھ کی جائے تو معمولی سا معمولی کام بھی جہنم سے آزادی
اور جنت میں داخلہ کا سبب بن سکتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا، نفس الله عنه
كربة من كرب يوم القيامة، ومن يسّر على معسر، يسّر الله عليه في الدنيا والآخرة ، ومن ستر مسلما
ستره الله في الدنيا والآخرة، والله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه " ۔"جس شخص نے کسی
مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی
تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی،
اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی
پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللہ
تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں
لگا رہتا ہے"۔ (صحیح مسلم /2699)،اور
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: "من كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرج
عن مسلم كربة فرج الله عنه بها كربة من كرب يوم القيامة "۔" جو
اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتاہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرتاہےاورجس نے کسی
مسلمان کی کسی تکلیف کودورکیاتواللہ تعالی آخرت میں اس کی
کسی تکلیف کودورفرمادےگا"۔(صحیح بخاری /2442 وصحیح مسلم/2564) نیز صحیحن میں ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"السَّاعِي عَلَى
الأَرْمَلَةِ وَالمِسْكِينِ، كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ القَائِمِ اللَّيْلَ
الصَّائِمِ النَّهَارَ"۔"بیوہ اورمسکین کے لئے کوشش
کرنےوالا اللہ کےراستے میں جہادکرنےوالےکی طرح ہے یارات میں تہجدگذاراوردن میں
روزہ دارکی طرح ہے"۔ (صحیح بخاری /5353 وصحیح مسلم/2982)۔ لہذامعلوم ہواکہ کارخیرمیں لوگوں کی کسی
بھی طرح کی مدد اوران کا تعاون عظیم نیکی ہے جس کا کرنے والا دنیاوآخرت
میں عظیم اجرسے نوازہ جائےگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے تمام انبیاءا و ررسولوں نے خود دوسروں کی خدمت کی ہے اور اس کی تلقین و
تاکیدبھی کی ہے۔
خدمت خلق کا مطلب :
خدمت
خلق ایک جا مع تصورہے جو اپنےاندروسیع مفہوم رکھتا ہے،مختصرالفاظ میں
اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے: "رضائے الہی کے لیے تمام مخلوق خصوصاً
انسانوں کے سا تھ جائز امور میں مدد خدمت خلق ہے"۔ ہم اسے موجودہ
اصطلاح میں social
welfare service
کہہ سکتےہیں۔
خدمت
کا تعلق :
خد
مت خلق کے بنیادی دو حصے ہیں جن میں ایک کا تعلق جانوروں
کے ساتھ ہے اوردوسرےکا انسانوں کے ساتھ۔ جہاں اللہ تبارک وتعالی نے انسان کے
ساتھ اچھےمعاملات کاحکم دیاہے وہی پرغیرانسان کےساتھ کئے جانےوالےسلوک پربھی اپنی
رضاوناراضگی کااظہارکیاہے،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہےکہ اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" ایک آدمی راستہ میں چل رہا تھا اسی
دوران اس کو بہت زور کی پیاس لگی۔اس کو ایک کنواں ملا جس میں اس نے اتر کے پانی
پیا، پھر جب وہ باہر نکلا تو اس نے ایک کتے کو پایا کہ وہ زبان نکالے ہوئے ہا نپ
رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا ہے،یہ دیکھ کر اس نے کہا: اس کتا کی پیاس
سے وہی حالت ہے جو میری تھی۔ لہذا وہ کنواں میں اترا پھر اپنا چمڑا والا موزہ پانی
سے بھرا اور کتا کو پلایا، اس پر کتے نے اللہ سے اس کا شکریہ ادا کیا،اور اللہ نے
اس کام کی قدر کی، اوراس کو بخش دیا، یہ سن کر صحابہ کرام نے آپ سے دریافت کیا کہ
اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ
وسلم ) کیا ہمارے لیے جانوروں میں بھی اجر و
ثواب ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ ہر تروتازہ یعنی زندہ جگر والے میں اجر ہے"۔(صحیح
بخاری /173، 2363)۔
ایک
دوسری متفق علیہ روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےہی مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "ایک کتا ایک کنواں کے ارد گرد گھوم رہا تھا۔
قریب تھا کہ پیاس کی وجہ سے مرجائے۔اسی دوران اچانک اس کو بنو اسرائیل کی ایک
زانیہ عورت نے دیکھ لیا تو اس نے اپنا چمڑا والا موزہ نکال کے اس کے ذریعہ پانی
نکالا اور پھر اس کو پلادیا۔جس کی وجہ سے اس کو بخش دیا گیا"۔(صحیح بخاری
/3280 وصحیح مسلم/4171)۔
ان
دونوں احادیث سے خدمت خلق کے عظیم ثواب کا پتہ چلتا ہے۔ اخلاص کے ساتھ انجام دی
گئی ایک معمولی خدمت اور وہ بھی ناپاک جانور کے ساتھ اللہ کی مغفرت و رضامندی کا
باعث بن گئی۔ اس سے بڑا اجر و ثواب اور کیا ہوسکتا ہے۔یقینا یہ سب سے بڑی کامیابی
ہے۔
خدمت
خلق کادوسراحصہ انسان کے ساتھ ہے جومسلم، غیرمسلم، قریبی، رشتہ دار، پڑوسی،
دوست واحباب، اہل قریہ اور اہل وطن سب کےساتھ عام ہے، بلکہ ضروریات وحالات
کے حساب سے اس کی ضرورت اواہمیت بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ بعض حالات میں
فرض وواجب بھی ہوتاہے جیسے والدین کی خدمت وغیرہ ۔
خدمت
خلق کی صورتیں :
خدمت
خلق کسی ایک صورت میں محدود نہیں ہے بلکہ اس کی بے شمار اور مختلف صورتیں
ہیں مثلا:پیار و محبت کے ساتھ اچھے اسلوب میں بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے
روکنا۔ضرورت مند کواپنے کارو بار اور زراعت وغیرہ میں شریک کرنا۔کسی کو اچھا و نیک
مشورہ دینا،جس سے مشورہ کرنے والے کا بھلا ہو۔کسی
بیمار کا علاج کرادینا۔اس کی عیادت کرنا اس کےلئے دعاءکرنا، صحیح مسلم کے
اندرابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایا:"اللہ عزوجل قیامت کےروز کہے گا : اے ابن آدم ! میں
بیمارہواتوتونے میری عیادت نہ کی ؟ وہ آدمی کہےگا: اےرب توتورب العالمین ہے میں تیری عیادت کیسے کرسکتاتھا؟ تواللہ
فرمائےگا : تجھے پتہ نہیں تھاکہ میرافلاں بندہ بیمارہے، اس کےباوجودتونے اس کی
عیادت نہ کی؟ کیاتجھےیہ معلوم نہیں تھاکہ اگرتواس کی زیارت کرتاتومجھےاس کےپاس
پاتا"۔(صحیح مسلم/2569)۔"یعنی
میری رضا، میراثواب اورمیری کرامت اس کےپاس پاتا"۔(مشکل الحدیث وبیانہ:1/152 و مرعاۃ المفاتیح:5/217)۔
اسی
طرح کسی بھوکے پیاسے کو کھانا و پانی دینا،اللہ عزوجل قیامت کےروز کہے گا :"
اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانامانگا توتونے مجھے کھانانہیں دیا؟" وہ آدمی
کہےگا: اےرب توتورب العالمین ہے میں تجھے کیسے کھلا سکتاتھا؟ تواللہ فرمائےگا :
کیاتجھے پتہ نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اورتونے اسے نہیں
دیاتھا، ؟ تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگرتو اسے کھلاتا تواسے میرےپاس پاتا، اے ابن
آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا توتونے مجھے پلایانہیں ؟" وہ آدمی کہےگا:
اےرب توتورب العالمین ہے میں تجھے کیسےپلا سکتاتھا؟ تواللہ فرمائےگا: کیاتجھے پتہ
نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا اورتونے اسے نہیں دیا تھا، ؟
تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگرتو اسے پانی پلاتا تواسےمیرےپاس پاتا"۔(صحیح
مسلم/2569)۔ اسی طرح کسی محتاج کے گھرمیں یا محلے
میں یا عام گزرگاہوں پر پینے کے پانی کا وقتی یا دائمی انتظام کردینا۔ کسی غریب
وضرورت مند کی مادی و معاشی مدد کردینا، صحیح بخاری کے اندرابوموسی اشعری رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "بھوکے
کوکھاناکھلاؤ، مریض کی عیادت کرواورقیدی کوچھڑاؤ"۔(صحیح بخاری /2881)۔نیزیتیموں و غریبوں کی شادی کرادینااوراس
کےلئےاسباب فراہم کردینا وغیرہ۔ کسی حاجت مند کو بنا سود کے قرض دینا۔ کوئی سامان
کچھ مدت کے لئے ادھار دینا۔کسی کو تعلیم دلا دینا۔قوم وملت کے بچوں کے لئے
تعلیمی ادارے قائم کرنا۔ ننگے بدن کو لباس فراہم کرنا۔ درخت اور پودا لگا دینا جس
سے انسان و حیوان فائدہ اٹھائیں۔کسی زخمی کی مدد کردینا۔کسی بھولے بھٹکے کو راستہ
بتادینا۔ کسی مسافر کی مدد کردینا۔ بیوہ، یتیم اور مسکین افرادکی مدد
کی خاطررفاہی ادارے قائم کرنا۔اسی طرح کسی کی جائزسفارش کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل
کردینا، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے اندرابوموسی اشعرری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ : جب
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس کوئی اپنی ضرورت لے کرآتاتوآپ فرماتے :"
کوئی اس کی سفارش کرے اسے ثواب ملے گا، اللہ تعالی اپنے نبی کی زبان کے ذریعہ اسے
چاہےتوپورا کردے"۔ (صحیح بخاری /5283 وصحیح مسلم/2627)۔
اسی
طرح کسی کا کام کرنے کے لیے اس کے ساتھ جانا۔کسی کو گاڑی کے ذریعہ اس کے گھر
یا منزل مقصود تک پہونچا دینا۔اپنے کام کے ساتھ دوسرے کا بھی کام کر دینا۔مثلا
اپنا سامان خریدنے گئے دوسرے کا سامان بھی لیتے لائے۔کسی مظلوم کا حق دلا
دینا۔راستہ سے تکلیف دہ چیزکاہٹا دینا۔ وغیرہ، غرضیکہ حسب استطاعت خدمت خلق
کی بے شمار صورتیں ہیں۔
خدمت
خلق کے دینی ودنیاوی فائدے:
خدمت
خلق کے بے شماردینی ودنیاوی فائدےبھی ہیں، جن میں سے چند کا ذکرکرنا مناسب
ہے :
-
خدمت خلق سے معاشرےمیں، رشتہ داروں اوراحباب میں محبت والفت پھیلتی ہے۔
-
خدمت خلق نیکی کرنےکے بہترین وسائل میں سے ہے۔
-
خدمت خلق اللہ کی قربت کا ذریعہ اوراللہ کےنزدیک اجرکاسبب ہے،اللہ تعالی
فرماتاہے: ﴿ وَمَا
تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍتَجِدُوهُ عِنْدَاللَّهِ هُوَخَيْرًاوَأَعْظَمَ
أَجْرًا﴾۔(جونیکی تم اپنے لئے آگےبھیجوگےاسے
اللہ کےیہاں بہترسےبہتراور ثواب میں بہت زیادہ پاؤگے) ۔(سورۃالمزمل: 20)۔
-
خدمت خلق کے لئے لوگوں انتخاب خود اللہ رب العزت کرتاہے :امام طبرانی نے عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت کیاہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم
نےارشادفرمایا: " اللہ کےکچھ بندےہیں جنہیں لوگوں
کےفائدےکےلئےنعمتوں کے ساتھ خاص کررکھاہے"۔(طبرانی :الاوسط /6162،اس روایت
کوعلامہ البانی نے صحیح الجامع /2164کے اندرحسن لغیرہ قراردیاہے)۔
-
خدمت خلق کرنےوالے سے اللہ تعالی محبت کرتاہے:ابن ابی الدنیا اورطبرانی نے عبداللہ
بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت کیاہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم
نےارشادفرمایا :"اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ
آدمی ہے جولوگوں کےلئے زیادہ نفع بخش ہو،اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کسی
مسلم کوخوشی دینایااس کی کسی تکلیف کودورکرنایااس کا قرض اداکردینایا اس کی بھوک
مٹادیناہے۔ اورمیں کسی بھائی کے ساتھ اس کی کسی ضرورت کو پوری کرنے کے لئے چلوں وہ
میرے نزدیک اس مسجدیعنی مسجدمدینہ میں ایک ماہ اعتکاف کرنے سے زیادہ پسندیدہ
ہے"۔ (طبرانی :الاوسط /6026،ابن ابی الدنیا:قضاء حوائج الناس
/36، اس روایت کوعلامہ البانی نے صحیح الجامع/2623 کے اندرحسن
لغیرہ قراردیاہے)۔
-
لوگوں کی ضروریات کوپوری کرنے والے کی مدد اللہ تبارک وتعالی کرتاہے۔
- تعاون
علی الخیرایک اہم انسانی ضرورت ہے جس سے معاشرےکاکوئی بھی فردبےنیازنہیں ہوسکتا۔
-
خدمت خلق معاشرے کی اجتماعیت کے
اسباب میں سے ایک ہے : متفق علیہ روایت میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے
ارشادفرمایا: "مومن مومن کےلئے دیوارکی بنیاد کی طرح ہےجوایک دوسرے
کومضبوطی سے تھامے رہتاہے"پھرآپ نےاپنی انگلیوں کوایک دوسرے
سےملایا۔(صحیح بخاری /5594 وصحیح مسلم/4812)۔
- خدمت
خلق سے آپسی بھائی چارے اورمحبت والفت کوراہ ملتی ہے : صحیح مسلم میں نعمان بن
بشیررضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:" آپسی
الفت ورحمت اورنرمی میں مومن کی مثال جسم کی طرح ہے،جس کےایک
حصےکوبیماری ہوتی ہے توساراجسم اس سےمتاثرہوتاہے"۔(صحیح بخاری /6011 وصحیح
مسلم/2586)۔
-
خدمت خلق کرنے والا قیامت کےدن اللہ کی امان میں ہوگا:صحیح مسلم
کےاندرہے: "جس نےغریب قرضدارکومہلت دیایا قرض کومعاف کردیا اللہ تعالی
اسے اپنے عرش کےسایےمیں رکھےگا"۔(صحیح مسلم /3006)۔
- ایک
روایت میں ہے :"سب سے افضل عمل مومن کو خوشی پہنچانا ہے،
اسے کپڑا پہنانا، اس کا بھوک مٹانایا اس کی کوئی ضرورت پوری کردینا"۔(علامہ
البانی نے اس روایت کو حسن لغیرہ قراردیاہے۔صحیح الترغیب والترہیب/2621)
-
خدمت خلق سے بےاعتنائی برتنےوالا اللہ تعالی کی ناراضگی کاشکارہوگا،اللہ کےرسول
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کوئی حاکم جب کسی ضرورت مند، فقیرومسکین کے
لئے اپنادروازہ بندکردیتاہے تواللہ تعالی اس کی ضرورت وحاجت کے
وقت آسمان کے دروازے بندکردیتاہے "۔ اسی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے
باضابطہ ایک آدمی کولوگوں کی ضروریات سننے پرمامورکیاتھا۔(سنن الترمذی/1332علامہ
البانی نے صحیح ترمذی کےاندراس روایت کوصحیح قراردیاہے)۔
خدمت
خلق اور سیرت نبوی :
خدمت
خلق میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمارےلئے اسوہ اور نمونہ
ہے،آپ نے نہ یہ کہ اس پر مسلمانوں کوابھارہ ہے اوراس کی فضیلت
بیان کی ہے بلکہ آپ نے خود ہرموقع سے اس کارخیرمیں بڑھ چڑھ کرحصہ بھی لیاہے، آپ
کبھی بھی کسی بیوہ، مجبوریا مسکین کے ساتھ جاکراس کی ضرورت پوری کرنے کوحقیرنہیں
سمجھتے اورنہ کسی کومنع کرتے۔بچپن سےلےکروفات تک آپ کی زندگی میں ڈھیروں
واقعات ملتےہیں جن سے پتا چلتاہے کہ کس طرح آپ لوگوں کی خدمت میں حریص تھے
اور پیش پیش رہاکرتےتھے، موقع کی مناسبت سے ان میں سے چند واقعات کی طرف اشارہ
کردینا مناسب ہے:
صحیحین
کےاندراورسیرت کی تقریبا تمام کتابوں کے اندراس واقعہ کا ذکرملتاہےجس میں آپ کی
پہلی ملاقات جبرئیل علیہ السلام سے ہوئی توآپ شدت خوف سے کافی پریشان تھے ایسے
موقع سے خدیجہ رضی اللہ عنہانے اپ کوتسلی دیتےہوئے فرمایا:اللہ کی قسم! اللہ آپ
کوکبھی شرمندہ نہیں کرےگا، آپ صلہ رحمی کرتےہیں اور کمزوروں کی مدد کرتےہیں،
محتاج کومالی مدد دیتےہیں، مہمان نوزی کرتےہیں اورمصیبتوں پرلوگوں کی مدد کرتےہیں
"۔(صحیح بخاری /3، صحیح مسلم/231)۔صحیح
بخاری کے اندرانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مدینہ میں ایک لونڈی
تھی جب اسے کسی قسم کی ضرورت پیش آتی تو وہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم
کوجہاں چاہتی لے جاتی اورآپ اس کی ضرورت کوپوری کرتے۔(صحیح بخاری /6072)۔صحیح مسلم کےاندرہے کہ ایک ذہنی
طورپرمعذورعورت نےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاکہ اے اللہ کے رسول! میری
ایک ضرورت ہے توآپ نے فرمایا : "اے ام فلاں ! کہاں چلنا ہے، بولو تاکہ تمہاری
ضرورت پوری کرسکوں ؟"، پھرآپ اسے کسی راستےپرلےکرگئے یہاں تک کہ اس
نے اپناکام ختم کرلیا۔(صحیح مسلم /2324)۔عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے : "اللہ کی قسم ہم لوگ سفروحضرمیں ہرجگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے ساتھ رہے، آپ ہم میں سے بیماروں کی عیادت کرتے، ہمارےجنازوں میں شریک
ہوتے، ہمارے ساتھ غزوہ میں ہوتے اورتھوڑے بہت سے ہماری دلجوئی فرماتے"۔(مسند
احمد/ 246:1،شیخ احمد شاکرنے اس روایت کو حسن قراردیاہے)۔
خدمت
خلق میں اسلاف کا کردار:
خدمت
خلق کی انہیں فضیلتوں اوراہمیت کے پیش نظر ہمارےاسلاف ریاء ودکھاوہ سے بچتےہوئےہمہ
دم اس کارخیرمیں پیش پیش رہاکرتےتھے، کیاحاکم، کیاامیرکیاغریب سب کے سب اس میں بڑھ
چڑھ کرحصہ لیتے، عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں آتاہے کہ آپ راتوں میں اٹھ
کرگلیوں کے چکرلگاتےاورضرورت مند کی ضرورتوں کوپوری کردیتے۔ خدمت خلق
میں کیا شہر کیاگاؤں
، کیا وطن کیا میدان جنگ ،عرب
وعجم جہاں بھی اسلاف گئے وہاں ان کے بےشمار کارناموں کے نقوش ملیں گے، جن سے
تاریخ کے صفحات بھی بھرے پڑے ہیں، اگر ان سب کا ذکرکیاجائے تو بحث لمبی ہوتی چلی
جائےگی۔
ماضی
قریب میں خدمت خلق کا یہی جذبہ تھا کہ پوری دنیامیں عوام وخواص
سب کی طرف سے قائم کئے گئے رفاہی وتعلیمی اداروں کاایک جال بچھا ہواہے، اللہ
ان اداروں کو قائم ودائم رکھے اور ان کے قائمین کو دنیا وآخرت میں بہترین اجرسے
نوازے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلاف کے اس میراث کو نیک دلی کے ساتھ آگے لے
کربڑھیں، اور وقت کے مطالبات وضروریات اور نئے وسائل وذرائع کو بروئے کار
لاکر قوم وملت اور خلق باری کی خدمت کا فريضہ انجام دیں اور اس راہ میں مزید
کوشش وتگ ودو کریں۔
خدمت
خلق میں زکوۃ وصدقات اور عطیات
کا رول:
اسلام
کا اہم رکن زکاۃ دینی وروحانی اہمیت وفوائد رکھنے کے ساتھ ساتھ
خدمت خلق کاوہ اہم ذریعہ اورمضبوط ستون ہے جس کی مثال دنیاکے کسی بھی مذہب
میں ملنامشکل ہے ،اس کےمصارف اور افرادو معاشرےپراس
کےاثرات کا بغائرمطالعہ کرنے سے خدمت خلق کے تئیں اسلام کی پیش رفت اوراہتمام
کا پتہ چلتا ہے۔ یہاں تک کہ صدقہ جاریہ کی فضیلت کوبیان کرکے مسلمانوں کو خدمت خلق
کےلئے اس اہتمام کی طرف کی راہنمائی کی گئی ہےکہ دنیاسے جانے کےبعدبھی مخلوق مستفید ہوتی رہے۔ زکوۃ
وصدقات نے معاشرہ سے لے کرممالک ودول تک کتنے خدمات انجام دئے ہیں کوئی
ڈھکی چھپی چیزنہیں ہے، اگر سچ کہاجائے تو صدقات وزکوۃ کا نظام ایک ایسا نظام ہے جس
نے معاشرے کی خدمت میں سب سے زیادہ اپنا رول نبھایاہے اور اس کی ضرورت ہردور اور
ہرمعاشرے کوہے۔ اور یوں بھی انسان کے لئے
عالمی اور معاشرتی ہر دو پیمانے پر اس سے بڑی خدمت کوئی دوسری نہیں ہو
سکتی ، تعلیم وتعلم، دعوت وارشاد، معاشی ومعاشرتی پریشانیوں کا حل، ملک
کی ترقی، افراد قوم کی پرسکون زندگی، بیوہ ویتیم اور مساکین وفقراء کی
اطمینان بخش زندگی، آفات ناگہانی اور مصائب وبلایا میں گرفتار افراد وقوم کی مدد،
طبی خدمات، ماحولیاتی مسائل کا حل اور ان کے علاوہ زندگی کے ہر شعبےمیں زکوۃ
وصدقات کا اہم بلکہ نہایت ہی اہم اورواجبی رول ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں لوگوں کواللہ کی جانب سے فرض کردہ زکوۃ کے
ساتھ ساتھ عمومی صدقات پر ابھارہ ہے وہی خود
پوری زندگی اس کا نہایت ہی زیاد ہ اہتمام کیاہے، روایتوں میں آتاہے کہ آپ سے کوئی
سوال کرتاتوآپ کبھی نا نہیں کرتے۔(صحیح بخاری /6034، صحیح مسلم/2311) ۔ آپ رمضان میں جب جبریل علیہ السلام سے
ملاقات ہوتی صدقہ وخیرات میں بہتی ہواؤں سے بھی زیادہ تیز ہوتے۔ (صحیح
بخاری /4997، صحیح مسلم/2308)
اسی
طرح صدقۃ الفطر اور قربانی کے گوشت کے بعض مصارف خدمت خلق کی بہترین مثالیں ہیں۔
یہاں
یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ خدمت خلق کو سوشل ورک(Social work) یا سوشل اکٹیویٹیز(social activities ) کا نام دےکر ہمارے غیرنے اس شعبہ میں غیرمعمولی
کام کیاہے اور بلاشبہ انہوں نے اپنے افکار ونظریات کو دنیامیں رائج کرنے میں
کامیابی حاصل کی ہے، یہی نہیں بہت حدتک اسلامی افکاراعمال
کو بھی نقصان پہنچایاہے۔ ماضی میں جہاں ہم نے انہیں خدمات کی بنیادپر آدھی
دنیاپرکامیاب حکومت کی تھی رفتہ رفتہ ہماری کم ہمتی اور قصورعمل اور ديگر اسباب
تنزل نے ہمارے تمام خصائص وخوبیوں کو دوسروں کے حوالے کردیا، جس نے ہماری
قوم کو مادی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، تعلیمی اور تنظیمی اعتبارسے نہایت ہی
کمزور کردیاہے، اورآج ہم پستی کی اس حالت میں پہنچ گئے ہیں کہ تخریبی
وتحزیبی جماعتوں کے شرسے بچنے کے لئے اپناقائد ورہنما غیروں میں تلاش کرنے پر
مجبورہیں، جو ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھانا خوب اچھی طرح جانتےہیں۔
*********