بدھ، 28 فروری، 2024

اسلام میں خاندان کی تعمیراور اس کے استحکام کی اہمیت

 اسلام میں خاندان کی تعمیراوراس کے استحکام کی اہمیت          

    خاندان انسانی  پرورش کا پہلا اور بنیادی گہوارہ  ہوتاہے، تعلیم وتربیت ، زبان وبیان ، ادب واخلاق  اورنفس وضمیرکی نشونما  میں  بطورنگراں   سب سےبڑا حصہ  اسی کا ہوتاہےچنانچہ خاندان کی بنیاد  جتنی مضبوط ہوتی ہے عمارت اتنی ہی  مستحکم  ہوتی  ہے اور جتنی کمزور ہوتی ہے عمارت اتنی ہی کمزور ہوتی ہےچنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ عہد قدیم سے لےکر  عصرحاضر تک کسی بھی فردکے اخلاق  واطوار اور سلوک کے لئے خاندانی اطواروطرز کو میزان بنایاجاتاہے، کسی کی تعریف کرنی ہوتو اسے اس کےخاندان سے ملایا جاتاہے اور اس کی مثال دی جاتی ہے اورکسی کی برائی اورعیب جوئی کی جاتی ہے توبھی "کس خاندان کاہے ؟ " "فلاں خاندان سے لگتاہے" ،" اس کا خاندان ہی ایساہے" ، "خاندان کا اثر توپڑےگاہی "اور"خاندانی  اثریا وراثت ہے" جیسے طعنوں سے موسوم کیاجاتاہے۔
    خاندان معاشرے کا مرکزی  اوربنیادی حصہ ہوتاہے،  جواس کی تشکیل وتعمیر  کی پہلی اور بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اسی پر اس کی شان وشوکت  قائم ودائم  ہوتی ہے اور اس کا درجہ بلند  وبالا ہوتاہے، ایک طرح سے خاندان معاشرے کے جسم کی مانند ہوتاہے جب خاندان صحیح اور قابل اطمینان ہو گا تو معاشرہ بھی مضبوط اور مستحکم ہوگا اور جب خاندان کے اندر فساد اور بگاڑ ہوگا تو معاشرے کے اندر بھی اس کا اثر پڑنا لازم ہے ۔ چنانچہ خاندان کا  معاشرے کے اہم ترین اجزاء میں سے ایک  ہونے کی وجہ سے مذہب اسلام  نے مسلم خاندان کی بہترین   تعمیر اور  اس کی تشکیل کو بہت زیادہ اہمیت دیتےہوئے اس کے لئے وسائل ترقی  واستحکام کا  خاص خیال رکھاہے ۔ 
خاندان جوڑے سےبنتاہے:
اللہ تعالی نے دنیا قوم سے اورقوم خاندان  کی ترکیب سے بنائی ہے اور خاندان کی ترکیب وتنظیم کی بنیاد بھی  جوڑے   پر رکھی ہے ، فرماتاہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً﴾ ۔(النساء:1)۔ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں)۔
پھر اللہ تعالی نے ہم ہی میں سے جوڑے پیداکرکے   ہمیں  جو بہت بڑی نعمت  سے نوازرکھا ہے اس کا احسان جتاتے ہوئے فرماتاہے: ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ (الروم: 21) ۔(اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں) ۔
اسلام سے قبل خاندانی حالت :
اسلام سے پہلے خاندان کی بنیاد زیادتی اور ناانصافی پر تھی، خاندانی نظام کا سروے سروا  اوراصل الاصول صرف مرد ہوتاتھا، ہر طرح کی خصوصیات اور فضائل کا حامل صرف مردتھا ، عورتوں کے حقوق ہر طرح سے مارےجاتےتھے ، وراثت میں ان کا حصہ نہیں ہوتاتھا، شوہر کی وفات  یا طلاق کے بعد بلاوجہ دوسری شادی  سے روک دی جاتی تھیں  ،اسی طرح  انہیں ثروت اورمال  سمجھاجاتاتھا چنانچہ مال ومتاع اورجانور کی طرح  ان کوبھی تقسیم کیاجاتاتھا،یہاں تک کہ بچیوں کی پیدائش کو عار سمجھاجاتاتھا ، اللہ تعالی اس کا نقشہ کھینچتےہوئے فرماتاہے:(وَإِذَابُشِّرَأَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّاوَهُوَ كَظِيمٌ * يَتَوَارَىٰ  مِنَ  الْقَوْمِ  مِنْ سُوءِ مَابُشِّرَبِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَاسَاءَ مَايَحْكُمُونَ)۔ ( النحل / 58)۔(ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہره سیاه ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹن محسوس کرنے لگتا ہے(وہ اپنے گمان کے مطابق )  اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آه! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں)۔
پھر اسلام نے آکر ان تمام جاہلی امورسے جو ظلم وتعدی پر مبنی تھے سختی سے روکا اور ہرایک کا جومبنی برانصاف حق بنتاہے اسے سختی سےلاگوکیا   جس کی  ساری تفصیلات سے   قرآن وسنت کے نصوص بھرےپڑےہیں ۔
 خاندان کے استحکام کےلئے اہل خانہ کے حقوق ضروری ہیں :
   جب اسلام آیا تو اس نے  خاندان کو قائم اور مستحکم کرنے اور اسے نقصان پہنچانے سے بچانےکےلئے اور خاندان کے ہر فرد کو اس کی زندگی میں اہم کردار کی نشان دہی کرتے ہوئے  اس کی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی بہترین اور مضبوط  تعلیم دی۔ اس نے عورتوں کو جاہلیت کی اس پستی سے نکال کر ماں بہن ، بیٹی اوربیوی کی حیثیت سے وہ تمام حقوق عطاکئے جن کا وہ حقدارتھیں ،تعلیم وتربیت ، تحفظ ، عفت وعصمت کی حفاظت    اور وراثت  ہر وسائل کے ذریعہ کبھی  انہیں مردوں کے مقابل کھڑا کیا تو کبھی مردوں سے زیادہ  بڑا مقام ومرتبہ دیا جو ایک خاندان کی تعمیر وترقی اور استحکام کے لئے بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے ، ان کی حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"النساء شقائق الرجال"۔" عورتیں(اصل خلقت اور طبیعت میں) مردوں ہی کی طرح ہیں "۔(سنن ابی داود/236 ،سنن الترمذی/113،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔
چونکہ عورتیں گھراور خاندان میں عضو خاص کی حیثیت رکھتی ہیں اس لئے  اس کی ترقی ، امن وامان اور استحکام کےلئے ان کے حقوق کی مکمل رعایت ناگزیر ہے جس  کےبغیر  خاندان کی ترقی کا تصور ناممکن ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ان کے فضائل کے بیان کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کی مکمل رعایت کو بڑی اہمیت دی ہے ،چنانچہ ماں کی حیثیت سے جو مقام ہے اس کا بیان ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ  :ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: لوگوں میں سے حسنِ معاشرت (خدمت اور حسن سلوک) کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "تمہاری ماں" اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: "پھر تمہاری ماں" اس نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: "پھر تمہاری ماں" اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: "پھر تمہارا والد"۔(صحیح البخاری/5971، صحیح مسلم/2548)۔
اور بیٹی وبہن کی حیثیت سے جو مقام ہے اس کے بارے میں  متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایتوں  میں  مختلف الفاظ کے ساتھ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" جس کی تین بیٹیاں ہوں یاتین بہنیں ہوں یا دوبیٹیاں یا دوبہنیں ہوں  اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتاہو اور ان کے بارےمیں اللہ سے ڈرتاہو " بعض روایتوں میں ہے کہ:" یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں " اوربعض میں ہے:"یہاں تک کہ ان کی وفات ہوجائے"اوربعض میں ہے :"یہاں تک کہ ان کی شادی ہوجائے، تو وہ جنت میں جائےگا"، یا "وہ جہنم سے آڑبنیں گی "اوربعض روایتوں میں ہے  کہ :"آپ نے سبابہ(شہادت ) اور بیچ والی  انگلیوں کو ملا کرفرمایا کہ:" وہ میرے ساتھ  جنت میں  اس طرح ہوگا "۔(صحیح ابن حبان:2/190 شیخ البانی نے  صحیح الترغیب 1970، صحیح الجامع/5372 اور صحیحۃ/296 کے اندر ان سب کا ذکرکرکے انہیں صحیح قراردیاہے)۔
اور صحیح مسلم کے اندر انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے :"مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ، وَضَمَّ أَصَابِعَه"۔" جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن وہ اور میں اس طرح آئیں گے۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملایا۔(صحیح مسلم/2631)۔
اوربیوی کی حیثیت سے ان کے ساتھ سلوک کا بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي"۔ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں"۔(سنن الترمذي / 3895 ، علامہ البانی نے اس کی تصحیح کی ہے دیکھئے:سلسلۃ صحیحۃ/285)۔
خاندان کی تعمیر  اور اسلام:
   خاندان چونکہ معاشرے کا سب اہم اور بنیادی اکائی ہوتا ہے اس لئےدین اسلام میں خاندان کی اہمیت  اس کے استحکام اور تعمیر پر خصوصی زور دیا گیا  ہے کیونکہ معاشرے کی ترقی، نشوونما اور استحکام کا انحصار بھی خاندان کے استحکام پر ہے۔ چنانچہ اسلام نے خاندان کی حفاظت وترقی اورتعمیرواستحکام کے لئے ضروری دینی ،معاشرتی اور   اقتدار واختیار تینوں محاور  اوربنیادوں  کی مکمل رعایت کی ہے ۔
بنابریں  اسلام نے خاندان کی تعمیروترقی اور استحکام وتحفظ کےلئے جن اصول  وقواعد اور کا ذکر کیاہے خاص طورسے موجودہ انارکی زدہ  اور تجدد پسند معاشرے کےلئے  بہت ضروری ہے ،ذیل میں ہم قرآن وسنت کی روشنی میں ان میں سے بعض  اصول کا مختصر بیان کرتے ہیں جنہیں اپنا کر اپنے خاندان اور معاشرے کو پرامن اور مستحکم اور مضبوط بنایا جاسکتاہے:
استحام خاندان میں تعلیم وتربیت کی اہمیت :
کسی بھی معاشرے اور خاص طور سے خاندان کی تعمیروترقی اور امن واستحکام میں تعلیم و تربیت کا بہت بڑا دخل ہوتاہے خاص طور سے شریعت اسلامیہ کے بنیادی اصول کی تعلیم کسی بھی خاندان اور معاشرے کی تعمیر کےلئے بہت ضروری ہے ،کیونکہ تعلیم ہی وہ اہم وسیلہ  ہےجس سے انسان کے اندر  صحیح اخلاق اور وقار کی نشو نما ہوتی ہے ، زندگی کا معیار بلند سے بلند ترہوتاجاتاہے ،خیر وشر کی پہچان ،نفع ونقصان  کےادراک  ، اسراف وقناعت کے فرق  ، صبر ورضا کی اہمیت ،  اور مقام ومرتبہ کے حصول کے ذرائع کی صحیح  پہچان  بھی اسی سے ہوتی ہےنیز اس کے ذریعہ  معاش کے حصول کے بہترین ذرائع میسرہوتے ہیں ۔تعلیم انسان کی ذہنی بیداری ، مثبت ومستحکم سوچ تجزیہ    تصفیہ اور غوروفکر   کی پروازکا اہم سبب بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ  وحی اول سے لے کر پوری نبوی زندگی میں تعلیم کی بڑی اہمیت رہی ہے اور ہر موقع سے مسلمانوں کو تعلیم پر ابھاراگیاہے ،قرآن وسنت کےبے شمار  نصوص اس  کی اہمیت کوواضح کرنے کےلئے کافی ہیں ۔
مستحکم خاندان کےلئےانتخاب زوجین   کی اہمیت :
اسلام نے ایک نیک اور صالح معاشرے کو قائم کرنے کے لئے شادی کے وقت سے ہی میاں بیوی کے اختیار کےلئے بہت ہی اہم ضابطہ بنایا دیاہے کیوں کہ خاندان کی کامیابی اور ترقی کے اسباب میں سے جوڑوں کا صحیح انتخاب  بہت ہی اہم ہے، تاکہ  خاندان اور معاشرےکےاندرمحبت والفت اور رحمت ورافت قائم ہوسکے، اوریہ  ایمان باللہ کے بعد ایک  خاندان کے لئے بہت  ہی اہم تحفہ ہے  اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ"۔ " عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تم  دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی" (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی)۔( صحیح البخاری/5090 ، صحیح مسلم/1466)۔
یہاں پر اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےشادی اورنکاح  میں بیوی کے انتخاب و اختیارکےلئے دین اور اخلاق کوبہت زیادہ اہمیت دی ہے کیونکہ  اسی سے  خاندان کی  کشتی کے پتوارکومناسب اور مضبوطی کے ساتھ پکڑنے والا ملاح ملتاہے چنانچہ جب خاندان کی کشتی کا ملاح دینداراورصاحب اخلاق ہوگا توگھر اورخاندان اسی کی دکھائے راہ پرچلےگا اور استحکام واطمینان کا گہوارہ بنےگا۔ اور وہ خود کو جہنم سے تو بچائےگا ہی اپنے اہل وعیال کو بھی بچائےگاجیساکہ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواقُواأَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ (التحريم: 6) (اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ)۔ چنانچہ جب اصل اوربنیاددینی اوراخلاقی اعتبار سے مضبوط ومستحکم ہوگی  تواس کے فروعات بھی اسی نہج پر انضباط اور استحکام سے مبرہن ہوگا اور آنے والی نسل  اس سے تربیت پاکر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی  حصہ دار بنےگی ۔
چنانچہ اپنی اولادکے لئے جب مناسب اور دیندار رشتہ ملےاس سےشادی کےلئےمنع کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے،بلکہ ایسا نہ کرنامعاشرے میں بگاڑاور فساد کا سبب بھی بن سکتاہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ"۔" جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا"۔( سنن الترمذی /1084، سنن ابن ماجہ/1967، علامہ البانی نے ارواء الغلیل(1668) اور صحیحۃ (1022) کے اندراس کوحسن کہاہے)۔ 
ایک آدمی نے امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کہاکہ : میری بیٹی کےلئےکچھ لوگوں نے پیغام نکاح بھیجاہے،میں ان میں سے  کس کوترجیح دوں ؟ تو انہوں نے فرمایا:جو اللہ سے ڈرے اسے ترجیح دو، کیونکہ اگر وہ اس سے محبت کرےگا تو اس کی عزت وتکریم کرےگا اور اگر اس سے ناراض ہوگا تو اس پر ظلم کرنے  سےبچےگا۔
والدین کی ذمہ داریاں :
یہ اچھی طرح جان لیناچاہئے  کہ خاندان کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل نسل کی پرورش میں والدین کا  بہت بڑا کردار  ہوتاہے۔چنانچہ بچوں کی شادی کے بعد والدین کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں کیونکہ یہ جوڑا بالکل نیا ہونے کی  وجہ سے دنیا کے سرد وگرم سے بالکل انجان ہوتاہے اور نئی زندگی ہرموڑ پر رہنمائی کی محتاج  اور ضرورت مند ہوتی ہے ، اس موقع سے تھوڑی سی بےاحتیاطی بھی خاندان کے انتشار اورفتنہ وفساد کا سبب بن سکتی ہے،اور اس لئے بھی مردوعورت ہرایک  کے اوپر گھر کے تمام افراد کی  ذمہ   داری بنتی ہے کہ اسلام نے انہیں اس پر مکلف کیاہے  اور ہر ایک کی ذمہ داری متعین کردی ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: " الرَّجُلُ في أهْلِهِ رَاعٍ وهو مَسْؤُولٌ عن رَعِيَّتِهِ، والمَرْأَةُ في بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وهي مَسْؤُولَةٌ عن رَعِيَّتِهَا"۔"مرد اپنے گھر کے معاملات کا افسر  اورذمہ دارہے اور اس سے اس کی رعایا  اور ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی افسر اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا اورذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا"۔ (صحیح البخاری/2558،صحیح مسلم/1829)۔
  چنانچہ  گھراورخاندان کے بڑوں خصوصا والدین کے اوپر اپنی اولاد کی شادی کے وقت اور اس کے بعدچند ذمہ داریاں عائد  ہوتی ہیں ،جیسے:
- شادی میں مناسب انتخاب کے بعد والدین کےلئے ضروری ہے کہ اپنےبچوں کو ازدواجی زندگی کی تعظیم و احترام  کی طرف  رہنمائی کریں  ، کیونکہ  یہ وہی میثاق غلیظ اور مضبوط ومحکم عہدوپیمان اور  تعلق ہے جس  کا بیان اللہ تعالی نے اپنے فرمان کے اندر کیاہے،فرماتاہے: ﴿وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا ﴾ ( النساء: 21) (ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد وپیمان لے رکھا ہے)۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"اتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ؛ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ .." ۔" تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اس لئے کہ ان کو تم نے اللہ تعالیٰ کی امان سے لیا ہے اور تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے حلال کیا ہے"۔ (صحیح مسلم /1218) ۔
- اسی طرح میاں بیوی کو یہ بتائے کہ ازدواجی زندگی اور ایک خوشحال خاندان  کی کامیابی کی  بہترین کنجی  اللہ کا تقوی، حسن معاشرت اور ایک دوسرے کےتئیں  محبت اور احترام کا معاملہ اور تبادلہ ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے:﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾(النساء: 19) (ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو)۔نیز فرماتاہے: ﴿وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾(البقرة: 337)۔(اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے)۔اور اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا"۔" اور عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو "۔ (صحیح البخاری/5185،5186 صحیح مسلم /1468)۔اورایک جگہ فرمایا: "لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً؛ إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ "۔  "کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو دوسری پسند ہو گی"۔(صحیح مسلم/ 1469)۔
- اپنے بچو ں کی  ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح پر تربیت کی جائے ،جن میں سے ایک ہے میاں بیوی کے درمیان  بھلائی اورخیر  پر مبنی معاشرت  اوراسی طرح  آپسی تعلقات ومعاملات  ، جیسے اچھی باتیں ، بہترین سلوک ،  ہمیشہ خندہ پیشانی  سے ملنا ،  بیوی پر اسراف سے بچتے ہوئے دل کھول کر خرچ کرنا ، میاں بیوی کا  ایک دوسرے کی چاہت کا خیال رکھنا وغیرہ اور  یہ سب امور اس لئے ضروری ہیں تاکہ  کامیابی  اور خوشی  قائم رہے جس سے گھرکے اندرسکون واطمینان  برقراررہےگا ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (النحل:97)۔(جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے)۔ 
- اسی طرح بیٹوں اوربیٹیوں کی  رضاء اورقناعت پر تربیت ضروری ہےاس لئے  کہ اللہ تعالی نے جوکچھ بھی بندوں کو دےرکھا ہےاس سے راضی اور اس پرقانع رہنا اللہ کی وحدانیت کا اقرارہے ، اللہ تعالی فرماتاہے: ﴿أهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ﴾ (الزخرف:32)۔(کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی دنیاوی زندگی میں  ان کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے ممتازاور بلند  کررکھاہے)۔اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَكَ تَكُنْ مِنْ أَغْنَى النَّاسِ"۔" اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم کردہ رزق پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہو گے"۔(سنن الترمذی/2305 ، سنن ابن ماجہ/4217، شیخ البانی نے صحیحۃ (930) کےاندراسے حسن کہاہے)۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ؛ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ"۔" تونگری یہ نہیں ہے کہ سامان زیادہ ہو، بلکہ امیری یہ ہے کہ دل غنی ہو(یعنی آدمی دل کا دھنی ہو)"۔(صحیح البخاری/6446، صحیح مسلم/1051)۔
چنانچہ حقیقی اورمعتبربےنیازی  رضا،قناعت، استغناء نفس، دنیا سے عدم حرص اور دین  واخلاق کا حریص ہونا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ بہت سارے لوگ دولت مند ہونےکے باوجود نفس کا فقیر ہوتےہیں ، خوب سے خوب تر دنیا کے حصول کی کوششوں میں لگے رہتےہیں جس سے مالداروں والی زندگی سے محروم رہتےہیں اور خوف وہراس سے پُرفقرومحتاجی والی زندگی ان کا مقدربن جاتی ہے ۔یہ چیزایک خاندان کی سلامتی اور اور اتفاق واتحادا ورباہمی تفاہم کے لئے بہت بڑی آفت ہے۔اس سے خاندان کی سلامتی تو مفقود ہوتی ہی  ہے اس کے افراد ایک دوسرے سے ذہنی اورمعاشرتی طور پر انحراف اور تفرق کاشکارہوجاتےہیں۔
شاعرکہتاہے: 
النَّفْسُ تَجْزَعُ  أَنْ  تَكُونَ  فَقِيرَةً    ** وَالْفَقْرُ خَيْرٌ مِنْ غِنًى يُطْغِيهَا
وَغِنَى النُّفُوسُ هُوَالْكَفَافُ فَإِنْ أَبَتْ ** فَجَمِيعُ مَافِي الأَرْضِ لاَيَكْفِيهَا
(آدمی غریب  ومحتاج ہونے سےخوف کھاتاہے جبکہ غریبی  اس مالداری سے بہترہے جو اسے بگاڑدے۔ نفس کی مالداری تویہ ہے کہ اسے بقدرضرورت اساس زندگی میسرہوجائےورنہ  روئے زمین کی ساری دولت  بھی پالےتو وہ اس کےلئے کافی نہیں ہوگی۔)
- میاں بیوی کو یہ تعلیم  ضرور دیں کہ وہ صبر کو اپنا زیوربنائیں او ر ایک دوسرے کی غلطیوں پر چشم پوشی کریں  ، ایک دوسرے کے گھروالوں کی عیب جوئی سےبچیں  اور ان کےاحترام وتکریم کی ہر ممکن کوشش کریں ۔
خاندان کی تعمیر میں  اتحاد کی ضرورت :
خاندانی اتحاد واتفاق ایک مسلم معاشرے کےقیام کے لئے نہایت ہی اہم اور ضروری عنصرہے ،جس کے بغیر  نہ تو خاندان مستحکم ہوسکتاہے اورنہ ہی اس سے بنا معاشرہ  ۔ اتفاق واتحاد اور باہمی ہم آہنگی  کسی بھی خاندان اور  معاشرے کے لئے بہت بڑی نعمت ہے ،اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: (وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا)۔(الانعام/103) ۔ (اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے)۔
خاندان کی تعمیر میں  شوری  کی اہمیت :
باہمی تفاہم اور مشورہ  کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے  حکومتی اورمعاشرتی سطح پر اس کی اہمیت وضرورت کی طرح کسی بھی خاندان کی حفاظت ، بھلائی  ، تنظیم  اور اس  کی ترقی اوراستحکام کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ، اللہ تعالی مشورہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرماتاہے: (وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۪ وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَیْنَهُمْ ۪ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ)۔(الشوری/38)  (اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں  اور نماز کی پابندی کرتے ہیں  اور ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے، اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہمارے نام پر) دیتے ہیں) ۔
آج کا بکھراخاندان :
آج کے  تجدد پسند لبرل  اور مغرب زدہ معاشرے کو دیکھ لیجئے آزادی اور حقوق کےنام پر کس قدر خاندان  کے خاندان انارکی ،بے راہ روی اور انتشار  کے شکارہیں   ،بچے بوڑے، مرد ، عورتیں  ہر کوئی اپنی دنیا میں مست ومگن ہے خصوصا نوجوان نسل اچھی تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے جنسی بے راہ روی کی عمیق تاریکیوں میں  گم ہے ،جس کی وجہ سے ہر جگہ ٹوٹے پھوٹے اوربکھرے خاندان نظرآتےہیں  ، کسی نے سچ کہاہے کہ  اگر اس کی  حقیقت معلوم کرنی ہوتو قیدخانوں، ہسپتالوں  ، بوڑھوں کے لئے بنےاداروں (اولڈہا‌ؤسز) اور کمزور وبےبس افراد کے گھروں میں جا کردیکھو۔
اللہ رب العزت ہمیں ہر طرح کے تناؤ اور بکھراؤ سے محفوظ رکھ  کر  ایک کامیاب اور مستحکم خاندان کی ترقی کا ذریعہ بنائے اور ہمارےسماج اور معاشرے کو پر امن ،نیک اور صالح معاشرہ بنادے اور ہمارے خاندان کو موتیوں کی لڑی کی طرح آپس میں جوڑے رکھے۔ وصلی اللہ علیہ خیرخلقہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم ۔

سہ ماہی مجلہ صدائے حق جھارکھنڈ (اکتوبر-دسمبر2023 تا جنوری - مارچ 2024               

****

کوئی تبصرے نہیں: