بدھ، 8 جنوری، 2025

رمضان میں سرزد ہونے والی کچھ عام غلطیاں

 

 

رمضان میں سرزد ہونے والی کچھ عام  غلطیاں

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عرب

         رمضان خیروبرکت اوررحمت ومغفرت کا مہینہ ہے اس کے اندر کی جانے والی عبادتوں کا ثواب  حددرجہ اور بےشمار ہے، جن کا بیان قرآن وسنت کے اندرتفصیل کے ساتھ موجودہے ،اس ماہ کی بےپناہ خیر وبرکت کے باوجود ہر قوم اور ہرمعاشرے میں اس سے متعلق کچھ غلط نظریات اور عقائد واعمال عمداً  یا بھول  چوک کر یا  تساہلاً پائے جاتے ہیں جن سے ہر روزہ دار کو بچنا لازم ہے ، آئیے ہم انہیں میں سےچندغلطیوں کو جانتےہیں جنکا ارتکاب بہت سارے لوگ نادانی میں کر بیٹھتےہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں  ان غلطیوں سے بچائے اور کتاب وسنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے:

1- کھانے پینے میں اسراف اور تبذیر سے کام لینا : اسراف کہتےہیں حلال اور ضرورت کے  کاموں  میں خرچ کرنے  میں حدسے بڑھنا اور تبذیر کہتےہیں  غیر ضروری اور حرام کاموں  میں  خرچ کرنا، اللہ تعالی فرماتاہے: (كُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ(الأعراف/31)۔(خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا)۔

2 - بلاوجہ رات جگی کرنا اور دن میں پورے دن سونا :یہ بھی ہمارے معاشرے کی بگڑی ہوئی صورت ہے کہ بلا وجہ اور بلا ضرورت راتوں میں جاگ کر لوگ گپیں  لڑاتےہیں یا فالتوں کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے لوگ ان بابرکت اوقات کو بےکار اور گناہ کے کاموں میں جیسے فلم یا ڈرامے اور سیریل دیکھنے اور لغو او رحرام قسم کے لہو ولعب میں ضائع کرتے ہیں ۔ جبکہ رات کا کچھ وقت اللہ کی عبادت اور ذکر واذکار میں گزارنا چاہئے۔ اور دن میں خدمت خلق اور رزق کی تلاش میں کوشاں رہنا بھی عبادت اور ثواب کا کام ہے ۔

3- احتیاط کے نام پریا تساہلی پن کی وجہ سے افطارمیں دیرکرنا  : جبکہ سنت  اس کے برعکس ہے۔افطار میں جلدی کرنا سنت او رکارخیرہے نیز یہ دین کے غلبہ کے اسباب میں سے ہے اور اس میں یہود ونصاری کی مخالفت بھی ہے ،سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لَايَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُواالْفِطْرَ"۔"میری امت کے لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے"۔(صحیح البخاری/1957، صحیح مسلم/1098)۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لَا يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًامَاعَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ،لِأَنَّ الْيَهُودَوَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ"۔" جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے دین برابر غالب رہے گا ، کیونکہ یہود و نصاری اس میں تاخیر کرتے ہیں"۔(سنن ابی داود/2353، علامہ البانی نے اسے حسن   کہاہے)۔

4 - سحری میں جلدبازی سے کام لینا:بہت سارے لوگوں کو دیکھاجاتاہےکہ وہ رات کےابتدائی حصے میں یا سوتے وقت  ہی سحری کرلیتےہیں  کہ آخرمیں اٹھنا نہ پڑے، جبکہ سحری میں  تاخیر سنت ہے ،انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے:وہ کہتے ہیں کہ   ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے  بیان کیاکہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا ؟ - تو انہوں نے کہا کہ: پچاس آیتیں )پڑھنے( کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔(صحیح البخاری/575، 2552 ،صحیح مسلم/1097)۔ اسی طرح ایک روایت میں دیر سے سحری کرنے کو نبوت کے اخلاق میں سے کہاگیاہے ، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"تین چیزیں نبوت کے اخلاق میں سے ہیں : افطار میں جلدی کرنا ، سحری میں تاخیرکرنا اور نمازمیں بائیں ہاتھ پرداہنے ہاتھ کو رکھنا"۔(ہیثمی نے لکھاہےکہ اسے امام طبرانی نے کبیر میں روایت کیاہے (مجمع الزوائد:2/105، علامہ البانی نے اسے صحیح الجامع/3038 کے اندر صحیح کہاہے)۔

5 - سحری سے بےاعتنائی :بہت سارے لوگوں میں یہ بھی دیکھا گیاہے کہ وہ سحری نہیں کرتے جبکہ سحری سنت رسول  اورتقوی وبرکت اور نشاط کا سبب ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً"۔ " سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہوتی ہے"۔(صحیح البخاری/1923، صحیح مسلم/1095)۔

6 - بہت سارے لوگوں میں جہالت کی بنیاد پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اگرکسی کی سحری چھوٹ جائے تو اس کا روزہ نہیں ہوتاہے ،اور پھر وہ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے ۔ ان کا یہ عمل سراسر خلاف شریعت ہے کیونکہ سحری کا عمل سنت ہے جبکہ رمضان کا روزہ فرض ہے ،چنانچہ کسی کی سحری چھوٹ جائے تو  اس کے روزے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

7 - بہت سارے لوگوں کو دیکھاجاتاہے کہ وہ بحالت روزہ چڑچڑا پن کا مظاہرہ کرنےلگتے ہیں اور بات بات پر اور بہت جلد غصہ کرنے لگتےہیں  اور بسا اوقات بدخلقی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں  اور لڑائی ،جھگڑا اور گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں ،جب کہ روزے کامقصدہی نفس پر کنٹرول اور تقوی شعاری ہے ، اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاكُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ)۔( اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے،جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو)۔(البقرۃ/183)۔یہاں تک کہ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" روزہ جہنم سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، ،(یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے)"۔(صحیح البخاری/1894، صحیح مسلم/1151)۔

8- بہت سارے لوگ رمضان کی فضیلتوں اور روزہ کے احکام ومسائل سے نابلد ہوتےہیں، اور مصیبت تو یہ ہے کہ وہ انہیں جاننے اور سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے جہالت اور کاہلی کی وجہ سے ان کا اکثر عمل خلاف سنت ہوتاہے اور وہ   اس ماہ میں خیرکثیر سے محروم  ہوجاتےہیں۔

9 - روزہ کی نیت میں تساہلی برتنا اورخلاف سنت عمل کرنا : واضح رہےکہ روزہ کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے  ،گرچہ فجرسے لمحہ بھر قبل ہی کیوں نہ ہو ،یہاں یہ بھی جان لیں کہ نیت دل کے ارادے کانام ہے ، زبان سے نیت کے الفاظ چونکہ قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہیں اس لئے اس کے الفاظ اور زبان سے اس کی ادائیگی بدعت ہے اور  ہر بدعت گمراہی ہے۔

10 -  کاہلی اور سستی کی وجہ سے تراویح چھوڑنا :چونکہ تراویح کی بےشمار فضیلتیں ہیں خاص طور سے اس کے اہتمام کی وجہ سے سارے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتےہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"۔"جو کوئی رمضان میں (راتوں کو) ایمان رکھ کر اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں"۔(صحیح البخاری/37 ، صحیح مسلم /759)۔ اس لئے اس سے بےاعتنائی  خاص طور سے کسی روزہ دار کےلئے خیر کثیر سے حرمان کا سبب ہے ۔

11 - بہت سارے لوگوں کو دیکھاجاتاہے کہ ابتدائے رمضان میں تو بہت زیادہ نشیط  اور چاق وچوبند رہتے ہیں خوب بڑھ چڑھ کر روزہ ، تراویح ، اور سحروافطار میں حصہ لیتےہیں ،لیکن جوں جوں رمضان کے ایام گزرتے جاتےہیں ان کے اندردھیرے دھیرے  سستی اورکاہلی آنے لگتی ہے، جبکہ آخری  عشرے میں خاص طور سے آدمی کو اہتمام کے ساتھ  عباد ت  اور ذکر اذکار میں لگنا چاہئے،عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے) آخری دس دن (عبادت) میں اس قدر محنت کرتے، جتنی عام  دنوں میں نہیں کرتے"۔(صحیح مسلم/1175)۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے ، عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ : جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پوری طرح  کمر کس لیتے،اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔(صحیح البخاری/2024) ۔

12- آخری عشرےمیں   خاص طور سے قد ر کی راتوں میں  جشن  جیسا ماحول پیدا کرنا:جس میں خوردونوش کا خصوصی اہتمام کیاجاتاہے اور بعض مقامات پر تو ختم قرآن کے نام پر حلوہ،مٹھائی  اورشیرینی تقسیم کی جاتی ہے ۔ جبکہ رمضان کی یہ راتیں صحیح نیتوں  اور اخلاص کے ساتھ عبادت کے لئے فضل وبرکت والی بنائی گئی ہیں نہ کہ پکنک او رپارٹی جیسےبےکار اورفالتو  اعمال کےلئے۔

13 - تراویح ایک مسنون ومستحب  اور فضل و اہمیت والا عمل ہے ، لیکن بہت ساری عورتوں کو دیکھاجاتاہے کہ  وہ خوب زیب وزینت اختیار کرکے اوربن سنورکر ، خوشبو وغیرہ لگا کر  اور او بسااوقات بےپردہ ہوکر تراویح کےلئے جاتی ہیں جو سراسر گناہ کا عمل ہے ،یہی وجہ ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہانے جب عورتو ں کی طرف سے اس طرح کا عمل دیکھاتو فرمایاکہ :"لَوْ أدْرَكَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ما أحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كما مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إسْرَائِيلَ"۔" آج عورتوں میں جو نئی باتیں پیدا ہو گئی ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ لیتے تو ان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا"۔ (صحیح البخاری/869 ، صحیح مسلم/445)۔

14 - مسجدسے تراویح کے بعد نکلتے وقت  عورتوں کا مردوں سے اختلاط ۔
15-  رمضان میں بلاضرورت  کثرت سےعورتوں کا بازار میں نکلنا ۔

16- بعض عورتوں کی ماہواری فجرسے قبل ختم ہوتی ہے اور وقت کی قلت کی وجہ سےوہ  غسل نہیں کرپاتی  اوریہ سمجھتےہوئے کہ صبح ہوگئی تھی اور چونکہ وقت  رہتے غسل نہیں کرپائی تھی اس لئےروزہ نہیں رکھتی۔ یہ صریح غلطی ہے، اس حالت میں اس عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے گرچہ وہ فجرسے پہلے غسل نہیں کرپائی تھی۔ وہ روزہ رکھےگی اور وقت نکلنے کےبعد بھی غسل کرسکتی ہے اس سے اس کے روزے پر کوئی اثرنہیں پڑےگا۔

17- بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کو دن میں احتلام ہوگیا تو اس کا روزہ مکروہ ہوگیا۔جبکہ  احتلام انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے  ،چنانچہ بحالت روزہ احتلام سے اس پر کوئی اثرنہیں پڑےگا۔

18 – رمضان میں عمرے کا ثواب بہت زیادہ ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے اندر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےانصار کی ایک عورت سے پوچھا کہ:" تم نے ہمارے ساتھ حج کیوں نہیں کیا؟" تو وہ کہنے لگی کہ: ہمارے پاس ایک اونٹ تھا، جس پر میرے شوہر اور بیٹا سوار ہو کر حج کے لیے چل دیئے اور ایک اونٹ انہوں نے چھوڑا ہے، جس سے پانی لایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:" اچھا جب رمضان آئے تو عمرہ کر لینا کیونکہ رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہوتا ہے  اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے:" میرے ساتھ ایک حج کرنےکے برابر ہے"۔(صحیح البخاری/1782، صحیح مسلم/1256)۔

یہ فضل اور ثواب پورے مہینے میں ہے کسی خاص تاریخ اور دن کی تخصیص نہیں ہے ، لیکن بہت سارے لوگ  یہ  سمجھتےہیں کہ آخری عشرے میں یا قدرکی رات میں عمرے کا ثواب بڑھ جاتاہے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان دنوں میں حرم میں حج کے ایام سے زیادہ بھیڑبڑھ جاتی ہے۔

19 – بہت سارے لوگ  ہلکی بیماری پر یا کام کا بہانہ کرکے یا عدم برداشت کا بہانہ کرکے  روزہ توڑ دیتے ہیں،اسی طرح مزدوری یا امتحان کی وجہ سے روزہ چھوڑ دینا بھی عام بات ہوگئی ہے  ۔ اور مصیبت تو یہ ہے کہ روزہ توڑنے کے بعد اس کی قضا بھی نہیں کرتے  ،اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو روزہ ٹوٹ گیا  اس کا حکم ختم ہوگیا۔

20 – بہت سارے لوگ رمضان شروع ہونے سے  ایک دن پہلے روزہ رکھتے ہیں، کچھ لوگ احتیاط کے طور پر اور کچھ لوگ اسےسلامی روزہ کا نام دیتے ہیں ۔ اور دونوں صورتوں  میں اس دن روزہ رکھنا حرام ہے، الا یہ کہ کسی کا کوئی روزہ  ہے،جسےوہ  رکھنے کا  عادی ہے تو رکھ سکتاہے، جیسے سوموار یا جمعرات کا روزہ  وغیرہ ۔

21 - ماہ رمضان میں نکاح کی حرمت کا عقیدہ رکھنا:عوام الناس میں یہ غلط عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ماہ رمضان میں نکاح کرنا جائز نہیں ہے ، حالانکہ نکاح کرنا کسی بھی موسم اور مہینے میں جائز ہے سوائے مُحرِم شخص(جس نے حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھ رکھاہو) کے کیونکہ حالت احرام میں اس کےلئے شادی حرام ہے  ۔ ماہ رمضان میں شادی کے درست ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے اس ماہ  میں غروب شمس سے لےکر  طلوع فجر تک بیوی سے جماع کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :(اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآىِٕكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ) ۔(البقرۃ :187) ( روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو

22 - ماہ رمضان میں بیوی سے ہمبستر ہونے کو حرام خیال کرنا :بعض افراد کا خیال ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کی راتوں میں بھی بیویوں سے ہمبستر ہونا جائز نہیں ہے۔ یقیناً یہ ایک غلط فکر ہے جس کا ازالہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہمبستری کی ممانعت صرف دن میں ہے جبکہ رات میں بیوی سے جماع کرنا حلال ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :(اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآىِٕكُمْ  هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ) ۔(البقرۃ :187) ( روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو

اللہ رب العزت ہمارے اعمال کو کتاب وسنت کے مطابق  بنائے اور ہماری  نیکیوں کو قبول فرمائے ۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم۔

*********

آرمگڈون او رجنگ عظیم : مختصر تقابلی جائزہ

آرمگڈون او رجنگ عظیم   (مختصر تقابلی جائزہ)

                                          عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی

آرمگڈون کیاہے:

آرمگڈون یا آرمیگڈون جسے انگریزی میں Armageddon (آرمگڈون) سے  تعبیرکیا جاتاہے۔اہل کتاب یہودونصاری کے مطابق ایک آخری  جنگ ہے جس کا وقوع  قرب قیامت میں ہونا حتمی  ہے ، ان کے عقیدہ کے مطابق  یہ جنگ بت پرستوں اور حق پرستوں (ان کے بقول مسیحیوں) کے درمیان واقع ہو گی۔ جس سےان کے مطابق حق وباطل کا فیصلہ ہوگا اور باطل دنیا سے نیست ونابود ہوجائےگا اور حق غالب  ہوگا ،واضح رہے کہ بت پرستوں سے مسیحی مبلغین کی مراد مسلمان اور یہودی دونوں ہیں۔،ان کے مطابق اس جنگ میں کم از کم تین ارب جانوں کا خاتمہ ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ خیر اور شر کے درمیان یہ خوفناک جنگ فلسطین کے علاقے میں واقع ہو گی۔

وجہ تسمیہ :

اس جنگ کو "هَرْمَجِدُّون "  یا " ارمجدون " کہاجاتاہے جو کہ   عبرانی لفظ ہے اور  دو کلمہ   " هار " اور " مجدُّو " سے مل کربناہے‎"ھار" کا  معنی  " تل " ہے جو  چھوٹی پہاڑی یا ٹیلہ کو کہتےہیں ،  ا ور"مجدو" شمالی فلسطین  کے شہر جنین (Jenin) سے قریب  مرج عامر میں ایک شہر یا وادی کا نام ہے، اسے "مجیدو"   عبرانی میں " مچدو " یا" تل المتسلم" (Tell el-Mutesellim) اور

  ( (Tel Megiddo بھی کہاجاتاہے، ، یہ شمالی فلسطین کا نہایت ہی قدیم اور اہم شہرہے جو قدیم کنعانی تہذیب کی نشانی ہے ۔ یہ تل ابیب سے شمال میں  55  ، اورحیقا سے جنوب مشرق میں 20 کیلو میٹرکی دوری پرواقع ہے۔(دیکھئے :خدعۃ ھرمجدون /ص34) اور بلادنا فلسطين لممصطفى مراد الدباغ  نیز  آزادویکیپیڈیا)۔

 وہی پر بعض لوگوں کے مطابق آرمگڈون دنیا کے خاتمے کو کہا جاتا ہے۔

آرمگڈون  کےمسیحی  نظریہ کا خلاصہ :

مسیحیوں کے نزدیک یہ ایک مقدس جنگ ہے جس کی کمان  عیسی علیہ السلام کے ہاتھ میں ہوگی   ۔

 آرمگڈون کے  موضوع پر بےشمار مضامین یورپ کے میگزینوں میں شایع ہوتے رہے  ہیں، یہی نہیں کروڑوں کی تعداد میں اس موضوع پر کتابیں  اور پمفلٹ یورپ کی بازاروں میں  فروخت ہوئی   ہیں ، عصرحاضرمیں مغرب خصوصاً امریکہ میں آرمگڈون (Armageddon) کا نظریہ بہت مقبول ہو رہا ہے، بلکہ اب اس کی مقبولیت نظریے سے بڑھ کر ایک تحریک کی سی ہو گئی ہے،جس کا نشہ ان کے سرچڑھ کربولتاہے، اوراس معاملے میں اپنی تجدد پسند  ذہنیت (modernity )کے ہزاردعووں کے باوجود  حد درجہ قدامت پسند (conservative) اور بنیاد پرست واقع ہوئےہیں ۔

آرمگڈون سے متعلق مسیحی نظریہ کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے :

-  کم سے کم بیس کروڑ سپاہی مشرق یعنی مسلم ممالک سے آئیں گے جب کہ کروڑوں سپاہی مغربی طاقتوں کے ہوں گے، سلطنت روماکی تجدید و قیام کے بعد پھر عیسیٰ مسیح ان مشرقی افواج پر حملہ کریں گے، جنھوں نے ان کے یروشلم کو غارت کر دیا ہے ۔

-  یروشلم سے دو سو میل تک اتنا خون بہے گا کہ وہ زمین سے گھوڑوں کی باگ کی بلندی تک پہنچ جائے گا اور یہ ساری وادی انسانوں اور جانوروں کے خون سے بھر جائے گی۔ 

-  دنیا کے سارے شہر لندن، پیرس، ٹوکیو، نیویارک اور شکاگو وغیرہ سب کے سب اس دن صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائیں گے۔ ( سابق امریکی صدر ریگن)

-   سابق امریکی  صدر جمی کارٹر نے آرمگڈون کو اسرائیل کا قیام، بائبل کی پیشین گوئی کی تکمیل اور بائبل کے بیان کا حاصل قراردیا ہے۔

- ایک مسیحی بنیاد پرست اوول کہتا ہے کہ کٹر یہودی مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑا دیں گے جس سے مسلم دنیا بھڑک اٹھے گی، یہ اسرائیل کے ساتھ ایک مقدس جنگ ہو گی اور اس کے نتیجے میں مسیح علیہ السلام مجبورہو جائیں گے کہ درمیان میں مداخلت کریں۔ 

امریکہ کے سب سے زیادہ سنے جانے والے مبلغ وپادری  جیری فال ویل کہتے ہیں کہ ایک آخری جھڑپ ہو گی اور پھر اللہ تعالی اس دنیا کو فناکردےگا۔

- ایک مسیحی  اسکالربراڈ سے  اس جنگ کے سلسلے میں دریافت کیا گیا تو اس نے کہاکہ یہ جنگ فلسطین میں ہوگی اور اس کی فتح کے بعدعیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور بادشاہ داؤد علیہ السلام کے تخت پر بیٹھ کر حکومت کریں گے۔

- ایک مسیحی  رہنما  کلویڈ  Cloyd   کہتے ہیں کہ : اس جنگ میں پہلا وار  عیسی علیہ السلام کا ہوگا۔(تفصیلات  ویکیپیڈیا  آزاد دائرۃ المعارف  بموضوع "ارمجدون " سے ماخوذہیں

- معروف امریکی رائٹر گریس ہالسیل   Grace Halsell کہتی ہے :" ایک مسیحی ہونے کے ناطے ہمارا ایمان ہے کہ آرمگڈون نامی معرکے کے بعد انسانی تاریخ کی انتہاء ہوجائےگی، اور اس معرکہ کا اختتام مسیح کےدوبارہ آنے کے ساتھ ہوگا جو اپنی واپسی پر زندہ اورمردہ سب پر یکساں حکومت کریں گے"۔(الأخبارالطموسۃ في  کتاب ھرمجدون) ۔

-  سابق امریکی صدر ریگن  نے اپنے ایک انٹرویو میں تحدیدا  کہاکہ: ہماری ہی وہ جینریشن  (نسل) ہوگی جو معرکۂ آرمگڈون    دیکھےگی ۔

مسیحی نظریہ کے اختصار کے بعد مناسب معلوم ہوتاہے کہ  اس  کے علاوہ  اس کے  بارے میں جو  سیاسی اور مذہبی نظریا ت عام ہیں انہیں   مختصرا بیان کردیاجائے، تاکہ   ایک قاری کے پیش نظر رہے کہ اس جنگ کے نظریات سے متعلق  دیگر مذاہب و افکار میں بھی   اس کا  کچھ نہ کچھ  ذکر موجود ہے ۔

آرمگڈون کا سیاسی نظریہ :
یورپ خاص طور سے امریکہ نے آرمگڈون کے نظریہ سے بہت زیاد ہ سیاسی فائدہ اٹھایاہے ، جس طرح قومیت ،لسانیت ، علاقائیت  اور 
مذہبیت کو حکومت کے حصول کےلئے  خاص طور سے جمہوری حکومت میں  تسلط کےلئے آلہ بنایاجاتاہے (اور دیکھاگیا ہے کہ اس کا 
خاطرخواہ فائدہ بھی ہوتاہے) ، ٹھیک اسی طرح امریکہ میں آرمگڈون کے نظریہ نے  فیئۃ  حاکمہ  ((Ruling groupکوبہت 
زیادہ فائدہ پہونچایاہے ،  اورچونکہ امریکہ ایک مسیحی خطہ ہے اس لئے آرمیگڈون  کے نظریہ کو بطور ہتھیار استعمال کرنا کچھ بعید بھی نہیں 
ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق مواد  یورپ اور خاص طورسے امریکہ کے اندرکروڑوں کی تعداد میں نشرکئے  گئے ، اسی 
طرح  سابق امریکی صدر جارج  ڈبلیو بش نے  مختلف مواقع سے  اس موضوع کو چھیڑاتھا ، اور اسے اپنے مقاصدکے حصول کا راستہ بنایا تھا ، 
اس کے علاوہ ان  کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عالمی صہیونی مقاصد کوعملی جامہ پہنایا جائے، اور اسرائیل کی ریاست کو  مطمئن کرکے  اپنا الو 
سیدھا کیاجائے ، یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ مختلف قسم کے خطرناک ہتھیاروں کی  زرخیزی میں اپنا اول اورآخر سب کچھ داؤ پر 
لگاتارہاہے،مبصرین کا ماننا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں  کی ہوڑبھی اسی نظریہ سے منتج ہے ، کیونکہ انہیں یقین ہےکہ دنیا کا خاتمہ قریب ہے 
جس سے پہلےایک عظیم جنگ حتمی ہے ۔

واضح رہے کہ 1990ء میں قبرص میں جاری ہونے والی انسانی حقوق کی تنظیم کی ایک رپورٹ  میں یہ نقطۂ نظر بھی  موضوع بحث تھا،

 جس میں کہا گیا کہ :امریکہ اور دنیا کے تمام ممالک میں سیاسی اور بنیاد پرست تنظیمیں اور انجمنیں ہیں جو اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کا

خاتمہ قریب آچکا ہے، اور یہ کہ اب ہم آخری ایام میں رہ رہے ہیں جس میں آرمگڈون کی جنگ ہوگی جو ایک  فیصلہ کن جنگ ہے، جس

کا آغاز اسرائیل کی ریاست کے خلاف دنیا کی  جنگ شروع کرنے سے ہوگا، اور پھر یہودیوں کو شکست ہوگی اور اس  کے بعد مسیح آکر دشمنوں کا محاسبہ کریں گے اور فتح حاصل کریں گے، پھر مسیح دنیا پر ہزار سال حکومت کریں گے اور دنیا مکمل محبت اور امن سے رہے

گی۔

آرمگڈون کا یہودی نظریہ :

اس جنگ سے متعلق  سفرالر‏ؤیا میں  وارد نص پر یہودکابھی بھروسہ ہے کہ اس جنگ کا وقوع ارض فلسطین میں   کوہ مجدون کے اردگرد

واقع وسیع ترین میدان میں  ہو گا ، اور مسیح   آکر ان کی فوج کی قیادت کریں گے ، اور ان کو کفارپر فتح اور نصرت حاصل ہوگی ۔  گویا

آرمگڈون کا وقوع  ہیودیت اور عیسائیت دونوں  کا مشترکہ عقیدہ ہے ۔

یہاں یہ بتانا بھی  ضروری ہےکہ یہودکے یہاں مسیح سے مراد عیسی علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ  وہ اپنے مسیحا یا ان کی زبان میں ان کا نجات

دہندہ  یَبُل، یُوبِل یا ہُبَل ہے اور اس کا لقب ان کے ہاں مسیحا یا مَسِیّا ہے جو داود علیہ السلام کی نسل میں سے ہوگا۔ یہود اس دن کا

بڑی شدت سے انتظار کرتے ہیں ۔تلمود جو کہ ان کےنزدیک توریت سے بھی زیاد ہ مقدس ہےکے اندر ہے :" یہودیوں کی مکمل

حکومت سے پہلے  امتوں کے درمیا ن ایک جنگ ضروری ہے، جس کے اندر ایک تہائی دنیا نیست ونابودہوجائےگی اور وہ سات سالوں

تک رہیں گے اور فتح کے بعد جو ہتھیاران  کے ہاتھ میں آئےگا اسے جلا ڈالیں گے "۔ اس دن سے متعلق نبی یوئیل کا ایک  قول نقل

کیاجاتاہےکہ:"جنگ کا بِگُل بَجا‏ؤ ، دونوں مقدس پہاڑوں میں نعرےلگاؤ، دنیاکےسارے باشندے گرجیں ، یوم الرب آنے والاہے ،  وہ قریب ہے، تاریکی او رغروب کا دن ہے،بدلی وگھٹا  اور کہرےکا دن ہے "۔(الانجيل ص 388- سفر الرؤيا 16/16)

اور سفرالرؤیا کے اندر ہے:"پوری دنیا کی فوجوں کو شیطانی روحوں نے ھرمجدون نامی جگہ میں اکٹھا کرلیاہے "۔(سفر الرؤيا - آيات

12-16) ۔

مشہورآسٹریائی ڈرامہ نگار، صحافی اور یہودیوں کا  سیاسی مبصر تھیوڈور ہرتزل(1860-1904ء) لکھتاہے :"عالم رؤیامیں بادشا ہ مسیح   

یا مسیا ایک خوبصورت بزرگ کی صورت میں آئے اور مجھےکہاکہ : تم جاکر یہودیوں کو بتادو میں  بہت جلد آؤں گا تاکہ  عظیم معجزات  دکھاؤں ، اور اپنے لوگوں کےلئے اور پوری دنیا کے لئے عظیم کام انجام دوں "۔

آرمگڈون اوربہایئیت :

بعض بہائی  دانشوران اپنے زعم کے مطابق آرمگڈون کو عراق و کویت کےتصادم سے پیدا ہونےوالے جنگ کو گردانتےہیں ، بہائی   كارلوتاجيزن کہتاہے:" آرمگڈون   یہود ، نصاری  اور مسلمانوں کے درمیان ایک دینی جنگ ہے،دنیا کے جوحالات ہیں خاص طورسے  سنہ 1991ء سے آرمگڈون کے لئے عالمی منظرنامےکی راہ ہموارکررہےہیں، اسی طرح موجودہ مسائل وقضایا اس بات کی طرف واضح  طورپر اشارہ کررہےہیں کہ یہ معرکہ  عنقریب ہوکررہےگا"۔

 بہائیت کے مطابق  معرکہ آرمگڈون سے قبل 144  ہزارا فراد   اللہ اور اس کے میثاق وعہد کے فہم کے ساتھ ہوں گے اور یہ سب   کے سب وہ    ہوں گے جنہوں نے بہائی میثاق کا اقرارکیاہواہے ۔ نیز ان کے مطابق  اس سے بڑے آرمگڈون کا معرکہ پیش آئےگا اور  اس کے اختتام پر  دوتہائی دنیا تہس   نہس ہوچکی ہوگی ۔

کارلوتا کےمطابق  :"آرمگڈون جو آخری زمانے کا معرکہ ہے اس کےاختتام پر  یہ کونسل (دوسری عالمی بہائی کونسل   ) جس کی  بنیاد  جنوری سنہ 1991 عیسوی میں پڑی ہے ،دنیاکی قیادت کی حیثیت سے  ایک نئے مرحلے میں  داخل ہوگی  ،اور اسی وقت یہ چاروں بربریت  پسند وحشی ممالک (انگلینڈ ، فرانس ، روس  اور  امریکہ)پہلے بہائی سلطنت بن جائیں گے ، اور جب دنیا کے تمام ممالک بہائی مذہب کو  قبول کرلیں گے تو  اس عالم میں نئے سرے سے محکمۃ الرب کا  وجودہوگا"۔(القاتل الأخیرلمحمد ابراہیم محروس/ ص 165-166،  ویکیپیڈیا  آزاد دائرۃ المعارف )۔

الملحمۃ الکبری (جنگ عظیم)  اورآرمگڈون کےدرمیان فرق:

بعض علماء بحث نے احادیث  میں موجود الملحمۃ الکبری ( جو قیامت کی علامتوں میں سے ایک ہے) اور آرمگڈون   کو  ایک ہی قراردیاہے،  دراصل ہر مذہب کے اندر  دنیاکے خاتمے سے قبل ایک حتمی جنگ  کا بیان ہوا ہے ،جس سے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ دونوں ایک ہی ہیں ،  حالانکہ کے دونوں کے تفصیلات انہیں ایک  ماننے سے مانع ہیں ،جن کا بیان ان شاء اللہ  ہم  ذیل میں کرنے والےہیں ۔

آرمگڈون اور ملحمۃ کبری کے درمیان تقابل سے پہلے  ملحمۃ کبری سے متعلق روایات کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ  صلب موضوع کو سمجھنے میں  آسانی ہو ۔

جنگ عظیم (الملحمۃ الکبری ) :

جنگ عظیم جسے احادیث کےنصوص میں الملحمۃ الکبری سے تعبیر کیاگیا ہے ، اسلامی عقیدہ کے مطابق قرب قیامت کے وقت واقع ہوگا ،  اس کی تفصیلات بے شمار احادیث  میں  مختصرا ومفصلا موجود ہیں ، اس ضمن میں جو سب سے معروف اور مشہور روایت ہے اسے امام بخاری اور دیگر کئی محدثین نے مختلف الفاظ کے ساتھ  کئ  ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایت کیاہے ، عوف بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتےہیں  : أَتَيْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في غَزْوَةتَبُوكَ وهو في قُبَّةٍ مِن أَدَمٍ ، فَقالَ: "اعْدُدْ سِتًّا بيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ: مَوْتِي، ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ المَقْدِسِ، ثُمَّ مُوتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الغَنَمِ ، ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ المَالِ حتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِئَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا، ثُمَّ فِتْنَةٌ لا يَبْقَى بَيْتٌ مِنَ العَرَبِ إلَّا  دَخَلَتْهُ، ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بيْنَكُمْ وبيْنَ بَنِي الأصْفَرِ، فَيَغْدِرُونَ فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً ، تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا"۔

میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :" قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو: میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک(بکثرت موت والی ) وبا  جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں ایک بیماری  پھیل جاتی ہے(جس سے بکریاں مرجاتی ہیں ) ۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہو گی کہ ایک شخص سو دینار بھی دیاجائے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہو گا۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن اور عام ہو گا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہو گا۔ پھرایک  صلح جو تمہارے اور بنی الاصفر (نصارائے روم) کے درمیان ہو گی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گی (یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے("۔(صحیح البخاری/3176 )۔

اور صحیح مسلم کے اندر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"  لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِأَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا، قَالَتْ الرُّومُ:خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا، وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ، وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا، فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ ۔۔۔"۔"قیامت اس وقت تک  قائم  نہیں ہو گی یہاں تک کہ روم کے نصاریٰ کا لشکر اعماق میں یا دابق میں اترے گا ، پھر مدینہ سےان کی طرف ایک لشکر نکلے گا جو ان دنوں تمام زمین والوں میں بہتر ہو گا۔ جب دونوں لشکر صف باندھیں گے تو نصاریٰ کہیں گے: تم لوگ(ان مسلمانوں سے)  الگ ہو جاؤ جنہوں نے ہمارے بیوی بچوں کو پکڑلیا  اور انہیں لونڈی غلام بنالیا ہم ان سے لڑیں گے۔ مسلمان کہیں گے: نہیں اللہ کی قسم! ہم کبھی اپنے بھائیوں سے الگ نہ ہوں گے۔ پھر لڑائی ہو گی تو مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر بھاگ نکلے گا ان کی توبہ کبھی اللہ تعالیٰ قبول نہ کرے گا اور ان میں سے ایک  تہائی لشکر مارا جائے گا  اللہ تعالی کے نزدیک وہ سب شہیدوں میں افضل ہوں گے۔ اور  ایک تہائی لشکر کی فتح ہو گی۔ وہ عمر بھر کبھی فتنے اور بلا میں نہ پڑیں گے۔ پھر قسطنطینیہ کو فتح کریں گے۔۔۔۔" ۔( صحیح مسلم/2897، مستدرک الحاکم :4/529 امام حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے اورامام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)۔

نوٹ :(وادی اعماق Amik Valley) )  ترکی کی حدود میں ایک جگہ کا نام ہے جو جو انطاکیہ کے قریب واقع ہے ۔  بحيرة العمق نامی جھیل  بھی وہیں پرہے۔

دابق  شام  میں حلب کے شمال مشرق میں تقریباً 40 کلو میٹر (25 میل) کے فاصلے پر واقع ایک قصبہ ہے۔ سلطنت عثمانیہ اور سلطنت مملوک کے درمیان ہونے والی جنگ مرج دابق  کی وجہ سے اس کی  کافی شہرت ہے۔

امام نووی لکھتےہیں کہ اعماق اوردابق شام میں حلب کے قریب دوجگہوں کا نام ہے ۔(شرح مسلم:18/21) ۔ اورصاحب قاموس کے مطابق اعماق حلب اورانطاکیہ کے درمیان واقع ہے۔ تاج العروس میں ہے کہ دابق کے قریب ہے ، صاحب القاموس کےمطابق دابق حلب سے قریب ہے اور تاج العروس کے مطابق حلب سے چارفرسخ کی دوری پر واقع ہے۔(دیکھئے:القاموس المحیط:3/ 268٨ ، إتحاف الجماعۃ بما جاء في الفتن والملاحم وأشراط الساعۃ:1/ 397، وتاج العروس مادہ  د ب ق ۔ ))

 صلح کے بعدجنگ :

اس جنگ  کی تفصیلات او راس کے اسباب کے بارےمیں کئی  ایک روایتیں موجود ہیں جیسے:

     رومیوں کی غداری اور پھر مسلمانوں کے ساتھ ان کی لڑائی کا ذکر ذی مخبر  کی روایت میں بیان کیاگیاہے،جسے امام ابوداود اور امام ترمذی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں ذکرکیاہے ، حسان بن عطیہ  کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا  : خالد بن معدان کی طرف چلے، میں بھی ان کے ساتھ چلا تو انہوں نے ہم سے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے صلح کے متعلق بیان کیا، جبیر نے کہا: ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ذِي مِخْمَرٍ نامی ایک شخص کے پاس چلو (یہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تھے)  چنانچہ ہم ان کے پاس آئے، جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا، توانہوں نےکہا: میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتےسنا ہے"ستُصالِحونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا، فتَغزُونَ أنتم وهُمْ عَدُوًّا مِن وَرائِكُم، فتُنْصَرون وتَغْنَمون وتَسْلَمون، ثُمَّ تَنْصَرِفُونَ حَتَّى تَنْزِلُوا بِمَرْجٍ ذِي تُلُولٍ, فَيَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الصَّلِيبِ الصَّلِيبَ, فَيَقُولُ: غَلَبَ الصَّلِيبُ , فَيَغْضَبُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَيَقُومُ إِلَيْهِ فَيَدُقُّهُ,فَعِنْدَ ذَلِكَ تَغْدِرُ الرُّومُ وَيَجْتَمِعُونَ لِلْمَلْحَمَةِ" ۔  " عنقریب تم رومیوں سے ایک پر امن صلح کرو گے، پھر تم اور وہ مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑو گے جو تمہارے پیچھے ہے، اس پر فتح پاؤ گے، اور غنیمت کا مال لے کر صحیح سالم واپس ہو گے ، یہاں تک کہ تم ایک تروتازہ اور سرسبز مقام پر جہاں ٹیلے وغیرہ ہوں گے، اترو گے، وہاں صلیب والوں یعنی رومیوں میں سے ایک شخص صلیب بلند کرے گا، اور کہے گا: صلیب غالب آ گئی، مسلمانوں میں سے ایک شخص غصے میں آئے گا، اور اس کے پاس جا کر صلیب توڑ دے گا، اس وقت رومی عہد توڑ دیں گے، اور سب جنگ کے لیے جمع ہو جائیں گے"۔ (سنن ابی داود/2767، 4292، سنن ابن ماجہ /4089، مسند احمد/4/91 ، 5/409، (16825،23157،23477،16826) مستدرک للحاکم:4/ 467، امام حاکم نے صحیح قراردیاہےاورامام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، علامہ البانی نے اس روایت کوصحیح قراردیا ہے، دیکھئے صحیح سنن ابی داود/4292، وصحیح سنن ابن ماجہ/3318) ۔

 ابن ماجہ کی روایت میں اتنی زیادتی ہے:

" فيجتمعون للملحمة , فياتون حينئذ تحت ثمانين غاية تحت كل غاية اثنا عشر الفا"۔"وہ (نصاریٰ مسلمانوں سے) لڑنے کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے، اس وقت اسی جھنڈوں کی سرکردگی میں آئیں گے، اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی"۔(سنن ابن ماجۃ :4089 علامہ البانی نے اس روایت کی تصحیح کی ہے) ۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نصاریٰ کی شان و شوکت اور سلطنت قیامت تک باقی رہے گی یعنی مہدی علیہ السلام کے وقت تک۔  اسی طرح صحیح مسلم(2898)  کی روایت میں ہے کہ  قیامت  اس وقت تک نہیں قائم ہو گی جب  تک کہ دنیا کے اکثر لوگ نصاریٰ ہوں گے"۔   یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی  بڑی دلیل ہے کیونکہ آپ کی یہ پیشین گوئی بالکل سچی نکلی، کئی سو برس سے نصاریٰ کا برابر  عروج ہو رہا ہے، اور ہر ایک ملک میں ان کا مذہب پھیلتا گیاہے، دنیا کے ہرگوشے  میں کہیں نہ کہیں  یا توان کی حکومت قائم ہو گئی ہے، یا ان کے زیر اثر سلطنتیں قائم ہیں، یعنی بالواسطہ یا بلا واسطہ دنیا کے اکثر حصوں پر ان کا تسلط قائم ہے ، بلکہ دیکھا جائے تو وہ عددمیں متفوق تو ہیں ہی ، پوری دنیا ان کی تہذیب وثقافت  اور افکار ووسائل کے زیر تسلط ہے - الا ماشاء اللہ ۔
اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے قریب مسلمانوں کا بادشاہ نصاریٰ کی ایک قوم کے ساتھ مل کر تیسری سلطنت سے لڑے گا اور فتح پائے گا، پھر صلیب پر تکرار ہو کر  سارے نصاریٰ آپس میں  مل جائیں گے اور متفق  و متحدہو کر مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے۔

اور ایک روایت میں مدت صلح اور جنگ  اور اس کےسبب کی تفصیلات کا بیان کچھ اس طرح ہے : " تُصَالِحُونَ الرُّومَ عَشْرَ سِنِينَ صُلْحًا آمِنًا، يُوفُونَ لَكُمْ سَنَتَيْنِ، وَيَغْدِرُونَ فِي الثَّالِثَةِ، أَوْ يَفُونَ أَرْبَعًا وَيَغْدِرُونَ فِي الْخَامِسَةِ، فَيَنْزِلُ جَيْشٌ مِنْكُمْ فِي مَدِينَتِهِمْ فَتَنْفِرُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ إِلَى عَدُوٍّ مِنْ وَرَائِهِمْ، فَيَفْتَحُ اللَّهُ لَكُمْ فَتُنْصَرُونَ بِمَا أَصَبْتُمْ مِنْ أَجْرٍوَغَنِيمَةٍ، فَيَنْزِلُونَ فِي مَرْجِ ذِي تُلُولٍ فَيَقُولُ: قَائِلُكُمُ: اللَّهُ غَلَبَ، وَيَقُولُ قَائِلُهُمُ: الصَّلِيبُ غَلَبَ، فَيَتَدَاوَلُونَهَا سَاعَةً، فَيَغْضَبُ الْمُسْلِمُونَ وَصَلِيبُهُمْ مِنْهُمْ غَيْرُ بَعِيدٍ، فَيَثُورُ الْمُسْلِمُ إِلَى صَلِيبِهِمْ فَيَدُقُّهُ، فَيَثُورُونَ إِلَى كَاسِرِ صَلِيبِهِمْ، فَيَضْرِبُونَ عُنُقَهُ، فَتَثُورُ تِلْكَ الْعِصَابَةُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى أَسْلِحَتِهِمْ، وَيَثُورُ الرُّومُ إِلَى أَسْلِحَتِهِمْ، فَيَقْتَتِلُونَ فَيُكْرِمُ اللَّهُ تِلْكَ الْعِصَابَةَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَيُسْتَشْهَدُونَ،  فَيَأْتُونَ مَلِكَهُمْ فَيَقُولُونَ:قَدْكَفَيْنَاكَ حَدَّالْعَرَبِ وَبَأْسَهُمْ،فَمَاذَا تَنْتَظِرُ؟  فَيَجْمَعُ لَكُمْ حَمْلَ امْرَأَةٍ، ثُمَّ يَأْتِيكُمْ فِي ثَمَانِينَ غَايَةً، تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا"۔" اہل روم سے تم دس سالوں تک پرامن صلح کروگے، دوسالوں تک وہ اس کی پاسداری کریں گے اور تیسرےسال میں غداری کریں گے، یا یہ کہ چارسالوں تک پاسداری کریں گے اور پانچویں سال میں غداری کریں گے، تمہاری  ایک فوج ان کے شہر میں اترےگی تم اوروہ  (نصاری ) ان کے پیچھے  موجوددشمن کی طرف کوچ کروگے ، اللہ تعالی تمہیں فتح عطافرمائےگا  اور تم اجر وثواب اور مال غنیمت کے ساتھ مدد کئےجاؤگے،  پھرسب  ایک تروتازہ اور سرسبز مقام پر جہاں ٹیلے وغیرہ ہوں گے، اترو گے، تم میں سے شخص کہےگا :اللہ کا غلبہ ہو ااو ران میں سے کوئی آدمی  کہےگا  :صلیب کا غلبہ ہوا ،کچھ گھنٹوں ان کے درمیان اسی پر بحث ہوتی رہےگی ،مسلمانوں کو غصہ آئےگا ،  اور صلیب قریب ہی پڑی ہوگی ، ایک مسلمان ان کی صلیب کی طرف بڑھےگا اور اسے توڑدیگا،پھروہ لوگ صلیب توڑنے والے کی طرف بڑھیں گے اور اسے قتل کرڈالیں گے،پھرمسلمانوں کی وہ جماعت اپنے ہتھیاروں کی طرف بڑھےگی اور ان کی جماعت اپنے ہتھیاروں کی طرف پھر ان کے درمیان جنگ چھڑجائےگی ، پھر اللہ تعالی ان مسلمانوں کو شہادت کے ذریعہ عزت بخشےگا  پھررومی اپنے بادشاہ کے پاس آئیں گے اورکہیں گے: آپ کی طرف سے ہم جزیرۃ العرب اور ان  سے لڑائی کے لئے کافی ہیں ، پھر آپ کو کس بات کا انتظارہے ؟ پھر وہ لوگ ایک عورت کی مدت حمل کے برابر(یعنی نوماہ ) تک رکیں گے پھروہ  تمہارے خلاف مقابلےکے لئے   اسی جھنڈوں تلے آئیں گےاورہرجھڈے کے تلے بارہ  ہزارہوں گے"۔( الفتن لنعیم بن حماد/1262،1376 ، جزء من حديث الأوزاعي لابن حذلم/ ص 12 رقم /27 ، صحیح ابن حبان :15/ 103،  الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم:5/ 122 ، المعجم الکبیرللطبرانی:4/ 236رقم /4231، المستدرک للحاکم:4/ 467، امام حاکم نےاس روایت کی سند کو صحیح قراردیاہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)۔

مذکورہ صحیح اور ان کےعلاوہ اس معنی کی دیگر روایتوں کی بنیاد پر یہ بات حتمی ہے کہ قرب قیامت میں ایک بڑی جنگ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان واقع ہوگی ، اور  اس جنگ سے قبل دونوں کے درمیان صلح کا دور بھی رہےگا ، دونوں آپس میں متحد رہ کر ایک تیسری دشمن جماعت سے لڑائی بھی کریں گے اور فتح بھی نصیب ہوگی ۔

عقائد ونظریات کے اعتبارسے آرمگڈون اور ملحمۃ کبری کے درمیا ن فرق:

عیسائیوں نے اس جنگ کا جو نظریہ پیش کیاہے وہ  روایتوں میں موجود الملحمۃ الکبری سے  کئی امور میں متصادم ہے،بلکہ  صحیح اسلامی عقائدکے خلاف بھی ہے،آئیے اس سلسلےمیں چندوضاحتیں ملاحظہ کرتےہیں  :

- ھرمجدون یا أرمجدون نام  کے کسی بھی معرکے کا ذکر نصوص شریعت میں نہیں ملتابلکہ اس کا نام اور محل وقوع کا بیان محرف  توراۃ اور انجیل سے لیاگیاہے، جیسا کہ تلمود اور انجیل (سفررؤيایوحنا) کے حوالے سے بیان کیاجاتاہے۔

اس لئے اس کی  سچائی   اور حقیقت کی  تصدیق  محل نظرہے،جبکہ ہماری شریعت میں بالتفصیل الملحمۃ کے نام سے ایک عظیم جنگ کا ذکرضرورملتاہے جو برحق اور اٹل ہے۔

-  دنیا کے خاتمے سے قبل ایک بھیانک لڑائی کی پیشن گوئی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے جو صحیح سندوں سے تواترکے ساتھ مروی ہے ،لہذا مسیحیوں کا یہ کہناکہ ایک بھیانک  جنگ ہوگی  اپنی جگہ صحیح ہے ، البتہ اس جنگ سے متعلق بعض نظریات اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے ۔

- اہل کتاب کے نزدیک  اس معرکے کا محل وقوع ہرمجدون نامی شہرکوبتایا گیاہے جبکہ  صحیح احادیث کے مطابق  "الملحمۃ الکبری " کا محل وقوع   شامی شہر حلب سے قریب کے دوشہراعماق اور دابق  بیان کیاگیاہے۔ جس میں مسلمانوں کی قیات شہرغوطہ اور مسیحیوں کی قیادت شہر اعماق یا دابق میں ہوگی ۔

-  مسیحی نظریہ کے مطابق آرمگڈون میں رومیوں کی  کمان  عیسی علیہ السلام کے ہاتھ میں ہوگی ، جبکہ  احادیث نبویہ سے علماء نے جو استدلال کیاہے اس کے مطابق  اسلامی فوج کی قیادت  مہدی علیہ السلام کے ہاتھ میں ہوگی ،  اور عیسی علیہ السلام کا نزول جنگ کے بعدہوگا ، جب دجال کا ظہورہوچکاہوگا ۔

اسی طرح  مختلف روایتوں میں اس بات کا ذکر موجود ہےکہ  اسلامی فوج کی قیادت کرنے والا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہوگا ۔

- ان کا یہ کہنا کہ عیسی علیہ السلام  مشرقی افواج یعنی مسلمانوں پر حملہ آورہوں گے یکسرغلط ہے ،کیونکہ  وہ مسلمانوں میں سے ہی ہوں گے نہ کہ بحیثیت قائدِ دینِ مسیح ۔

-   جب عیسی علیہ السلام کا نزول  ہوگا تو وہ شریعت اسلامیہ کے مطابق  فیصلے کیاکریں گے ، کسی مستقل رسالت  اور نئی شریعت کی تبلیغ نہیں کریں گے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا ، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ"." اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰ علیہ السلام) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا"۔( صحیح البخاری/2222، صحیح مسلم/155)۔

امام عراقی کہتےہیں کہ : "اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اسی شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے ،کسی مستقل مذہب کے نبی کےطورپر یا ناسخ شریعت کے طور پر نہیں آئیں گے، کیونکہ یہ شریعب قیامت تک باقی رہنے والی ہے جو منسوخ نہیں ہوسکتی  اور نہ ہمارےنبی کے بعد کوئی نبی آسکتاہے جیساکہ اس کے بارے میں صادق مصدوق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) فرمایاہے ،بلکہ عیسی علیہ السلام اس امت کے حکام میں سے ایک حاکم ہوں گے"(دیکھئے:طرح التثريب:7/ 265)۔

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے ، وہ فرماتےہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتےہوئے سنا:"لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ . قَالَ : فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ : تَعَالَ صَلِّ لَنَا . فَيَقُولُ : لَا إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ ، تَكْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ" ۔"میری امت کا ایک گروہ ہمیشہحق پر لڑتا رہے گا  قیامت کے دن تک وہ غالب رہے گا۔ پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور اس گروہ کا امام (عیسیٰ علیہ السلام سے ) کہے گا، آیئے نماز پڑھایئے ! وہ کہیں گے نہیں، تم میں سے ایک دوسروں پر حاکم رہیں۔ یہ وہ  فضل اوربزرگی ہے جو اللہ تعالیٰ اس امت کو عنایت فرمائے گا" ۔( صحیح مسلم /156)۔

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ "تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ بن مریم تم میں اتریں گے (تم نماز پڑھ رہے ہو گے) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا"۔( صحیح البخاري/  3449 ، صحیح مسلم /155)۔

اس روایت میں واضح طورپربیان کیاگیاہے  عیسی علیہ السلام کا منہج قرآن  ہوگا نہ کہ انجیل ، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجرنے امام ابن الجوزی کا قول نقل کیا ہے ،فرماتے ہیں :"اگر عیسی علیہ السلام امامت کےلئےپیش قدمی کرتے تودل میں ایک اشکال پیداہوتا اورکہاجاتاکہ نائب کی حیثیت سے یا کسی شریعت کی ابتداء کرنےوالے کی حیثیت سے آگے بڑھے ہیں ، چنانچہ وہ  بحیثیت مقتدی کے نماز پڑھیں گے تاکہ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ) "لا نَبِيَّ بعدي "" میرےبعد کوئی نبی آنے والا نہیں " سے متعلق  کوئی شبہ پیدانہ ہو"( دیکھئے:فتح الباری:6/ 494)۔

مذکورہ روایتوں سے معلوم ہواکہ عیسی علیہ السلام مسلمانوں کی قیادت کریں گے اور شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلے کریں گے ۔ اس لئے مسیحی علماء کا  یہ کہناکہ مذکورہ جنگ میں ان  کی قیادت عیسی علیہ السلام کریں گے یکسر غلط ہے۔

- ارمجدون میں مطلقا  کروڑوں رومی افواج کاذکرہے جبکہ رومیوں کی تعداد کے سلسلے میں زیربحث حدیث کے اندر واضح طور پر ہےکہ وہ اسی جھنڈوں تلے آئیں گے اور ہرجھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوجی ہوں گے،جن کی کل تعداد  نولاکھ ساٹھ ہزاربنتی ہے ۔

- سابق امریکی صدر ریگن  کے مطابق اس دن  لندن ،پیرس ، ٹوکیو اور شکاگو جیسے بڑے بڑے شہر نیست ونابود ہوجائیں گے  ۔ یہ ایک مفروضہ ہے کیونکہ جنگ کا   میدان شام اور فلسطین  میں ہوگا جس میں مسلمانوں کی فو ج شہر غوطہ اور رومیوں کی فوج  دابق یا اعماق میں ، رومیوں اور مسلمانوں میں خونریز لڑائی ہوگی جس میں مسلمان فتح یاب ہوں گے ، ان رروایتوں میں  کسی بھی شہرکے مکمل خاتمے کا ذکر نہیں ہے ، اس جنگ کے بعد بھی جیساکہ بعض روایتوں سے پتا چلتا اور جنگیں ہوں گی جو مسلمانوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان ہونگی نیز دجال کی فوج سے بھی ٹکراؤ ہوگا ، اس لئے یہ کہنا کہ  اسی جنگ کی وجہ سے دنیا تباہ ہوجائےگی  یا شہر کے شہر ختم ہوجائیں گے محل نظر ہے۔

-صحیح مسلم کی روایت جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے اس میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ عیسی علیہ السلام کا نزول  رومیوں سے لڑائی کے بعد ہوگا جب دجال کا خروج ہوگا ،   اس روایت میں جو تفصیل مذکورہے وہ پیش کردینا مناسب ہے: "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا، قَالَتْ الرُّومُ: خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا، وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ، وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا، فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ، إِذْ صَاحَ فِيهِمُ الشَّيْطَانُ إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ، فَيَخْرُجُونَ وَذَلِكَ بَاطِلٌ، فَإِذَا جَاءُوا الشَّأْمَ خَرَجَ فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ إِذْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللَّهِ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ"۔

قیامت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ روم کے نصاریٰ کا لشکر اعماق میں یا دابق میں اترے گا ،پھر مدینہ میں ایک لشکر نکلے گا ان کی طرف جو ان دنوں تمام زمین والوں میں بہتر ہو گا۔ جب دونوں لشکر صف باندھیں گے تو نصاریٰ کہیں گے: تم لوگ ان لوگوں سے (یعنی ان مسلمانوں سے)  الگ ہو جاؤ جنہوں نے ہمارے  اہل وعیال کو قید کررکھاہے، ہم ان سے لڑیں گے۔ مسلمان کہیں گے: نہیں اللہ کی قسم! ہم کبھی اپنے بھائیوں سے الگ نہ ہوں گے۔ پھر لڑائی ہو گی تو مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر بھاگ نکلے گا ان کی توبہ کبھی اللہ تعالیٰ قبول نہ کرے گا اور ایک  تہائی لشکر مارا جائے گا  اوروہ سب اللہ کے نزدیک  شہیدوں میں  سب سے افضل ہوں گے۔ اور  ایک تہائی لشکر کی فتح ہو گی۔ وہ عمر بھر کبھی فتنے اور بلا میں نہ پڑیں گے۔ پھر قسطنطینیہ کو فتح کریں گے ، اسی درمیان کہ  وہ مال غنیمت  کو بانٹ رہے ہوں گے اور اپنی تلواروں کو زیتون کے درختوں میں لٹکارکھا ہو گا، اتنے میں شیطان آواز کر دے گا کہ دجال تمہارے پیچھے تمہارے بال بچوں میں آ پڑا تو مسلمان وہاں سے نکلیں گے حالانکہ یہ خبر جھوٹ ہو گی۔ جب شام کے ملک میں پہنچیں گے تب دجال نکلے گا سو جس وقت مسلمان لڑائی کے لیے مستعد ہو کر صفیں باندھتے ہوں گے نماز کی تیاری ہو گی۔ اسی وقت عیسٰی بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور ان کی قیادت کریں گے ۔ پھر جب اللہ کا دشمن دجال عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا تو اس طرح (خوف سے) گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے اور جو عیسیٰ علیہ السلام اس کو یونہی چھوڑ دیں تب بھی وہ خود بخود گل کر ہلاک ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو عیسٰی علیہ السلام کے ہاتھوں  قتل کرے گا۔ اور اس کا خون لوگوں کو عیسیٰ علیہ السلام کی برچھی میں دکھلائے گا "۔( صحیح مسلم/2897)۔

 اس روایت کی بنیاد پر جہاں الملحمۃ الکبری اور ارمجدون کے ایک ہونے کی نفی ہے وہی اس بات کی صراحت بھی ہے کہ مسیحیوں کا یہ دعوی کہ رومیوں کی قیادت عیسی علیہ السلام کریں گے بالکل باطل  ہے ۔

- ارمجدون کے ضمن  میں مسیحی علماء کایہ کہناکہ یہود بیت المقدس کو اڑادیں گے اورجنگ چھڑجائےگی اورعیسی علیہ السلام اس میں مداخلت پر مجبورہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ یہود کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی قیامت کی چھوٹی علامتوں میں سے ایک ہے  جس کی تفصیل صحیح روایتوں میں ہے،   ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:" لا تَقُومُ السَّاعَةُ حتَّى تُقاتِلُوا اليَهُودَ، حتَّى يَقُولَ الحَجَرُ وراءَهُ اليَهُودِيُّ: يا مُسْلِمُ، هذا يَهُودِيٌّ وَرائي فاقْتُلْهُ" ۔"قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک یہودی سے تمہاری جنگ نہ ہو لے گی اور وہ پتھر بھی اس وقت (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) بول اٹھیں گے جس کے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہو گا کہ اے مسلمان! یہ یہودی میری آڑ لے کر چھپا ہوا ہے اسے قتل کر ڈالو"۔( صحیح البخاری/2926)۔

اور ایک دوسری روایت میں ہے : "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ: يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي، فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ، فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ" قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کے مسلمان یہود سے لڑائی نہ کرلیں یہاں تک کہ یہودی پتھریا درخت کے پیچھے چھپےگا تو پتھریا درخت بولےگا اے مسلمان ! اے اللہ کے بندے! یہ میرےپیچھے یہودی ہے،آکر اسے قتل کرو، سوائے غرقدنامی درخت کے وہ یہودکے درخت میں سےہے"۔ (صحیح مسلم/2922)۔

نوٹ: نباتات اورجمادات میں سے ہر ایک یہودیوں کے قتل پر معاون ہوگا سوائے غرقد نامی درخت کے اسی لئے حدیث میں اس درخت کی نسبت یہود کی طرف کی گئی ہے ۔

 اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " لتقاتلن اليهود، فلتقتلنهم حتى يقول الحجر: يا مسلم هذا يهودي فتعال فاقتله"۔

‏‏‏‏ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"تم لڑو گے یہود سے اور مارو گے ان کو یہاں تک کہ پتھر بولے گا: اے مسلمان! یہ یہودی ہے آ اور اس کو مار ڈال"۔ (یہ قیامت کے قریب ہو گا)۔( صحیح مسلم /2921)۔

حالانکہ  ان روایتوں میں عیسی علیہ السلام کاذکرنہیں ہے لیکن بہت ساری دیگرروایتوں   میں ان کا ذکرموجودہے:

امام مسلم نے اپنی صحیح کے اندر نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ  کی  ایک لمبی روایت ذکرکیا ہے جس کے اندر دجال کے خروج اور اس کے  ظلم وجورکی  مکمل تفصیل ہے:" ..... إذ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ، فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ، فَيَقْتُلُهُ ...."۔

"  ۔۔۔۔۔۔  (دجال اسی حال میں ہو گا کہ) اللہ  تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا۔ عیسٰی علیہ السلام سفید مینار کے پاس اتریں گے دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے۔ جب عیسٰی علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا۔ اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اس کو ان کے دم کی بھاپ لگے گی وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسٰی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ اس کو باب لدپرپائیں گے اورقتل کریں گے۔( صحیح مسلم/2937 ، سنن ابیداود/4321، سنن الترمذي /2240، سنن ابن ماجۃ /4075 ، مسند احمد :4/181،  182 رقم/17629 )۔

نوٹ  : فلسطین  میں بیت المقدس سے قریب  واقع شہر لد ایک قدیم  تاریخی شہرہے جو القدس سے شمال مغرب میں  38 کیلومیٹر اوریافا سے جنوب مشرق میں 16 کیلو میٹر جبکہ رملہ سے شمال مشرق میں 5 کیلو میٹرکی دوری پر واقع ہے۔یہ شہرآج کل اسرائیل کا ایک فوجی اڈہ ہے۔

وہی النہایہ فی غریب الحدیث میں ہے کہ لُد ملک شام میں ایک جگہ ہے،دیکھئے:النھایۃ في غریب الحدیث والاثر:4/ 245 (

ابوامامۃ باہلی رضی اللہ عنہ کی  ایک لمبی روایت ہے جس کے اندر دجال کے خروج اور  قتل وغارت گری کاذکرہے ،پھر عیسی علیہ السلام کے نزول اور دجال کے قتل کا مفصل بیان ہے :

"۔۔۔۔۔ وإمامُهم رجلٌ صالحٌ ، فبَيْنَما إمامُهم قد تَقَدَّم يُصَلِّي بهِمُ الصُّبْحَ ، إذ نزل عليهم عيسى ابنُ مريمَ الصُّبْحَ ، فرجع ذلك الإمامُ يَنْكُصُ يَمْشِي القَهْقَرَى ليتقدمَ عيسى ، فيضعُ عيسى يدَه بين كَتِفَيْهِ ، ثم يقولُ له : تَقَدَّمْ فَصَلِّ ؛ فإنها لك أُقِيمَتْ ، فيُصَلِّى بهم إمامُهم ، فإذا انصرف قال عيسى : افتَحوا البابَ ، فيَفْتَحُون ووراءَه الدَّجَّالُ ، معه سبعونَ ألفَ يهوديٍّ ، كلُّهم ذو سيفٍ مُحَلًّى وسَاجٍ ، فإذا نظر إليه الدَّجَّالُ ذاب كما يذوبُ المِلْحُ في الماءِ . وينطلقُ هاربًا ، … فيُدْرِكُه عند بابِ لُدٍّ الشرقيِّ ، فيقتلُه ، فيَهْزِمُ اللهُ اليهودَ ۔۔۔۔۔۔"۔ 
" ۔۔۔۔اور ان کا امام ایک صالح آدمی ہوگا، ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو گا، کہ اتنے میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام صبح کے وقت نازل ہوں گے، تو یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ آنا چاہے گا تاکہ عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھا سکیں، لیکن عیسیٰ علیہ السلام اپنا ہاتھ اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ کر فرمائیں گے کہ تم ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھاؤ اس لیے کہ تمہارے ہی لیے تکبیر کہی گئی ہے، خیر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا، جب وہ نماز سے فارغ ہو گا تو عیسیٰ علیہ السلام (قلعہ والوں سے) فرمائیں گے کہ دروازہ کھولو، تو دروازہ کھول دیا جائے گا، اس (دروازے) کے پیچھے دجال ہو گا، اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے، ہر یہودی کے پاس سونا چاندی سے مرصع و مزین تلوار اور سبزچادر ہو گی، جب یہ دجال عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا، تو اس طرح گھلے گا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے، اور وہ انہیں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہو گا، عیسیٰ علیہ السلام اس سے کہیں گے: تجھے میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھانی ہے تو اس سے بچ نہ سکے گا، آخر کار وہ اسے لد کے مشرقی دروازے کے پاس پکڑ لیں گے، اور اسے قتل کر دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو شکست دے گا۔۔۔۔"(سنن ابن ماجۃ /4077   اس کی سند میں  کئی راوی متکلم فیہ ہیں : إسماعيل بن رافع: ان کو امام بخاری نے ثقۃ مقارب الحديث امام نسائی نے متروک ضعیف امام احمدنے ضعیف منکرالحدیث  حافظ ابن حجرنے ضعیف الحدیث قراردیاہے ، علامہ البانی لکھتےہیں:" ثقة في نفسه، ولكنه سيء الحفظ، وقد يسوء حفظه حتى يكثر الخطأ في حديثه، فيسقط الاحتجاج به، وقد تركه جماعة، وضعفه آخرون، والبخاري كأنه خفي عليه أمره، والجرح المفسر مقدم على التعديل". " یہ فی نفسہ ثقہ ہیں مگر سیئ الحفظ ہیں ، بسااوقات ان کا حفظ غلط ہوجاتاہے یہاں تک کہ اپنی حدیث میں خطا کرجاتےہیں چنانچہ ان سے احتجاج ساقط ہوجاتاہے ،ان کو ایک جماعت نے متروک کردیاہےاور کچھ لوگوں نے ضعیف قراردیاہے، اور امام بخاری سے ان کا معاملیہ جیسے مخفی ہے اورجرح مفسرتعدیل پر مقدم ہے"۔

اورعبد الرحمن بن محمد بن زياد المحاربی  مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کیاہے۔دیکھئے: معجم المدلسین /ص 302 ،علامہ البانی نے اس روایت کو ضعیف قراردیاہے، دیکھئےضعیف سنن ابن ماجۃ/1814۔لیکن اسی روایت کو صحیح الجامع/7875 کے اندر ذکرکیاہے،غالبا انہوں نے ابو داود کی روایت کی بنا پر اسے صحیح قراردیاہے جس کو  امام ابوداودنے دجال کے خروج کے باب میں نہایت ہی اختصارکےساتھ ذکر کیاہے جس کی سند حسن ہے اور جسے امام البانی نے صحیح لغیرہ قراردیاہے۔دیکھئے: سنن ابی داود/4322)۔

یہود سے قتال کے متعلق وضاحت کرتے ہوئےحافظ ابن حجرلکھتےہیں:" فَالْمُرَادُ بِقِتَالِ الْيَهُودِ وُقُوعُ ذَلِكَ إِذَا خَرَجَ الدَّجَّالُ وَنَزَلَ عِيسَى وَكَمَا وَقَعَ صَرِيحًا فِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ فِي قِصَّةِ خُرُوجِ الدَّجَّالِ وَنُزُولِ عِيسَى وَفِيهِ وَرَاءَ الدَّجَّالِ سَبْعُونَ أَلْفَ يَهُودِيٍّ كُلُّهُمْ ذُو سَيْفٍ مُحَلًّى فَيُدْرِكُهُ عِيسَى عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ وَيَنْهَزِمُ الْيَهُودُ فَلَا يَبْقَى شَيْءٌ مِمَّا يَتَوَارَى بِهِ يَهُودِيٌّ إِلَّا أَنْطَقَ اللَّهُ ذَلِكَ الشَّيْءَ فَقَالَ ۔۔۔۔" (فتح الباری:6/610)

یہودسے قتال سے مراد یہ کہ یہ  اس وقت واقع ہوگاجب دجال کا خروج  اور عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا،جس کے اندرہےکہ دجال کے پیچھے سترہزار یہودی ہوں گےاورسب کے سب  ہتھیارسے لیس ہوں گے دجال کو عیسی علیہ السلام باب لد کےپاس  پالیں گے  اور اسے قتل کردیں گےاور یہود شکست کھاجائیں گے ،کوئی ایسی چیزنہیں بچےگی جس کے پیچھے کوئی یہودی چھپےگا مگر اللہ تعالی اسے قوت گویائی عطاکرےگا۔۔۔۔۔"۔

ابن الملقن کہتے ہیں : "المراد بقوله (تقاتلون اليهود) إذا نزل عيسى ، فإن المسلمين معه ، واليهود مع الدجال"( التوضيح لشرح الجامع الصحيح:17/663

 (تقاتلون الیھود) سے مراد یہ ہے کہ جب عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے، مسلمان آپ کے ساتھ ہوں گے اور یہودجال کے ساتھ"۔

 اس ضمن میں بہت ساری روایتیں ہیں  جن میں سے کچھ  کی اسناد پر محدثین نے کلام کیاہے اور کچھ کو حسن قراردیاہے، ان کا ذکر تطویل کا سبب ہے (دیکھئے: فتح الباری:6/610) ۔

مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہواکہ  آرمگڈون کو  الملحمۃ الکبری ماننا  صحیح نہیں ہے اور اگر بالفرض دونوں کو ایک مان لیتےہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ  آرمگڈون   کی جو تفصلیلات او ر اس سے مترشح عقائد مسیحیوں نے بیان کئے ہیں ان میں خرد بردکیاگیاہے ،  اورانہوں نے اسے اپنے نظریات وعقائد کے موافق کرنے کی کوشش کی ہے ، اور بہت سارے حقائق کو چھپایاہے ، جیسا کہ ان  کی عادت ہے ۔واللہ اعلم ۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہودیوں  اور قتل کے مستحق  مسیحیوں کے قتل کے بعد سارے کے سارے  اہل کتاب  مسلمان ہوجائیں گے ، اللہ تعالی فرماتاہے: ( وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ) (النساء/159).

(اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچےگا جوعیسی (علیہ السلام ) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے، اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے)۔

آیت کریمہ میں قبل موتہ  میں ہ  ضمیرکا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک   اہل الکتاب ہے  جس کا مطلب ہواکہ  ہرعیسائی موت کے وقت عیسی علیہ السلام پر ایمان لےآتاہے۔ اور اکثر مفسرین کے نزدیک ہ کا مرجع عیسی (علیہ السلام)  ہیں جس کا مطلب یہ ہواکہ جب ان کا دوبارہ دنیامیں نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کرکے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اورعیسائی ہوں گےان میں جتنے مستحق قتل ہوں گے  وہ قتل کردئے جائیں گے اور باقی تمام   عیسی علیہ السلام کی موت سے قبل اسلام لاچکےہوں گے(دیکھئے: تفسیر الطبری  تفسیر ابن جزی ، اورتفسیرابن کثیر سورۃ النساء آیت /159  کی تفسیر میں )۔

- یہاں یہ ذکرکردینا بھی مناسب ہے کہ اس معرکےکا ذکر یہودونصاری کے دونوں کے نزدیک  ملتاہےاور اس کے وقوع کامقام بھی فلسطین بتایاجاتاہے، مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ اس معرکےکی قیادت عیسی مسیح کریں گے جن کا نزول ان کے عقیدہ کے مطابق دوسری با رہوگا اور وہ آکرکافروں کا قتل کریں گے اور گمراہ ہیودیوں کومسیحیت میں واپس لائیں گے ۔ اور یہودکا اعتقادہے کہ قیادت   مسیح منتظر(جو ان کے عقیدہ کے مطابق پہلی باردنیامیں آئیں گے یعنی  دجال ) کے ہاتھ میں ہوگی ، اوروہ آکر کافروں کو قتل کریں گے،  وہ اس معرکہ کا نام "رب کے غضب کادن " دیتے ہیں ۔ (خدعۃ هرمجدون / ص 49) ۔

جبکہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ ملحمۃ کبری کی قیادت مہدی علیہ السلام  کریں گے، اور اس معرکہ اور اس کی فتح  کے بعد ان کی موجودگی میں ہی عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کا نزول ہوگا۔

- اہل کتاب نےآرمگڈون کے وقوع کے لئے وقت کے تعین کی وضاحت کی ہے ،  ان کے مطابق  پہلے یا دوسرے ہزاری سال میں  اس کا وقوع ہوگا اور اگر ان میں نہیں ہوتاتو تیسرے ہزاری سال میں اس کا انتظارکریں گے،جبکہ اسلامی تعلیمات میں اس کےلئے کسی وقت  اور زمانے کی تحدید نہیں کی گئی ہے ،بس اتنا بیان کیاگیاہے کہ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔

- بعض مؤلفین غزوۃ یرموک کو آرمگڈون  قراردیتےہیں جبکہ بعض  نے نبوءۃ الساعۃ ، یوم الرب اورآرمگڈون کو ایک ہی قراردیاہے(تفصیل کےلئےدیکھئے: خدعۃ ھرمجدون/ص39)۔

خلاصہ یہ ہے کہ آرمگڈون اور ملحمہ کبری کے بارے میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ ایک دوسرےسے بالکل الگ  ہیں ، ہم ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے انہیں باتوں کی تائید کرسکتےہیں جو ہم تک صحیح نصوص کے ذریعہ پہنچی ہو ، ہمارےلئے قطعا جائزنہیں کہ   عقائد کے باب میں خاص طورسے غیبی  امورمیں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائیں یا غیر منطقی دالائل کے ذریعہ شریعت میں وارد  عموم کی تخصیص کریں ۔

اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه . وصل اللهم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم .

 

||||||||||||||