اتوار، 22 جولائی، 2018

استادمحترم مولانا عبدالسلام مدنی رحمہ اللہ کچھ بھولی بسری یادیں



16/ جولائی بروز سوموار قیلولہ کے بعد عصرکی نمازکے لئے اٹھا تو واٹس اپ پرمختلف شخصی اور گروپ میں ڈھیروں رسائل موصول ہوئے کہ ہمارے استاد محترم مولانا عبدالسلام صاحب مدنی اب اس دنیا میں نہیں رہے ، زبان پر (إنا لله وإن إليه راجعون ) کا ورد جاری ہوگیا ، اور ایسا پہلی بار ہوا کہ یہ جملہ باربارزبان وذہن پرایک طرح سے مسلط ہوگیا ہو ، اس کے ساتھ ہی جامعہ سلفیہ بنارس میں گذارے ہوئے آٹھ سال کا وقفہ ذہن میں گردش کرنے لگا ،استاد """ محترم """ مولانا عبدالسلام مدنی رحمہ اللہ کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ آپ کے ساتھ بتائے علمی وقت  لمبے وقفے کے بعدبھی ذہن سے محو نہیں ہوسکتا ، آپ کا وہ طرزتخاطب : پیار ، محبت ، نصح ، اصلاح ،  طنز ، تنقید وغیرہ وغیرہ  ۔۔۔۔کوئی کیسے بھلا سکتاہے ؟  سنت کے مطابق  لمبی داڑھی اورنفیس شیروانی میں ملبوس میٹھی زبان  آج بھی لذت فکروسماع کا احساس دلا رہاہے ۔
 مولانا سے ہم نے دوکتابیں پڑھی تھی صحیح مسلم  کا نصف حصہ اور شرح الوقایہ کی دونوں جلدیں ، جن کی چاشنی آج بھی  احساس وشعور کی پرتوں پر قائم ودائم ہے ، موصوف کی تدریس  کا انداز ہی کچھ ایساتھا ۔ بہترین اسلوب بیان کے ساتھ  ساتھ نصوص ومواد کا کثرت ذکرآپ کے معیار تدریس کی  بلندی کا غمازتھے ۔  یہی وجہ تھی کے آپ کی تدریس سے مستفید کوئی بھی طالب کسی بھی ادارے میں تفوق پالیتاتھا ۔
بعض مسائل میں تفرد کے باوجود طلبا ء واساتذہ کے اندر آپ کے علم واستدلال کو نہایت ہی قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ،  منکر پر انکار میں آپ کبھی بھی تساہل یا تاخیر نہیں برتتے ،  چاہے مجلس جتنی بڑی ہو فورا کھڑے ہوکر تنبیہ فرماتے ، مجھے یاد ہے جامعہ کے  ایک پروگرام میں ایک طالب نے روایتی اندازمیں نعت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھی  اسی پروگرام میں آپ نے اس پر تنبیہ فرمائی اور آپ کا وہ جملہ آج بھی جب میں کسی نعت خواں کو دیکھتاہوں میرے ذہن میں آجاتاہے ، ہوایوں کہ نعت خواں کلین شیو تھے ، مولانا نے فرمایا "محترم آپ اپنی نعت میں اس عظیم ہستی کی صفت بیان  فرمارہے تھے ، اور آپ کی یہ زبان آپ کی داڑھی سے کتنی دوری پر ہے جس میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کررہے ہیں " ۔
آپ کی رہائش دارالضیافہ کی آخری منزل پرٹھیک ماموں جان شیخ احمد مجتبی مدنی کی رہائش کے سامنے تھی جہاں میرا آناجانا کافی زیادہ تھا اس لئے محترم سے باربار ملاقات ہوتی تھی سلام ودعاء کے بعد کبھی کبھار آپ کی نصیحت میرے لئے کافی قیمتی رہے۔
جب میں مرکزامام ابن باز میں بحیثیت باحث متعین ہواتوجامعہ امام ابن تیمیہ اور کلیہ خدیجۃ الکبری للبنات  میں   مختلف مراحل میں حدیث وتفسیر اورعقائد کی کتابوں کے ساتھ ساتھ فقہ کی بعض کتابیں تدریس کے لئے ملیں  ان کتابوں کی تدریس میں مولانا عبدالسلام صاحب کے طریقہ تدریس نے کافی مددکیا  ، اوریہ کہنے میں کوئی ہچک نہیں کہ جب جب میں نے فقہ کی کتابیں پڑھائی ہے آپ کی اور استاد محترم مولانا محمد حنیف مدنی رحمہ اللہ کی  یاد ہمیشہ آتی رہی ہے ۔
مولانا موصوف  شرح الوقایہ کی تدریس  کے وقت  جب جب کو ئی ایسا مسئلہ آتا جو صرف عقل وتخیلات پر مبنی ہوتا فرماتے " یہ  احناف کے یہاں ہی ممکن ہے " ۔
فن خطابت کے آپ شہسوار مانے جاتے تھے ، داہنے ہاتھ کی انگلیوں کی جنبش کے ساتھ کلام میں روانی اورزبان میں چاشنی  عوام کے ساتھ ساتھ خواص کو بھی گرویدہ کردیتی تھی ، آپ ہمیشہ دینی جلسوں اور پروگراموں میں شرکت کرتے اور لوگوں کی ڈھیرو ں محبتیں اور دعائیں ملتیں ۔
جامعہ میں جن  چند اساتذہ کے خطبۂ جمعہ سب سے زیادہ پسند کئے جاتے ان میں آپ بھی تھے حالانکہ آپ کی تنقید بھری نصیحتیں کچھ لوگوں کو ناگوار گذرتیں لیکن پھر بھی آپ ان سب کی پرواہ کئے بغیر اپنا اسلوب و انداز جاری رکھتے۔
جامعہ چھوڑنے کے بعد مختلف وظائف واشغال میں مصروفیت کی وجہ سے بنارس کم ہی جانا ہو اجس کی وجہ سے زیادہ تر اساتذہ سے  رابطہ نہ رہا جن میں مولانا " محترم " بھی ہیں ، آخری بار ان سے ملاقات غالبا تین سال پہلے  دہلی میں جامعہ نگر کے شاہین باغ میں ہوئی تھی جب میں چھٹیوں میں ہندستان گیا ہوا تھا، میں اور میرے خالہ زاد  عزیزم ڈاکٹر عبدالمحسن تیمی ایک ڈاکٹر سے ملاقات کے بعد واپس آرہے تھے کہ موصوف کو ایک جوس کی دکان پہ دیکھا شوق ملاقات میں آپ کے قریب گیا سلام مصافحہ کے بعد تعارف ہو ا چونکہ ایک طویل مدت کے بعد ملاقات ہوئی تھی اس لئے پہلی نظرمیں پہچان نہ سکے  پھرجب تعارف کرایا تو پہچان گئے اور نہایت ہی محبت کے ساتھ  حال  احوال دریافت کئے اور حالیہ مشغولیات کے بارے میں پوچھا ۔
آپ اپنے مخاطب کو ہمیشہ "محترم"سے موصوف کرتے گویا یہ آپ کا تکیہ کلام تھا,آپ کے اس طرز تخاطب نے خود آپ کو "محترم" بنا دیا تھا، اور یہ آپ کے لئے صفاتی نام بن گیاتھا۔
آج مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن آپ کی جہد کریمہ اورخدمات جلیلہ ہمیشہ آپ کی یاد دلاتی رہیں گی ، آپ کی تصنیفات اور اقطارعالم میں پھیلے آپ کے ہزاروں علمی وارثین آپ کی شخصیت کی بلندی اور محنت ولگن کی روشن دلیلیں ہیں اللہ۔
 رب العزت آپ کو غریق رحمت کرے ، لغزشوں کو درگذرفرمائے ، اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے ، اقرباء،اصدقاء اوراولادواحفادکوصبر دے .
وجزاه الله  عنا وعن الإسلام والمسلمين خيرالجزاء.


=============

کوئی تبصرے نہیں: