اتوار، 25 اگست، 2013

شبینہ کی دینی وشرعی حیثیت

شبینہ کی دینی وشرعی حیثیت
الحمدلله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده , وبعد:
برکتوں ،عظمتوں ،عبادتوں اورذکروتلاوت کامہینہ رمضان جب جب سایہ فگن ہوتاہےدنیاکےتمام مسلمان خصوصی طورسےعبادت اورذکروتلاوت میں لگ جاتےہیں اورحسب استطاعت زیادہ سے زیادہ حسنات وخیرات سے اپنےدامن کوبھرلیتےہیں،فرائض ونوافل اورسنن خصوصی طورسے اداکئےجاتےہیں ۔رمضان المبارک کی یہ خصوصیت واہمیت ابتداء سےلے کراب تک باقی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہایت ہی ذوق وشوق کےساتھ اس  ماہ مبارک میں تراویح ، تلاوت اوردیگرعبادات میں لگ جاتےتھے۔
لیکن مروروقت کےساتھ بدعت پرستوں نے اس ماہ مبارک میں کچھ ایسی بدعات کورواج دےدیاجن کاشریعت سے ادنی تعلق بھی نہیں ہے۔ تراویح ، تلاوت قرآن مجیداورشب قدرجیسی بابرکت رات میں عجیب وغریب عبادتیں گھڑی گئیں ، جنہوں نےصحیح عبادتوں کی رو ح  اورچاشنی کوتاراج کردیا۔ ان بدعات میں سےایک "شبینہ " کی بدعت ہے۔ذیل کی تحریرمیں ہم کتاب وسنت  اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کی روشنی میں شبینہ  کی حقیقت کوواضح کریں گے، تاکہ عوام میں رائج اس بدعت کی حقیقت سامنے آسکےاورلوگ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں عبادات کوصحیح طریقہ سے اداکرکےاجروثواب کےمستحق ہوسکیں اورمبادا کسی بدعت میں پڑکرشریعت کے متعین کردہ ضابطوں سے نہ نکل جائیں ۔

شبینہ کیاہے :

 شبینہ ایک فارسی لفظ ہے جس کا مطلب ہوتاہے: حافظ قرآن کا رمضان کی کسی رات  میں ( خاص طورسے شب قدرمیں ) باجماعت تراویح میں پوراقرآن مجید ختم کرنا۔
شبینہ کی مذکورہ تعریف سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں ، مثلا:کیاشبینہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےعہدمیں ہوئی تھی ؟ کیا قرآن مجید ایک رات میں ختم کرناجائز ہے ؟  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پرکیا تعامل تھا؟ قرآن مجید پڑھنے کےکیا آداب ہیں ؟ کیاشبینہ میں تجویدوترتیل کی رعایت ہوپاتی ہے ؟ اورکیا شبینہ کی نمازشریعت کے متعین کردہ ضابطوں کے اندرآتی ہے ؟ذیل کی  سطورمیں ہم ان تمام نکات پربالترتیب اختصارکےساتھ گفتگو کریں گے ۔

شبینہ دورنبوت میں :

 تراویح کےسلسلے میں ایک مشہورروایت ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوتین دنوں تک تراویح پڑھائی ، پھرچوتھےدن آپ گھرسےباہرنہیں نکلےاورصحابہ کرام مسجدمیں آپ کاانتظار کرتے رہ گئے، صبح آپ نے اس کی علت یہ بیان فرمائی  کہ :      " میں نے تراویح اس لئے نہیں پڑھائی کہ  کہیں یہ تمہارےاوپرواجب نہ ہوجائے "عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :" آپ تاحیات اسی پرکاربند رہے"(بخاری ، کتاب التراویح :2012)۔ عائشہ رضی اللہ عنہاکی ایک دوسری روایت ہےجس میں ہے  کہ :"آپ رمضان اورغیررمضان  میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ کبھی نہیں پڑھتےتھے"(بخاری ،کتاب التھجد:1147 ، وکتاب التراویح :2013 ،وکتاب المناقب : 3569 ، ومسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین :738)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان المبارک کےآخری دس دنوں میں  اعتکاف میں بیٹھاکرتےاوردیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اعتکاف کیاکرتے،لیکن کبھی بھی آپ نے ان کی جماعت بناکررات بھرنماز نہیں پڑھائی ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےکبھی بھی پوری رات ایک جماعت بناکرتراویح میں پوراقرآن مجید ختم کرنا ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بعدکی بدعت ہےاورہربدعت گمراہی ہے، جیساکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"كل بدعة ضلالة"(مسلم ، کتاب الجمعہ :867) "یعنی ہربدعت گمراہی ہے "نیز ارشادفرمایا:"من أحدث في أمرنا هذا ماليس منه فهو ردیعنی "کسی نے اگرہماری اس شریعت میں کوئی نئی چیزجو اس میں سے نہیں ہے، پیداکی تو وہ مردود ہے "(بخاری ،کتاب الصلح :2697 ، ومسلم ، کتاب الاقضیہ :1218)


کیا پورا قرآن مجید ایک رات میں ختم کرناجائزہے ؟ :

 اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنے سے منع فرمایاہے ، اوراکثرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی اسی پرتھا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :"إقرأ القرآن في كل شهر" قال :قلت:  يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال :" فأقرأه في كل عشرين " قال قلت  يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال :" فأقرأه في كل خمسة عشر" قال: قلت  :يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال :" فأقرأه في كل عشر" قال :قلت:  يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال:"فأقرأه في كل سبع  ولا تزد على ذلك (بخاری ، فضائل القرآن :5052-5054 ، ومسلم ، کتاب الصیام :1159) یعنی " ہرماہ میں قرآن مجید پڑھاکرو" میں نےکہا :اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہربیس دن میں پڑھاکرو" میں نےکہا : اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہرپندرہ دن میں پڑھاکرو" میں نےکہا : اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہردس دن میں پڑھاکرو" میں نےکہا : اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہرسات دن میں پڑھاکرو اوراس سے زیادہ مت کرنا"  
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی ہی ایک دوسری روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لم يفقه من قرأالقرآن في  أقل من ثلاث "(ابودا‏ؤد، کتاب الصلاۃ :1394 ، ترمذی ، کتاب القراءۃ:2949 ، ابن ماجہ ،اقامۃ الصلاۃ :1347 ، علامہ البانی نے اس روایت کوصحیح قراردیاہے ، دیکھئے : صحیح سنن ابن ماجہ :1115) اورامام عبدالرزاق نے اسے بایں الفاظ نقل کیاہے :"من قرأ فيما دون ثلاث لم يفهمه ""یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کیااس نے اسے کچھ سمجھا ہی نہیں "(مصنف عبدالرزاق :3/356)۔
ابوعبید نے طیب بن سلمان کے طریق سےعن عمرۃ عن عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم میں قرآن نہیں ختم کیاکرتےتھے"(دیکھئے : فتح الباری :9/97)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ : " قرآن مجید تین دن سے کم میں مت پڑھاکرو بلکہ اسے سات دنوں میں پڑھاکرو"(بیھقی :2/396 ، مصنف عبدالرزاق :3/353 ،ہیثمی فرماتےہیں کہ : "اسے طرانی نے روایت کیاہے اوراس کےرجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269) حافظ ابن حجرنے بھی اسے صحیح کہاہے ، (فتح الباری :9/97) طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تین دن میں قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے " (ہیثمی فرماتےہیں کہ : "اسے طرانی نے کبیر میں  دو سندوں سے روایت کیاہے اوراس  میں سے ایک کےرجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269) اور بیھقی کی ایک روایت میں ہےکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رمضان میں تین دن میں غیررمضان میں جمعہ سے جمعہ تک میں ختم کیاکرتےتھے۔(السنن الکبری :2/396)ایک دوسری روایت میں عبداللہ بن مسعود فرماتےہیں :"من قرأالقرآن في أقل من ثلاث فهوراجز"یعنی " جس نے تین دن سے کم میں قرآن مجید کو ختم کیا وہ راجز (رجزیہ اشعارپڑھنے والا) ہے"(سنن سعیدبن منصور:447، مصنف عبدالرزاق :3/353 ، ہیثمی فرماتےہیں کہ : "اسے طرانی نے کبیرمیں  روایت کیاہے اوراس کےرجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269)۔
معاذبن جبل رضی اللہ عنہ تین دن سے کم میں قرآن مجید پڑھنے کوناپسند کرتےتھے اورخودبھی تین دن سے کم میں نہیں پڑھتےتھے۔(مصنف عبدالرزاق :2/354 ، قیام اللیل لابن نصرالمروزی :ص 63)۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سلسلےمیں آتاہےکہ وہ سرعت وتیزی کے ساتھ قرآن مجیدپڑھنے کوناپسند کرتےتھے اورسات دنوں میں ختم قرآن کو بہترجانتےتھے ، کیوں کہ اس سے تدبر اورفہم میں مدد ملتی ہے ۔(مؤطا، تنویر الحوالک :1/206 ، مصنف عبدالرزاق :3/354)۔
تمیم داری رضی اللہ عنہ کے سلسلےمیں امام نووی نے لکھاہےکہ وہ ایک دن اورایک رات میں قرآن مجید ختم کیاکرتےتھے(التبیان فی آداب حملۃ القرآن : ص 47 مطبوع مکتبۃ دارالبیان ، نیزدیکھئے :فضائل القرآن لابن کثیر:ص 81 ،والمدخل لدراسۃ القرآن الکریم /محمد ابو شہبۃ : ص 405 ، طبع :داراللواء ،ومختصرتاریخ دمشق :5/19 ، وسیر اعلام النبلاء :2/445)
جب کہ ایک دوسری روایت میں بسند صحیح وارد ہےکہ وہ سات دنوں میں ختم کیاکرتے تھے۔(الطبقات الکبری لابن سعد:3/500 ، وسیراعلام النبلاء :2/445 ، والسنن الکبری للبیھقی :2/396 ، ومختصرتاریخ دمشق :5/319)۔
ابو حمزہ فرماتےہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں نہایت ہی سرعت کےساتھ قرآن مجید پڑھاکرتاہوں اوربسااوقات ایک ہی رات میں ایک مرتبہ یادومرتبہ ختم کردیاکرتاہوں ، توعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" ایک رات میں صرف سورہ بقرہ تدبر وترتیل کے ساتھ پڑھنامیرے نزدیک تمہارے جیسے پڑھنے سے بہترہے ۔(السنن الکبری للبیھقی :2/396 ،وفتح الباری :9/89)۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ آٹھ   دنوں میں قرآن مجید ختم کیاکرتےتھے۔( السنن الکبری للبیھقی :2/396 ، مصنف عبدالرزاق :3/354 ،قیام اللیل لابن نصر:ص 63 ، طبقات ابن سعد:3/500 بسند صحیح )۔
تابعین میں سے عبدالرحمن بن یزید بن علقمہ اورابراہیم ایک ہفتہ میں ختم کیاکرتےتھے ۔(التبیان : ص 48)۔
حسین بن علی الکرابیسی فرماتےہیں کہ میں نے آٹھ راتیں امام شافعی کے ساتھ گذاریں ، آپ ایک تہائی رات کےقریب نمازپڑھاکرتے تھےاوران کومیں نے ایک رکعت میں پچاس  آیتوں سے زیادہ پڑھتے نہیں دیکھا۔(توالی التاسیس لابن حجر:ص68 ،مناقب الشافعی للبیھقی :2/158 ط: دارالتراث القاھرۃ)۔
معمرفرماتےہیں کہ : قتادہ سات دنوں میں قرآن ختم کیا کرتےتھے۔( مصنف عبدالرزاق :3/353)۔
ابوعبید، احمدبن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ تین دنوں سے کم میں نہ ختم کیاجائے۔(فتح الباری:9/97)۔

ایک رات میں قرآن مجیدختم کرنےکےآثاراوران کاجواب :

 بعض ائمئہ عظام اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سعید بن جبیر اورعثمان بن عفان رضی اللہ عنہماسے کئی طرح سےثابت ہے کہ یہ لوگ ایک رات یاایک دن میں قرآن مجیدختم کیاکرتےتھے۔(السنن الکبری للبیھقی :2/96 ، مصنف عبدالرزاق :3/354 ،سنن الترمذی ،5/197 ، الزھد للامام احمد بن حنبل :671 ،2170 ، سنن الدارمی ::رقم 3485 ،کتاب التھجد لابن ابی الدنیا:166،167 ،ومختصرتاریخ دمشق :5/319 و 16/167 )۔
ان روایتوں کے طرق میں سے اکثرکی سندیں مخدوش ہیں ، لیکن بعض  صحت کے درجے کو پہنچتی ہیں ۔
لیکن ان  حضرات کے عمل سے استدلال تین وجوہ سے ناقابل اعتبارہیں :
اول : ان کے عمل کی اقتداء سے صریح مرفوع اور صحیح احادیث کی مخالفت ہوتی ہے ۔
دو م : نص صریح کی موجودگی کی بناپرکسی بھی شخص کاکوئی بھی ذاتی عمل دین میں حجت نہیں ۔
سوم : جمہورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن مجیدکو تین دن سے کم میں پڑھنا ثابت نہیں ہے اس لئے مذکورہ دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہماکا انفرادی عمل شاذہے جو قابل اعتباروحجت نہیں ہے ۔
میں کہتاہوں کہ اگربفرض محال کوئی آدمی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کودلیل بنا بھی لیتاہےپھربھی اجتماعی طورپرایک شب میں تراویح میں پورےقرآن کو ختم کرنامحل  نظرہے،جس کاثبوت نہ خود ان صحابہ کرام سے ہےاورنہ ہی سنت  نبوی سے ، اوربقول امام ‏غزالی :ایک رات میں قرآن مجید ختم کرنے والے لوگ یہ سمجھتےہیں  کہ اس کا نزول صرف اس لئے ہواہےکہ اسے صرف اچھی آوازمیں پڑھاجائےاس کے اوامر، نواہی اور موا‏عظ سے انہیں  کوئی واسطہ نہیں ہے۔(دیکھئے : اصلاح المساجد من البدع والعوائدللشیخ جمال الدین القاسمی : ص 127-128 باختصارشدید)۔

قرآن مجید پڑھنے اورسننے کے آداب :

قرآن مجید اللہ رب العزت کانازل کردہ کلام ہےجس کی تلاوت عبادت ہے، اوراس عبادت کی صحیح طورسے ادائیگی کےلئے شریعت نے اس کی قراءت وتلاوت اوراستماع کےکچھ آداب اورشرائط متعین کررکھے ہیں ۔ ذیل میں ہم ان آداب میں سے چندکا مختصراذکرکرکے دیکھیں گے کہ کیا شبینہ کے اندران شرائط کا لحاظ رکھاجاتاہے یاایسی صورت میں ان کا لحاظ ممکن ہے ؟  :
1 – قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے اپنی نیت خالص کرلینی چاہئے اورتلاوت سے اجروثواب کے حصول کا قصد ہونا چاہئے۔ لیکن شبینہ میں اخلاص کا یکثرفقدان ہوتاہے، اکثرحفاظ کرام  اپنی اجرت اور محنتانہ کی خاطرقرآن مجید پڑھتےہیں اوربعض سامعین کھانے پینےکی لالچ میں شریک ہوتےہیں اوراس رات کا اکثرحصہ کھانے پینے میں گذارتےہیں ، کیوں کہ شبینہ اداکی جانے والی تقریبا  تمام  مساجدمیں خوردونوش کا خصوصی انتظام  ہوتاہے ۔(ماہ مبارک کا منکرعظیم  رسم شبینہ ازمفتی عبدالرؤوف :ص11)
2 – تلاوت قرآن میں ترتیل کی رعایت واجب ہے ، اللہ رب العزت فرماتاہے :{ورتل القرآن  ترتيلاً(سورہ مزمل :4)یعنی قرآن مجیدسکون ، خشوع خضوع اورترتیل کے ساتھ پڑھاجائے کیوں کہ تلاوت کا شرعی مقصدحسن تلاوت اورتدبر و  فہم ہے۔ اوریہ چیز شبینہ جیسی سرعت سے کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتی  ہے ۔اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوسرعت تیزی سے پڑھنے سے منع فرمایاہے (دیکھئے :بخاری ، کتاب ‌فضائل القرآن :5044 )  ارشاد فرماتاہے :{لاتحرك به لسانك لتعجل به}(سورہ القیامۃ :16)یعنی (اے نبی ! آپ قرآن مجید کوجلدی (یادکرنے)کے لئے اپنی زبان کوحرکت نہ دیں ) اوردوسری جگہ ارشادفرماتاہے {ولاتعجل بالقرآن من قبل أن يقضى إليك وحيه}(سورہ طہ :114) یعنی (قرآن مجید پڑھنے میں جلدی نہ کیجئے اس سے پہلے کہ آپ کی طرف جووحی کی جاتی ہے وہ پوری کرلی جائے)۔
3 – قاری وسامع دونوں کو اپنے ذہن وفکرکوقرآن کی آیات کوسمجھنے میں لگا دینا چاہئے ۔
4 -  جب رحمت کی آیت گذرےتو اس کا سوال کرے، اور ،عذاب کی آیت گذرے تو اس سے پناہ مانگے ، تسبیح کی آیت گذرے توتسبیح بیان کرےاورسجدہ کی آیت گذرے توسجدہ کرے۔ لیکن شبینہ میں سامع کوپتہ ہی نہیں چلتاکہ کب اس نوعیت کی آیتیں گزرتی ہیں  صرف یعلمون تعلمون سمجھ میں آتاہے ۔
5 –  ہرحرف کوکما حقہ اداکرنا چاہئے ، کیوں کہ قرآن مجید کے تمام الفاظ پردس دس نیکیاں ملتی ہیں ۔(ترمذی ، فضائل القرآن :2910 ، یہ  روایت صحیح ہے ، دیکھئے : صحیح سنن الترمذی :2910)
6 -  تلاوت قرآن مجید کے وقت تجوید وقواعد کا لحاظ نہایت ہی ضروری ہے ، اس لئے کہ اگرتجویداور مخارج کے قواعد کا لحاظ نہیں ہوگاتو الفاظ کےمعانی بدل سکتے ہیں ، اوریہ چیزسبب گناہ ہے ۔
7 -  حسب استطاعت قرآن مجید کو بہترین آوازکے ساتھ پڑھناچاہئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"زينوا القرآن بأصواتكم" یعنی" قرآن مجید کواپنی بہترین آوازکے ساتھ مزین کرو"(ابو دا‏‏ؤد ،کتاب الصلاۃ :1468 ، ابن ماجہ ، کتاب اقامۃ الصلاۃ :1342 ،نسائی ، کتاب الافتتاح : 2/179-180 ، روایت صحیح ہے ، دیکھئے : سلسلہ صحیحہ :772 )  
8 -  جب قرآن مجید کی تلاوت ہورہی ہوتو سامعین کے لئے اسے غورسے خاموشی کے ساتھ سننا واجب ہے ، جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :{وإذا قرئ القرآن فاستمعواله  وانصتوا لعلكم ترحمون}(سورہ  اعراف :204)یعنی (جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو اسے غورسے خاموشی کے ساتھ سنو امید ہے کہ تم پررحمت ہو)
9 -  قرآ ن مجید میں ہرممکن لحن سے بچنا چاہئے ۔ قرآن مجید میں مکروہ لحن وہ ہے جس کی بنیادپرمد کوقصر ، قصرکومد، ساکن کو متحرک اورمتحرک کوساکن کردیاجاتاہےاوریہ سب طربیہ نغموں کی موافقت کے لئے کیاجاتاہے ۔(دیکھئے : فضائل القرآن :ص 15-16 بحوالہ حاشیہ مقدمۃ التفسیرللشیخ عبدالرحمن قاسم :ص107)

شبینہ میں مقتدی کی رعایت :

 باجماعت نمازمیں امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقتدیوں کی رعایت کرے، کیو ں کہ نماز میں بچے ، بوڑھے، عورتیں ، بیمار، ضرورت مند اوردور سے آنے والے سبھی ہوتے ہیں ۔ ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ہی غصہ میں فرمایا:"تم میں سے بعض لوگ نفرت پیداکرنے والے ہیں ، جو بھی تم میں سے نماز پڑھائے تواسے تخفیف کرنی چاہئے "(بخاری ، کتاب العلم :90 ، مسلم ، کتاب الصلاۃ :466) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ایک بار لمبی نماز پڑھادی تو آپ نے فرمایا:"اے معاذ ! تم لوگوں میں فتنہ پیداکرنے والے ہو، جب تم لوگوں کونماز پڑھایا کروتو"والشمس وضحاها" "سبح اسم ربك الأعلى" والليل إذايغشى"اور "إقرأباسم ربك"پڑھو"( مسلم ، کتاب الصلاۃ :465) عثمان ابو العاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:"جب تم کسی قوم کی امامت کروتو ان کو ہلکی نمازیں پڑھایاکرو"( مسلم ، کتاب الصلاۃ :468)
مذکورہ روایتیں صراحت کے ساتھ بتاتی ہیں کہ کسی بھی امام کے لئے یہ جائز اوردرست نہیں ہےکہ لوگوں کو مشقت وپریشانی میں ڈالے اور نمازیں لمبی کرکےفتنہ کا سبب بنے۔ تراویح کی نمازجس میں حصول ثواب کی خاطرلوگ جوق درجوق شریک ہوتے ہیں انہیں شبینہ جیسی نمازوں کے ذریعہ مشقت میں ڈال دیاجائے تو پھرتراویح جیسی عبادتوں کا اللہ ہی حافظ ہوگا، واضح رہے کہ نفس کو تھکا کراورمشقت وپریشانی میں ڈال کرکسی بھی نفلی عبادت کو اداکرنے سے روکا گیاہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:"صم وأفطروقم ونم فإن لجسدك عليك حقاً, وإن لعينك عليك حقاًوإن لزوجك عليك حقاً  ......"یعنی " تم روزہ بھی رکھو اوربلا روزہ بھی رہو، رات میں قیام بھی کرو اورسوؤبھی ، کیوں کہ تمہارےاوپرتمہارےجسم ، تمہاری آنکھ اورتمہاری بیوی کا حق ہے۔۔۔۔"( بخاری ، کتاب الصوم ؛1975،1977)
خلاصہ کلام یہ کہ شبینہ جیسی نمازیں دین میں بدعت اورشریعت کے اصول وضوابط کے خلاف ہیں جن کا ثبوت نہ تودورنبوت میں ملتاہے اورنہ ہی صحابہ کرام، تابعین ، محدثین اورائمہ عظام کے دورمیں ۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو ہرممکن طورپراس قسم کی بدعت سے بچنا چاہئےاوررمضان المبارک جیسےبابرکت مہینےمیں سنت مطہرہ کے مطابق عمل کرکےزیادہ سے زیادہ حسنات سے اپنے دامن کوبھرناچاہئے ۔کیوں کہ عبادات کی صحت کے لئے دواساسی شرطیں ہیں جن کے بغیرکوئی بھی عبادت درست نہیں ہوسکتی ہے، اول : عبادت خالصتا اللہ کے لئے ہو۔ اورثانی : سنت نبوی کےمطابق ہورہی ہو۔ اس لئے ہمیں اپنی عبادتوں پرنظرثانی کرنی چاہئے ۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے دین کے صحیح طریقوں پرچلائے ، اوربدعات وسیئات سے دوررکھے ۔آمین یارب العالمین وصل علی خیر خلقک محمد علی آلہ وصحبہ وسلم۔
          (شائع شدہ : ماہنامہ مجلہ" طوبی" نومبرودسمبرسنہ 2002ء)
**********

کوئی تبصرے نہیں: