قربانی اپنے مقاصدکے
آئینے میں
عبدالعلیم بن عبدالحفیظ
سلفی (سعودی عربیہ)
قربانی
کا موسم حلال اور متعین
جانوروں کے ذبح کے ذریعہ اللہ رب العزت کے تقرب وخوشنودی سے معنون ہے ، جو صدیوں سے
معمول بہا رہی ہے ۔ بلکہ انسان اپنےنفس اور طبیعت کے رجحان اور لگاؤ کے مطابق نذرمان کر یا پھر عمومی تقرّب کے طورپرہمیشہ
جانوروں اور اس کے علاوہ دیگر چیزوں کے
ذریعہ بھی اپنے معبود کے لئے قربانی پیش
کرتارہاہے ، وہ قربانی خواہ معبود حقیقی کی رضاکے مطابق ہو یاپھر لوگوں نے اسے غیرشرعی
طریقے پر یا بتوں اور معبودان باطلہ کے نام پر انجام دیا ہو۔ قرآن مجید کے اندر
ہابیل اور قابیل کی قربانی کا تذکرہ ہے ،اللہ تعالی فرماتاہے: {وَاتْلُ
عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ }۔(المائدۃ:27)۔( آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں
سنا دو)۔
یوں تو انسان اپنی جان و مال اور اعمال
وعبادات کے ذریعہ اللہ رب العزت سے قربت حاصل کرنے کا مکلف ہے ، جو اس کی تخلیق کا مقصد ومطلوب ہے
اوروہ اعمال جو اللہ تعالی کی قربت اور اس کی خوشنودی کے ذرائع ہیں انہیں میں سے ایک جانوروں کی قربانی بھی ہے ،جو
آدمی پر اس کی حیثیت اور رغبت کے اعتبار سے
کچھ شرائط کے ساتھ مشروع ہے ۔
ذیل میں ہم قربانی کے اہداف ومقاصدسے متعلق کچھ باتیں رکھتے ہیں جس
سے اس عظیم عبادت کے اسرارورموز اور اہدافومقاصدکے بارے
میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو سکے ، اور ہم اپنی اس عبادت کوقرآن وسنت کے مطابق
اور اس لائق بناسکیں جس سے ہمارارب راضی
ہوجائے ۔واللہ ھوالموفق :
(1) دیگر تمام عبادتوں کی طرح قربانی کے اندر بھی مطلوب ومقصود بس تقوی ہے ، اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" إِنَّ
الله لا يَنْظُرُ إِلى أَجْسامِكْم، وَلا إِلى صُوَرِكُمْ، و أموالكم وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُم وأعمالكم " "اللہ رب العزت تمہاری جسامت
اور شکلوں اوردولت کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتاہے" (صحیح مسلم/1564)
اوراللہ رب العزت کا فرمان ہے : {لَن
يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ
مِنكُمْ ۚ}(الحج:37) "اللہ کو قربانیوں
کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ان کے خون پہنچتے
ہیں بلکہ اسے تمہارا تقوی پہنچتاہے "۔
بت پرستی اور شرک وخرافات کے اندھیروں میں
بھٹکتی بے چین مشاعر وجذبات نے پوری دنیا اور
خصوصا عرب کے بت پرستوں کو گمراہی کے غار میں اپنے لئے سکون نفس تلاش کرنا
ان کا دینی مشغلہ بنا دیاتھا ، ان کا عقیدہ اورعمل اس قدر بگڑچکاتھاکہ وہ ہر جائزوناجائز
اور باطل وبےبنیاد طریقہ اپناتےتھے اوراسےاپنےلئے نجات وکامیابی کا وسیلہ اورذریعہ
سمجھتےتھے ،بتوں کے لئے جانوروں کی بلی دیکر اس کا گوشت ان پر رکھتے اوراس کے خون کا چھڑکاؤ کرتے ، اور بعض روایتوں
کے مطابق اسے خانہ کعبہ پر چھڑکاؤ کرتے
۔
بظاہران کا یہ عمل ان کے عقیدے کی روسے ان کے معبودان کی خوشی کا ایک عملی وسیلہ تھا جوگمراہ گر اورگمراہ کن نفس کے لئے ظاہری سکون کاسبب
نظرآتاتھا ،اسلام کی روشن تعلیمات اور واضح ہدایت کے آجانے کے بعدکچھ صحابہ کرام
کو بھی ان کے یہ اعمال کچھ بھلے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تو اس کے زیادہ حقدارہیں
،اللہ رب العزت نے اپنی مذکورہ آیت کے ذریعہ اس عمل اور عقیدے کا انکارکیااور یہ
واضح کردیاکہ تمہاری قربانی اور ان کفارومشرکین کی بلی میں آسمان وزمین کا فرق ہے
، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے اس عمل سے
اپنے معبود کو خوش کرلیں گےتویہ محال ہے ،حقیقت تو یہ ہے کہ رب العزت ہر قسم کے
مادی احتیاج سے پاک اور بری ہے۔ مادی یا معنوی جو بھی عمل اور عبادت ایک مسلمان کرتاہے ، اس کا مقصد کائنات اور خاص طورسےاولاد آدم کی بھلائی مقصود ہوتی ہے ،اور اگر دوسرا اس سے مستفید نہ
بھی ہو تو عامل کی ذات اس استحقاق
واستفادہ کی محتاج ہے ۔
لہذا مذکورہ آیت کریمہ اس بات کی صراحت کرتی ہے
کہ تقوی قربانی کا عظیم مقصد ہے ، جو ایک
قربانی کرنے والے کو ہمہ دم پیش نظررکھنی چاہئے۔
(2) قربانی
اور اس کے ساتھ دیگر عبادتوں اور نیک کاموں میں
اپنے اندر اخلاص پیدا کرنے پر
ابھارا گیا ہے ، جیسا کہ ہابیل اور قابیل کی قربانی کے
واقعہ میں ذکرکیاگیا ہے ہابیل کی قربانی اس کے اخلاص کی
وجہ سے اللہ تعالی نے قبول کرلیا ،جبکہ قابیل کی قربانی کو اس کی غلط نیت کی وجہ
سے رد کردیا، کیونکہ نیکیاں اسی کی قبول
کی جاتی ہیں جس کےاندراخلاص اور تقوی ہو ، فرماتاہے:( اِذْ
قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِؕ
قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ)۔( المائدۃ:27)۔(ان دونوں(ہابیل اورقابیل) نے قربانی پیش کی، ان میں سے ایک کی قربانی تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وه
کہنے لگا کہ میں تجھے مار ڈالوں گا، اس (ہابیل )نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا
ہی عمل قبول کرتا ہے)۔
(3) قربانی کا ایک مقصد
اللہ رب العزت کا تقرب اور اس کی خوشنودی
حاصل کرناہے ۔لہذا ریاء کاری اور ظاہری دکھاوہ
اور تکبر وتعلی قربانی کی عدم قبولیت کے اسباب میں سے ہیں ، بلکہ اعمال وعبادات
میں یہ چیزیں گناہ اور رب العزت کی
ناراضگی کا بڑا سبب ہیں ۔ آج دیگر عبادتوں کی طرح قربانی میں ریاء ودکھاوہ
اور تکبروتعلی نے زور پکڑلیاہے ، جس کا
ملاحظہ قربانی کے وقت جانوروں کی خرید وفروخت کے سلسلہےمیں بخوبی کیا جاتاہے ۔ اور جہالت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جانورکےبدن یا چہرے
پر اسلامی شعار سے متعلق کوئی کلمہ جیسے" لاالہ الا اللہ "
یا لفظ الجلالۃ (اللہ ) یا "محمد" (صلی اللہ علیہ وسلم) نقش کرکےیا
ان کی شباہت کا تصورپیش کرکے ان کی قیمت کو لاکھوں کروڑوں میں پہونچادیا جاتا ہے اور پھر بازار سے
لے کر سوشل میڈیا تک اس کی اہمیت وفضیلت
اور متبرک ہونے کا گُن گان کیاجاتاہے ،جسے
خریدنا اور اس کی قربانی کرنا لوگ فضیلت اور شرف کی بات سمجھتےہیں اور کچھ
تو دکھاوہ اور اپنی دینداری یا مالداری کی دھاک جمانے کے لئے اس کے حصول میں کوشا ںہوتےہیں ، جبکہ اس طرح کا
عمل محض دین سے جہالت ونادانی یا پھر
ریاءکاری اور دکھاوہ کا سبب ہے ۔واللہ المستعان ۔
(4) قربانی تقریبا ہر ملت میں مشروع رہی ہے ، اللہ رب العزت کا فرمان ہے :{ وَلِكُلِّ
أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا }(الحج :34)(اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے
مقررفرمائے ہیں )۔ اور خاص طور سےیہ اس
امت کےلئے دین کے شعائر میں سے ایک اہم
شعارہے۔اس لئے کسی بھی طرح سے اس کا انکار یا اس کے اندر کوئی تبدیلی اور غیرشرعی
تصرف کسی بھی حال میں روا اور جائزنہیں ہے ۔غریبوں او رمحتاجوں کی مدد کےنام پر آج پوری دنیا اور خاص طور سےبرصغیرمیں قربانی جیسے اہم شعار کو مٹانے کی کوشش عا م
ہوچکی ہے اور کچھ ناعاقبت اندیش مسلمان بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں پیش پیش
نظرآتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے ۔
(5) قربانی توحید
باری تعالی کے اقرارواذعان اور شرک وبت پرستی سے اجتناب ودوری کا بہت بڑا ذریعہ ہے،کیونکہ
قربانی عبادتوں میں سے ایک اہم عبادت ہے، جو صرف
اور صرف اللہ رب العزت کے لئے ہی مشروع ہے ، غیراللہ کے لئے قربانی منکر عظیم ، شرک اکبراور
اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب ہے ،اللہ رب العزت کا واضح حکم ہے :{ قُلْ إِنَّ
صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ . لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ
وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ}(الانعام :162-163) (کہہ
دیجئے میری نماز ،میری قربانی، میرا جینا اور میرامرنا سب اللہ رب العالمین کے لئے
ہی ہے جس کا کوئی شریک وساجھی نہیں، مجھے
اسی کا حکم دیاگیاہے ، اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں )۔ اور قربانی کا
ذکر کرتےہوئے فرمایا: {فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ
وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا}(الحج :34)۔(سمجھ لو
کہ تمہارامعبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہوجاؤ)۔
لہذا جس طرح نمازکا حقدار صرف اور صرف اللہ
رب العزت ہے ، کسی دوسرے کے لئے نماز جائز نہیں، اسی طرح قربانی بھی اللہ کے علاوہ کسی کے لئے
نہیں کرسکتے ۔ اس عمومیت میں اصحاب قبور
سے لےکرملائکہ ،انبیاء جن ،ستارے ، بت اور دنیا کی ہر شیئ داخل ہے ۔
اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " لعن الله من ذبح لغير
الله " (صحیح مسلم /1978) "جس نے غیر اللہ کے لئے ذبح کیااس پر اللہ کی لعنت
ہوتی ہے "۔
(6) قربانی کا ایک اہم مقصد اللہ رب العزت کا ذکرہے
، فرماتاہے :{ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا
اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ
إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ . الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ
وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي
الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ.وَالْبُدْنَ
جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ ۖۗ
فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّ ۚ }(الحج :34-36) (ہم نے
ہر امت کے لئے قربانی کے طریقےمقررفرمائے ہیں تاکہ جو چوپائے انہیں دئے ہیں
ان پر اللہ کا نام لیں سمجھ لو کہ تمہارامعبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع
فرمان ہوجاؤاور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنادیجئے یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکرکیاجائے تو ان
کے دل تھراجاتےہیں ، انہیں برائی لاحق ہوتی ہے تواس پر صبرکرتےہیں ، نمازقائم کرتے
ہیں ، اور جورزق دیاہے اس میں (اللہ کی راہ میں )خرچ بھی کرتےہیں ۔اورقربانی کے
اونٹ کو ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارےلئے
خیراور نفع ہے۔ پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو)۔
اس آیت کریمہ کے اندر جہاں اللہ کی دی ہوئی نعمت پر ذکر وشکرکا حکم ہے وہی اس بات کی
تاکید بھی ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اور صرف الہ واحدہے، اسی لئے اطاعت وفرمانبرداری اورہر قسم کی عبادت بھی اسی کی ہونی چاہئے، اور ہر عبادت میں
شرک کی گندگی سے خود کو پاک رکھنا چاہئے ، اگر ایسا کیاتو بلا شبہ رب العزت کی طرف
سے ایسے عاجز اور فرمانبردارکے لئےجو اللہ کے ذکر سے تھرا جاتے ہیں اور مصیبتوں پہ
صبرکرتے ہیں نمازکی پابندی کرتےہیں اور صدقہ وخیرات کا اہتمام کرتے ہیں خوشخبری ہی خوشخبری ہے ۔
اللہ رب العزت نے آیت مذکورہ کےاندر ذبح کے
جانورو ں کے اوپر اپنے ذکرکو توحید ، خشوع ، صبر، نمازاورصدقات سے ملایا ہے جنہیں عبادت کی حیثیت سے خاص مقام حاصل ہے ، اسی لئے
ہم دیکھتےہیں کہ قربانی کے اندر توقیف کی ہر خصوصیت موجود ہے ، قربانی کے لئے
استطاعت، انہیں جانوروں کی قربانی کی
تخصیص جن کا ذکر نصوص قرآن وسنت میں موجودہے ،قربانی کے لئے وقت کی تعیین ، وغیرہ وغیرہ ۔
(7) قربانی کا ایک مقصد اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پراس کا شکر اداکرناہے،
جو اس کے نیک اورمومن بندوں کی صفت ہے اور اس کی رضامندی کے لئے ضروری ہے ، اللہ
تعالی فرماتاہے : {وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ
الشَّكُورُ }(السبا:13)(اورمیرے
بندوں میں سے شکرگذاربندے کم ہی ہوتےہیں ) اسی
طرح وہ شکرکرنے والے کو اپنی مزید نعمتوں
سے نوازتاہے ، فرماتاہے :{وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
}(ابراہیم :7) (اور
جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکرگذاری کروگے تو بےشک میں
تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو یقینا میراعذاب بہت سخت ہے )۔ لہذا اللہ
رب العزت جب بھی کو ئی نعمت دیتاہے اس پر بندے سے شکر کا مطالبہ کرتاہے ، ارشاد
فرماتاہے : {كَذَلِكَ
سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ }(الحج: 36) (اس طرح
چوپاؤں کو ہم نے تمہارے ماتحت کردیاہے کہ تم شکر بجالاؤ)۔
(8) قربانی صبر اسقامت
اوراطاعت فرمانبرداری کی عظیم مثال ہے ، ابراہیم واسماعیل علیہما السلام سے رب
العزت کی طرف سے باپ کے ذریعے بیٹے کی قربانی پیش کرنے کا مطالبہ اپنے آپ میں ایک
ایسا مطالبہ ہے جسے پوراکرنا ایک شفیق اور
رحیم باپ کے لئے ناممکن ہوتاہے ،اور وہ بھی
جب اس کے کمسن بچہ نے ابھی ابھی چلنا پھرنا شروع کیاہویا بلوغت کے
قریب پہنجاہو۔لیکن اللہ کا حکم پاتے ہی بیٹے سے کہتاہے:{یٰبُنَیَّ
اِنِّیْۤ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی}۔(الصافات:102)۔
(میرے لخت جگر! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے
ہوئے دیکھ رہا ہوں اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے)۔
اور پھر
عظیم باپ کا عظیم وحلیم بیٹا اطاعت
وفرمانبرداری اور صبر واستقامت میں کہاں
باپ سے پیچھے رہنے والا تھا فورا کہتا ہے:{يَا
أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ }(الصافات:102)۔(
اے اباجان آپ کو جوحکم ملا وہ کرڈالئے ، مجھے آپ صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے ) ۔
یہاں
ایک باپ کا صبر اور اس کی استقامت دیکھئے کے فورا اس حکم کی بجاآوری کے لئے
تیارہوجاتاہے ،جوایک عام انسان کے لئے بظاہرناممکن ہے ، اس یقین کے ساتھ کہ جس مالک نے اولاد جیسی نعمت
سے سرفرازکیاہے ، اسی نے اپنے لئے اس کی قربانی طلب کی ہے ، اس میں اس کی
حکمت اور رحمت کا ادراک ایک انسان کے لئے
ناممکن تو ضرور ہے لیکن اس سے امیدیں قائم
ودائم ہیں ۔اور پھر رب کائنات کی رحمت اور
اس کی حکمت کا ظہور ہوتاہے اور وہ اس قربانی کو مسلمانوں کے لئے بےپناہ رحمتوں اور حکمتوں کے ساتھ قیامت تک کے لئے ایک
عظیم عبادت قراردے دیتاہے۔ چنانچہ
جہاں ایک طرف اللہ رب العزت نے اسے ابراہیم علیہ السلام کے لئے آزمائش کے ساتھ
ساتھ انعام و اکرام قراردیا وہی دوسری طرف ان کو اس کےبہترین عوض سے
سرسرفرازفرما دیا ، ارشاد فرماتاہے :{ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ
لِلْجَبِينِ. وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ . قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا
كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ . إِنَّ
هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ.وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ . وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ }(الصافات:103-108)۔(غرض جب دونوں مطیع ہوگئے(اور
قربانی کے لئے تیارہوگئے) اور (ابراہیم نے) بیٹےکو پیشانی کے بل گرادیا تو ہم نے
آوازدی کہ اے ابراہیم ! یقینا تونے اپنے خواب کو سچاکردکھایابیشک ہم نیکی کرنے
والوں کواسی طرح جزادیتے ہیں ،درحقیقت یہ کھلا امتحا ن تھااور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ
اس کے فدیہ میں دے دیا اور ہم نے ان کا ذکرخیرپچھلوں میں باقی رکھا)۔
(9) قربانی
کے اندر اللہ رب العزت کی وحدانیت ، ربوبیت
، الوہیت ،نصرت وتوفیق ، اس کی بڑائی
وبزرگی کا اقرار اوربندوں کی اس کے لئے رضا وتسلیم اور عبودیت کا اقرار واذعان ہے، قربانی کی دعاؤں میں سے ایک دعاء میں
ان ساری چیزوں کو اکٹھاکردیا گیاہے : "بسم الله والله أكبر , اللهم هذا منك ولك"۔"میں شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے
، اللہ سب سےبڑا ہے ۔ اے اللہ !یہ تیرے ہی دئے ہوئے رزق اور توفیق سے ہے اور تیرے
لئے ہی (یہ قربانی ) ہے"۔(علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہےدیکھئے:ارواء
الغلیل/1152)۔
(10) قربانی کے عظیم مقاصدمیں سے ایک اہم مقصد مختلف
صورتوں میں اہل وعیال ، دوست واحباب اور فقراء ومساکین کی معاشی امداد واکرام ہے ۔اللہ تعالی فرماتاہے :{ فَكُلُوا
مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ}(الحج:36) ۔(اس سے خودبھی کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور کرنے والوں
کو بھی کھلاؤ)۔ اور ایک جگہ فرماتاہے: {فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ
الْفَقِیْر}۔(الحج:36)۔(اس میں سے تم خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ)۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د
فرمایا:" كلوا وادخروا وتصدقوا "(قربانی کے گوشت میں سے ) کھاؤ ذخیرہ کرو اور صدقہ
کرو"(صحیح مسلم/1973)۔
(11) تجارتی مقصد سے دیکھاجائے تو اس کے
اندر ملک وقوم کےلئے حلال کمائی اور بے شمار منافع کے حصول کا بہترین ذریعہ اور سنہری مو قع ہوتاہے، جانوروں
کی پرورش وپرداخت اور خرید وفروخت میں
گھرسے لے بازارتک آمدنی اور تموّل کے بہترین ذرائع
ہیں ۔
اللہ رب
العزت ہماری قربانیوں کو ریاء وتعلی سے پاک خالص اپنے لئے کردے اور اسے قبولیت سے
نوازے۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔
******
(روزنامہ سماج نیوز دہلی /4 جون 2025 ءعدد10 شمارہ 23)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں