اتوار، 25 اگست، 2013

شب براءت کی حقیقت

شب براءت کی حقیقت

تمہید

الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لانبي بعده, وبعد :
       اسلامی شریعت کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے اندرکسی بھی نقص واضافہ کی گنجائش قطعی طور پرنہیں ہے ،اللہ تعالی نے اپنے فرمان :{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً}(المائدۃ :3) (آج کے دن میں نے تمہارےلئے تمہارےدین کومکمل کردیا ہےاورتمہارےاوپراپنی نعمت کاا تمام کردیاہے،اوراسلام کوبطوردین پسندکرلیا ہے) میں اس کی مکمل وضاحت  فرمادی ہے ، اوراس کے عقائدواعمال کے اندرکسی بھی کمی وزیادتی کو سرےسے ناکاردیاہے ، لیکن بدعت پرستوں اورشکم پرورعلماءنے مذکورہ آیت کریمہ کی دھجیاں اڑاتےہوئے دین میں بدعات وخرافات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا اوراسلامی عقائدوعبادات کواپنی بدعتی چیرہ دستیوں سے داغدار کرکےامت مسلمہ کے عام افرادکوگناہوں کے شکنجہ میں جکڑکرصحییح عقائدوافکار اوراعمال وافعال سے کوسوں دورکردیا ،جس کا نمونہ آپ ان بدعتی محافل ومجالس   اوررسوم واعمال کے موقع سے ملاحظہ کرسکتےہیں ، جس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے والے ان  کے قیام اوردفاع میں جان کی بازی تک لگانے کو تیار ملیں گے، لیکن یہی جان فروش نمازپنجگانہ اورعقا‏ئدواعمال کی تصحیح کے لئےمنعقداجتماعات سے کوسوں دورنظرآئیں گے-الامان والحفیظ-
بدعت پرستوں کی ایجادکردہ بدعتوں میں سے شعبان کی پندرہویں تاریخ کی رات میں کی جانے والی بدعتیں بھی ہیں  جواسلام میں کئی صدیوں بعدایجاد کی گئیں،  جن کاثبوت نہ اللہ کے کلام میں ہے ،نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں اورنہ اتباع سنت کے خوگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے عہدمیں ۔
       زیرنظرکتابچہ کے اندرہم نے اسی موضوع  پر"النصیحۃ لعامۃ المسلمین " کے جذبہ کے تحت  خامہ فرسا‏‏‏ئی کی کوشش کی ہے تاکہ عام آدمی اسلامی معاشرےمیں پھیلے اس"مذہبی ناسور"کی  حقیقت سےآشناہوکراپنے عقائدواعمال پرنظرثانی کرسکے اور انہیں کتاب وسنت کے موافق کرکے دنیا اورآخرت  کی سرخروئی سے ہمکنارہوسکے – اللہ تعالی ہی  صحیح راستے کی رہنمائی کرنےوالاہے –
 اس کتابچہ کے اندرہم نے عصرحاضرکے مجدداورامام  علامہ عبدالعزیزبن بازرحمہ اللہ (سابق مفتی اعظم سعودی عرب)کے اس موضوع سےمتعلق نہایت ہی  مشہوراور قیمتی مضمون کا ترجمہ شامل کردیاہے اورشعبان وشب براءت سے متعلق چندضعیف اورموضو ع  روایتوں کاتحقیقی جائزہ  پیش کر دیاہے، جنہیں  دلیل بناکرعوام کو گمراہ کیاجاتاہے، اوراخیرمیں بطورتکملہ اس رات   کی جانےوالی بدعتوں کا مختصرخاکہ بیان کردیاہے۔
    اس کتابچہ کی تیاری وطباعت کی توفیق پرہم اللہ کے  درسربسجودہیں اوراس کی تیاری وطباعت میں تعاون کرنے والے جملہ اخوان کے شکرگذارہیں ۔ فجزاهم الله خيراًفي الدارين   وأحسن مثوبهم في الدنيا والآخرة .
 اوراللہ تعالی سے دعاءکرتےہیں کہ اس کتاب کو مسلمانوں کے لئے نفع بخش اورمؤلف ،ناشر اورتمام متعاونین کے لئے باعث اجروثواب اوردنیا وآخترت کی کامیابی وکامرانی کا ذریعہ وسبب بنائے ۔ وصلى على خير خلقه وسلم 
                                                          طالب دعاء
                                              عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی
                                              اسلامی دعوہ سنٹریدمہ نجران سعودی عرب
           Gmail :abdulaleemsalafi1@gmail.com
Blog : www. abdulaleemsalafi.blogspot.com                                                
                      
*****
پندرہویں شعبان  کی رات میں مجلس سازی کاحکم     
( تحریر : علامہ عبدالعزیزبن باز رحمہ اللہ )
  الحمدلله الذي أكمل لناالدين وأتم عليناالنعمة,والصلاةوالسلام على نبيه ورسوله محمدنبي التوبة والرحمة, أمابعد:
          اللہ تعالی کاارشادہے :{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً}(المائدۃ:3) (آج کےدن میں نےتمہارےلئے تمہارےدین کومکمل کردیا ہےاورتمہارےاوپراپنی نعمت کاا تمام کردیاہے، اور اسلام کوبطوردین پسندکرلیاہے) نیز ارشادفرماتاہے :{ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ }(الشوری:21) (کیاان لوگوں نے(اللہ کے لئے)ایسے شریک مقررکررکھےہیں جنہوں نےدین کےایسےاحکام مقررکر دئے ہیں جو اللہ کےفرمائےہوئےنہیں ہیں ) ۔
  صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہاسےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا:"من أحدث في أمرناهذاماليس منه فَهُوَرَدٌّ "" جس نےہماری اس شریعت میں کوئی نئی چیزایجاد کی جواس میں سےنہیں ہے تو وہ لائق رد ہے "اورصحیح مسلم کے الفاظ ہیں :"من عمل عملا ليس عليه أمرنافهو رد""جوکو‏ئی ایساعمل کرےجودین سےبیگانہ عمل ہوتووہ مردود(ردکیاہوا) ہوگا" اورصحیح مسلم کےاندرجابررضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کےخطبہ میں فرمایاکرتےتھے :"أمابعد:فإن خيرالحديث كتاب الله وخيرالهدي هدي محمدصلی اللہ علیہ وسلموشرالأمورمحدثاتها وكل بدعة ضلالة " "امابعد :سب سےبہترین کتاب اللہ کی کتاب ہے اور سب سےبہترین راستہ محمد ‎ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ ہےاورسب سےبرے امور دین میں ایجادکردہ نئی باتیں ہیں ( جنہیں بدعت کہتےہیں ) اورہربدعت ضلالت وگمراہی ہے "اس معنی کی آیتیں اورحدیثیں ڈھیرساری ہیں ، جواس بات پرواضح دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نےاس امت کےلئےاس کےدین کومکمل کردیاہے، اوراس کےاوپراپنی نعمت کااتمام کردیاہےاوراپنےنبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کووفات اس وقت دی جب آپ نےواضح طورپردین کولوگوں تک پہونچادیااوراللہ کی متعین کردہ شریعت کواپنےاقوال واعمال کےذریعہ  امت کے لئےواضح کردیا، اور اس بات کی وضاحت کردی کہ ہروہ قول و عمل جسےلوگ آپ کےبعدایجادکرکےاس کودین کی طرف منسوب کردیں گےبدعت ہے، اوراس کاوبال ایجادکرنے والے پر ہوگا، گرچہ اس سلسلےمیں اس کی نیت درست ہی کیوں نہ ہو۔
  اوراس معاملہ کی حقیقت کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوران کےبعدعلماء سلام نے بخوبی جان لیاتھا،لہذاان لوگوں نےبدعات کاانکارکیااوران سےلوگوں کوڈرایا ، جیسا کہ سنت کی اہمیت اوربدعت کی ردمیں لکھنےوالےعلماء مثلا : ابن وضاح ، طرطوشی ، اورابوشامہ وغیرہ نےان تمام کاذکرکیاہے ۔  
 ان بدعتوں میں سےجنہیں بعض لوگوں نےدین میں ایجادکررکھاہےپندرہویں شعبان کی رات میں محفل کاانعقاداوردن کوروزہ کےلئےخاص کرلیناہے، جب کہ اس سلسلےمیں کوئی قابل اعتماددلیل موجودنہیں ہے، البتہ اس کی فضیلت میں چندضعیف روایتیں موجودہیں جوکہ ناقابل اعتمادواعتبارہیں ، اوراس رات کی نمازکی فضیلت میں جوروایتیں واردہیں وہ تمام کی تمام موضوع ہیں، جیساکہ بہت سارے اہل علم نےاس کوبیان کردیاہے، جن میں سےبعض کاذکر ان شاءاللہ اگلی سطورمیں آئےگا ۔
اس سلسلےمیں اہل شام میں سے بعض سلف سےچندآثارمنقول ہیں  اوراس پر جمہور اہل علم کااتفاق بھی ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات انعقادمحفل بدعت ہے، اوراس  کی فضیلت میں واردتمام روایات ضعیف ہیں اوربعض موضوع بھی ہیں ، جن پہ آگاہ کرنےوالوں میں سے امام ابن رجب حنبلی بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب "لطائف المعارف" میں اس کو بیان کیاہے ،(واضح رہےکہ) عبادات میں  ضعیف روایتیں اس وقت قابل عمل ہوتی ہیں جب اس کی اصل صحیح دلائل سےثابت ہو،اورپندرہویں شعبان کی رات محفل جمانے سے متعلق کو‏ئی صحیح اصل موجودنہیں ہے ،تاکہ ضعیف روایتوں سے بھی کچھ انسیت حاصل کی جاسکے، اسی قاعدےکا ذکر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےکیاہے،اوریہاں ناظرین کے لئے ہم اس مسئلہ میں بعض اہل علم کے موقف کاذکرکریں گےتاکہ آپ دلیل  پر‍ قائم رہیں ۔
      اہل علم کا اس بات پراتفاق واجماع ہے کہ جس مسئلہ کےاندرلوگوں کا اختلاف ہو اسے کتاب وسنت پرپرکھا جائےگا،اورقرآن سنت جس کافیصلہ کرےوہ واجب الاتباع قانون شریعت ہوگا،اورجس کی مخالفت کرےاس کاترک لازم ہوگااور جو عبادتیں قرآن وسنت سے ثابت نہ ہوں وہ بدعت اوران کاکرناہی ناجائزہوگاچہ جائیکہ لوگوں کوان کی طرف بلایاجائے اوران کوراغب کیاجائے، جیساکہ اللہ تعالی کاارشادہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً}(النساء: 59)(اےایمان والو ! اللہ تعالی کی اطاعت کرواوررسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کی اطاعت کرو، اورتم میں سے جوبااختیارہیں ان کی اطاعت کرو، پھراگرکسی معاملےمیں اختلاف ہوجائےتواسےاللہ اوررسول کی طرف لوٹاؤاگرتمہیں اللہ پر اورقیامت کے دن پرایمان ہے ۔ یہ بہت بہترہے اورانجام کے اعتبارسے بہت اچھاہے ۔)
نیزارشادفرمایا:{وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ}(الشورى: 10) (اورجس چیزمیں تمہارااختلاف ہواس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف ہے۔ ) نیزارشادفرمایا: {قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ}(آل عمران:31)(کہہ دیجئے کہ: اگرتم اللہ سے محبت رکھتےہوتومیری اتباع کرواللہ تجھ سےمحبت کریگااورتمہارےگناہوں کومعاف فرمادیگا ۔) نیزارشاد فرمایا:{فَلاَ وَ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً}(النساء :65)
(آپ کےرب کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتے تا آنکہ وہ اپنے اختلافات میں آپ کوفیصل مان لیں پھر آپکے فیصلےپراپنےدل میں حرج نہ محسوس کریں اوراسے پورے طورپرتسلیم کرلیں ۔)
اس معنی کی ڈھیرساری  آیتیں ہیں جواختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف لوٹانے اور ان کے فیصلہ پررضامندی کے  وجوب پرنص ہیں ، اوریہی تقاضائےایمان اور بندے کےلئےدنیا اور آخرت میں کامرانی کاسبب ہے۔
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ  اپنی کتاب " لطا‏ئف المعارف" کے اندرپندرہویں شعبان سے متعلق فرماتےہیں:" اہل شام میں سے تابعین مثلا : خالد بن معدان ، مکحول اورلقمان بن عامر وغیرہ پندرہویں شعبان کی رات کی تعظیم کیاکرتےتھے، اوراس میں خوب عبادتیں کیاکرتے تھے، انہیں سے لوگوں نے اس رات کی فضیلت وتعظیم کولیاہے ، یہ بیان کیاجاتاہےکہ ان کواس سلسلےمیں چندایک اسرائیلی روایات ملی تھیں ، چنانچہ جب مختلف شہروں میں ان کےاس عمل کی شہرت ہوئی تولوگ اختلاف کے شکارہوگئے،کچھ لوگوں نے ان کی موافقت کی جن میں بصرہ کےعبادت گذارلوگ تھے، اوراکثرعلمائےحجازنےان کی مخالفت  اوران کاردکیا ،جن میں عطاء اورابن ابی ملیکہ ہیں ، اوراسی کوعبدالرحمن بن زیدبن اسلم نے فقہاء اہل مدینہ سےنقل کیاہے ، اورمالکیہ کابھی یہی قول ہے ، یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ تمام کی تمام(پندرہویں شعبان کی رات کےاعمال)بدعت ہیں ۔
        پندرہویں شعبان کی رات  میں عبادتوں کے طریقہ کےسےمتعلق شام کے علماء کے  دو اقوال ہیں   :
اول : اس رات  جماعت کے ساتھ مسجدوں میں عبادت کرنامستحب ہے ،خالدبن معدان اور لقمان بن عامروغیرہ اس روزبہترین کپڑےپہنتے،دھونی لیتے،سرمہ لگاتے اورمسجدمیں قیام کرتے، حرب کرمانی نے اپنےمسائل کےاندراسحاق بن راہویہ سے نقل کیاہے کہ انہوں نے اس پران کی موافقت کی ہے،اوروہ اس رات جماعت کے ساتھ مسجدوں میں قیام کوبدعت نہیں مانتے۔
دوم :اس رات نماز، قصہ گوئی اوردعاءکےلئےمسجدوں میں اکٹھاہونامکروہ وناجائز ہے، لیکن خاص اپنی خاطر نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے ، یہ قول شام کے جلیل القدر عالم دین ، فقیہ اورامام اوزاعی رحمہ اللہ کاہے ،جوکہ ان شاءاللہ زیادہ مناسب قول ہے" آگےفرماتےہیں :" امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے پندرہویں شعبان کی رات سے متعلق کوئی  بات معروف نہیں ہے ، اوراس رات قیام کے استحباب سے متعلق ان کی عیدین کی راتوں میں قیام کےسلسلےمیں وارد دوروایتوں سے دوروایتیں نکل سکتی ہیں ، کیونکہ (ایک روایت کے اعتبارسے) وہ اس رات باجماعت قیام کو مستحب نہیں سمجھتے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب  رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے ،اورعبدالرحمن بن یزیدبن اسودجوکہ تابعین میں سے ہیں کے عمل کی بنیاد پرمستحب سمجھتےہیں ، ٹھیک اسی طرح پندرہویں شعبان کی رات کاقیام ہے،جس سےمتعلق  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی بھی روایت ثابت نہیں ہے ، جب کہ شام کے فقہاءمیں سے تابعین کی ایک جماعت سے ثابت ہے "۔
  حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کےمذکورہ کلام میں اس بات کی صراحت ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات سےمتعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے  کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، اورامام اوزاعی رحمہ اللہ کااس  رات انفرادی قیام کرنے کومستحب قراردینااورحافظ ابن رجب کااس قول کواختیارکرناشاذاورضعیف ہے، کیوں کہ ہروہ عمل جس کی مشروعیت شرعی دلائل سے ثابت نہ ہوکسی مسلمان کے لئے جائزنہیں کہ اسےدین میں ایجادکرے، تنہا کرے، جماعت کےساتھ کرے، چھپاکر کرےخواہ ظاہراکرے،کیونکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی قول ہے : "من عمل عملاليس عليه أمرنافهورد" "جوکو‏ئی ایساعمل کرے جودین سے بیگانہ عمل ہوتووہ مردود(ردکیاہوا) ہوگا" ۔
اس کے علاوہ بھی بہت ساری دلیلیں ہیں جوبدعت کےردوانکارپردلالت کرتی ہیں ۔
امام  ابوبکرطرطوشی رحمہ اللہ اپنی کتاب " الحوادث والبدع " کے اندرفرماتے ہیں : ابن وضاح  زیدبن اسلم سےروایت کرتےہیں کہ انہوں نے فرمایا:" ہم نے اپنے مشائخ اورفقہاء میں سے کسی کوبھی  پندرہویں شعبان اورمکحول کی روایت کی طرف توجہ دیتے ہوئے نہیں پایااورنہ ہی اسے دیگرایام پرفضیلت دیتےہوئے پایا"۔
ابن ابی ملیکہ کوبتایاگیاکہ:زیادنمیری کہتےہیں کہ :"پندرہویں شعبان کی رات کا ثواب  قدرکی رات کےثواب کے برابر ہے " توانہوں نے فرمایا:" اگرمیں اسے یہ کہتےہوئے سن لیتااور میرےہاتھ میں چھڑی ہوتی تومیں اسے ضرورمارتا" واضح رہے کہ زیادنمیری قصہ گوتھے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ " الفوا‏ئدالمجموعہ " کے اندرفرماتے ہیں :حديث :" ياعلي من صلى مأية ركعة ليلة النصف من شعبان يقرأفي كل ركعة بفاتحة الكتاب  وقل هو الله أحد عشرمرات قضى الله له كل حاجة ........" "اے علی ! جوشخص پندرہویں شعبان کی رات میں دس مرتبہ سورہ فاتحہ اور" قل ھواللہ أحد" کےساتھ سورکعتیں پڑھےگاتواللہ تعالی اس کی ہرضرورت پوری کردیگا۔۔۔۔" یہ حدیث موضوع ہے ، اس کے الفاظ میں جس ثواب کی بات کہی گئی ہے کوئی بھی صاحب عقل وخرد اس کے موضوع ہونے میں شک نہیں کرسکتا، اوراس کے رجال مجہول ہیں ، یہی روایت دوسری اورایک تیسری سندسےبھی مروی ہے لیکن  کل کی کل موضوع اوران کے رجال مجہول ہیں "۔
مختصرکے اندرفرماتےہیں :" پندرہویں شعبان کی نمازسے متعلق روایت باطل ہے ، اورابن حبان کی علی (رضی اللہ عنہ) والی روایت :" إذاكان ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلهاوصوموا نهارها" "جب پندرہویں شعبان کی رات  آئے تو اس رات قیام کرواوردن میں روزہ  رکھو" ضعیف  ہے۔
اور"اللآلی المصنوعۃ "کے اندرفرماتے ہیں :"سورہ اخلاص کے ساتھ سورکعتوں والی نماز جودیلمی وغیرہ  کی روایت ہے اپنی نہایت فضیلت کے باوجود موضوع ہے ، اوراس کی تینوں سندوں کے زیادہ ترراوی مجہول ضعیف ہیں " ۔
مزیدفرماتےہیں :"بارہ رکعتیں  تیس بارسورہ اخلاص کے ساتھ والی  روایت موضوع ہے  ،   اور چودہ رکعتوں والی روایت بھی موضوع ہے"۔
اس روایت سےفقہاء جیسے صاحب احیاء وغیرہ  نیزمفسرین کی ایک جماعت دھوکا کھاگئی ،  اس رات کی نماز- یعنی پندرہویں شعبان کی رات کی نماز- مختلف سندوں سے مروی ہے جوکہ تمام کی تمام موضوع ہیں ، اوریہ ترمذی کے اندر مذکورعائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت کہ "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمبقیع غرقدجایاکرتےتھے، نیز پندرہویں شعبان کی رات میں اللہ کا آسمان دنیاپرنزول فرمانا، اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرمانا" کے منافی نہیں ہے ، کیونکہ بات اس رات کی اس موضوع ومن گھڑت نماز کی ہورہی ہے ، اس لئے کہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی اس روایت میں ضعف  وانقطاع ہے ۔
اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی اس رات قیام سے متعلق مذکورہ روایت اس کے اندر ضعف ہونےکی وجہ سے اس نمازکے من گھڑت ہونےکے منافی نہیں ہے ، ،جیسا کہ ہم نے بیان کیا ۔
حافظ عراقی فرماتےہیں :" پندرہویں شعبان کی رات والی نمازاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  پر گھڑی ہو‏ئی اور جھوٹ ہے " امام نووی " المجموع "کے اندرفرماتےہیں :
"صلاۃ الرغائب کے نام سے معروف نمازجوکہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات  بارہ رکعتیں ہیں ، اورپندرہ شعبان کی رات سورکعتیں  دونوں نمازیں بدعت  اورمنکرہیں ، ان کے"قوت القلوب" اوراحیاء علوم الدین " میں مذکورہونےاوران سے متعلق وارد روایتوں سے دھوکا نہیں کھاناچاہئے، کیوں کہ تمام کی تمام باطل ہیں اورنہ ان چندعلماء جن پران کا حکم مشتبہ ہوگیااورانہوں نے ان کے استحباب سے متعلق کئی صفحات سیاہ کرڈالےسے دھوکاکھاناچاہئے، کیونکہ ان کو اس معاملےمیں مغالطہ ہوگیا ہے"۔
امام ابو محمدعبدالرحمن بن اسماعیل مقدسی نے ان کے ردمیں نہایت اچھےاسلوب واندازمیں بہترین کتاب تصنیف کی ہے اوراس ضمن میں اہل علم کی ڈھیرساری تحریریں ہیں ، اگرہم اپنی تمام معلومات کوقلمبندکرناچاہیں توبات بہت لمبی ہو جائےگی، یہ چندسطورجوہم نے تحریرکی ہے متلاشیان حق کے لئے کافی وشافی ہیں ۔
مذکورہ آیات واحادیث اوراہل علم کے کلام سے طالب حق کے لئے واضح ہوجاتاہے کہ پندرہویں شعبان کی رات میں محفل کاانعقادیا نمازوغیرہ اوردن میں خصوصی روزہ اکثراہل علم کے نزدیک بدترین بدعت ہے، جس کی شریعت مطہرہ کے اندرکوئی اصل وحقیقت نہیں ہے ،بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بعدکے زمانہ کی ایجادشدہ بدعت ہے ، اس باب میں حق کے متلاشی کے لئے اللہ تعالی کافرمان : {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ } ( المائدۃ : 3 )اوراس معنی کی آیتیں ، اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :"من أحدث في أمرناهذاماليس منه فَهُوَ رَدٌّ""جس نے ہماری  اس شریعت میں کوئی نئی چیزایجاد کی جواس میں سےنہیں ہے تو وہ لائق ردہے  " اوراس معنی کی روایتیں ہی کافی ہیں ۔
صحیح مسلم کےاندرابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"لاتخصواليلة الجمعة بقيام من بين الليالي , ولاتخصوا يومها بالصيام من بين الأيام ,إلأأن يكون في صوم يصومه أحدكم ""دیگر راتوں سےقطع نظر جمعہ کی رات کوقیام کےلئے اوردیگر ایام کو چھوڑکرجمعہ کےدن کوروزہ کےلئے خاص مت کرو، البتہ اگرکوئی نفلی روزہ رکھتاہے اوروہ دن پڑجائےتوکوئی بات نہیں ہے "۔
اگرکسی بھی رات کوکسی بھی عبادت کے لئے خاص کرناجائزہوتاتوجمعہ کی رات اس کے لئےزیادہ بہتراورمناسب تھی ، کیونکہ جملہ ایام میں جمعہ کادن  صحیح احادیث کی روشنی میں سب سے افضل اوربہترہے ،لہذا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کوخصوصی قیام سے منع فرمادیاتودیگرایام تو اس ممانعت میں بدرجۂ اولی شامل ہیں ،ہاں اگرعبادت کےلئے کسی رات کی تخصیص صحیح احادیث سے ثابت ہوتو کو‏ئی حرج نہیں ہےجیساکہ لیلۃ القدراوررمضان کی دیگرراتوں سےمتعلق خصوصی روایتیں موجود ہیں ، جن میں اللہ کےرسول نے لوگوں کو قیام وعبادت کی ترغیب دی ہے ،اورخودبھی عبادت کیاہے ،جیساکہ صحیحین کے اندرہےکہ آپ نے ارشادفرمایا:" من صام رمضان إيماناواحتساباغفرله ماتقدم من ذنبه , ومن قام ليلة القدر إيماناواحتساباغفرله ماتقدم من ذنبه"" جس  شخص نے ایمان کی حالت میں اورثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھاتواس کے پچھلےگناہ معاف کردئے جائیں گے،اورجس شخص نے قدرکی رات میں ایمان کی حالت میں اورثواب کی نیت سے قیام کیاتو اس کے پچھلےگناہ معاف کردئےجائیں گے"۔
لہذااگرپندرہویں شعبان کی رات ، رجب کے پہلےجمعہ کی رات،اوراسراء ومعراج کی رات میں محفل سازی یا کسی بھی قسم کی عبادت کی تخصیص ہوتی تو اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جانب ضروررہنمائی فرماتےیاخودکرتے، اوراگراس سلسلےمیں کسی بھی قسم کی روایت ہوتی توصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جوخیرالناس اورانبیاءکے بعدلوگوں کو سب سےزیادہ نصیحت کرنےوالے تھےاس کوضرورنقل کرتےاور انہیں  لوگوں سے نہیں چھپاتے۔ رضی اللہ عنهم وأرضاهم ۔
ابھی آپ نے علماء کےکلام میں ملاحظہ کیاہے کہ رجب کے پہلےجمعہ کی رات یا پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، معلوم ہواکہ ان راتوں میں محفل سازی اورکسی بھی قسم کی خصوصی عبادتیں بدترین بدعت اور شریعت میں ایجادشدہ نئی چیزیں ہیں ۔
اسی طرح رجب کی ستائیسویں رات جس کے بارےمیں لوگوں کا اعتقادہے کہ وہ اسراء ومعراج کی رات ہے ،اگریہ بات پایۂثبوت کوپہنچ بھی جائے کہ وہی اسراء ومعراج کی رات ہے توبھی اس میں محفل کاانعقادیا کوئی بھی خصوصی عبادت ناجائزہے ، چہ جائیکہ علماءکے صحیح اقوال کی روشنی میں اسراء ومعراج کی رات نامعلوم ہے ، اورجس نے بھی یہ کہاہےکہ رجب کی ستائیسویں رات اسراء ومعراج کی رات ہے اس کی بات سراسرباطل ومردوداوربےبنیادہے، جس کی صحیح احادیث میں کوئی دلیل نہیں ہے ، کسی نے کیاخوب کہاہے:
                       وخيرالأمورالسالفات على الهدى  
                و شر  الأمور المحدثات  البدائع
(سب سے بہترین اموروہ ہیں جوہدایت وسنت کے مطابق انجام دئےگئےہوں  ، اور سب سے برےوہ ہیں جو(دین میں ) نئی ایجادشدہ ہیں )۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کوسنت پرتمسک اورثبات قدمی اورسنت کے مخالف امورسے اجتناب کی توفیق ارزانی کرے ۔ وصلى على خيرخلقه ونبيه ورسوله  محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ۔

*****

  شعبان  وشب براءت سے متعلق روایات کی حقیقت
اسلامی سال کاآٹھواں مہینہ "شعبان" کی پندرہویں شب  کی اہمیت وفضیلت کے تعلق سےمسلمانوں کا ایک بڑاطبقہ افراط کاشکارہے ، اس رات عبادت وریاضت ، شب بیداری اورخوردو نوش کے تعلق سےمختلف بدعات وخرافات انجام دئے جاتےہیں ۔ واضح رہےکہ اس مخصوص رات   کی عبادت اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی اورنہ ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں ،البتہ خالدبن معدان متوفی سنہ103 ھ اورمکحول شامی کے متعلق معروف ہے کہ یہ لوگ اس رات خوب عبادتیں کیاکرتےتھے، اورانہیں کے بعدلوگ اس رات کی اہمیت وفضیلت کے بارےمیں اختلاف کاشکارہوگئے۔(دیکھئے : الابداع فی مضارالابتداع /ص:286) لہذابعض لوگوں نے اس رات  کی فضیلت میں مختلف روایات وآثارپیش کئےجنہیں علماء محدثین و محققین نے محل نظربتایا ، ذیل کی سطورمیں ہم اس شب کی فضیلت میں پیش کئے گئے چندروایتوں کا سرسری جائزہ لیں گےاورشعبان سے متعلق صحیح روایات کی طرف اشارہ کریں گےتاکہ حقیقت  کے متلاشی افراد ان سے روشنی حاصل کرسکیں اوراللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی  مقررکردہ حدود سے آگے نہ بڑھیں ،کیونکہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقررکردہ حدوں سے تجاوزعین ضلالت و گمراہی ہے ۔ اللہ ہی ہمیں صحیح راستے کی رہنمائی کرنےوالا ہے :
(1) – " يطلع الله إلى جميع خلقه ليلة النصف من شعبان  فيغفرلجميع خلقه إلا المشرك أومشاحن " وفي رواية "قاتل نفس" بدون "مشاحنیعنی "اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں شب کوتمام مخلوقات کی طرف دیکھتاہے اورمشرک اورکینہ پرور(اورایک روایت کے مطابق قاتل)کے علاوہ سب کی مغفرت  فرمادیتاہے " ۔
یہ روایت  انہیں الفاظ  کےساتھ سات صحابۂ کرام سے مروی ہے ، جس کی تفصیل کچھ یوں  ہے :
1 – عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت :  اس روایت کو امام احمدنے مسند(2 :176) میں اورمنذری نے ترغیب وترہیب (رقم :1519) کے اندرروایت کیاہے ۔ اس روایت کی سند میں معروف ضعیف راوی ابن لہیعہ کاوجوداس حدیث کے ضعیف ہونے کے لئے کافی ہے ،جیساکہ ہیثمی نے لکھاہے : "ابن لهيعة لين الحديث وبقية رجاله وثقوا" (مجمع  الزوائد/8 :65) البتہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو رشدین بن سعدکی متابعت کی بناپرحسن قراردیاہے ۔
واضح رہےکہ رشدین بن سعدخودضعیف ہیں ،کیونکہ یہ مناکیر( منکرروایتوں ) کی روایت کیا کرتے تھے، حتی کہ امام ابوحاتم نے ابن لہیعہ کو ان پرمقدم قراردیاہے ۔
 (دیکھئے: الجرح والتعدیل /رقم : 2319،والتقریب /رقم :1953)
2 –   ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت: اس روایت کو ابن ماجہ نے سنن (اقامۃ الصلاۃ /رقم : 1390) میں روایت کیاہے ، اس روایت کی سندتین وجہوں سے معلول ہے ،اول : ابن لہیعہ کی وجہ سے اس کے اندرضعف ہے ، دوم : عبدالرحمن بن عزرب مجہول ہیں ، سوم : اس کی سندکے اندراضطراب ہے ۔
3 – ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت : اسے بزار(مسندبزار/ص:245) نے روایت کیاہے ، یہ روایت ہشام بن عبدالرحمن کی وجہ سے معلول ہے جوکہ مجہول ہیں ، جیساکہ ہیثمی نے لکھاہے : " لم أعرفه " "میں انہیں نہیں جانتا" ۔
4- ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی روایت : اس کو ابن خزیمہ نے "کتاب التوحید" بیہقی نے " الترغیب " اورابن ابی عاصم نےکتاب السنہ (رقم :509) کے اندرروایت کیاہے ، امام بیہقی فرماتےہیں :"لابأس بإسناده""اس کی سندمیں کوئی حرج نہیں ہے "(الصحيحة/3 :137) لیکن اس سندکے اندرعبدالملک بن عبدالملک ہیں جن کے سلسلےمیں امام بخاری فرماتےہیں :"في حدیثه نظر"(اس کی حدیث محل نظرہے " امام ابن حبان وغیرہ فرماتےہیں : " لایتابع علی حدیثه" " اس کی حدیث کی متابعت نہیں کی جاسکتی "اس حدیث کوذکرکرنےکےبعدابن عدی فرماتے ہیں : " هومعروف بهذا الإسناد و لا يرويه عنه غيرعمروبن الحارث وهوحديث منكربهذاالإسناد"(لسان المیزان/4: 67رقم :197) "یعنی (عبدالملک )اس اسنادکے سلسلےمیں معروف ہیں اوراس حدیث کوان سے عمروبن الحارث کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتاہے ،اوریہ حدیث اس سندسے منکرہے " ۔
5 – عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت : اسے بزارنے اپنی مسند(ص : 245) کےاندرذکرکرنےکےبعداس کی سندکوضعیف قراردیاہے،اس روایت کی سند کے اندردوعلتیں ہیں ، اول : ابن لہیعہ کی موجودگی ، دوم : عبدالرحمن بن انعم جنہیں جمہور ائمہ نے ضعیف قراردیاہے ، جیساکہ ہیثمی نے لکھاہے ۔
6 – ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کی روایت :اسے طبرانی نے معجم کبیر(رقم : 590 -593) ابن ابی عاصم نے کتاب السنہ  (رقم : 511) بیہقی نے شعب الایمان (3832) اورمنذری نےترغیب وترہیب (4082)کےاندرروایت کیاہے ،جس کی سندمیں احو‌ص بن حکیم ہیں جوضعیف الحفظ ہیں ۔(مجمع الزوائد /8 :65 ، التقریب /رقم :292
7 –  معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت :اسے طبرانی (معجم کبیر/رقم :215) ، ابونعیم (الحلیۃ/5 : 191) ،ابن حبان (1980) ،ابن ابی عاصم(السنۃ /رقم :512) اوربیہقی (فضائل الاوقات/رقم :22)وغیرہ  نے روایت کیاہے ، اس کی سند میں انقطاع پایاجاتاہے ، کیونکہ مکحول جوکثیرالارسال ہیں ان کا سماع مالک بن یخامر سے ثابت نہیں ہے ۔(دیکھئے: التقریب :6923
شیخ البانی کا حکم اورایک اہم نکتہ
مذکورہ روایت جوسات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ،شیخ البانی  رحمہ اللہ نے متابعات اورشواہدکی بنیادپران میں سے بعض کی سند کوحسن اوربعض کو صحیح قرار دیاہے ، لیکن قابل ذکربات یہ ہے کہ جیساکہ آپ نے ابھی ملاحظہ کیاان میں سے کسی بھی سندکی وہ حیثیت نہیں ہے جس کی بنیادپرتمام اسنادکوبیک زبان صحیح قرار دیا جا سکےاوراس کی بنیادپرکسی مخصوص رات کی   کوئی مخصوص عبادت مشروع قرارپائے ، خاص طورسے جس کوبنیادبناکردین میں بدعات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے ، اگرکھینچ تان کریہ روایت حسن کےدرجہ کوپہنچ بھی جاتی ہے تو آسمان دنیاپرہرروز بلا تخصیص نزول رب اوراعمال کی پیشی سے متعلق دیگرتمام صحیح روایتوں کے پیش نظر شاذقرارپائےگی ۔ 
اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت کا بلا کسی تخصیص کے ہر رات کے نصف کوسماءدنیاپرنزول فرمانےسےمتعلق متعددصحیح روایتوں کا موجود ہونا اورکسی مخصوص رات سے متعلق کسی ایک  بھی روایت کا علت سے خالی نہ ہونااپنے آپ میں کچھ معنی ضروررکھتاہے ! چنانچہ قاضی ابوبکرابن العربی فرماتے ہیں کہ :
" شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت وغیرہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس پر اعتمادکیاجاسکے" ۔
(2) -  عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت  جس کے اندرہے : "فيهايكتب كل مولودمن بني آدم في هذه السنة وفيها يكتب كل هالك من بني آدم في هذه السنةوفيهاترفع أعمالهم وفيهاتنزل أرزاقهم".(رواه البيهقي في الدعوات الكبير,مشكوة  / رقم  : 1305)
"یعنی پندرہویں شعبان کی شب بنی آدم میں سے اس سال تمام پیداہونے والوں کے بارےمیں لکھا جاتاہے، اوربنی آدم میں سے  اس سال تمام مرنے والوں کےبارے میں لکھاجاتاہے  ، اس رات ان کے اعمال اٹھائےجاتےہیں اوران کی روزی نازل کی جاتی ہے " ۔شیخ البانی فرماتےہیں کہ : " اس روایت کی سندپرمیری واقفیت نہیں  ہوسکی ہے"۔  ( تعلیقہ علی المشکوۃ)                                                                                               
(3) – "إذاكانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها فإن الله ينزل لغروب الشمس إلى السماء الدنيا,فيقول: ألامن مستغفر فأغفرله ! ألامن مسترزق فأرزقه ! ألامبتلى فأعافيه!ألاكذا!حتى يطلع الفجر"(ابن ماجه/إقامة الصلاة : رقم :1388 عن علي رضي الله عنه)
" جب پندرہویں شعبان کی رات  ہوتورات میں قیام کرواوردن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالی سورج غروب ہونےپرآسمان دنیاپرتشریف لاتاہے ، اورکہتاہے : ہے کوئی معافی مانگنے والا جسے میں بخش دوں ! ہے کوئی روزی مانگنے والاجسے میں روزی دوں ! ہے کوئی بیمارجسے میں اچھاکردوں ! ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ویسا! یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوجاتاہے "۔
اس روایت کی سندمیں ابوبکربن عبداللہ بن ابی سبرہ ہیں جن کے متعلق امام احمد اور یحیی بن معین فرماتےہیں کہ:"یہ حدیثیں گھڑاکرتےتھے"(میزان الاعتدال/4 :503، تقریب/رقم : 8030) شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ۔ (سلسلہ ضعیفہ / رقم :2132) ۔
(4) -  علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے فرماتے ہیں : " شعبان کی پندرہویں شب کو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ آپ نے چودہ رکعتیں پڑھیں پھر فراغت کے بعدبیٹھےاور چودہ مرتبہ سورہ فاتحہ ،چودہ مرتبہ سورہ ناس ایک مرتبہ آیۃ الکرسی اورلقدجاءکم ۔۔۔۔الخ پڑھی ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ سے اس عمل کے بارےمیں پوچھا، توآپ نے فرمایاکہ :"من صنع مثل ذلك لكان له عشرون حجة مبرورة وصيام عشرين سنة مقبولة" "جس نے بھی ایساکیاتواسے بیس حج مبرور اوربیس سال کےمقبول روزےکاثواب ملےگا" ۔
امام بیہقی اس  روایت کی تخریج کرتےہوئے فرماتےہیں :"يشبه أن يكون هذا الحديث موضوعا وهو منكروفي روايته مجهولون" "یہ حدیث موضوع کے مشابہ ہے جبکہ یہ منکرہے اوراس کی سندمیں کئی ایک مجہول راوی ہیں ۔ (دیکھئے: الآثارالمرفوعۃ /ص:80) ۔
(5) – "ياعلي من صلى ليلة النصف من شعبان مائة ركعة بألف "قل هوالله أحد" قضى الله له كل حاجة طلبهاتلك الليلة .... وأعطى سبعين حوراء لكل حوراء سبعون ألف غلام وسبعون ولدان""اےعلی ! جس کسی نےبھی شعبان کی پندرہویں شب کو ایک ہزاربار"قل ھواللہ احد"کے ساتھ سورکعتیں پڑھی تو اس رات وہ جوکچھ مانگےگا اللہ رب العزت اس کی تمام حاجتیں پوری کریگا ،اوراسے سترحوریں عنایت فرمائےگا، جن میں سے ہرحورکے ساتھ ستر ہزارغلام اورستربچے ہوں گے"۔
اس روایت کے سلسلےمیں ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" سنت نبوی کے علم کی ادنی بوبھی پانے والے پرتعجب ہے کہ وہ اس قسم کے ہذیان وبکواس سے دھوکاکھا جاتا ہے " ۔ (الاسرارالمرفوعہ /ص :440) ۔
شعبان کی پندرہویں شب کی نمازوں سے متعلق متعددروایتیں ہیں جوکہ تمام کی تمام موضوع ومن گھڑت یا منکرہیں ۔ واضح رہے کہ مذکورہ نمازچوتھی صدی ہجری  کے بعدبیت المقدس میں گھڑی گئی اوراس کی فضیلت میں مختلف جھوٹی حدیثیں بھی وضع کی گئیں ۔
(6) – "شعبان شهري ورمضان شهرالله وشعبان المطهر و رمضان المكفر" "شعبان میرامہینہ ہے اوررمضان اللہ کا مہینہ ہے ،شعبان پاک  کرنے والاہے اور رمضان (گناہوں کے لئے ) کفارہ کامہینہ ہے " ۔
یہ روایت دوطریقوں سے مروی ہے ، ایک دیلمی نے بطریق  : حسن بن یحیی الخشنی عن الاوزاعی عن یحیی بن  ابی کثیرعن عائشہ مرفوعاروایت کیاہے ۔(المقاصدالحسنۃ للسخاوي /رقم : 595) اوردوسرا ابن عساکرنے بطریق :جعفربن محمدبن خالدعن ہشام بن خالدبسندہ عن عائشہ روایت کیاہے ۔(مختصرتاریخ دمشق /6 :84) ۔ پہلی سندکا دارو مدارحسن بن یحیی الخشنی پرہے جن کو علماء حدیث نے غیرثقہ اورمتروک قراردیا ہے۔ (دیکھئے : الجرح والتعدیل /1 :2 :44،المجروحین /1 :235، المیزان /1 : 525 ، الضعفاء للدارقطنی /رقم :190) ۔ اوردوسری سندکو شیخ البانی رحمہ اللہ نے" ضعیف جدا" قرار دیاہے ۔ (سلسلہ ضعیفہ / رقم :  3746 ، وضعیف الجامع /رقم :3411
(7) – "رجب  شهرالله وشعبان شهري ورمضان شهرأمتي"رجب اللہ کا مہینہ ہے اورشعبان میرامہینہ ہے اوررمضان میری امت کا مہینہ ہے " اسے دیلمی (مسند/رقم : 3095) نے انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیاہے، حافظ عراقی شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ : " یہ حدیث مرسلات حسن میں سے ہونےکی بناپرنہایت ہی ضعیف ہے " شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تضعیف کی ہے۔(ضعیف الجامع /رقم :3094)  امام شوکانی نے اس روایت کو موضوع  قرار دیاہے
 (الفوا‏ئد المجموعۃ / ص:100) ، نیزامام ابن الجوزی اورعلامہ سیوطی نے بھی اسے موضوع قراردیاہے (دیکھئے : الموضوعات /2 : 205 اوراللآلي المصنوعۃ /2 :114) واضح رہےکہ اس کی سندمیں ابو بکربن حسن النقاش متہم بالکذب ہیں ۔ (دیکھئے :لسان المیزان /رقم : 441) اورکسائی مجہول ہیں ۔
(8)–"فضل شهررجب على الشهوركفضل القرآن على سائر الكلام وفضل شهرشعبان على الشهوركفضلي على سائر الأنبياء""رجب کے مہینہ کی فضیلت ایسی ہی ہےجیسی قرآن کی فضیلت تمام کلا م پہ اورشعبان کے مہینہ کی وہی فضیلت ہے جیسی میری تمام انبیاء پر" (المقاصد الحسنۃ /رقم: 740) حافظ ابن حجررحمہ اللہ  تبیین العجب (ص:14) میں اس روایت کو موضوع قراردیتےہوئے رقمطرازہیں : " اس کے تمام رواۃ بجزسقطی کے ثقات ہیں کیونکہ وہ حدیثیں گھڑنے میں معروف تھا " ۔(نیزدیکھئے: کشف الخفاء للعجلوني/ 2: 85 اورتمییزالطیب من الخبیث /رقم : 919) ۔
(9) –  عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "إن الله تبارك وتعالى ينزل ليلة النصف من شعبان إلى سماءالدنيافيغفرلأكثرمن عددشعرغنم كلب""اللہ  تبارک وتعالی شعبان کی پندرہویں شب کو آسمان دنیا پرنزول فرماتاہے ، اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بال سے بھی زیادہ کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتاہے "(ترمذی /کتاب الصوم ، رقم : 739 وابن ماجہ /کتاب اقامۃ الصلاۃ :رقم : 1389 واحمد /6: 238  واللالکائی /1 : 101 ،   وعبدبن حمید/1: 194) ۔
اس روایت کے سلسلےمیں امام ترمذی فرماتے ہیں کہ :" امام بخاری اس روایت کی تضعیف کیاکرتےتھے ، کیونکہ یحیی بن ابی کثیرکا سماع عروہ سے ثابت نہیں ہے ، اورحجاج بن ارطاۃ کا سماع یحیی بن ابی  کثیرسے ثابت نہیں ہے " ۔شیخ البانی نےبھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے۔( ضعیف سنن الترمذی /رقم : 739
 اورقابل ذکربات یہ ہے کہ حجاج مدلس ہیں اوراسے عنعنہ سے روایت کیاہے ۔
(10) - عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے:" كَانَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُوم ثَلاثَة أَيَّام مِنْ كُلّ شَهْر , فَرُبَّمَاأَخَّرَذَلِكَ حَتَّى يَجْتَمِعَ عَلَيْهِ صَوْم السَّنَة فَيَصُوم شَعْبَان "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ تین دنوں کا روزہ رکھاکرتےتھے، بسااوقات روزوں کو مؤخرکر دیتے  اورجب ایک سال کاروزہ اکٹھاہوجاتاتو شعبان میں رکھ لیتے" ۔
حافظ ابن حجرفرماتےہیں :"یہ حدیث ضعیف ہے ، اسے طبرانی نے اوسط کے اندرابن ابی لیلی کےطریق سے روایت کیاہے،اور ابن ابی لیلی ضعیف ہیں "(فتح الباری /4 :252) ۔
(11) – انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے فرماتےہیں :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ :رمضان کے بعد کون ساروزہ  افضل ہے تو آپ نے فرمایا: "شَعْبَان لِتَعْظِيمِ  رَمَضَان"" رمضان کی تعظیم میں شعبان کاروزہ " ۔
اس حدیث کو امام ترمذی نے سنن (ابواب الزکاۃ /رقم :657) امام طحاوی نے شرح معانی الآثار(2 : 83)اورامام بغوی نےشرح السنۃ(6 :629)کےاندر روایت کیاہے ، اورامام ترمذی نے اس روایت کو "غریب " قراردیاہے ،کیونکہ اس کی سندمیں صدقہ بن موسی محدثین کے نزدیک غیرقوی ہیں ، نیزیہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسلم کے اندرروایت کردہ مرفوع وصحیح حدیث کی معارض بھی ہے جس میں ہے :
أَفْضَلُ الصَّوْم بَعْدرَمَضَان صَوْم الْمُحَرَّمِ" "رمضان کے بعدافضل روزہ محرم کاروزہ ہے " (فتح الباری /4 :252) ۔امام منذری نے اس حدیث کی تضعیف کی طرف اشارہ کیاہے (الترغیب /1: 79) اورامام ابن الجوزی نے غیرصحیح قراردیاہے(دیکھئے : العلل المتناھیۃ /رقم : 914) ،اورشیخ البانی نے بھی اسے ضعیف قراردیاہے۔ ( ارواء الغلیل /3 : 397
(12) - عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پورے ماہ شعبان کا روزہ رکھا کرتے تھے ، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا شعبان کا مہینہ آپ کے نزدیک سب سے پیاراہے کہ آپ اس میں روزہ رکھتےہیں ؟ توآپ نے فرمایا:"إِنَّ اللَّهَ يَكْتُبُ كُلَّ نَفْسٍ مَيِّتَةٍ تِلْكَ السَّنَةَ,فَأُحِبُّ أَنْ يَأْتِيَنِي أَجَلِي وَأَنَا صَائِم" "(اس مہینےمیں ) اللہ تعالی  پورےسال کے مرنے والوں کاحساب کتاب لکھتاہے ، لہذامیں چاہتاہوں کہ میری موت اس حالت میں آئے کہ میں روزہ  سے ہوں "۔
  اس روایت کو ابویعلی نے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے ضعیف قراردیاہے ۔
ضعیف الترغیب /رقم : 619) یہی روایت  دوسرے الفاظ کے ساتھ واردہے جس میں ہے " إن الله يكتب على كل نفس منيته تلك السنة""اللہ تعالی    اس سال مرنے والے تمام نفس کی موت(اسی ماہ میں )  لکھتاہے " شیخ البانی نے اس روایت کو منکرقرار دیا ہے ۔( سلسلہ ضعیفہ/رقم : 5086)۔
(13) –  معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "من أحيا الليالي الخمس وجبت له الجنة ليلة التروية وليلة عرفة وليلة النحروليلة الفطر وليلة النصف من شعبان"جس پانچ راتوں میں شب بیداری کی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی : ترویہ کی رات  ، عرفہ کی رات  ، قربانی کی رات ، عیدالفطرکی رات اورپندرہویں شعبان کی رات" ۔
اسےابن ابی عاصم نے کتاب السنۃ(1 :224) ابن حبان نے صحیح (الاحسان/7 : 470) طبرانی نے مجمع الزوائد(8 :65)اور امام اصفہانی نے ترغیب کے اندرذکرکیاہے ، اورامام منذری نے ترغیب کے اندرذکرکرنےکے بعداس کے ضعیف یاموضوع ہونےکی طرف اشارہ کیاہے ، اورشیخ البانی نے اسے موضوع قراردیاہے ۔(سلسلہ ضعیفہ/رقم :522
(14) – ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی روایت کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"خمس ليال لاتردفيهن الدعوة : أول ليلة من رجب وليلة النصف من شعبان وليلة الجمعة وليلة الفطر وليلة النحر"" پانچ راتوں  میں کی گئی دعائیں ردنہیں ہوتیں : رجب کی پہلی رات ، شعبان کی  پندرہویں رات ، جمعہ کی رات، عید الفطرکی رات اورقربانی کی رات " ۔
اس روایت کو ابن عساکرنے تاریخ دمشق(10 :275)  کے اندرذکرکیاہے ،اورشیخ البانی نے اسے موضوع ومن گھڑت قراردیاہے ۔( سلسلہ ضعیفہ/رقم 1452
(15) –  عا‏ئشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"أتاني جبرائيل عليه السلام فقال:هذه ليلة النصف من شعبان ولله فيها عتقاء من النار بعدد شعور غنم بني كلب ولا ينظر الله فيها إلى مشرك ولا إلى مشاحن ولا إلى قاطع رحم ولا إلى مسبل ولا إلى عاق لوالديه ولا إلى مدمن خمر" میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آ‎ ئے اورفرمایاکہ : یہ پندرہویں شعبان کی رات ہے ، اس رات اللہ تعالی قبیلہ بنو کلب کی بکریو ں کےبالوں کی تعداد میں لوگوں کو جہنم سے آزادکرتاہے ، اورمشرک ، کینہ پرور،رشتوں کوتوڑنے والے، ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والے ، والدین کی نافرمانی کرنے والے اورشرابی کی طرف نہیں دیکھتا" ۔
اسے امام بیہقی نے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے اسے ضعیف قراردیاہے ۔
(ضعیف الترغیب /رقم : 620
 اسی معنی کی ایک طویل روایت دوسرےسیاق میں امام بیہقی نے شعب الایمان کے اندرذکرکیاہے جسے شیخ البانی نے دومتروک راویوں کی بناپرحددرجہ ضعیف قراردیاہے (ضعیف الترغیب /رقم :1651
(16) –  عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے :".... هذه ليلة النصف من شعبان إن الله عزوجل يطلع على عباده في ليلة النصف من شعبان فيغفر للمستغفرين ويرحم المسترحمين ويؤخر أهل الحقدكماهم" "یہ پندرہویں شعبان کی  رات  ہے ، اللہ تعالی  پندرہویں شعبان کی رات اپنے بندوں کی طرف دیکھتاہے اورمغفرت طلب کرنے والوں کی مغفرت فرماتاہے اوررحم طلب کرنےوالوں پہ رحم فرماتاہے اورکینہ پرورکوویسےہی چھوڑ دیتاہے "اسے امام بیہقی نے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے اسے ضعیف قراردیاہے ۔ (ضعیف الترغیب /رقم : 622
(17) – عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہےکا : اللہ کے رسول صلی  اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :"إذاكان ليلة النصف من شعبان نادى مناد: هل من مستغفر فأغفر له ؟ هل من سائل فأعطيه ؟ فلا يسأل أحدشيئاإلاأعطي إلازانية بفرجهاأومشرك" "جب پندرہویں شعبان کی رات ہوتی ہے تو ایک پکارنے والا پکارتاہے :ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والاجسےمیں بخش دوں ؟ہےکوئی مانگنےوالا جسےعطا کروں؟ کوئی کچھ بھی مانگےاسے دیا جاتاہے سوائے زناکارعورت یا مشرک کے "۔ اسےامام بیہقی نے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔ (ضعیف الجامع /رقم : 653) ۔
(18) – راشدبن سعد سے مرسلامروی ہے:"في ليلة النصف من شعبان يوحي الله إلى ملك الموت يقبض كل نفس يريدقبضها في تلك السنة"پندرہویں شعبان کی رات میں اللہ تعالی ملک الموت کو اس سال جن روحوں کوقبض کرنے کا ارادہ فرماتاہے ان کو قبض کرنے سے متعلق وحی فرماتاہے "۔
اس روایت کوامام دینوری نے "المجالسۃ " کے اندرروایت کیاہے ، اورامام البانی نے اسے ضعیف قراردیاہے ۔(دیکھئے:ضعیف الجامع /رقم :4019
(19) – انس رضی اللہ عنہ کی روایت ، فرماتےہیں کہ : جب رجب کا مہینہ آتاتواللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:"اللهم بارك لنافي رجب وشعبان وبلغنا رمضان ۔۔۔۔۔"" اےاللہ رجب اورشعبان کے مہینوں میں ہمارے لئے برکت عطافرمااورہمیں رمضان تک پہونچا۔۔۔۔۔۔۔"۔
 اس روایت کو امام بیہقی اورابن عساکرنے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے اسے ضعیف قراردیاہے ۔ (دیکھئے : ضعیف الجامع /رقم :4395
(20) – ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :"من صلى ليلة النصف من شعبان اثنتي عشرة ركعة يقرأفي كل ركعة "قل هو الله أحد" ثلاثين مرة لم يخرج حتى يرى مقعده من الجنة ويشفع في عشرة من أهل بيته كلهم وجبت له النار""جس نے پندرہویں شعبان کی رات میں بارہ رکعتیں نمازپڑھی ، اورہر رکعت میں تیس مرتبہ " قل ھواللہ احد"پڑھی تونمازسےفارغ بھی نہیں ہوتاکہ اسےجنت میں اس کاٹھکانہ دکھادیا جاتا ہے ، اوراس کے گھروالوں میں سے ایسے دس لوگوں کے سلسلےمیں اس کی سفارش قبول کی جائے گی جن پرجہنم واجب ہوچکی ہوگی "۔
اس حدیث کوامام بزاراورامام ابن الجوزی نے روایت کیاہے ، (دیکھئے:کشف الاستار/3 :436 اورالعلل المتناھیۃ /1: 70) ،اس کی سندمیں عبدالرحمن مجہول اوراعمش مدلس راوی ہیں ، نیزاس میں ہشام کاکوئی متابع نہیں ہے جیساکہ امام ابن بزارنے اس کی وضاحت کی ہے اورامام ابن الجوزی نے اس روایت کی سندمیں متعددمجہول راویوں کی وجہ سےموضوع قراردیاہے ، اورامام ابن القیم اورعلامہ سیوطی نےبھی اسے موضوع قراردیاہے ۔(دیکھئے:المنارالمنیف /ص:99 واللآلی المصنوعۃ /2: 59
(21) –"من قرأليلةالنصف من شعبان ألف مرة"قل هوالله أحد" في مائةركعة لم يخرج من الدنيا حتى يبعث الله إليه في منامه مائة ملك ثلاثون يبشرونه بالجنة وثلاثون يؤمنونه من النار وثلاثون يعصمونه من أن يخطئ وعشر يكيدون من عاداه"۔ "جس نے پندرہویں شعبان کی رات میں سو رکعتوں میں ایک ہزاربار "قل هوالله أحد "پڑھی تووہ دنیاسے اس حالت میں روانہ ہوگاکہ اللہ تعالی اس کی خواب میں سوفرشتے بھیجےگا، تیس جنت کی بشارت دیں گے، تیس اسے جہنم سے بچائیں گے، اوردس اسے اس کے دشمنوں کی سازش سےبچائیں گے " ۔
اس روایت کو امام احمدنے روایت کیاہے (مسنداحمد/2: 176) ، اس روایت کو امام منذری نے ضعیف اورامام ابن الجوزی ، امام سیوطی اورابن عراق نے موضوع قراردیاہے ۔
 (دیکھئے:ترغیب /3: 460 ،الموضوعات الکبری /2: 125 ،تنزیہہ الشریعۃ /2: 93 اوراللآلي المصنوعۃ /2: 59)
صحیح طریقہ  :
      مذکورہ روایات جن کی حقیقت سے آپ واقف ہوچکے ہیں ، کی بنیادپرشعبان اوراس کی پندرہویں  رات سے متعلق مسلم معاشرےکے ایک بڑے طبقہ کے اندربدعات و خرافات کاایک  لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکاہے ،قبروں پہ چراغاں کرنا، قوالیوں کی مجلسیں قائم کرنا، قبرستان میں اس رات خصوصی حاضری ، حلوہ مانڈوں پہ فاتحہ خوانی ، کھانے پینے کا خصوصی نظم ، مرووں کی ارواح کی حاضری کاعقیدہ رکھنا، مردوں سے دعاء وفریاد، مسجدوں میں خصوصی عبادات کا نظم  جن کا دین وشریعت سے کو ئی تعلق نہیں ہے جیسے بیشمارواہیات وخرافات اورشرکیہ رسوم انجام دئے جاتےہیں ، جن کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عہدمیں نام ونشان تک نہیں تھا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اتناثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ دیگرتمام مہینوں سے زیادہ ماہ شعبان میں روزہ رکھا کرتےتھے ، جیسا کہ عائشہ ، عبداللہ بن عباس،اورانس بن مالک  رضی اللہ عنہم اجمعین کی روایتوں میں ہے کہ :"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لايفطر,ويفطرحتى نقول لايصوم"(بخاري / كتاب الصوم : 1969،1971،1973ومسلم / كتاب الصيام: 1156،1157،1158)" اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم (ماہ شعبان میں ) اتناروزہ رکھتےکہ ہم کہتےکہ آپ روزہ چھوڑیں گےہی نہیں اورروزہ نہیں رکھتےتوہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گےہی نہیں " ۔اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہاکی دوسری روایت ہے:"....مارأيته في شهر أكثرصياما منه في شعبان كان يصوم شعبان إلا قليلا".
(بخاري /كتاب الصوم : 1969  ومسلم / كتاب الصيام: 1156 "میں نے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ روزہ رکھتےہوئے نہیں دیکھا، آپ تھوڑاکم شعبان کاپوراروزہ رکھاکرتےتھے۔
اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کو اپنے صحیح دین پرچلنے کی توفیق عطافرمائے  ، وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔ آمین  ۔


*****



شعبان میں کی جانے والی بدعتیں
          ذیل میں ہم پندرہویں شعبان میں کی جانے والی ان بدعتوں کا ذکرکررہے ہیں جن کا کتاب وسنت اورنہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل سے ثبوت  ہے، بلکہ یہ ساری بدعتیں  بعدکی ایجادہیں جنہیں دشمنان اسلام نے اسلام کے خالص اور صاف وشفاف عقائد واعمال  کو شرک و خرافات سے  داغدارکرنےکے لئے جھوٹی اور من گھڑت روایتوں کا سہارالےکرمسلم معاشروں میں رواج  دےدیا ہے،جنہیں سادہ لوح  اوردینی تعلیم سے نابلدمسلمانوں نے عبادت اور کار خیرسمجھ کر اپنالیاہے ،  اورشکم پرورمولیوں نے اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیاہے :
(1) -  قبروں پہ چراغاں کرنا ۔
(2) - اس رات قبرستانوں کی خصوصی زیارتیں  ۔
(3) -  قبروں کی صفائی اورانہیں پینٹ کرنا ۔
(4) – قوالیوں کی مجلسیں قائم کرنا،جن میں شرکیہ اوربدعیہ نظمیں پیش کی جاتی ہیں۔
(5) –   انواع واقسام کے کھانے اورحلوہ  مانڈے  بنانا، اورایک دوسرےکو دعوتیں دینا ۔
(6) -  ان کھانوں پرفاتحہ خوانی  ۔
(7) -  یہ عقیدہ رکھناکہ حلوہ اس لئے کھاتےہیں کہ  احدکی لڑائی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید کردئےگئے تھے اورآپ نے حلوہ نوش فرمایاتھا۔ (اسے  بدترین بدعتوں کی کرشمہ سازی ہی کہیں گے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک   احدکی لڑائی میں شوال میں شہید ہوتےہیں  اورآپ کی امت شعبان کی پندرہویں رات میں حلوہ بازی کررہی ہے ؟؟؟ ) ۔
(8) -   مردوں کی روحوں کی حاضری کا عقیدہ رکھنا۔
(9) - مردوں سے دعاءوفریادکرناجوملت سے خارج کرنےوالااورکفرمیں داخل کرنےوالا شرک ہے ، اللہ تعالی کاارشادہے : {وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ} (المؤمنون :117) (جوشخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبودکو پکارےجس کی کوئی دلیل  اس کے پاس نہیں ، اس کاحساب تواس کے رب کے پاس ہی ہے بےشک کافرلوگ نجات سے محروم ہیں ) اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے علاوہ کسی دوسرےکوپکارنے والے کوکافرکہاہے ،نیزفرماتاہے :{إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ} (المائدہ : 72) (جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیااس کے اوپراللہ تعالی نے جنت کوحرام کررکھاہے اوراس کا ٹھکانہ جہنم ہے اورظالموں کاکوئی مددگارنہیں ہوگا)۔
(10) -  گھروں اورمسجدوں  میں قرآن خوانی کارواج  ۔
(11) - مسجدوں میں خصوصی عبادتوں کا نظم ۔
(12) -  گھروں اورمسجدوں کو چراغوں ، برقی قمقموں  سے سجاناجو مجوسیوں(آگ پرستوں ) کی مشابہت ہے ۔
(13) -  مسجدوں اورگھروں کو اس رات خصوصی طورپرصاف ستھراکرکے انہیں  اگربتی وغیرہ سے معطرکرنا  ۔
(14) - صلاة الألفية (ہزاری نماز) کا اہتمام ، اس روزلوگ مغرب سے کچھ پہلے مسجدوں میں  اکٹھاہوتےہیں اورسورکعتیں نفلی نمازہررکعت میں دس مرتبہ " قل ھو اللہ احد" کے ساتھ پڑھتےہیں ، اس نماز کی کیفیت امام غزالی نے احیاءعلوم الدین کے اندرذکرکیاہے ،جس سےلوگ دھوکاکھاگئےاوراسےصحیح سمجھ لیاجب کہ یہ نماز دین میں بدعت  ہے اوریہ   تقریباچوتھی صدی ہجری  میں بیت المقدس میں ایجادکی گئی۔
(15) -  پندرہ شعبان کو خصوصی روزہ رکھنا، البتہ اگرکوئی  ہرماہ ایام بیض (تیرہ ،چودہ اورپندرہ  تاریخ ) کاروزہ رکھنےکا عادی ہے تواس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ پندرہ شعبان  کی خصوصیت اس میں باقی نہیں رہتی ۔
(16) – اس رات خصوصی طورپرصدقہ وخیرات کرنا۔
(17) – اس رات مسجدوں میں اکٹھاہوکرتین بارسورہ یاسین اورمولدپڑھنا۔
(18) -  اس رات کو شب قدرسمجھنااورشب قدرکی جوفضیلت ہے اس رات کو دینا، واضح رہے کہ جولوگ  قرآن کریم کی  آیت:{إناأنزلناه في ليلة مباركة  إناكنا منذرين فيهايفرق كل أمرحكيم أمراًمن عندناإناكنامرسلين}(الدخان :3-5) (ہم نےقرآن کریم کوبابرکت رات میں اتاراہے،بےشک ہم ڈرانےوالےہیں، اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیاجاتاہےجوہمارا حکم ہوتاہے ، اورہم ہی رسول بھیجنےوالےہیں)سے شب براءت مرادلیتے ہیں وہ واضح غلطی پرہیں ، واضح رہے کہ مذکورہ آیت کریمہ میں اس رات قرآن کریم کے نزول کی بات کہی گئی ہے اور سورہ بقرہ کی آیت 185 کے اندراس بات کی صراحت موجودہےکہ قرآن کریم رمضان کےمہینے میں نازل ہواہے:{شهررمضان الذي أنزل فيه القرآن} (البقرة :185) (رمضان کامہینہ ہی ہےجس میں قرآن کانزول ہوا)اس آیت کریمہ سے واضح ہوجاتا ہےکہ قدرکی رات جس میں قرآن کانزول ہوا رمضان میں ہی ہےنہ کہ شعبان میں ۔
(19) - اس رات کو شب براءت کے نام سے موسوم کرنا کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے چندمن گھڑت اور ضعیف روایتوں کی بنیادپرلوگوں نے اس رات کا نام براءت کی رات رکھ لیاہے جس کا مطلب ہوتاہے جہنم سے رہائی کی رات جس کی دلیل نہ اللہ تعالی نےاتاری ہے اورنہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔
(20) - رمضان کاروزہ شروع ہونےسےایک دن پہلےسلامی،احتیاطی یا استقبالیہ روزہ رکھنا۔ اس روزےسے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے ، ارشادفرماتاہے : لايتقدمن أحدكم رمضان بصوم  يوم أو يومين إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه فليصم ذلك اليوم" (بخاری :1815)"تم میں سے کوئی رمضان سے ایک یا دودن پہلےہرگز روزہ  نہ رکھے،ہاں اگرکوئی نفلی روزہ رکھنےکاعادی ہے اوروہ دن پڑ جائے تو کوئی بات نہیں ہے"۔
اللہ تعالی ہمیں صحیح راستےپرچلنےکی توفیق عطافرمائےاوردنیاوآخرت کی کامیابی  سے نوازے، وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم  ۔ آمین  ۔

*****

کوئی تبصرے نہیں: