(لاحَوْلَ ولاقُوَّةَإِلابالله) ایک عظیم کلمہ
تحریر: عبدالعلیم
بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عربیہ
انسان اشرف المخلوقات ہونےکےباوجودکمزوروناتواں ہے،بسا اوقات بےبسی اوربےکسی
کاشکار ہوتا ہے، دردو الم ، اورمختلف قسم کے مصائب ومشکلات اور پریشانیاں اس پر آتی رہتی ہیں ،اورایسا بھی ہوتاہے کہ کمزوری
اورتھکاوٹ کےبوجھ تلے ایسا دبا ہوتاہےکہ اسےاپنے مقصد کے حصول کے لئے کافی جدوجہد کرنی
پڑتی ہے ،اور بسااوقات اسے انجام دینے سےقاصر بھی ہوجاتاہے، نہ وہ خود اپنی پریشانیاں
دور کرسکتاہے اور نہ ہی کسی دوسرے کی مدد کرسکتاہے،چنانچہ کسی کی مدد کرنا،اسے کسی
ظلم سے بچانا اور اس کی پریشانیوں کو دور کرنا
اس کے لئے ناممکن ہوجاتاہے،بلکہ ایسا بھی ہوتاہےکہ کئی طرح کی امداد بھی اس
کے درد کا مداوہ نہیں بن پاتی، اور یہ سب اس وقت ہوتاہے جب اس کےپاس رب کائنات کی توفیق
اورمدد نہ ہو،رب ذوالجلال کی توفیق مدد ونصرت ہی اسےایسی قوت اورصلاحیت سےبہرہ ورکرتی
ہے جس کی بنا پر ہر طرح کے خیر کو انجام دینےکےساتھ ساتھ اپنی حیثیت وصلاحیت کےمطابق
خوداپنی اوردوسروں کی مدد اورنصرت کابیڑہ اٹھا سکتاہے، کیونکہ یہی انسان کے اندر قدرت
وطاقت اورتوفیق وترقی کی اساس اور بنیاد ہے ۔
مخلوق کےاندرہر طرح کی قوت صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے عطا کردہ
ہے ، اللہ ہی انسان کوغنی کرتاہےوہی اسے محتاج بناتاہے ،حکومت وسرتاجی اسی کے فضل سے
ہے جسے چاہے جب چاہے عطاکردےجب چاہے یہ سب چھین کر اسےناتواں اور محتاج کردے، اللہ
تعالی فرماتاہے :(وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ
ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ)۔(تمہارے پاس جتنی بھی
نعمتیں ہیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں،اب بھی جب تمہیں کوئی مصیبت پیش آجائےتو اسی کی طرف
نالہ وفریاد کرتے ہو)۔ (النحل /53)۔
اللہ تعالی کی قوت کےعلاوہ ساری قوتیں کمزورہوسکتی ہیں،اللہ کےغنی کےعلاوہ ساری
غنائیت فقروفاقہ میں تبدیل ہوسکتی ہیں اور
اللہ کے علاوہ ہر ایک کی بادشاہت کو زوال آسکتاہے:(قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ
مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن
تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)۔( آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک!
تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اورجسے
چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے)۔(آل عمران
/26)۔
اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات ستودہ صفات اپنی طاقت وقدرت،جاہ و جلال اورجبرو تسلط میں منفردو
یکتا ہے، وہ اکیلاہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ حیی وقیوم ہے، جو ازل سے ہے اور ابد
تک رہےگا اور وہ ہر چیز سے بےنیاز ہےجبکہ ہر شیئ اس کا محتاج ہے:(يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى
اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ)۔(اے لوگو! تم اللہ
کے محتاج ہو اور اللہ بےنیازخوبیوں واﻻ ہے)۔(الفاطر/15)۔
جو آدمی ہر حال میں اللہ تعالی کی مذکورہ صفات
عالیہ اوراپنے ضعف اورناتوانی کا ادراک کرلے تو پھر کبھی بھی اپنی عافیت وسلامتی سےدھوکانہیں
کھائےگا،غنی ومالداری کےلئے اپنے نفس کو نہیں کھپائےگا اپنے مقام ومرتبہ اور دھن دولت
پر کبھی بھی نہیں اترائےگا ،اور نہ اپنے حسب ونسب پر فخرومباہات دکھلائےگا بلکہ وہ
اپنے رب کے فضل وکمال کا اعتراف کرےگا اس کی نعمتوں کا شکریہ اداکرےگا اس کے احسان
کی گواہی دیگا اور یہ گواہی دیگا کہ کسی بھی طرح کی حرکت وقوت کا مالک اللہ رب العزت ہی ہے، اور اس چیز کے
اعتراف اورایقان کےلئے نصوص شرع میں ہمیں ایک عظیم کلمہ دیاگیاہے،ایمان ویقین کے ساتھ
جس کا ورد خیر کثیر کا سبب ہے اور اس کےساتھ ہی اپنے رب پر ایمان ویقین کی سلامتی اور
پختگی کا بنیادی سبب ہے اور وہ ہے(لا
حَوْلَ ولا قُوَّةَ إِلا بالله)۔ ذیل میں ہم اس کی فضیلت اورفوائد واثرات سےمتعلق
چندباتیں رکھتےہیں:
- (لاحَوْلَ وَلا قُوَّةَإِلَّابِاللهِ) : یہ
ایک عظیم کلمہ ہے جس کا مطلب ہوتاہے کہ کسی
بھی طرح کی حرکت ، تبدیلی اور قوت وطاقت اللہ کی مشیئت کے بغیر ناممکن ہے یہ سب اسی کی مدد
اور تقدیروتدبیرسےانجام پاتی ہے ، اللہ اگر نہ چاہے تو کسی بھی زبان کو گويائی نصیب
نہیں ہوسکتی ، اگر اللہ کی مشیئت نہ ہو تو ایک پور بھی نہیں ہل سکتا، اگر اللہ کی مدد
نہ تو کوئی ہاتھ بھی نہیں ہل سکتا اور نہ ہی کوئی قدم حرکت کرسکتاہے،اللہ نہ چاہے تو
پھر کوئی بھی مخلوق پیدا نہیں ہوسکتی اورنہ ہی کائنات میں زمین وآسمان کے اندر کوئی پتہ تک ہل سکتاہے۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنی
کمزوری اور بےبسی کا اعتراف کرتے ہوئے ہر حال میں اپنے رب پر توکل اور بھروسہ کرتاہے۔
- یہ
ایک ایسا کلمہ ہےجس کے ذریعہ بندہ اس بات کااعتراف کرتاہے کہ دکھ اور تکلیف کو دور
کرکے خوشی اورمسرت صرف اورصرف اللہ تعالی ہی عنایت کرسکتاہے اور کسی بھی طرح کا نفع
اورنقصان اسی کے تصرف میں ہے ۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جب دل میں گھر کرلیتاہےتوآدمی
اس کےلفظ ومعانی کا اچھی طرح ادراک کرلیتاہےاور اس کےمعانی ومقتضی پراس کا ایمان کامل
ہوجاتاہے پھر ایک خشوع بھرےدل سے اس کا ورد ہونے لگتاہے۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جو بندےکے ہر مشکل کو
آسان کردیتاہے اور اسے ہرجائز خواہش کو حاصل کرنے کی توفیق ملتی ہے۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جوجنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جو اس کو لازم پکڑےگا اس خزانے
کا حقدار بن جائےگا ، ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:"اےعبداللہ بن قیس!" تو میں
نے کہا : اے اللہ کے رسول میں حاضرہوں ۔تو آپ نے فرمایا : "میں تمہیں ایک ایسا
کلمہ نہ بتا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے "۔ میں نے کہا: آپ پر میرے
ماں باپ قربان ہوں ضرور ،تو آپ نے فرمایا :" وہ کلمہ (لاحَوْلَ ولَاقُوَّةَإلَّا باللَّهِ) ہے"۔ (صحیح بخاری/4205، صحیح مسلم/2704،ابوذررضی اللہ
عنہ سےاس معنی کی روایت ابن ماجۃ (3825) نے بھی نقل کی ہے،جس کی تصحیح امام البانی
نے کی ہے)۔
-یہ ایک ایسا کلمہ ہےجب کوئی غم کا مارا اس کے ذریعہ اپنے رب سے مناجات کرتاہے تو اس کا
غم جاتارہتاہے ، امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتےہیں :"لاحول ولاقوۃ الاباللہ
کی تاثیر غم اور تکلیف دور کرنےکے لئے اس وجہ سے ہے کہ اس کے اندر تمام طرح کی قوت
وطاقت کی مکمل تفویض اللہ تعالی کےلئے ہوتی ہے تمام تر معاملات اسی کے سپرد کردئے جاتےہیں،
اس سے کسی بھی معاملہ میں جھگڑا نہیں جاتا، اس سے بدگمانی نہیں کی جاتی ۔بعض آثار میں
آتاہے کہ آسمان سے کوئی بھی فرشتہ اللہ تعالی کی قدرت ومشیئت کے بغیر نہیں اترتا، اور
شیطان کی دھتکارنے میں اس کی عجیب تاثیر ہے"۔ چنانچہ جب قرض کا غلبہ ہوجائے ،
تکلیف حد سےبڑھ جائے ،کوئی بیماری لاحق ہوجائے، اور سامنے غم وتکلیف نظرآئے تو (لاحَوْلَ
ولَا قُوَّةَ إلَّاباللَّهِ) پڑھنا چاہئے ۔ اسی طرح ہرنیک اور اچھے کام کے
وقت بھی اس کا ورد کیاجاتاہے۔
-یہ ایک ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعہ اللہ کی مدد
طلب کی جاتی ہے۔اور جواللہ تعالی سے مدد طلب کرتاہے تووہ ضرور اس کی مدد کرتاہے اور
اس کی ضرویات کو پوری کرتاہے اور جو بھی اس کے لئے درست ومناسب ہے اس کےلئے راہ ہموارکرتاہے،اور خاص طورپر بندہ
اللہ کی اطاعت پرمدد کیاجاتاہے، مؤذن جب (حَيَّ على الصَّلاةِ) اور (حَيَّ على الفَلاح) کہتاہےتوسننے والے
کےلئے (لا حَوْلَ ولا قُوَّةَ إِلا باللهِ) کہنا مشروع ہے یعنی اطاعت کرنا اور نماز وکامیابی
کی طرف بلانے والے کی بات ماننا صرف اللہ کی نصرت وتوفیق سے ہی ممکن ہے ۔
-یہ ایسا کلمہ ایک بہترین اورمضبوط آڑاوربچاؤہے،
لوط علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے ستایا، تو انہوں نے کہا: (لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ
رُكْنٍ شَدِيدٍ)۔( کاش کہ
مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا)۔(ھود/80)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: " يَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لقَدْ
كانَ يَأْوِي إلى رُكْنٍ شَدِيدٍ"۔ "اللہ لوط علیہ
السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائے کہ انہوں نے ایک زبردست سہارے کی پناہ لینے کے لیے
کہا تھا "(صحيح البخاري /4694، صحيح مسلم
/151) ۔ انہوں نے اپنے رب کی پناہ لی کہ وہ
جو چاہے کرے اس کا جو فیصلہ ہوگا وہی ہوگا ،یہی وجہ ہےکہ اللہ کے حکم سے فرشتوں نے
آکر کہا: (يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن
يَصِلُوا إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ
مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ
الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ* فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا
سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ * مُّسَوَّمَةًعِندَرَبِّكَ
وَمَاهِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ)۔ (اے لوط!ہم تیرے پروردگار کے بھیجے
ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات
رہے نکل کھڑا ہو۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہئے، بجز تیری بیوی کے، اس
لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے واﻻ ہے جو ان سب کو پہنچے گا، یقیناً ان کے وعدے کا وقت
صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں. پھر جب ہمارا حکم آپہنچا، ہم نے اس بستی کو زیر
وزبر کرڈالا، اوپر کا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھےتیرے
رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وه ان ظالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے)۔ (ھود/81)۔
- یہ کلمہ انسان کو کبروغرور سے بچاتاہے :اللہ
تعالی نے اگر کسی پراپنا انعام کررکھاہو تو اسے ہمیشہ اس کلمہ کے ذریعہ اس کے فضل اور
قدرت ومشیئت کا استحضار کرتے رہنا چاہئے ،اگر کوئی اس سے بےاعتنائی برتتاہے تو پھر
اس کے اندر کبروغرور اور اتراہٹ آجاتی ہے جو انسان کو کفر تک پہونچا سکتی ہے ،اللہ
تعالی نے سورہ کہف کے اندر دو ساتھیوں کا واقعہ ذکر کیاہے ،جس کے اندر ہے کہ ان میں
سے ایک کو جو کافرتھا اللہ تعالی نے انگوروں کے دوباغ عطاکررکھاتھا جو بہت زیادہ پھلدار
تھے ،وہ آدمی اپنے زعم میں مغرور ہوگیااور
گھمنڈاور غرور والی باتیں کرنے لگا تو اس کے ساتھی نے جو مؤمن تھا اس کو نصیحت کرتےہوئے
کہا: ( وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ
مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ
مَالًا وَوَلَدًا. فَعَسٰی رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَیُرْسِلَ
عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًا. اَوْ یُصْبِحَ
مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًا ) ۔ ( تو نے اپنے باغ میں
جاتے وقت کیوں نہ کہا کہ اللہ کا چاہا ہونے واﻻ ہے، اللہ تعالی
کی مدد کے بغیر کوئی طاقت نہیں ۔اگر تو مجھے مال واولاد میں اپنے سے کم تر دیکھ
رہا ہےتو بہت ممکن ہے کہ میرا رب مجھے تیرے اس باغ سے بھی بہتر دے اور اس پر آسمانی
عذاب بھیج دے تو یہ چٹیل اور چکنا میدان بن
جائے۔ یا اس کا پانی نیچے اتر جائے اور تیرے بس میں نہ رہے کہ تو اسے ڈھونڈ ﻻئے)۔
(الکہف/39-41) ۔لیکن اس شخص نے اپنے ساتھی کی بات نہیں مانی تو اللہ تعالی نے اس کے
باغ کو تہس نہس کردیا اور وہ کف افسوس ملتا رہ گیا،چنانچہ اس کےغرور وتکبر اور اللہ
کی قدرت کے عدم استحضار سے بیگانہ پن کےانجام پہ اللہ تعالی فرماتاہے:(وَاُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ
عَلٰی مَاۤ اَنْفَقَ فِیْهَا وَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِهَا وَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ
لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا. وَلَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ
دُوْنِ اللّٰهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا)۔ ( اور اس کے (سارے)
پھل گھیر لئے گئے(یعنی اس کا سارا باغ تباہ
وبرباد کر ڈالا) ، پس وه اپنے اس خرچ پر جو اس نے اس میں کیا تھا کف افسوس
ملنے لگا اور وه باغ تو(خاکسترہوکر) اوندھا الٹا پڑا تھااور (وه شخص) یہ کہہ
رہا تھا کہ کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرتا۔ اس کی حمایت میں کوئی
جماعت(جس پر اسے نازتھا) نہ تھی کہ اللہ سے اس کا کوئی بچاؤ کرتی اور نہ ہی وه خود
اپنی مدد کرنے والا بن سکا)۔(الکہف/42-43)۔
اس واقعہ کے بعد اللہ تبارک وتعالی نے اپنی
قدرت وطاقت کا مظہر خود پیش کیاہے، فرماتاہے:( هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّ ؕ هُوَ
خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا)۔(یہیں سے (ثابت ہے) کہ اختیارات اللہ برحق کے
لئے ہیں وه ثواب دینے اور انجام کے اعتبار سے بہت ہی بہتر ہے)۔(الکہف/44) ۔
- یہ کلمہ گھر سے نکلتے وقت کی دعاء ہے، انس رضی اللہ عنہ نے مروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ، فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ
عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ
وَكُفِيتَ وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ:
كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ"۔" جب آدمی
اپنے گھر سے نکلے پھر کہے: (بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله) (اللہ
کے نام سے نکل رہا ہوں، اللہ ہی پر میرا پورا پورا توکل ہے، تمام طاقت و قوت اللہ ہی
کی طرف سے ہے) ، اس وقت کہا جاتا ہے (یعنی
فرشتے کہتے ہیں): اب تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری طرف سے کفایت کر دی گئی، اور تو بچا
لیا گیا، (یہ سن کر) شیطان اس سے جدا ہو جاتا ہے، تو اس سے دوسرا شیطان کہتا ہے: تیرے
ہاتھ سے آدمی کیسے نکل گیا کہ اسے ہدایت دے دی گئی، اس کی جانب سے کفایت کر دی گئی
اور وہ (تیری گرفت اور تیرے چنگل سے) بچا لیا گیا"۔(سنن أبی داود/5095، سنن الترمذي/3426
علامہ البانی نے اس کی تصحیح کی ہے)۔
- اگر بندہ (لاحَوْلَ ولَا قُوَّةَ إلَّا باللَّهِ) کو لازم
پکڑتاہےتواسےہمیشگی کی پریشانیوں اور نفس کی
شہوت کے غلبہ سےنجات پانے میں مدد ملےگی۔
-اس کلمہ کے ذریعہ بڑاسے بڑا بھار برداشت کیا
جاسکتاہے اور بڑی سے بڑی ذمہ داری نبھائی جا
سکتی ہے ،حالات کا رخ بدل سکتےہیں،اور بلندوبالا مقام حاصل کیاجاسکتاہے۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جس کے اندرتوحید کی تینوں
اقسام توحید ربوبیت ، توحید اسماء وصفات اور توحید الوہیت کا اقرار موجودہے:
(1)
اس کا ورداور اعتراف کرنے والا یہ اعتقاد اور ایمان رکھتاہے کہ اللہ رب العزت
ہی اس کائنات کا مدبرہے جو اپنی حکمت ومشئیت سے اس کے اندر تصرف کرتاہے اس کے حکم واذن
کے بغیرایک پتہ بھی نہیں ہلتاہے ۔
(2)
وہ یہ اعتراف کرتاہے کہ جس ذات کی یہ صفت ہووہ اپنی مخلوق سے غنی اور بے نیاز اور قائم بذاتہ ہے
اورقدرت وعظمت اور قوت وعزت میں صفات کمال سے متصف ہے،اس کے امور میں کوئی شریک وساجھی
نہیں ۔
(3) جس بندے کا اپنے خالق کے سلسلے میں یہ ایمان اور اقرارواعتراف ہو وہ لازما اسی ذات کی عبادت کرےگا اسی کی طرف رجوع کرےگا اور اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرےگا اور نہ ہی
کسی سے استغاثہ وفریاد کرےگا۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جو باقیات صالحات میں
سے ہےجو اللہ تعالی کو بہت پسندہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی فرماتاہے : (وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ
ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا)۔( البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے
نزدیک از روئے ثواب اور (آئنده کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں )۔(الکہف/ 46) ۔ مفسرین
نے باقیات صالحات کی تفسیر میں کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل کیاہے کہ اس
سے مراد (سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا
الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله)ہے۔ جیساکہ عبداللہ
بن عمر، عبداللہ بن عباس اور عثمان بن عفان
رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔(دیکھئے: کتب تفاسیر)۔
-یہ کلمہ عرش کے نیچےہے ،ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ:" یہ کلمہ
عرش کے نیچے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ،جب تم (لاحول ولاقوةإلابالله) کہتے ہوتو
اللہ تعالی فرماتاہے:(میرابندہ مکمل طور پر میرا مطیع فرمانبردارہوگیا)"۔(مستدرک
الحاکم :1/ 17 ، علامہ البانی نے صحیح الترغیب
/1580 میں اسے صجیح کہاہے)۔--یہ کلمہ جنت کے دروازوں میں سے ایک ہے ، معاذ بن جبل رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"کیا میں
تجھے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے کے بارے میں نہ بتاؤوں ؟" انہوں نے کہا
: وہ کیاہے ؟ تو آپ نے فرمایا:" لا حول ولا قوة إلا بالله"۔(رواه أحمد، صحیح
الترغیب /1581)۔
-ابو ایوب انصاری اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ
عنہم کی روایت میں اسے ) غِراسُ الجنَّةِ) کہا گیاہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ
کے ورد سے اس کے لئے جنت میں ایک پودا لگا دیاجاتاہے۔ (علامہ البانی نے ابوایوب انصاری
کی روایت کو صحیح لغیرہ اور ابن عمرکی روایت
کو حسن لغیرہ کہاہے،دیکھئے : صحیح الترغیب/1583،1584)۔
- اس کلمہ کے ورد سے گناہ مٹتےہیں ، عبداللہ
بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" زمین پرجو کوئی بھی بندہ: (لاإله إلاالله والله أكبرولاحول ولاقوةإلابالله)
کہے
گا اس کے (چھوٹے چھوٹے) گناہ بخش دیئے جائیں گے، اگرچہ سمندر کی جھاگ کی طرح (بہت زیادہ)
ہوں"۔(سنن الترمذی/3460 ، علامہ البانی نے اسےحسن کہاہے،نیز دیکھئے : صحیح الترغیب/3581)۔
- یہ کلمہ ان کلمات میں سے ایک ہےجنہیں کوئی بندہ
اپنی بیماری میں کہے، اور مر جائے تو آگ اسے نہ کھائے گی۔(دیکھئے : سنن الترمذی/3430،
علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔
- یہ
ان کلمات میں سےایک ہے جن کاوردنمازکے بعد کیاجاتاہے۔(دیکھئے: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ/3160)۔
- یہ
ان کلمات میں سے ایک ہے جن کو تہجد میں پڑھاجاتاہے ۔(دیکھئے:صحیح البخاری/1120 ،
1154)۔
اللہ تعالی ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور
ہر طرح کے برے اعمال سے بچائے ،کیونکہ ہر طرح کی توفیق اور نصرت مدد کا وہی مالک ہے
۔ آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی خیرخلقہ وآلہ واصحابہ اجمعین ۔
**********
مجلہ صدائےحق
جھارکھنڈ انڈیا
جنوری- مارچ
2025 ء