جمعرات، 11 دسمبر، 2025

گداگری ایک خطرناک معاشرتی ناسور

گداگری ایک خطرناک معاشرتی ناسور

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی/سعودی عربیہ

غربت ومحتاجی یا فقر انسان کی اس حالت کو کہتےہیں جو اسےسکون اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے سے محروم کردے،چنانچہ محتاجی ایک ایسی حالت ہےجس میں آدمی کھانے ،پینے ،پہننےاور رہائش  وغیرہ جیسی اپنی بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے قاصرہو۔اور وہ غربت اورمحتاجی جو انسان کو کسی دوسرے کا محتاج بنادے ایک بڑی بیماری  اور سبب عاروشنارہے جوقوم ومعاشرے میں انسان کی قدروقیمت کو گھٹا دیتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی محتاجی سےپناہ مانگی ہے اور فقراورکفرسےپناہ مانگنے کو ایک ہی دعاء میں اکٹھا کیاہے ، آپ دعاءفرمایا کرتے تھے :"اللهُمَّ إني أعوذُبك  من الكُفرِوالفَقْرِ"۔"اے اللہ! میں کفر اورمحتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں"۔(سنن ابی داود/5090 ،سنن النسائی/1348 ،علامہ البانی نے اس روایت کو صحیح کہاہے)۔   

اسلام نے فقرومحتاجی سے لڑنےکا بہت ہی مضبوط راستہ بتایا ہے، جس سے انسان اور معاشرہ چین اور سکون کی بہترین زندگی بسرکرسکتاہے،اور مختلف پریشانیوں اور آفتوں اوربلاؤوں سے محفوظ رہ سکتاہے، اور وہ ہے   کمانا اور کمانے کےلئے کوشش کرنا ،  اس کےلئے لا ئحۂ عمل تیار کرنا  اور اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے روئے زمین کو اس لائق بنایا ہے جس کے اندر انسان آسانی کے ساتھ کام کرکے اپنے لئے روزی مہیا کرسکے، وہ فرماتاہے: (هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ)۔( وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو  اور اللہ کی  دی ہوئی روزیاں کھاؤ )۔(سورۃالملک /15)۔اورکاروبار اورتجارت کےذریعہ تلاش رزق کا حکم دیتےہوئے فرماتاہے:(فَإِذَاقُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوافِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوامِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوااللَّهَ كَثِيراً لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ) ۔( پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم کامیابی پالو)۔(سورۃ الجمعۃ/10)۔مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے اللہ کے نبی داود علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کھایا کرتے تھے"۔(صحیح بخاری/2072)۔اورمحنت کی کمائی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" تم میں سے کوئی شخص اپنی رسیاں لے کر پہاڑ پر چڑھ جائے اور وہاں سے لکڑیوں کا ایک گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر لاد کر لے آئے اور انھیں بیچ دے اور اس (عمل) سے اللہ اسے مانگنے سے بچا لے، تو یہ اس کے حق میں اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے کہ لوگ چاہیں تو دیں یا نہ دیں"۔(صحیح بخاری/1471)۔

چنانچہ کمائی اور اس کےلئے محنت وکوشش  خواہ جس طریقےکی ہو ایک  ایسا تریاق ہے جس سے فقرومحتاجی کا بہترین علاج ہوسکتاہے، اس کے علاوہ جو لوگ اس  حالت میں نہیں ہیں جو کماسکتےہیں یا بیوہ ،محتاج ،یتیم اور بےسہارا ہیں ان کےلئے امیروں پر زکاۃ فرض کی گئی ہے ، اور انہیں صدقات وخیرات پر ابھارا گیاہے ، تاکہ  ان کی مدد اورحفاظت ہوسکے، اور وہ بھوک اور تنگدستی سے بے حال ہوکر زندگی  سےچھٹکارہ پاسکیں۔

پیشہ وربھیکاری:

پوری دنیا میں بھیک کی بیماری  عام ہے ، ہرچوک اور چوراہے پر بھیک مانگنے والے مل جاتےہیں ،  محتاج  اور فقیر تو الگ بات ہے، دیکھا جاتاہے کہ وہ لوگ بھی جو کام کرسکتےہیں جسم اور دماغ صحیح سالم ہے  بھیک مانگ رہے ہیں ، ان کے پاس اس کے لئے کئی طرح کے حیلے اوربہانے ہوتے ہیں جن کےذریعہ لوگوں کے اموال لوٹنے کی ہر کوشش کرتے ہیں ۔ضرورت اور حاجت کے نام پر بھیک مانگنے کے ایسے تکلیف دہ اور شرمندہ کردینے والے  فراڈاور چارسو بیسی کے مناظرسامنے ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔

بڑی عمر کے افرادسے لےکر کچی عمرکےبچوں تک کو دیکھاگیاہے کہ خاص طورسے ٹرینوںمیں اور اسٹیشنوں پر بھیک مانگ کر اس سے نشہ آوراشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔بہتوں نےتو پیشہ ورانہ طورپربھیک کو دولت اکٹھی کرنے کا ذریعہ بنالیاہے۔

بھکاری مافیا: 

اس وقت بھکاری مافیا پوری دنیا میں سرگرم ہےبھیک کے ذریعہ زبردست کمائی کی  وجہ سے اور مجبوری کے نام پر بھکاریوں کے وارے نیارےہیں ، سڑکوں اور چوراہوں پر پیشہ ور بھکاریوں کی بھرمار ہے۔ ہر طرف بزرگ، بچوں کوگودمیں لی ہوئی   خواتین اور معذوراورغیرمعذور بھیک  مانگتے نظر آتے ہیں۔ شہر میں ایک بھکاری مختلف انداز اپنا کر روزانہ ہزار وں روپے تک لوگوں کی جیبوں سے اچک لیتا ہے۔کوئی سڑک ہو، چوک یا پھر سگنل، ہر طرف پیشہ ور گداگر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ،یہاں تک کہ شہر کے اہم چوراہوں، ٹریفک سگنلز، مزارات، مساجد، قبرستانوں اور گلی کے نکڑوں  پر گداگروں کا قبضہ ہے۔سنہ 2011 عیسوی کے  شمار کے مطابق  صرف ملک ہندوستان میں بھکاریوں کی تعداد 413670   تھی جن میں 221673 مرد اور 191997 عورتیں تھیں ۔ عرب ممالک میں  یہ مافیا خاص طورسے سرگرم ہے۔ بعض ممالک میں ان پر سختی ہے لیکن پھر بھی  یہ اپنے  ممالک سے باضابطہ کسی کام یا ویزٹ کےبہانے امیگریشن کراکرآتے ہیں اورچوری چھپے اس پیشہ سے لگ جاتےہیں بسااوقات یہ   گرفتار ہوتے ہیں، لیکن پھرشوت دے کر واپس آجاتے ہیں ۔ نیزبہت سارے مواقع سے ملاحظہ کیاگیاہے کہ بھیک منگوانے کےلئے باضابطہ طور پر سنڈیکیٹ  اور غیرقانونی تنظیمیں بناکربچوں اور مجبوروں کو استعمال کیاجاتاہے ۔

بھیک مانگنے کے اسباب:

بھیک مانگنے کے بہت سارے اسباب ہیں ،جیسے :حاجت وضرورت  کے وقت باضابطہ کسی بھی طرح کی امدادکا نہ پہنچنا۔فقرومحتاجی سے لڑنے کا باضابطہ کوئی سسٹم یا معاشرتی نظام کا نہ ہونا۔غریبوں ، مسکینوں ، بیواؤوں ،یتیموں اور دیگر محتاج افراد کےنام پر بہت ساری تنظیموں کا  فراڈکرنا۔محتاج لوگوں کے لئے  ان کےحساب سے حکومتوں کی طرف سے کسی نوکری یا  روزگارکا فقدان۔کسی بھی نوکری کےلئے رشوت وغیرہ کا عام ہونا(جس کی وجہ سے ضرورت مندافراد  کسی بھی طرح کے وسیلہ کے فقدان کے وقت اس پیشہ سے جڑنے کو مجبورہوجاتےہیں)۔بعض لوگ وراثۃ یہ پیشہ اختیارکرلیتےہیں اور جب ان سے پوچھا جاتاہے تو کہتےہیں کہ یہ کام ہمارے باپ دادا بھی کرتےرہے ہیں۔زکاۃ وصدقات کو محتاج تک پہونچانے کےمناسب انتظام کا نہ ہونا۔ معاشرے میں تعاطف وتراحم اور  مددکے جذبےکا کم ہونا وغیرہ ۔

اسی طرح بہت سارےلوگوں کی فراخ دلی  اور بغیر سوچے سمجھے  کسی کی مدد کرنے کے جذبہ نے بھیک مافیا کو جنم  دینے  میں بڑا کردار ادا کیا ہے ،جس کا مشاہد ہ عام طور  درگاہوں  اورعبادت گاہوں میں  موجود بھکاریوں کی بھیڑ سےکیاجاسکتاہے ،لوگ اپنے صدقات وخیرات اور عطیات کو بازاروں میں ، سڑکوں پر،چوک چوراہوں پر اور عبادت گاہوں کے سامنے بےجا طورپر  صرف کرکے اپنی دریادلی دکھاتےہیں اور یہ نہیں سوچتےکہ ان کے اس رویہ کی وجہ سےایک غلط اورشرعا و قانونا غیرمناسب اور ناجائز عمل کوسماج ومعاشرے میں پھلنے پھولنےکا موقع مل رہاہے۔

بھیک مانگنے کے مختلف طریقے:

معاشرے میں بھیک مانگنے کے مختلف طریقےرائج ہیں جیسے: -بازاروں میں ۔چوک چوراہوں پر۔ گلیوں میں  آوازیں لگاکر۔گھرگھرجاکر۔ مسجدوں کے سامنےدامن پھیلاکر۔  درگاہوں اور مزاروں پر۔کسی دینی اور دھارمک کاز کےنام پر۔کسی ادارےکےنام پر چندہ کرکے۔کسی بیماری کا حوالہ دیکر۔بیٹی کی شادی اور جہیزکے نام پر۔ خانگی پریشانیوں کا حوالہ دےکر اورپڑھائی کےنام پر وغیرہ۔ اوراب تو نعت ،حمد، قوالی ، نظم ،گانے اوردکھ درد والی آواز وغیرہ کی ٹیپ چلاکر کسی دوپہئےاورچارپہئےوالی گاڑی پرلٹا کریا بٹھا کر گلی گلی میں گھمایاجاتاہے۔بسااوقات تو ان کی ہیئت اورحالت دیکھ کر ایک نفاست پسند انسان کو ان کے آس پاس سے گزرنے میں بھی ہچک محسوس ہوتی ہے۔اورکچھ سڑکوں پریا گلیوں میں گزرتےلوگوں کے دامن تک زبردستی پکڑکرانہیں پریشان کرتےہیں۔

الیکٹرانک بھیک:  

سننے میں ذرا عجیب لگتاہےلیکن یہ حقیقت ہے کہ بدلتے وقت ،

بے روزگاری ،دولت کی ہوس اور وسائل کی آسانی نے بھیک

جیسے پیشہ کو بھی ماڈرن کردیا ہے ،مختلف الکٹرانک پلیٹ

فارم اورسوشل سائٹس کے توسطسے یہاں تک کہ ویب

سائٹس بنا کر یہ آنلائن بھکاری ہمددری حاصل کرنے

اور مدد مانگنےکے لئے مختلف حکمت عملی اختیارکرتےہیں،

دل کو چھولینے والی کہانیاں سنائیں گےیا مذہبی یا انسانی

ضرورتوں اور فضیلتوں کا حوالہ دےکراپنی فنی مہارت

کو  استعمال کرکے پیشہ ورانہ بھیک منگی کوبھی مات دیتےہیں۔

الیکٹرانک بھیک منگی میں انہیں بہت ساری آسانیاں بھی فراہم

ہوجاتی ہیں ،جیسے  اس کے ذریعہ کم وقت میں  آسانی کے ساتھ

زیادہ سےزیادہ لوگوں تک رسائی مل جاتی ہے ،ان کےلئے اپنی

حقیقی شناخت چھپانا  بھی آسان ہوتاہے، جس سے کسی قانونی چارہ

جوئی یاسماجی احتساب کا سامنا کرنےسے بچ سکیں۔اوراب تو سوشل میڈیا

کے ذریعہ نیا ٹرینڈ چلاہواہےجس میں پیسےکمانےکا نام دیکر غیرمناسب ، غیر

اخلاقی ،بلا ضرورت اورگندے قسمکے ویڈیوز، آڈیوز یا تصویریں  ڈال کر لوگوں

کو اس پرابھارا جاتا ہےکہ وہ زیادہسے زیادہ شیئر، سبسکرائب، لائک اور ویوز

  دیں تاکہ سوشل سائٹس کی کمپنیاں انہیں خطیررقمدے۔واضح رہےکہ اس

سے وہ ویڈیوز مستثنی ہیں جوجائزاورحلال طریقوں کے مطابق ہیں،جودین

کی خدمت اورسماج ومعاشرہ کی تعمیروترقی ،اطلاعات عامہ اورتعلیم وتعلم کے

میدان میں اپنا کردار اداکرتےہوئے اپنی ویوزخودبناتی ہیں اوراس پرکسی بھی

طرح کےغیرمناسب،غلط ،حرام اشیاءاوراخلاقی اقدارسےمتصادم موادکے

اشتہارسےبچتےہوئے کمپنیاںاپنے صارفین (Users) کومکافآت

(rewards) دیتی ہیں ۔

اسلام اور گداگری :

بھیک اور بھیک مانگنے کی قباحت اورفردومعاشرہ پراس کےدور رس برے نتائج کی وجہ سے اسلام

 میں گداگری کو حرام اورسبب   ذلت وخواری قراردیاہے،چنانچہ بلاوجہ بھیک مانگنےکے حرام 

ہونے کی کئی ایک دلیلیں ہیں  ،جیسے:  عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "آدمی لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتاہے یہاں

تک کہ وہ  قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرابھی گوشت نہ ہو گا"۔

(صحیح بخاری/1474،صحیح مسلم/1040)۔اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:"جو شخص مال بڑھانے کے لئے لوگوں سے

ان کا مال مانگتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگتا ہے، کم (اکھٹے) کرلے یا زیادہ کرلے"۔

(صحیح مسلم/1041)۔نیزابوہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسولاللہ  صلی اللہ علیہ

وسلم نے ارشاد فرمایا:"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی

سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا

رزق حاصل کرے)تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آ کر سوال کرے۔ پھر جس سے

سوال کیا گیا ہےوہ اسے دے یا نہ دے"۔(صحیح بخاری/1470 ، صحیح مسلم/1042)۔

اور امام احمد نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ

علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جو آدمی  اپنے لئے بھیک کا دروازہ کھولتاہے تو اللہ تعالی اس کےلئے

فقرکا دروازہ کھول دیتاہے"۔(صحیح الجامع /3025)۔ اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  

سےمروی وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  منبر پر تشریف فرما تھے۔ آپ نے صدقہ

اور کسی کے سامنےہاتھ نہ پھیلانے کا اور دوسروں سے مانگنے کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ:" اوپروالا ہاتھ

نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والے کا ہے اورنیچے کا ہاتھ مانگنے والے کا"۔

(صحیح بخاری/1429، صحیح مسلم/1033)۔

بھیک مانگنے کےنقصات اوراس کےبرے اثرات :

بھیک اور بھیک مانگنے کے فرد ومعاشرہ اور ملک وملت پر ڈھیروں نقصانات ہیں   کیونکہ  یہ ایک ایسا سماجی ناسورہے جو  سب کےلئے مسائل پیداکرتاہے، ذیل میں ہم اس کے چندبرے اور خطرناک اثرات کا ذکر کررہےہیں:

 (1) -بھیکاری   خودکو حقیر بناتاہے ، اپنی عزت وکرامت کو بیچ ڈالتاہے لوگوں کے سامنے ذلت بھرا ہاتھ پھیلاتاہے کوئی اسے دے دیتاہے اور کوئی جھڑک دیتاہے۔

(2) - کسی بھی کام کرنے والے کےلئے یا ایسے شخص کے لئے جو کام کرسکتاہے  صدقہ حلال نہیں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"صدقہ مالدار کے لیے حلال نہیں اور نہ طاقتور اور مضبوط آدمی کے لیے"۔(سنن ابی داود/1634 ، سنن الترمذی/662،مسنداحمد/6530،علامہ البانی نےاسے صحیح کہاہے)۔چنانچہ ایساآدمی جو کماکرکھاسکنےکی قوت رکھتاہےیا اس کےپاس کفایت بھررزق موجودہے اگر بھیک مانگ کرکھاتاہےتو وہ حرام خوری کا مرتکب ہے۔

 (3) - بھیک مانگنا  دنیا اور آخرت میں ذلت وخواری کا سبب ہے ،وہ ایک ایسا گھٹیا عمل ہےجو ذوق سلیم  کو مٹا دیتاہے، ایسا کرنا نفس کی حقارت اور گھٹیا پن کی دلیل ہے۔ اللہ رب العزت اس سے ہماری حفاظت فرمائے۔

 (4) - معاشرے اور ملک وقوم  پر بھیک کے بہت ہی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسے بڑھاوا دینا انسان کو کاہل اورکام چوربنادیتاہے، بعض حالات میں ملک وقوم کی سلامتی کے لئے بھی خطرناک ہے کیوں کہ بسا اوقات ایسے لوگ جوشرپسند ہوتے ہیں  اس کام سے فائدہ اٹھاتےہیں اور ملک اور قوم کےلئے اس دولت کو استعمال کرتے ہیں ، ماضی اور حال میں اس قسم کے بہت سارے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملے ہیں۔

(5) - بھیک  خواہ جس شکل میں مانگی جائے اگر اس کا رجحان بڑھتاہےجیساکہ عام طور پرملاحظہ کیاجارہے تو غیر شرعی اور غیرقانونی طریقوں سے  مال ودولت جمع کرنے کا رجحان بڑھتاجائےگا جو کسی بھی معاشرہ کےلئے شرعا وقانونا ناجائز اور غیر مناسب ہوگا۔

(6) - بھیک سے   محنت کش اور  حلال روزی کا خوگرمعاشرہ  بدظنی اور ضرورت مند اور دھوکے بازآپسی  بداعتمادی کا شکار ہوں گے۔

(7) - اس بڑھتےناسورکی وجہ سے ضرورت مندوں اور دھوکے بازوں میں فرق کرنا مشکل  ہوجائےگا۔

(8) -بھیک کی وجہ سے صدقات وعطیات   کا فریضہ معاشرے پر ایک بوجھ  بن جائےگا۔

(9) - بھیک معاشی  اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ کا ایک اہم سبب ہے ۔

(10) - بھیک کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتاہے۔

(11)- یہ پیشہ ور بھکاری جو ہر چوک چوراہے پر مل جاتےہیں انہیں بھیک دے کرناجائزطریقےسے پیسے وصول کرنا ، کام چوری اور جرائم کو  بڑھاوہ دینا اور اپنےمال کوضائع کرنا تو ہے ہی بسااوقات قوم ومعاشرے کےلئےخطرناک اور نقصان دہ بھی ہوسکتاہے۔ 

(12) - آج کل کے غش ودھوکہ دھڑی اورتعصب و نفرت بھرے ماحول میں بہت سارے واقعات ایسے ملے ہیں کہ لوگ بھیس بدل کر بھیک مانگتے ہیں اور یہاں تک بھی مشاہدہ کیاگیاہے کہ مسلمانوں سے بھیک مانگ کر ان پیسوں کو انہیں کے خلاف استعمال کیا جاتاہے۔

گداگری کاعلاج:

بھیک مانگنے جیسی  خطرناک معاشرتی بیماری سے بچنے کےلئے باضابطہ  مضبوط لائحۂ عمل کی ضرورت ہے خاص طورسے اسلامی شریعت نے فقرومحتاجی اور بھیک مانگنے جیسی بیماری کے خاتمے کے لئے جوبہترین حل پیش کیاہےاسے اپنانے اور عمل میں لانے کی ضرورت ہے جنہیں ذیل میں  چندنقاط میں پیش کیاجارہا ہے:

(1) - لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیاجائےکہ روزی کا مالک اللہ رب العزت ہے:(إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ)۔(اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے)۔( الذاريات/58) ، اورفرماتاہے:(إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُإِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراًبَصِيراً)۔(یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشاده کردیتاہےاورجس کےلئےچاہے تنگ۔یقیناًوه اپنےبندوں سےباخبراورخوب دیکھنےوالاہے)۔(الإسراء/30)۔ اورفرماتا ہے:(وَمَامِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّاعَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ)۔(زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ اور ان کے مسکن وماوی کو بھی جانتاہے۔سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے)۔( هود/6)،اورفرماتاہے:(أَمَّنْ هَذَاالَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ)۔(اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کون ہے جو پھر تمہیں روزی دے گا)۔(الملك/21)،اورفرماتاہے: (وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ)۔(یقیناً ہم نےاولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزه چیزوں کی روزیاں دیں)۔(الإسراء/70)۔چنانچہ اگر کسی کے حق میں اس نے پریشانی کا فیصلہ کرلیاہے تو وہ اسے ضرور پہنچےگی ،ایسی صورت میں ایک مسلمان کےلئے ضروری ہے کہ وہ اس مصیبت پر صبرکرے  اور اس پریشانی اور محتاجی کو دورکرنے کےلئے خوب کوشش کرے ،کیونکہ یہی اللہ تعالی کا حکم ہےاور یہی ایک سچے مؤمن کی شان بھی ہے ،صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔ اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کو میسر نہیں۔ اسے خوشی اور خوشحالی ملے تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو (اللہ کی رضا کے لیے) صبر کرتا ہے، یہ (بھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے"۔(صحیح مسلم/2999)۔

(2) - فقرومحتاجی سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا :جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء میں گزراکہ آپ محتاجی اور کفرسے پناہ طلب کیاکرتےتھے،اور ایک روایت میں ہے کہ آپ  محتاجی کی بری آزمائش سے پناہ طلب کیاکرتے تھے۔ (دیکھئے:صحیح بخاری/6368 ،6375 وصحیح مسلم/589)

(3) - طلب رزق کےلئے محنت وکوشش اور اس کی ضرورت ،اہمیت اورصحیح اورمناسب طریقۂکارپرابھاراجائے۔

(4) - مالداراور صاحب نصاب افرادکےاوپرجوزکاۃ فرض ہے اسے یقینی بنایاجائےکیونکہ یہ ان کےاوپر اللہ رب العزت کی طرف سےعائدکردہ فریضہ ہے، اللہ تعالی فرماتاہے:(وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ) ۔(اور جن کے مالوں میں مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی مقرره حصہ ہے) ۔(المعارج/24- 25)۔

(5) - غریبوں ،یتیموں ، مسکینوں اوربیواؤں کےلئے صدقات وعطیات پرابھاراجائےاور اس کی فضیلت واہمیت کوواضح کیا جائے۔

(6) - کسی بھی حالت میں غش اور دھوکہ دھڑی کرکے اورجھوٹ بول کرلوگوں کا مال مانگنے کے انجام اورگناہ سے واقف کرایاجائے۔

(7) - آس پڑوس  ، رشتےناطےاور گاؤں محلےکے محتاج افراد کی خبرگیری کی جائے تاکہ ان کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بےنیازکیاجائے۔

(8) - معاشرے میں تعلیم اور روزگارکے مواقع فراہم کرنا بھیک جیسی بیماری کو دور کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہوسکتاہے۔

(9)-  بھیک کےبڑھتے واقعات وحالات کے پیش نظر خاص طورسے ہم مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ  اپنی بیداری کا ثبوت دیں اور  بھیک مانگنے کے عمل کے قلع قمع کےلئے اسلامی اصول کو اپنائیں، شرعی اصول معیشت کو زندہ کریں، صدقات وعطیات کا شرعی نظام نافذکریں   اور بغیرجانے بوجھے کسی کو بھی بھیک دینے سے احترازکریں۔

(10) -  بھیک مانگنے کےوسائل اور طریقۂ کار خاص طور سے آن لائن بھیک  مانگنےکی کڑی نگرانی کی جائےاور اس  کے لئے سخت  قانون وضع  کرکے اسے روبعمل لایاجائے۔

(11)-گداگری کے نقصانات  اورفرد ومعاشر ہ پر اس کے برے اثرات   کےبارے میں کمیونٹی بیداری کو بڑھاوا دینا بہت ضروری ہے، تاکہ لوگوں کو اس کے نقصانات  کےبارے میں پتا رہےاور وہ اپنے پیسوں کومناسب اور فائدے مندجگہوں میں خرچ کرسکیں۔

بھیک نہ مانگنے والے محتاجین:

بھیک کے بڑھتےرجحان کے بیچ  بہت سارے فقراء او رمحتاجین ایسے مل جائیں گے جو ضرورت کے باوجود  شرم وحیاء کی وجہ سے لوگوں  کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے وہ صرف اپنے رب رزاق سے طلب کرتے ہیں، کیونکہ ان کو یقین ہے کہ رزق کا مالک تو بس وہی ہے ، انہیں ہمیشہ یاد رہتاہے کہ اس نے خود کہاہے: (وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ)۔(اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعده کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے)۔ (الذاریات/22)۔ اسی صفت کی وجہ سے ان کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے: ﴿لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا )۔( صدقات کے مستحق صرف وه غربا ہیں جو اللہ کی راه میں روک دیئے گئے، جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے۔ نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مالدار خیال کرتے ہیں، آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے انہیں پہچان لیں گے وه لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے)۔(البقرۃ/273)۔ الحاف کا مطلب  یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے زبردستی اور ان سے چمٹ کر مانگے۔

اس آیت کی روشنی میں اسلام نے بڑی سختی سے بھیک مانگے سےمنع کیاہے کہ صدقہ وخیرات ان بےگارکے لوگوں کے لئے ہرگزنہیں ہے جو کام  کرنے اور کمانے کی قدرت رکھتےہیں یہ توصرف ان محتاج اورغریب لوگوں کے لئے ہےجو کسی بھی وجہ سے کمانے سے قاصرہیں اورلوگوں کے سامنے شرم وحیاء کی وجہ سے ہاتھ بھی نہیں پھیلاتےاورسوال میں الحاح وزاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے کیونکہ وہ بھیک نہیں مانگتے،اور لوگ ان کو جانتے ہیں کہ یہ حقیقت میں ضرورت مند ہیں، ایک حدیث میں ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک دو دو کھجور یا ایک ایک، دو دو لقمے کے لئے در در پر جا کر سوال کرتا ہے۔ مسکین تو وہ ہے جو سوال سے بچتا ہے"، پھر نبی (صلى الله عليہ  وسلم) نے آیت(لا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا) کا حوالہ پیش فرمایا۔ (صحیح بخاری/4539 صحیح مسلم/1039)۔

    جولوگ بلا ضرورت لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں انہیں اللہ سے خوف کھانا چاہئے کیونکہ یہ عمل شرعا اور اخلاقاکسی بھی طور سے جائزنہیں ہے، اگر انسان کو اللہ نہ چاہے کبھی محتاجی اور فقر جیسے حالات سے دوچار ہونا پڑے تو سب سے پہلے اس کے حصول کےلئے جائز اور ممدوح طریقہ اپنانا چاہئے اور کوشش ہونی چاہئے کہ ایسا عمل کرےجوشریعت میں جائز اور قابل رشک ہواورہرممکن دوسروں سے مانگنے سے بچنا چاہئے کیونکہ رزق کا مالک  اللہ ہے،وہ فرماتاہے:( وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِحِسَابٍ )۔(اللہ تعالیٰ جسے چاہے بےشمار روزیاں دیتا ہے)۔(النور/38)۔ اور ایک جگہ فرماتاہے: (هُوَالَّذِي جَعَلَ لَكُمْ الأَرْضَ ذَلُولاًفَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَاوَكُلُوامِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُور)۔(وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیاتاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے)۔(الملک/15)۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے"۔ (صحیح بخاری/1469)۔

اللہ رب العزت ذوالجلال والاکرام سے دعاء ہےکہ وہ ہمارےلئےحلال روزی کا راستہ کھولےرکھے،حرام طریقوں سے بچائے، ہمیں اپنی دی ہوئی رزق پر قناعت کرنے والا بنائے ،اپنے فیصلے پر ہمیشہ راضی رکھے اور اپنے نبی کا سچا متبع بنائے۔آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم۔

*******

(ماہنامہ" الفجر" جلد/3 ، شمارہ/30 ، نومبر-دسمبر2025 ء)


جمعرات، 6 نومبر، 2025

(لاحَوْلَ ولاقُوَّةَإِلابالله) ایک عظیم کلمہ

(لاحَوْلَ ولاقُوَّةَإِلابالله) ایک عظیم کلمہ
تحریر: عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عربیہ
          انسان اشرف المخلوقات ہونےکےباوجودکمزوروناتواں ہے،بسا اوقات بےبسی اوربےکسی کاشکار ہوتا ہے، دردو الم ، اورمختلف قسم کے مصائب ومشکلات اور پریشانیاں  اس پر آتی رہتی ہیں ،اورایسا بھی ہوتاہے کہ کمزوری اورتھکاوٹ کےبوجھ تلے ایسا دبا ہوتاہےکہ اسےاپنے مقصد کے حصول کے لئے کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے ،اور بسااوقات اسے انجام دینے سےقاصر بھی ہوجاتاہے، نہ وہ خود اپنی پریشانیاں دور کرسکتاہے اور نہ ہی کسی دوسرے کی مدد کرسکتاہے،چنانچہ کسی کی مدد کرنا،اسے کسی ظلم سے بچانا اور اس کی پریشانیوں کو دور کرنا  اس کے لئے ناممکن ہوجاتاہے،بلکہ ایسا بھی ہوتاہےکہ کئی طرح کی امداد بھی اس کے درد کا مداوہ نہیں بن پاتی، اور یہ سب اس وقت ہوتاہے جب اس کےپاس رب کائنات کی توفیق اورمدد نہ ہو،رب ذوالجلال کی توفیق مدد ونصرت ہی اسےایسی قوت اورصلاحیت سےبہرہ ورکرتی ہے جس کی بنا پر ہر طرح کے خیر کو انجام دینےکےساتھ ساتھ اپنی حیثیت وصلاحیت کےمطابق خوداپنی اوردوسروں کی مدد اورنصرت کابیڑہ اٹھا سکتاہے، کیونکہ یہی انسان کے اندر قدرت وطاقت اورتوفیق وترقی کی اساس اور بنیاد ہے ۔
        مخلوق کےاندرہر طرح کی قوت صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے عطا کردہ ہے ، اللہ ہی انسان کوغنی کرتاہےوہی اسے محتاج بناتاہے ،حکومت وسرتاجی اسی کے فضل سے ہے جسے چاہے جب چاہے عطاکردےجب چاہے یہ سب چھین کر اسےناتواں اور محتاج کردے، اللہ تعالی فرماتاہے :(وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ)۔(تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں،اب بھی جب تمہیں کوئی مصیبت پیش آجائےتو اسی کی طرف نالہ وفریاد کرتے ہو)۔ (النحل /53)۔
         اللہ تعالی کی قوت کےعلاوہ ساری قوتیں کمزورہوسکتی ہیں،اللہ کےغنی کےعلاوہ ساری غنائیت  فقروفاقہ میں تبدیل ہوسکتی ہیں اور اللہ کے علاوہ ہر ایک کی بادشاہت کو زوال آسکتاہے:(قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)۔( آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے)۔(آل عمران /26)۔
اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات ستودہ صفات  اپنی طاقت وقدرت،جاہ و جلال اورجبرو تسلط میں منفردو یکتا ہے، وہ اکیلاہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ حیی وقیوم ہے، جو ازل سے ہے اور ابد تک رہےگا اور  وہ  ہر چیز سے بےنیاز ہےجبکہ ہر شیئ اس کا محتاج ہے:(يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ)۔(اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےنیازخوبیوں واﻻ ہے)۔(الفاطر/15)۔
جو آدمی ہر حال میں اللہ تعالی کی مذکورہ صفات عالیہ اوراپنے ضعف اورناتوانی کا ادراک کرلے تو پھر کبھی بھی اپنی عافیت وسلامتی سےدھوکانہیں کھائےگا،غنی ومالداری کےلئے اپنے نفس کو نہیں کھپائےگا اپنے مقام ومرتبہ اور دھن دولت پر کبھی بھی نہیں اترائےگا ،اور نہ اپنے حسب ونسب پر فخرومباہات دکھلائےگا بلکہ وہ اپنے رب کے فضل وکمال کا اعتراف کرےگا اس کی نعمتوں کا شکریہ اداکرےگا اس کے احسان کی گواہی دیگا اور یہ گواہی دیگا کہ کسی بھی طرح کی حرکت  وقوت کا مالک اللہ رب العزت ہی ہے، اور اس چیز کے اعتراف اورایقان کےلئے نصوص شرع میں ہمیں ایک عظیم کلمہ دیاگیاہے،ایمان ویقین کے ساتھ جس کا ورد خیر کثیر کا سبب ہے اور اس کےساتھ ہی اپنے رب پر ایمان ویقین کی سلامتی اور پختگی کا بنیادی سبب ہے اور وہ ہے(لا حَوْلَ ولا قُوَّةَ إِلا بالله)۔ ذیل میں ہم اس کی فضیلت اورفوائد واثرات سےمتعلق چندباتیں رکھتےہیں:  
 - (لاحَوْلَ وَلا قُوَّةَإِلَّابِاللهِ) : یہ ایک عظیم کلمہ ہے جس  کا مطلب ہوتاہے کہ کسی بھی طرح کی حرکت ،  تبدیلی اور قوت وطاقت  اللہ کی مشیئت کے بغیر ناممکن ہے یہ سب اسی کی مدد اور تقدیروتدبیرسےانجام پاتی ہے ، اللہ اگر نہ چاہے تو کسی بھی زبان کو گويائی نصیب نہیں ہوسکتی ، اگر اللہ کی مشیئت نہ ہو تو ایک پور بھی نہیں ہل سکتا، اگر اللہ کی مدد نہ تو کوئی ہاتھ بھی نہیں ہل سکتا اور نہ ہی کوئی قدم حرکت کرسکتاہے،اللہ نہ چاہے تو پھر کوئی بھی مخلوق پیدا نہیں ہوسکتی اورنہ ہی کائنات میں  زمین وآسمان کے اندر کوئی پتہ تک ہل سکتاہے۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنی کمزوری اور بےبسی کا اعتراف کرتے ہوئے ہر حال میں اپنے رب پر توکل اور بھروسہ کرتاہے۔
 - یہ ایک ایسا کلمہ ہےجس کے ذریعہ بندہ اس بات کااعتراف کرتاہے کہ دکھ اور تکلیف کو دور کرکے خوشی اورمسرت صرف اورصرف اللہ تعالی ہی عنایت کرسکتاہے اور کسی بھی طرح کا نفع اورنقصان اسی کے تصرف میں ہے ۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جب دل میں گھر کرلیتاہےتوآدمی اس کےلفظ ومعانی کا اچھی طرح ادراک کرلیتاہےاور اس کےمعانی ومقتضی پراس کا ایمان کامل ہوجاتاہے پھر ایک خشوع بھرےدل سے اس کا ورد ہونے لگتاہے۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جو بندےکے ہر مشکل کو آسان کردیتاہے اور اسے ہرجائز خواہش کو حاصل کرنے کی  توفیق ملتی ہے۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جوجنت  کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جو اس کو لازم پکڑےگا  اس  خزانے کا حقدار بن جائےگا ، ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:"اےعبداللہ بن قیس!" تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول میں حاضرہوں ۔تو آپ نے فرمایا : "میں تمہیں ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے "۔ میں نے کہا: آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ضرور ،تو آپ نے فرمایا :" وہ کلمہ (لاحَوْلَ ولَاقُوَّةَإلَّا باللَّهِ) ہے"۔  (صحیح بخاری/4205، صحیح مسلم/2704،ابوذررضی اللہ عنہ سےاس معنی کی روایت ابن ماجۃ (3825) نے بھی نقل کی ہے،جس کی تصحیح امام البانی نے کی ہے)۔ 
-یہ ایک ایسا کلمہ ہےجب کوئی غم کا مارا  اس کے ذریعہ اپنے رب سے مناجات کرتاہے تو اس کا غم جاتارہتاہے ، امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتےہیں :"لاحول ولاقوۃ الاباللہ کی تاثیر غم اور تکلیف دور کرنےکے لئے اس وجہ سے ہے کہ اس کے اندر تمام طرح کی قوت وطاقت کی مکمل تفویض اللہ تعالی کےلئے ہوتی ہے تمام تر معاملات اسی کے سپرد کردئے جاتےہیں، اس سے کسی بھی معاملہ میں جھگڑا نہیں جاتا، اس سے بدگمانی نہیں کی جاتی ۔بعض آثار میں آتاہے کہ آسمان سے کوئی بھی فرشتہ اللہ تعالی کی قدرت ومشیئت کے بغیر نہیں اترتا، اور شیطان کی دھتکارنے میں اس کی عجیب تاثیر ہے"۔ چنانچہ جب قرض کا غلبہ ہوجائے ، تکلیف حد سےبڑھ جائے ،کوئی بیماری لاحق ہوجائے، اور سامنے غم وتکلیف نظرآئے تو  (لاحَوْلَ ولَا قُوَّةَ إلَّاباللَّهِ) پڑھنا چاہئے ۔ اسی طرح ہرنیک اور اچھے کام کے وقت بھی اس کا ورد کیاجاتاہے۔
-یہ ایک ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعہ اللہ کی مدد طلب کی جاتی ہے۔اور جواللہ تعالی سے مدد طلب کرتاہے تووہ ضرور اس کی مدد کرتاہے اور اس کی ضرویات کو پوری کرتاہے اور جو بھی اس کے لئے درست ومناسب  ہے اس کےلئے راہ ہموارکرتاہے،اور خاص طورپر بندہ اللہ کی اطاعت پرمدد کیاجاتاہے، مؤذن جب (حَيَّ على الصَّلاةِ) اور (حَيَّ على الفَلاح) کہتاہےتوسننے والے کےلئے (لا حَوْلَ ولا قُوَّةَ إِلا باللهِ)  کہنا مشروع ہے یعنی اطاعت کرنا اور نماز وکامیابی کی طرف بلانے والے کی بات ماننا صرف اللہ کی نصرت وتوفیق سے ہی ممکن ہے ۔
-یہ ایسا کلمہ ایک بہترین اورمضبوط آڑاوربچاؤہے، لوط علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے ستایا، تو انہوں نے کہا: (لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ)۔( کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا)۔(ھود/80)۔  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " يَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لقَدْ كانَ يَأْوِي إلى رُكْنٍ شَدِيدٍ"۔ "اللہ لوط علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائے کہ انہوں نے ایک زبردست سہارے کی پناہ لینے کے لیے کہا تھا "(صحيح  البخاري /4694، صحيح مسلم /151) ۔  انہوں نے اپنے رب کی پناہ لی کہ وہ جو چاہے کرے اس کا جو فیصلہ ہوگا وہی ہوگا ،یہی وجہ ہےکہ اللہ کے حکم سے فرشتوں نے آکر کہا: (يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ* فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ * مُّسَوَّمَةًعِندَرَبِّكَ وَمَاهِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ)۔ (اے لوط!ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہئے، بجز تیری بیوی کے، اس لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے واﻻ ہے جو ان سب کو پہنچے گا، یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں. پھر جب ہمارا حکم آپہنچا، ہم نے اس بستی کو زیر وزبر کرڈالا، اوپر کا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھےتیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وه ان ظالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے)۔ (ھود/81)۔
- یہ کلمہ انسان کو کبروغرور سے بچاتاہے :اللہ تعالی نے اگر کسی پراپنا انعام کررکھاہو تو اسے ہمیشہ اس کلمہ کے ذریعہ اس کے فضل اور قدرت ومشیئت کا استحضار کرتے رہنا چاہئے ،اگر کوئی اس سے بےاعتنائی برتتاہے تو پھر اس کے اندر کبروغرور اور اتراہٹ آجاتی ہے جو انسان کو کفر تک پہونچا سکتی ہے ،اللہ تعالی نے سورہ کہف کے اندر دو ساتھیوں کا واقعہ ذکر کیاہے ،جس کے اندر ہے کہ ان میں سے ایک کو جو کافرتھا اللہ تعالی نے انگوروں کے دوباغ عطاکررکھاتھا جو بہت زیادہ پھلدار تھے  ،وہ آدمی اپنے زعم میں مغرور ہوگیااور گھمنڈاور غرور والی باتیں کرنے لگا تو اس کے ساتھی نے جو مؤمن تھا اس کو نصیحت کرتےہوئے کہا: ( وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ مَالًا وَوَلَدًا. فَعَسٰی رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَیُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًا. اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًا ) ۔ ( تو نے اپنے باغ میں جاتے وقت کیوں نہ کہا کہ اللہ کا چاہا ہونے واﻻ ہے،  اللہ تعالی  کی مدد کے بغیر کوئی طاقت نہیں ۔اگر تو مجھے مال واولاد میں اپنے سے کم تر دیکھ رہا ہےتو بہت ممکن ہے کہ میرا رب مجھے تیرے اس باغ سے بھی بہتر دے اور اس پر آسمانی عذاب بھیج دے تو یہ  چٹیل اور چکنا میدان بن جائے۔ یا اس کا پانی نیچے اتر جائے اور تیرے بس میں نہ رہے کہ تو اسے ڈھونڈ ﻻئے)۔ (الکہف/39-41) ۔لیکن اس شخص نے اپنے ساتھی کی بات نہیں مانی تو اللہ تعالی نے اس کے باغ کو تہس نہس کردیا اور وہ کف افسوس ملتا رہ گیا،چنانچہ اس کےغرور وتکبر اور اللہ کی قدرت کے عدم استحضار سے بیگانہ پن کےانجام پہ اللہ تعالی فرماتاہے:(وَاُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلٰی مَاۤ اَنْفَقَ فِیْهَا وَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِهَا وَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا. وَلَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا)۔ ( اور اس کے (سارے) پھل گھیر لئے گئے(یعنی  اس کا سارا باغ تباہ وبرباد کر ڈالا) ، پس وه اپنے اس خرچ پر جو اس نے اس میں کیا تھا  کف افسوس  ملنے لگا اور وه باغ تو(خاکسترہوکر) اوندھا الٹا پڑا تھااور (وه شخص) یہ کہہ رہا تھا کہ کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرتا۔ اس کی حمایت میں کوئی جماعت(جس پر اسے نازتھا)  نہ تھی  کہ اللہ سے اس کا کوئی بچاؤ کرتی اور نہ ہی وه خود اپنی مدد کرنے  والا بن سکا)۔(الکہف/42-43)۔ 
اس واقعہ کے بعد اللہ تبارک وتعالی نے اپنی قدرت وطاقت کا مظہر خود پیش کیاہے، فرماتاہے:( هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّ ؕ هُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا)۔(یہیں سے (ثابت ہے) کہ اختیارات اللہ برحق کے لئے ہیں وه ثواب دینے اور انجام کے اعتبار سے بہت ہی بہتر ہے)۔(الکہف/44) ۔
- یہ کلمہ گھر سے نکلتے وقت کی دعاء ہے،  انس رضی اللہ عنہ نے مروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ، فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ وَكُفِيتَ وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ: كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ"۔" جب آدمی اپنے گھر سے نکلے پھر کہے: (بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله) (اللہ کے نام سے نکل رہا ہوں، اللہ ہی پر میرا پورا پورا توکل ہے، تمام طاقت و قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے) ،  اس وقت کہا جاتا ہے (یعنی فرشتے کہتے ہیں): اب تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری طرف سے کفایت کر دی گئی، اور تو بچا لیا گیا، (یہ سن کر) شیطان اس سے جدا ہو جاتا ہے، تو اس سے دوسرا شیطان کہتا ہے: تیرے ہاتھ سے آدمی کیسے نکل گیا کہ اسے ہدایت دے دی گئی، اس کی جانب سے کفایت کر دی گئی اور وہ (تیری گرفت اور تیرے چنگل سے) بچا لیا گیا"۔(سنن أبی داود/5095، سنن الترمذي/3426 علامہ البانی نے اس کی تصحیح کی ہے)۔
- اگر بندہ (لاحَوْلَ ولَا قُوَّةَ إلَّا باللَّهِ) کو لازم پکڑتاہےتواسےہمیشگی کی پریشانیوں اور نفس کی  شہوت کے غلبہ سےنجات پانے میں مدد ملےگی۔
-اس کلمہ کے ذریعہ بڑاسے بڑا بھار برداشت کیا جاسکتاہے اور  بڑی سے بڑی ذمہ داری نبھائی جا سکتی ہے ،حالات کا رخ بدل سکتےہیں،اور بلندوبالا مقام حاصل کیاجاسکتاہے۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جس کے اندرتوحید کی تینوں اقسام توحید ربوبیت ، توحید اسماء وصفات اور توحید الوہیت کا اقرار موجودہے:
(1)  اس کا ورداور اعتراف کرنے والا یہ اعتقاد اور ایمان رکھتاہے کہ اللہ رب العزت ہی اس کائنات کا مدبرہے جو اپنی حکمت ومشئیت سے اس کے اندر تصرف کرتاہے اس کے حکم واذن کے بغیرایک پتہ بھی نہیں ہلتاہے ۔
(2)  وہ یہ اعتراف کرتاہے کہ جس ذات کی یہ صفت ہووہ  اپنی مخلوق سے غنی اور بے نیاز اور قائم بذاتہ ہے اورقدرت وعظمت اور قوت وعزت میں صفات کمال سے متصف ہے،اس کے امور میں کوئی شریک وساجھی نہیں ۔
(3) جس بندے کا اپنے خالق کے سلسلے میں  یہ ایمان اور اقرارواعتراف ہو وہ لازما اسی  ذات کی عبادت کرےگا اسی کی طرف رجوع کرےگا اور  اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرےگا اور نہ ہی کسی سے استغاثہ وفریاد کرےگا۔
- یہ ایک ایسا کلمہ ہے جو باقیات صالحات میں سے ہےجو اللہ تعالی کو بہت پسندہیں جن کے بارے میں  اللہ تعالی فرماتاہے : (وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا)۔( البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور (آئنده کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں )۔(الکہف/ 46) ۔ مفسرین نے باقیات صالحات کی تفسیر میں کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل کیاہے کہ اس سے مراد (سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله)ہے۔ جیساکہ عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔(دیکھئے: کتب تفاسیر)۔
-یہ کلمہ عرش کے نیچےہے ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ:" یہ کلمہ عرش کے نیچے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ،جب تم (لاحول ولاقوةإلابالله) کہتے ہوتو اللہ تعالی فرماتاہے:(میرابندہ مکمل طور پر میرا مطیع فرمانبردارہوگیا)"۔(مستدرک الحاکم :1/ 17 ،  علامہ البانی نے صحیح الترغیب /1580 میں اسے صجیح کہاہے)۔--یہ کلمہ جنت کے دروازوں میں سے ایک ہے ، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"کیا میں تجھے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے کے بارے میں نہ بتاؤوں ؟" انہوں نے کہا : وہ کیاہے ؟ تو آپ نے فرمایا:" لا حول ولا قوة إلا بالله"۔(رواه أحمد، صحیح الترغیب /1581)۔
-ابو ایوب انصاری اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی روایت میں اسے ) غِراسُ الجنَّةِ) کہا گیاہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ کے ورد سے اس کے لئے جنت میں ایک پودا لگا دیاجاتاہے۔ (علامہ البانی نے ابوایوب انصاری کی روایت کو صحیح لغیرہ اور ابن عمرکی روایت  کو حسن لغیرہ کہاہے،دیکھئے : صحیح الترغیب/1583،1584)۔ 
- اس کلمہ کے ورد سے گناہ مٹتےہیں ، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی  روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" زمین پرجو کوئی بھی بندہ: (لاإله إلاالله والله أكبرولاحول ولاقوةإلابالله) کہے گا اس کے (چھوٹے چھوٹے) گناہ بخش دیئے جائیں گے، اگرچہ سمندر کی جھاگ کی طرح (بہت زیادہ) ہوں"۔(سنن الترمذی/3460 ، علامہ البانی نے اسےحسن کہاہے،نیز دیکھئے : صحیح الترغیب/3581)۔
- یہ کلمہ ان کلمات میں سے ایک ہےجنہیں  کوئی بندہ  اپنی بیماری میں کہے، اور مر جائے تو آگ اسے نہ کھائے گی۔(دیکھئے : سنن الترمذی/3430، علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔
 - یہ ان کلمات میں سےایک ہے جن کاوردنمازکے بعد کیاجاتاہے۔(دیکھئے: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ/3160)۔
 - یہ ان کلمات میں سے ایک ہے جن کو تہجد میں پڑھاجاتاہے ۔(دیکھئے:صحیح البخاری/1120 ، 1154)۔
اللہ تعالی ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور ہر طرح کے برے اعمال سے بچائے ،کیونکہ ہر طرح کی توفیق اور نصرت مدد کا وہی مالک ہے ۔ آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی خیرخلقہ وآلہ واصحابہ اجمعین ۔
**********
مجلہ صدائےحق جھارکھنڈ انڈیا
جنوری- مارچ 2025 ء


اتوار، 28 ستمبر، 2025

زاویۂ نگاہ

 

زاویۂ نگاہ

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عربیہ

      لیلی العامریہ  عشق ومحبت  کے باب میں مذکورکہانیوں اورافسانوں کے مطابق عرب کی معروف ترین   خاتون گزری ہے،  اگر ادب ورومانس سے متعلق کہانیوں کو  صحیح مانیں تو قیس بن معاذ یا  قیس بن الملوح جوادب ورومانس کی دنیا میں   لیلی کا مجنون   کےنام سے معروف ہے  کی محبوبہ رہی ہے۔

لیلی  کو بھی عربی شعرادب میں خوب دسترس حاصل تھا  اوروہ  جاہلیت واسلام سے متعلق  تاریخ عرب کی بھی ماہر تھی۔ کہا جاتاہےکہ لیلی معمولی قدکاٹھی   کی تھی اور شکل وصورت  اتنی  زیادہ  قابل اعتناء نہیں تھی ،  دبلی پتلی  اور سانولی سی لڑکی تھی ۔

زاویۂ فکر کے تعلق سے مشہور ہےکہ ایک عرب امیر نے لیلیٰ اور اس کے مجنون  کی محبت کے بارے میں سنا توان کواپنے سامنے حاضرکرنے کا حکم دیا ۔چنانچہ جب لیلیٰ اس کے سامنے کھڑی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک دبلی پتلی اور سانولی سی لڑکی ہے، اس نے اسے غیر اہم اورحقیر  ومعمولی سمجھا،مجنوں امیر  کے دل کا حال سمجھ گیااور اس کی طرف دیکھ کرکہا:عالیجاہ! اگرآپ مجنون کی غم زدہ آنکھوں کی توانائیوں سے لیلیٰ کو دیکھں گےتوآپ پر  اس کی محبت     کی وجہ سے اس کے دیدار کاراز کھل جائے گا۔امیر کو مجنوں کا یہ جواب بہت پسندآیا اور وہ خوش ہوگیا۔(نوادرالعشاق /ص 157)۔

اسی طرح لیلی  کا ایک شعر بھی اسی زاویۂ کی بہترین ترجمان ہے کہتی ہے:

كِلَانَا مظهر للنّاس بغضاً   

وكلّ عِنْد صَاحبه مكين

تبلّغنا الْعُيُون بِمَا رَأينَا   

وَفِي القلبين ثمَّ هوى دَفِين

(ہم دونوں  لوگوں کی نفرت کے مظہرہیں ، جبکہ ہم میں کا ہرایک دوسرےکےنزدیک قابل قدرہے،ہم جو دیکھتےہیں نگاہیں اسی کو ہم تک پہونچاتی ہیں،  ہم تو ایک دوسرے کے دلوں میں ہیں جہاں جذبات ومحبت مدفون ہیں)۔(خزانۃ الأدب للبغدادی:4/230)

ہوا یوں کہ قیس نہایت ہی خوبرو جوان   اور خوش اسلوب تھا،اچھی باتیں کرتا  اور شعرگوئی کرتا ، اور جب بھی کسی مجلس میں  یا کسی کے ساتھ ہوتاتو ان  میں لیلی  کی باتیں کرتا رہتا   ،ور اس سے  اپنی دل لگی اور الفت وچاہت   کو بیان کرتا،پھر ایک وقت آیا جب  لیلی اس سے بےاعتنائی برتنے لگی اس پر اسے بڑی تکلیف ہوئی اور لوگوں میں اس کا چرچہ  ہونےلگا ، جب  یہ بات لیلی کو معلوم ہوئی تو اس  نے مذکورہ جذبے کا اظہار اپنے شعرکیا۔

میں  نے مذکورہ باتیں  بطور مثال ذکرکی ہے یہ بتانے کےلئے کہ  تعلق کا جذبہ جو انسان کے اندر ہوتاہے قوم وملت اور رنگ ونسل سے پرے ایک اندرونی  جذبہ ہوتاہے جو بسا اوقات سامنے والے کی سوچ سے  بالا تر ہوتاہے، اس لئے ہم کسی کے تعلق ولگاوٹ کو اپنی نگا ہ سے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اگر دیکھنے کی کوشش کریں گے تو اس کے اندر خطا  اورغلطی کا امکان بھی ہوسکتاہے ،بلکہ بسا اوقات  شروفساد اور فتنہ کا دروازہ بھی کھل سکتاہے، اس لئےکہ جب ہم کسی  کے فعل اورحرکات  کو اپنی نگاہ سے دیکھیں گےتو اپنے اعتبار وخیال سے کوئی رائے قائم کرکے اس پرکوئی حکم لگانے کی کوشش کریں گے جبکہ حقیقتا سامنے والا اس کے برعکس سوچ اور سمجھ رہاہوگا۔

تعلق اور لگاوٹ سے متعلق انسان کے لئے  ایک حد   برقراررکھنا  بھی ازحدضروری ہے ،چنانچہ آپ کی محبت ولگاوٹ کا جذبہ خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو  اس کے اندر اعتدال ضروری ہے ورنہ  اس کے اندر بے اعتدالی  بسا اوقات انسان کے لئے باعث عار وشرمندگی بھی بن جاتی ہے ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ایک موقوف روایت ہے وہ فرماتےہیں:"أحبِبْ حبيبَك هَونًاماعسى أن يكونَ بغيضَك يومًاما،وأبغِضْ بغيضَك هَونًاما؛عسى أن يكونَ حبيبَك يومًاما"۔"اپنے دوست سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دوستی رکھو شاید وہ کسی دن تمہارا دشمن ہو جائے اور اپنے دشمن سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دشمنی کرو شاید وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے"۔ ( الأدب المفرد للامام البخاری/1321 علامہ البانی نے اسے حسن لغیرہ کہاہے)۔چنانچہ اس تعلق کے اندرگہرائی محبوب تو ہے لیکن غلومبغوض ہے ،خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت کے جذبات کے تعلق سے امت کو سخت تنبیہ کیاہے ،چنانچہ آپ کا ارشاد ہے:"لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَاأَنَاعَبْدُهُ،فَقُولُوا:عَبْدُاللَّهِ وَرَسُولُهُ"۔"مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے (میرے متعلق)  یہی کہا کرو کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں"۔(صحيح بخاری/3445)۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اسی جذبہ کے اندر غلو کی وجہ سے گزشتہ امتیں ہلاک ہوئیں، جس کا بیان قرآن وسنت کے اندر بے شمار نصوص میں موجودہے،چنانچہ غیراللہ سے اپنی اسی محبت کی وجہ سے وہ شرک جیسے ناقابل معافی جرم کے شکار ہوئے ،اللہ تعالی فرماتاہے:﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ)۔(بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اوروں کو اللہ کے شریک ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیئے)۔(البقرة/165)۔

نفرت کےبرعکس محبت انسان کو بہت جلد اپنے دام میں گرفتارکرکے اپنا تابع کرلیتی ہے جس کی وجہ سے اس رویہ جاجزانہ اور تابعدارانہ ہوجاتاہے، ایک شاعر کہاہے:

       والحب شعر النفس إن هتفت به      

سكت الوجود ولأطرق استعظاما

(محبت نفس  کا شعر ہے اگر وہ اسے آواز لگاتی ہے تو وجودساکت ہوجاتاہے، اوراس کی عظمت اور اہمیت کےسامنے اپنا سرجھکا لیتاہے)۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اگریہ لگاوٹ اور الفت اللہ کے ساتھ ہے تو توحید  اور عبادت ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے تومحبت کے ساتھ ایمان ہے ، اورمخلوق کے ساتھ ہے تو حقیقی اسلام ہے۔ البتہ مخلوق کے ساتھ  اس کی حیثیت  ان کی قربت وتعلق کے مدارج اورحالات کے اتارچڑھاؤ کے ساتھ بدلتی رہتی ہے،جیسے ماں باپ ، بھائی بہن ، بیوی بچےاورعام مسلمان اور غیرمسلمان  وغیرہ ۔ اور یہ بھی واضح ہوکہ ان سے تعلق ومحبت  شرعی دائرے میں ہونے کے ساتھ ساتھ   اللہ کے لئے  ہو  ،یہی ایمان کا تقاضہ اور اس باب میں اسلام کا مطلوب اور حصول عز وشرف کا سبب  ہے ، اورجب کسی انسان کے اندر یہ خوبی آجائے تو وہ ایمان کی مٹھاس اور لذت محسوس کرنے لگتاہے، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا ۔۔۔"۔ ان تین چیزوں میں سے ایک ہے :"أن يحب المرءلايحبه إلالله"۔" کسی سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے"۔(صحیح بخاری/16 ، صحیح مسلم/43)۔

بلکہ ایک روایت میں اسے تکمیل ایمان سے تعبیر کرتےہوئے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے اللہ ہی کی  رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کی رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کی  رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کی  رضا کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا"۔(سنن ابی داود/4681 ،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔ یہی نہیں بلکہ جن   کے اندر یہ  خصلت اور جذبہ پیدا ہوجائے اوراللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھیں ، اسی پر جمع ہوں اور اسی پر جدا ہوں تو وہ ان سات خوش نصیبوں میں شامل ہوجاتےہیں جنہیں بروز قیامت  اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا، جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا"۔(دیکھئے: صحیح بخاری/1423، صحیح مسلم/1031)۔

بلاشبہ دلوں کا مالک اللہ رب العزت ہے وہی اس کا پھیرنے والاہےاس کے اندر الفت ومحبت بھی  وہی ودیعت کرتاہے ،ایک مقام پر فرماتاہے: ( وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ * وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ )۔(اگر وه ( دشمن عہدکرکے) تجھ سے دغا بازی کرنا چاہیں گے تو اللہ تجھے کافی ہے، اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ  تیری تائید کی ہے۔ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وه غالب حکمتوں والا ہے)۔(الانفال/62-63)۔ یہی وجہ ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اکثریہ دعاء کرتے رہتےتھے:" يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"۔"اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ" ۔(سنن الترمذی/2140،3522 ،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔

چنانچہ پختہ اورمضبوط علم والوں کی اہم دعاؤں میں سے ایک یہ  دعاء بھی ہے جس کی تعلیم اللہ تعالی نے دی ہےکہ:( رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَاِذْهَدَیْتَنَا)۔(اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل(جہالت ونادانی یا کفروعناد اور معصیت وخرافات کی وجہ سےان لوگوں کے دلوں کی طرح جوراہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں) ٹیڑھے نہ کردینا)۔(آل عمران/8)۔

چنانچہ مثبت اور مناسب سوچ  کے ساتھ اور شریعت کے احکام کےدائرے میں دل کے معاملات  انجام دینا ایک اچھے   انسان کی پہچان  اور دنیا وآخرت کی فلاح وکامیابی کےلئے ضروری ہے او رخاص طور سے ایک مؤمن کے لئے اس کےتئیں بیداری واجب ہےکہ کہیں  غلواور افراط وتفریط میں پھنس  کر گذشتہ  ہلاک شدہ امتوں کی طرح  راہ حق سے بھٹک کر خائب وخاسر نہ ہوجائے۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ وصلی اللہ علی خیر خلقہ وسلم۔

********