جمعرات، 29 فروری، 2024

ماحولیاتی تحفظ اوراسلام کی تعلیمات

 ماحولیاتی تحفظ اوراسلام کی تعلیمات                                  

  (عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی / سعودی عربیہ) مذہب اسلام پیار ،محبت ، الفت، رحمت ،شفقت تحفظ اور دفع مضرت والا دین ہے، نیز طہارت  ونظافت اور پاکیزگی اس کے اہم اورضروری تعلیمات میں سے ہیں ۔اس کے احکام ہر جگہ اور ہر زمانہ کے لئے مفید ومناسب  ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ   ایک آفاقی مذہب ہے  جس نے زمین  اور اس کی ہر شئی کی حفاظت  پر خصوصی توجہ  دی ہے ، اس کاتعلق اس پر بسنے والے انسان سے ہو ،چرند پرند اورچوپایوں سے ہو خواہ ماحولیات سے ۔  اللہ تعالی نے انسان  کی زندگی کے لئے ضروری اور فائدے مند جو کچھ بھی اس روئے زمین میں  پیدا کیا ہےوہ ماحولیات سے متعلق ہیں ،ہوا ،پانی ،، آگ ، مٹی ،زمین ،پہاڑ ،، فضا،  درخت ، پودے ،سمندر ، دریا، اور چرندو پرند وغیرہ بالواسطہ یا بلا واسطہ سب اس  کے اندر  داخل  ہیں  ،جن میں خصوصی اہمیت  کا حامل صاف ستھری آب و ہوا ہے،جو انسان کی زندگی کے لئے نہایت ہی اہم اور ضروری  عناصرمیں سے ہیں ۔ اور درحقیقت جب ماحولیات کی بات کی جاتی ہے تو اس سے عمومی مراد یہی دونوں ہوتےہیں ۔

ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں اورزندگی کے ہر لمحہ  میں اس سے آکسیجن پاتےہیں ،اگر لمحہ بھر کو بھی روئے زمین ہواسے خالی ہوجائے توخلقت کی حالت کیاہوگی ادنی خرد  بھی اس کا ادراک کرسکتی ہے  ۔

اور ماحولیات کا ایک اہم جزو صاف وشفاف پانی ہےجو  حیات انسانی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتاہے، جس سے ہم اپنی پیاس بجھاتےہیں ، اپنے جانوروں کی پیاس بجھاتےہیں  اور اپنے کھیت وباغات کو سیراب کرتے ہیں یہ پانی پہاڑوں چشموں ،دریاؤں اور زمین کی تہہ سے ہمیں نصیب ہوتاہے ،اسی پانی سے سرزمین میں ہریالی چھاتی ہے درخت وپودے ہرے بھرے نظر آتے ہیں جہاں ہماری زندگی خوشرنگ گزرتی ہے یہ جنگل ،ہرےبھرےپہاڑ اور کھیت کھلیان سب اسی کی وجہ سےہیں  ۔اور یہ سمندر یہ دریااور تالاب جس سے ہمیں مچھلی کی شکل میں بہترین غذائیں نصیب ہوتی ہیں سب اسی کی وجہ سے ہیں ، اورانہیں سمندروں سےقیمتی اثاثے موتیوں کی شکل میں ہمارےگھروں اور جسموں کی  زیب وزینت  بڑھانے اور دولت وثروت کی نمو کےلئے حاصل ہوتےہیں ۔ 

چنانچہ یہ تمام چیزیں جو ہماری ضروریات زندگی اور ہمارےلئے فائدہ مند ہیں  انہیں  کو ماحولیات ،  پریاورن (पर्यावरण) یا عربی میںبيئة سے تعبیرکیاجاتاہے  جن کا  اور ان سے ہونے والے فوائدواہمیت  کا ذکر اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم کے اندر کیاہے اور انسان کو ان کی حفاظت   کا حکم دیاہے اور  کسی بھی طرح سے انہیں ختم کرنے یا بگاڑنے سے منع فرمایا ہے ، فرماتاہے :(هُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ يُنبِتُ لَكُم بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالأَعْنَابَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون).(وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو اگایا جسے  تم اپنے جانوروں کو چراتے ہواسی سے وه تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے بےشک ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں اس میں بڑی نشانی ہے)۔(النحل/10-11)۔نیز فرماتاہے :(فَلْیَنْظُرِالْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖۤ اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّا وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلً وَّحَدَآىِٕقَ غُلْبًا وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ )۔ (انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے کو دیکھےکہ ہم نے خوب پانی برسایا پھر زمین کو اچھی طرح  پھاڑاپھر اس میں سے اناج اگائے اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجور اور گنجان باغات اور میوه اورگھاس بھی اگایا  تمہارے استعمال وفائدے کے لئے اور تمہارے چوپایوں کے لئے)۔(عبس/24-32)۔

چنانچہ جب ہم ماحولیاتی آلودگی (पर्यावरण प्रदूषण)  اور اس سے ہونے والے نقصانات کی بات کرتے ہیں تو  اس سے سب سے زیادہ جو عناصر متأثر ہوتےہیں ان میں ہوا اور پانی  ہیں۔ اور بنظرغائر دیکھاجائے تو دنیا میں گلوبل وارمنگ (Global Warming)  کی صورت حال کے لئے ماحولیات کی آلودگی بھی بہت حد تک ذمہ دار ہےجس کی طرف عالمی ادارۂ صحت  (W.H.O.)نے بارہا انتباہ کیاہے ۔ مذکورہ ادارہ کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کی ننانوے فیصد آبادی ایسی  ہوا میں سانس لےرہی  ہے جس میں آلودگی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔اسی طرح ماحولیاتی آلودگی بارش اور اس  سے ہونے والی پیداوار پر بھی اپنا گہرا اور مضرت رساں اثر چھوڑتی ہے جس سے بارش کی  کمی    ہوتی ہے  اور  فصلیں متأثر ہوتی ہیں ۔ماحولیاتی آلودگی کا ہی اثر ہے کہ آج دریاکے دریا خشک  اور نہریں اورتالاب  بے آب پڑے ہوئے ہیں ۔یہی نہیں مختلف قسم کےخطرناک اورجان لیوا  اور ہلاکت خیزبیماریوں کے پھیلنے میں ماحولیات کے فساد کا بھی بڑا دخل ہے ۔  اسی طرح  گلوبن وارمنگ سے   خوراک اور توانائی کی سلامتی کو بھی خطرہ درپیش ہے۔ ماحولیات کی آلودگی اور فساد کا اثر صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں ہوتابلکہ اس کی چپیٹ میں کائنات کی ہر وہ چیزآتی ہے جس کے اندر نمووبالیدگی (Growth) ہے ۔جیسے  پرندے ،چوپائے  اور پیڑپودے وغیرہ ۔

ماضی کے مقابلے عصرحاضر کے ماحولیاتی ماہرین  سخت ترین خطرے کا انتباہ کرتے ہیں کہ  اگر ماحولیات کی حفاظت کےلئے پوری بیدار مغزی ، ہوشیاری ، اورتندہی کے ساتھ کوشش نہ کی گئی تو آگے زندگی بڑی دشوار ہونے والی ہے کیونکہ ماحولیات  کی خرابی نے انسان کے سامنے بہت بڑے  اور مشکل حالات پیش کئےہیں  اور اگر معاملہ ایسا ہی رہاتو وہ دن دور نہیں کہ زندگی کو آنے والے خطرات سے بچانا  بڑا مشکل اور چیلنجوں  بھراہوسکتاہے اوریہ سب انسان کی اپنی کرتوتوں کا نتیجہ ہوگا اور اگرایسا ہواتواس کا سبب صرف اور صرف انسان ہوگا کیونکہ خشکی  وتری سے لے کر ماحول وفضامیں خرابی کا سبب انسان کا خود اپنا عمل اور کرتوت ہوگا ۔اس لئےکہ  اس طرح کے کسی بھی فساد اوربگاڑکو روکنا ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے، ماحولیات کی حفاظت میں تھوڑابہت جو بھی ہوسکےاس میں اپنی ذمہ داری اور حصےداری کوادا کرنا ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے ۔خاص طور سے ہمیں چاہئے کہ  جنگلوں ، باغات اور درختوں کی حفاظت کے لئے کمر کس لیں اور حکومت اور ذمہ داروں کا ہرممکن تعاون کریں  ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :( وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ).(اورتم ایسے وبال سےبچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے واﻻ ہے)۔(الانفال/25)۔

چنانچہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ماحولیات کی حفاظت سے متعلق سرجوڑ کر بیٹھیں اور ہرممکن وسائل کو بروئے کارلائیں جو ان کی حفاظت کے لئے کارگرہوں، ورنہ ماحولیات کی آلودگی اور اس کے تکدر کے ذمہ  دار ہم خود ہوں گےاورہماری اس غلطی کا خمیازہ   لاقدراللہ صرف ہمیں ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑےگا۔

اسلام میں ماحولیات کی حفاظت کےلئے    بہت سارے اسباب ذکرکئے گئےہیں جنہیں اپنا کر ہم ماحول کو صاف وشفاف (स्वच्छ) بنا سکتےہیں :ان میں سے چند کا ذکر کردینا مناسب ہے :

پہلاسبب -شجرکاری: عالمی حرارت کو کم کرنے کا سب سے بہترین راستہ شجرکاری (یعنی نئے پودوں کو اگانا )ہے۔ پودے اور درخت کاربن ڈائی آکسائڈ (carbon dioxide)جذب کرلیتے ہیں اور ماحول میں اس کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ ہوا میں پھیلے  آکسیجن کے تناسب کو معتدل رکھنے میں پیڑپودوں کا نہایت ہی اہم رول ہوتاہے،بلکہ قدرت کے نظام  اور مخلوق کی طبیعت اورمزاج کے مطابق یہ درخت  دن کے وقت کاربن ڈائی آکسائیڈجذب کرکے آکسیجن پیدا کرتے ہیں جبکہ رات کے وقت اس کے برعکس  ہوجاتاہے،سوائے  بعض  درختوں کے جیسےپیپل اور نیم کے درخت یہ چوبیس گھنٹےآکسیجن پیدا کرتے ہیں  ۔

چنانچہ زیادہ سےزیادہ  نفع بخش پیڑ پودے  لگانا ماحولیات کی صحت اور آلودگی سے بچاؤکے لئے ضروری ہے ،ایک طرف  اس کی ہریالی سے ماحول صحیح ہوگااور انسان سے لےکر جانور تک کو صحت منداورنفع بخش غذائیں ملیں گی،نیزآلودہ ہوا  (pollution) کی صفائی  اور پانی کی قلت سے نجات کے علاوہ    اس کے دوسرے فوائدبھی  حاصل ہوں گے جن کا بیان اس فن کے ماہرین نے تفصیل کے ساتھ کیا ہے، تو دوسری طرف آدمی کے لئے  یہ کارخیر ثواب کا ذریعہ اور صدقہ بھی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ"۔ "کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھائےگاوہ اس کی طرف سے صدقہ ہے "۔(صحیح البخاری/2320 ،صحیح مسلم/553)۔اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَفِي يَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا تَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَغْرِسْهَ "۔"اگرقیامت قائم ہونے کو ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو تو اگرقیامت قائم ہونے سے قبل اسے لگا سکتاہے توضرورلگائے)۔ (مسند الإمام أحمد: 3 / 183، 184، 191 مسند الطيالسي/ 2068، الأدب المفردللامام البخاری / 479  ،علامہ البانی نے صحیحۃ/9 کے اندر اس کی تصحیح کی ہے)۔

اس سےیہ بھی  معلوم ہواکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کےپہلے وہ انسان ہیں جنہوں نے اپنی امت کو شجرکاری پر ابھاراہے۔

دوسرا سبب -  ہر طرح کے اسراف سے بچا جائےجس سے  ماحول کی  ہر چیزکا  بحسب ضرورت استعمال ہوگا اور ان سارے اشیاء کی حفاظت ہوگی جو ماحول کی سلامتی کا سبب ہیں ۔ اللہ تعالی اسراف وتبذیر سے بچنے کا حکم دیتے ہوئے  ارشاد فرماتاہے :(ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَيْنَاهُمْ وَمَن نَّشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ)۔(پھر ہم نے ان سے کیے ہوئے سب وعدے سچے کیے انہیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کر دیا)۔(الانبیاء/9)۔

 اور اللہ تعالی فرماتاہے:(وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا)۔( اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا اراده کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وه اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات  ثابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے تباه وبرباد کردیتے ہیں)۔(الاسراء/16)۔اور اللہ تعالی فرماتاہے:(ولاتُبَذِّرْتَبْذِيرًاإنَّ المُبَذِّرِينَ كانُواإخْوانَ الشَّياطِينِ)۔(اور اسراف اور بیجا خرچ سے بچو بیجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں)۔(الاسراء/26-27)۔ اور اللہ تعالی فرماتاہے:( وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ)۔(اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا)۔(الأعراف/31)۔اورامام ابن ماجہ نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کیسا اسراف ہے؟"، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو"۔(سنن ابن ماجۃ/425،علامہ البانی نے اسے حسن کہاہے،دیکھئے سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ/3292)۔

چنانچہ جب ہم کسی چیز کے استعمال میں حد سے تجاوز کرتے ہیں تو ہماری زندگی پر اور ماحولیات پر اس کا منفی اثر لازمی ہے ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ  ہم جو گاڑیا ں استعمال کرتےہیں اس کے پٹرولیم سے خارج ہونے والےکیمیاوی مادےماحول کو خراب کرنے میں  کتنا اہم رول ادا کرتےہیں جس سے ہوا پانی  سب متاثر ہوتے ہیں ۔ اس لئے اس کے استعمال میں کسی بھی طرح کی  بے احتیاطی اور اسراف  سے بچاجائےتوماحولیاتی فساد میں خاطرخواہ کمی آئےگی ۔ جب مختلف توانائیوں کے استعمال میں(جو گلوبل وارمنگ میں اضافہ کرسکتے ہیں) اعتدال کی راہ اختیارکرتےہوئے کمی  کی جائے تو اس سے ماحولیاتی آلودگی کے خطرات کوکم کیاجاسکتاہے۔

اسی طرح  کھانے پینے کی اشیاء میں بھی اعتدال  اور ضرورت کا خیال رکھا جائے اور اسراف اوتبذیر سے پرہیزکیاجائے توصحت ومعاش کے ساتھ ساتھ ماحولیات پر بھی اس کا مثبت اثر لازما دیکھنے کو ملےگا  ۔کیونکہ کسی بھی چیز میں اسراف خاص طور سے ماحولیات کے  اندر  نقصان اور فساد وبگاڑ کا سبب ہوتاہے جیسے کیماوی مادوں کے حد سے زیادہ استعمال سے ہوائیں مسموم ہوتی ہیں ، الکٹرانک اور توانائی کے  آلات جیسے ہیٹر اور ایئرکڈیشنزوغیرہ کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے فضائیں آلودگی کا شکار ہوتی ہیں ،پانی کے بلا ضرورت استعمال سے  پانی کی قلت کا سامنا کرناپڑتاہے ، درختوں اور جنگلوں کو بلا ضرورت کاٹنے اور انہیں جلانے سے صحراپن (Desertification)  میں اضافہ ہوتاہے اور ماحولیات کے اندر آکسیجن وغیرہ کی کمی ہوتی ہے ، جس سے گلوبل وارمنگ کی صورت حال پیدا ہوتی ہے ۔معلوم ہوا کہ حدسےتجاوز اور اسراف ماحولیات کے فساد کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا  اور بنیادی سبب ہے ۔

تیسراسبب- نظافت وصفائی کا خاص خیال رکھنا  :اسلام نے اس کی جانب خصوصی رہنمائی کی ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ "."طہارت نصف ایمان ہے"۔(صحیح مسلم /211)۔ بلاشبہ طہارت میں ہر طرح کی نظافت شامل ہے چنانچہ یہاں آدمی کو جسم اور کپڑوں کی صفائی اورنظافت کا حکم  بھی شامل ہے جس سے گھر ، سڑک اور دیگر مقامات کے اندر گندگی  ، بدبو اور ڈسٹ وغیرہ سے بچاؤ ہوگا ، بلکہ اسلام نے سڑکوں کی صفائی کو ایمان میں سے قراردیاہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"الإِيمانُ بضْعٌ وسَبْعُونَ، أوْ بضْعٌ وسِتُّونَ، شُعْبَةً، فأفْضَلُها قَوْلُ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وأَدْناهاإماطَةُ الأذَى عَنِ الطَّرِيقِ"۔"ایمان کےسترسےاوپر (یاساٹھ سے اوپر) شعبے (اجزاء)  ہیں۔ سب سے افضل جزو لاالہ الا اللہ  کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت (دینے والی چیز) کو راستے سے ہٹانا ہے "۔(صحیح مسلم/35)۔

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں کو صاف ستھرا اور پاک صاف رکھنے پر ابھاراہے،فرماتےہیں :" طَهِّرُوا أَفْنِيَتَكُمْ ، فَإِنَّ الْيَهُودَلَاتُطَهِّرُأَفْنِيَتَهَا"۔" اپنے آنگنوں کو پاک کرو کیونکہ یہودی اپنے آنگنوں کو پاک نہیں کرتے"۔ (المعجم الأوسط للطبراني/4057، علامہ البانی نے اسے حسن قراردیاہے،دیکھئے: سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/236)۔ 

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہماری سڑکیں اور گلیاں  کوڑےدان بنی ہوئی ہیں جگہ جگہ کوڑے کےڈھیر پڑے ہوئے نظر آئيں گے  ،جس سے بدبو پھیل کر ماحولیات کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی  ،ان سے ہلاکت خیز جراثیم پھیلتےہیں  جن سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اور اس سے زیادہ افسوس کی بات تویہ ہے کہ بعض جگہوں پر شہری انتظامیہ کی طرف سے کوڑے دان رکھے جانےاو ر ان کی سخت ہدایات  کے باوجود  ان کا استعمال کم ہی کیاجاتاہے اور کوڑے کرکٹ جہاں تہاں پھینک دئےجاتےہیں ۔

چوتھاسبب - حیوانی ثروت کی حفاظت کےذریعہ بھی اسلام نے ماحولیات کی حفاظت کی   ترکیب نکالی ہے، بلکہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے اس جانب خصوصی توجہ دی ہے ، اور اس ضمن میں  بہترین اور مثبت  اقدام کیاہے،چنانچہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی جانور کو بلا وجہ کے قتل کرنے سے منع فرمایاہے ، اسی طرح  کھیل کود وغیر ہ میں کسی جانور کو ہدف بنانے سے  منع فرمایاہے ۔دیکھئے : صحیح بخاری/5515 ، صحیح مسلم/1956-1957)۔

 واضح رہے کہ اسلام  میں کسی بھی جانور کو قتل کرنے کی صرف دووجہیں ہیں : اول : اس سے نفع حاصل کرنا مقصود ہو ،جیسے کھانے کے لئے ۔ دوم : دفع مضرت یعنی نقصان سےبچاؤ مقصود ہو ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" جس نے کسی گوریا، یا اس سے چھوٹی کسی چڑیا کو بلا وجہ مارا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال کرے گا"۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اسے ذبح کر کے کھائے اور اس کا سر کاٹ کر یوں ہی نہ پھینک دے" ۔(سنن النسائی /4450 ، 4354 ۔ علامہ البانی نے اسے حسن کہاہے،دیکھئے: سلسلة الاحادیث الصحیحة،/ 999، تراجع الالبانی 458 )۔

یہ تو  صرف ایک  گوریا کی بات ہے کہ اگر کسی  نے اسے بلا وجہ کے قتل کیاہےتواس سے اس کے متعلق سوال ہوگا   پھر بڑےجانورکا کیاحال ہوگا ؟۔

ان کے علاوہ  کھانے پینے ، اٹھنے ،بیٹھنے ، قضائے حوائج ،بات چیت  اور اسی طرح اشیاء کے استعمال اور ان کے اتلاف سے متعلق قرآن وسنت کے نصوص میں بیشمار تعلیمات اورآداب کا ذکر موجود ہے جو کسی نہ کسی طرح ماحولیات کے تحفظ میں اپنا تھوڑا بہت کردار ادا کرتی ہیں ۔

اس لئے  ماحولیات کو کسی بھی طرح کی آلودگی سے بچانا ہماری دینی وشرعی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سماجی ومعاشرتی اورانسانی   ذمہ داری بھی ہے یہی اسلام کا نظام اور اس کی تعلیم ہے  ،جس نے اپنے تمام احکام کے اندر  مخلوق کی  ہرطرح کے فائدے اور  اس کی حفاظت  کا خاص خیال رکھاہے۔

اللہ تعالی ہمیں ہر طرح کے خیرکاخوگربنائےجو ہمارےلئے دنیا وآخرت دونوں جگہ کامیابی کا ذریعہ بنیں اور اللہ کے دیگر تمام مخلوقات کےلئے نفع بخش ہوں اور ہر طرح کی برائی اور شر وفساد سے بچائے ۔ آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔

ماہنامہ فانوس جھارکھنڈ جنوری 2024                                                                                                               

******************                                                                                            

کوئی تبصرے نہیں: