اتوار، 16 فروری، 2025

مجھے بھی بلند آسماں مل گیاہے

                             مجھے بھی بلند آسماں مل گیاہے

 (سب سے چھوٹی بیٹی کی سند فضیلت کے حصول کی مناسبت سے) 

  الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات، وبفضله تتنزل الخيرات والبركات، وبتوفيقه تتحقق المقاصد والغايات ۔ (ہر طرح کی تعریف وحمد اس اللہ کے لیے ہے جس کے فضل سے نیک کام انجام پاتے ہیں، جس کے فضل سے نیکیاں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں اور جس  کی توفیق سے اہداف و مقاصد حاصل ہوتے ہیں)۔

  اولاد کی  ترقی اوراس کی کامیابی  والدین کے لئےاللہ  رب العزت  کا بہت بڑا عطیہ ہوتاہے،جو  اک قلبِ ناتواں کو توانائی دے جاتاہے،اور اس کی اس نعمت  اور توفیق پر بندہ  ہمیشہ نہال رہتاہے:   

 أمد يدي في غير يأس لعله     يجود على عاصٍ كمثلي يواصلُهْ

(میں بنا مایوس ہوئے پورے عزم کے ساتھ (اپنےرب کی طرف)اپنا ہاتھ بڑھاتا ہوں، شاید مجھ جیسے گنہگار پر اس کی سخاوت  وکرم ہوجائے جو  وہ آگے بھی جاری رکھے)۔

رواں سال (1446 ہجری)   میرے لئے دو  دو خوشیوں کا گواہ رہا ، پہلی بڑی بیٹی کا عقد اور دوسری سب سے چھوٹی بیٹی کا کلیہ عائشہ صدیقہ للبنات (جامعہ اسلامیہ سنابل) دہلی  سے تخرج ۔ 

اللہ کے خاص فضل وکرم سے میری تینوں بچیاں (زہراء بتول سنابلی ، عفراء بتول سنابلی  اورعذراء بتول سنابلی/  سلمهن الله) کلیہ عائشہ صدیقہ للبنات دہلی  سے  ایک لمبی مدت تک تعلیم حاصل کرکے  فضیلت کے اسناد کے ساتھ فارغ ہوچکی ہیں :

زانَ وجهُ الصبحِ في يومٍ بهيجْ    فـهو يـومُ السعد يومُ الارتياحْ

(خوشی بھرے دن کی شروعات بڑی خوبصورت ہے، یہ تو خوش بختی اور برکتوں کا دن ہے ، سکون واطمینان کا دن ہے)۔

وبعدالصبرِ،بعدَ الجهـد حقَّقنا أمانِينَا     بحمـدالله أترعْناكؤوسَ النصرِسامينا

(خوب صبر اورکوشش کے بعد ہم نے اپنی آرزؤں کو پورا کیاہے ۔ اللہ کا شکر  اور اس کی تعریف ہے کہ  ہم نے  اپنی علو ہمتی سے کامیابی کا جام بھرا ہے)۔فلله الحمد  والشکر :

لك الحمدياذاالجودوالمجدوالعلا       تباركت تعطي من تشاء و تمنع   


         إلهي  و خـــلاقي و حــــرزي  و  مــوئلي        إليك لدى الإعسار واليسرأفزع 

(اے جودوکرم اور عظمت  و  بلند شان والے   ہر طرح کی تعریف تیرے لئے زیباہے، بابرکت ہے تیری ذات، تو جسے چاہے دے اور جسے چاہے نہ دے ۔ میرےمعبود میرے خالق  ، میرے محافظ اور مجھے پناہ دینے والے ،تنگی اور خوشحالی  کے وقت  میں  تجھ سےہی فریاد کرتاہوں )۔

 لأشكُرَنَّك معروفًا همَمْتَ به   -  إنَّ اهتمامَك بالمعروفِ مَعروفُ

 ((اے رب !) میں   اس  خیروبھلائی پرتیرا  شکریہ ادا کرتاہوں جس کی تیری طرف سے  توفیق ملی  تھی - نیکی کرنے میں تیری توفیق اور اہتمام  سب کو معلوم ہے)۔(رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ) (اے میرے رب ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر بطورانعام کی ہیں اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے توراضی  رہےاور مجھے اپنی رحمت سے اپنےنیک بندوں میں شامل کر لے)۔

   اس خوشی کے موقع سے ہم ان تمام  احباب  کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتےہیں جنہوں  نے ہر موقع سے ہمیں  اپنی ہمت بھری باتوں اور دعاؤں سے نوازہ ، اور  کلیہ عائشہ صدیقہ کے تمام ذمہ داران اور  معلمین ومعلمات   خاص شکریہ کے مستحق ہیں  جن کی شبانہ روز  کوششوں سے قوم اورجماعت کےہزاروں نونہالان ہر سال  اسلاف کے نہج پر  علوم شریعت سے   مزین ہوکر قوم ومعاشرے اور ملک وملت  کی خدمات کے لئے تیار ہوتےہیں، ہر   محسن کےلئے شکر وامتنان ان کا حق ہے:

ومن يَشكُرِ المخلوقَ يَشكُرْ لرَبِّه           ومن يَكفُرِ المخلوقَ فهْوَ كَفورُ

(جو مخلوق کا شکر ادا کرےوہ اپنے رب  کا شکر ادا کرتاہے اور جو مخلوق کا ناشکراہو وہ  (اپنے رب کا ) ناشکری کرنے والاہے)۔اور  (" لا يَشْكُرُاللهَ مَن لايَشْكُرُ الناسَ"- أبوداود/3811(جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ  اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا)۔

 اللہ رب العز ت ہماری بچی کو نیکی اورخیرو صلاح سے بھری  صحت مند اور لمبی زندگی دے اور اپنے علم وہنر سے دین اورقوم وملت کی بہترین خدمت لے اور اس پر اپنی رحمت کا سایہ   ہمیشہ رکھے ۔آمین۔

اس موقع سے اس کےلئے ہماری طرف سے پرخلوص وصیت اور نصیحت ہے :

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا------           ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں


 میری بچی ! اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہمہ دم کوشاں رہئے ۔تقوی کو اپنا شعار بنائیے۔توحید اور سنت کا راستہ اپنائیے ۔شرک وبدعت اور کسی بھی طرح کے گناہ سے اپنے کو دور رکھئے ۔شعائر اسلام پر عمل  کو حرزجاں بنائیے۔توحیدوسنت کی راہ پر گامزن رہئے ۔اسلاف کے طریقے کو اپنا طریقہ بنائے رکھئے۔ عزت وناموس کی حفاظت ایک مؤمنہ کا کردار  اور رب ذولالجلال کی طرف سے عائد کردہ دینی ،اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے  اس کی حفاظت  کیجئے۔ والدین کی اطاعت وفرمانبرداری میں لگی رہئے،کیونکہ آپ ان کی آنکھوں کا تاراہیں، اور اپنی اچھائی اور حسن اخلاق سے گھر اور معاشرے کا  ایک مثالی  فرد بنئے:  

صدائےشادماں بن کر مثال انجمن  بن جا         -----کہ ہرموسم ترےآنگن اترجائے گگن بن جا

 اور اپنے اندر زندگی   کے تمام سردو گرم  اور اتارچڑھاؤ کو برداشت کرنے کی قو ت پیدا کیجئے:

       پھینک یوں پتھر کہ سطحِ آب بھی بوجھل نہ ہو     نقش بھی بن جائے اور دریا میں بھی ہلچل نہ ہو

        کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے       آنکھ کو  ایسے جھپک،  لمحہ کوئی  اوجھل نہ  ہو

        پہلی سیڑھی پر قدم رکھ، آخری سیڑھی پہ آنکھ     منزلوں کی جستجو  میں  رائیگاں اک پل نہ ہو

اور اپنے اندر حق پرجمےرہنے کی قوت پیدا کیجئے اور ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھئےکہ :

ربي معي فمن الذي اخشى        اذامادام ربي يحسن التدبيرا

                 هو الذي قد  قال  في  قرانه         و كفى بربك  هاديا  و نصيرا

(جب میرا رب میرے ساتھ ہے تو مجھے کس کا ڈر ہوسکتاہے جب تک  میرا رب  اچھی تدبیر کرتا رہےگا ، اسی نے تو اپنےقرآن کےاندر فرمایاہے:(اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے والا اور مدد کرنے والا کافی ہے")۔

 اور ہمیشہ یاد رکھئےکہ :

على قدر أهل العزم تأتي العزائم      و تأتي على قدر الكرام المكـــارم

(جوجتنا مضبوط عزم وارادہ اور  بلند حوصلہ    چاہتاہے  اسی کے مطابق اسے  پختگی ملتی ہے اور جو جنتا   صاحب عزت وشرف ہوتاہے اسی کے مطابق اس  کو عزت واکرام ملتاہے)۔

اللہ رب العزت آپ کو ان سب کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین ۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔

(عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی (سعودی عرب )

aaaaaaaaaaaaaa

 

                                    16/8/1446 ھ  -  15/2/2025  5ء

بدھ، 8 جنوری، 2025

رمضان میں سرزد ہونے والی کچھ عام غلطیاں

 

 

رمضان میں سرزد ہونے والی کچھ عام  غلطیاں

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عرب

         رمضان خیروبرکت اوررحمت ومغفرت کا مہینہ ہے اس کے اندر کی جانے والی عبادتوں کا ثواب  حددرجہ اور بےشمار ہے، جن کا بیان قرآن وسنت کے اندرتفصیل کے ساتھ موجودہے ،اس ماہ کی بےپناہ خیر وبرکت کے باوجود ہر قوم اور ہرمعاشرے میں اس سے متعلق کچھ غلط نظریات اور عقائد واعمال عمداً  یا بھول  چوک کر یا  تساہلاً پائے جاتے ہیں جن سے ہر روزہ دار کو بچنا لازم ہے ، آئیے ہم انہیں میں سےچندغلطیوں کو جانتےہیں جنکا ارتکاب بہت سارے لوگ نادانی میں کر بیٹھتےہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں  ان غلطیوں سے بچائے اور کتاب وسنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے:

1- کھانے پینے میں اسراف اور تبذیر سے کام لینا : اسراف کہتےہیں حلال اور ضرورت کے  کاموں  میں خرچ کرنے  میں حدسے بڑھنا اور تبذیر کہتےہیں  غیر ضروری اور حرام کاموں  میں  خرچ کرنا، اللہ تعالی فرماتاہے: (كُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ(الأعراف/31)۔(خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا)۔

2 - بلاوجہ رات جگی کرنا اور دن میں پورے دن سونا :یہ بھی ہمارے معاشرے کی بگڑی ہوئی صورت ہے کہ بلا وجہ اور بلا ضرورت راتوں میں جاگ کر لوگ گپیں  لڑاتےہیں یا فالتوں کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے لوگ ان بابرکت اوقات کو بےکار اور گناہ کے کاموں میں جیسے فلم یا ڈرامے اور سیریل دیکھنے اور لغو او رحرام قسم کے لہو ولعب میں ضائع کرتے ہیں ۔ جبکہ رات کا کچھ وقت اللہ کی عبادت اور ذکر واذکار میں گزارنا چاہئے۔ اور دن میں خدمت خلق اور رزق کی تلاش میں کوشاں رہنا بھی عبادت اور ثواب کا کام ہے ۔

3- احتیاط کے نام پریا تساہلی پن کی وجہ سے افطارمیں دیرکرنا  : جبکہ سنت  اس کے برعکس ہے۔افطار میں جلدی کرنا سنت او رکارخیرہے نیز یہ دین کے غلبہ کے اسباب میں سے ہے اور اس میں یہود ونصاری کی مخالفت بھی ہے ،سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لَايَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُواالْفِطْرَ"۔"میری امت کے لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے"۔(صحیح البخاری/1957، صحیح مسلم/1098)۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لَا يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًامَاعَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ،لِأَنَّ الْيَهُودَوَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ"۔" جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے دین برابر غالب رہے گا ، کیونکہ یہود و نصاری اس میں تاخیر کرتے ہیں"۔(سنن ابی داود/2353، علامہ البانی نے اسے حسن   کہاہے)۔

4 - سحری میں جلدبازی سے کام لینا:بہت سارے لوگوں کو دیکھاجاتاہےکہ وہ رات کےابتدائی حصے میں یا سوتے وقت  ہی سحری کرلیتےہیں  کہ آخرمیں اٹھنا نہ پڑے، جبکہ سحری میں  تاخیر سنت ہے ،انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے:وہ کہتے ہیں کہ   ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے  بیان کیاکہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا ؟ - تو انہوں نے کہا کہ: پچاس آیتیں )پڑھنے( کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔(صحیح البخاری/575، 2552 ،صحیح مسلم/1097)۔ اسی طرح ایک روایت میں دیر سے سحری کرنے کو نبوت کے اخلاق میں سے کہاگیاہے ، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"تین چیزیں نبوت کے اخلاق میں سے ہیں : افطار میں جلدی کرنا ، سحری میں تاخیرکرنا اور نمازمیں بائیں ہاتھ پرداہنے ہاتھ کو رکھنا"۔(ہیثمی نے لکھاہےکہ اسے امام طبرانی نے کبیر میں روایت کیاہے (مجمع الزوائد:2/105، علامہ البانی نے اسے صحیح الجامع/3038 کے اندر صحیح کہاہے)۔

5 - سحری سے بےاعتنائی :بہت سارے لوگوں میں یہ بھی دیکھا گیاہے کہ وہ سحری نہیں کرتے جبکہ سحری سنت رسول  اورتقوی وبرکت اور نشاط کا سبب ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً"۔ " سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہوتی ہے"۔(صحیح البخاری/1923، صحیح مسلم/1095)۔

6 - بہت سارے لوگوں میں جہالت کی بنیاد پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اگرکسی کی سحری چھوٹ جائے تو اس کا روزہ نہیں ہوتاہے ،اور پھر وہ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے ۔ ان کا یہ عمل سراسر خلاف شریعت ہے کیونکہ سحری کا عمل سنت ہے جبکہ رمضان کا روزہ فرض ہے ،چنانچہ کسی کی سحری چھوٹ جائے تو  اس کے روزے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

7 - بہت سارے لوگوں کو دیکھاجاتاہے کہ وہ بحالت روزہ چڑچڑا پن کا مظاہرہ کرنےلگتے ہیں اور بات بات پر اور بہت جلد غصہ کرنے لگتےہیں  اور بسا اوقات بدخلقی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں  اور لڑائی ،جھگڑا اور گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں ،جب کہ روزے کامقصدہی نفس پر کنٹرول اور تقوی شعاری ہے ، اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاكُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ)۔( اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے،جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو)۔(البقرۃ/183)۔یہاں تک کہ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" روزہ جہنم سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، ،(یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے)"۔(صحیح البخاری/1894، صحیح مسلم/1151)۔

8- بہت سارے لوگ رمضان کی فضیلتوں اور روزہ کے احکام ومسائل سے نابلد ہوتےہیں، اور مصیبت تو یہ ہے کہ وہ انہیں جاننے اور سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے جہالت اور کاہلی کی وجہ سے ان کا اکثر عمل خلاف سنت ہوتاہے اور وہ   اس ماہ میں خیرکثیر سے محروم  ہوجاتےہیں۔

9 - روزہ کی نیت میں تساہلی برتنا اورخلاف سنت عمل کرنا : واضح رہےکہ روزہ کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے  ،گرچہ فجرسے لمحہ بھر قبل ہی کیوں نہ ہو ،یہاں یہ بھی جان لیں کہ نیت دل کے ارادے کانام ہے ، زبان سے نیت کے الفاظ چونکہ قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہیں اس لئے اس کے الفاظ اور زبان سے اس کی ادائیگی بدعت ہے اور  ہر بدعت گمراہی ہے۔

10 -  کاہلی اور سستی کی وجہ سے تراویح چھوڑنا :چونکہ تراویح کی بےشمار فضیلتیں ہیں خاص طور سے اس کے اہتمام کی وجہ سے سارے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتےہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"۔"جو کوئی رمضان میں (راتوں کو) ایمان رکھ کر اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں"۔(صحیح البخاری/37 ، صحیح مسلم /759)۔ اس لئے اس سے بےاعتنائی  خاص طور سے کسی روزہ دار کےلئے خیر کثیر سے حرمان کا سبب ہے ۔

11 - بہت سارے لوگوں کو دیکھاجاتاہے کہ ابتدائے رمضان میں تو بہت زیادہ نشیط  اور چاق وچوبند رہتے ہیں خوب بڑھ چڑھ کر روزہ ، تراویح ، اور سحروافطار میں حصہ لیتےہیں ،لیکن جوں جوں رمضان کے ایام گزرتے جاتےہیں ان کے اندردھیرے دھیرے  سستی اورکاہلی آنے لگتی ہے، جبکہ آخری  عشرے میں خاص طور سے آدمی کو اہتمام کے ساتھ  عباد ت  اور ذکر اذکار میں لگنا چاہئے،عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے) آخری دس دن (عبادت) میں اس قدر محنت کرتے، جتنی عام  دنوں میں نہیں کرتے"۔(صحیح مسلم/1175)۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے ، عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ : جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پوری طرح  کمر کس لیتے،اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔(صحیح البخاری/2024) ۔

12- آخری عشرےمیں   خاص طور سے قد ر کی راتوں میں  جشن  جیسا ماحول پیدا کرنا:جس میں خوردونوش کا خصوصی اہتمام کیاجاتاہے اور بعض مقامات پر تو ختم قرآن کے نام پر حلوہ،مٹھائی  اورشیرینی تقسیم کی جاتی ہے ۔ جبکہ رمضان کی یہ راتیں صحیح نیتوں  اور اخلاص کے ساتھ عبادت کے لئے فضل وبرکت والی بنائی گئی ہیں نہ کہ پکنک او رپارٹی جیسےبےکار اورفالتو  اعمال کےلئے۔

13 - تراویح ایک مسنون ومستحب  اور فضل و اہمیت والا عمل ہے ، لیکن بہت ساری عورتوں کو دیکھاجاتاہے کہ  وہ خوب زیب وزینت اختیار کرکے اوربن سنورکر ، خوشبو وغیرہ لگا کر  اور او بسااوقات بےپردہ ہوکر تراویح کےلئے جاتی ہیں جو سراسر گناہ کا عمل ہے ،یہی وجہ ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہانے جب عورتو ں کی طرف سے اس طرح کا عمل دیکھاتو فرمایاکہ :"لَوْ أدْرَكَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ما أحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كما مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إسْرَائِيلَ"۔" آج عورتوں میں جو نئی باتیں پیدا ہو گئی ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ لیتے تو ان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا"۔ (صحیح البخاری/869 ، صحیح مسلم/445)۔

14 - مسجدسے تراویح کے بعد نکلتے وقت  عورتوں کا مردوں سے اختلاط ۔
15-  رمضان میں بلاضرورت  کثرت سےعورتوں کا بازار میں نکلنا ۔

16- بعض عورتوں کی ماہواری فجرسے قبل ختم ہوتی ہے اور وقت کی قلت کی وجہ سےوہ  غسل نہیں کرپاتی  اوریہ سمجھتےہوئے کہ صبح ہوگئی تھی اور چونکہ وقت  رہتے غسل نہیں کرپائی تھی اس لئےروزہ نہیں رکھتی۔ یہ صریح غلطی ہے، اس حالت میں اس عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے گرچہ وہ فجرسے پہلے غسل نہیں کرپائی تھی۔ وہ روزہ رکھےگی اور وقت نکلنے کےبعد بھی غسل کرسکتی ہے اس سے اس کے روزے پر کوئی اثرنہیں پڑےگا۔

17- بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کو دن میں احتلام ہوگیا تو اس کا روزہ مکروہ ہوگیا۔جبکہ  احتلام انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے  ،چنانچہ بحالت روزہ احتلام سے اس پر کوئی اثرنہیں پڑےگا۔

18 – رمضان میں عمرے کا ثواب بہت زیادہ ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے اندر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےانصار کی ایک عورت سے پوچھا کہ:" تم نے ہمارے ساتھ حج کیوں نہیں کیا؟" تو وہ کہنے لگی کہ: ہمارے پاس ایک اونٹ تھا، جس پر میرے شوہر اور بیٹا سوار ہو کر حج کے لیے چل دیئے اور ایک اونٹ انہوں نے چھوڑا ہے، جس سے پانی لایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:" اچھا جب رمضان آئے تو عمرہ کر لینا کیونکہ رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہوتا ہے  اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے:" میرے ساتھ ایک حج کرنےکے برابر ہے"۔(صحیح البخاری/1782، صحیح مسلم/1256)۔

یہ فضل اور ثواب پورے مہینے میں ہے کسی خاص تاریخ اور دن کی تخصیص نہیں ہے ، لیکن بہت سارے لوگ  یہ  سمجھتےہیں کہ آخری عشرے میں یا قدرکی رات میں عمرے کا ثواب بڑھ جاتاہے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان دنوں میں حرم میں حج کے ایام سے زیادہ بھیڑبڑھ جاتی ہے۔

19 – بہت سارے لوگ  ہلکی بیماری پر یا کام کا بہانہ کرکے یا عدم برداشت کا بہانہ کرکے  روزہ توڑ دیتے ہیں،اسی طرح مزدوری یا امتحان کی وجہ سے روزہ چھوڑ دینا بھی عام بات ہوگئی ہے  ۔ اور مصیبت تو یہ ہے کہ روزہ توڑنے کے بعد اس کی قضا بھی نہیں کرتے  ،اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو روزہ ٹوٹ گیا  اس کا حکم ختم ہوگیا۔

20 – بہت سارے لوگ رمضان شروع ہونے سے  ایک دن پہلے روزہ رکھتے ہیں، کچھ لوگ احتیاط کے طور پر اور کچھ لوگ اسےسلامی روزہ کا نام دیتے ہیں ۔ اور دونوں صورتوں  میں اس دن روزہ رکھنا حرام ہے، الا یہ کہ کسی کا کوئی روزہ  ہے،جسےوہ  رکھنے کا  عادی ہے تو رکھ سکتاہے، جیسے سوموار یا جمعرات کا روزہ  وغیرہ ۔

21 - ماہ رمضان میں نکاح کی حرمت کا عقیدہ رکھنا:عوام الناس میں یہ غلط عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ماہ رمضان میں نکاح کرنا جائز نہیں ہے ، حالانکہ نکاح کرنا کسی بھی موسم اور مہینے میں جائز ہے سوائے مُحرِم شخص(جس نے حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھ رکھاہو) کے کیونکہ حالت احرام میں اس کےلئے شادی حرام ہے  ۔ ماہ رمضان میں شادی کے درست ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے اس ماہ  میں غروب شمس سے لےکر  طلوع فجر تک بیوی سے جماع کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :(اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآىِٕكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ) ۔(البقرۃ :187) ( روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو

22 - ماہ رمضان میں بیوی سے ہمبستر ہونے کو حرام خیال کرنا :بعض افراد کا خیال ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کی راتوں میں بھی بیویوں سے ہمبستر ہونا جائز نہیں ہے۔ یقیناً یہ ایک غلط فکر ہے جس کا ازالہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہمبستری کی ممانعت صرف دن میں ہے جبکہ رات میں بیوی سے جماع کرنا حلال ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :(اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآىِٕكُمْ  هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ) ۔(البقرۃ :187) ( روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو

اللہ رب العزت ہمارے اعمال کو کتاب وسنت کے مطابق  بنائے اور ہماری  نیکیوں کو قبول فرمائے ۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم۔

*********