جمعرات، 6 اکتوبر، 2011

سگریٹ بیچنےاورتمباکوسازکمپنی میں ملازمت کرنےکاحکم

سوال : شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا گیا : میں ایک مشقّت انگیزکام کرتا تھا جسےآگےجاری رکھنا میرے بَس میں نہیں تھا،اس لئے میں نےکم مشقّت والادوسراکام تلاش کرناشروع کردیا اورمجھےایک بیڑی سازکمپنی میں ملازمت کےسواکوئی دوسراکام نہیں ملا اورباوجودیکہ میں سگریٹ یااس قسم کی کوئی چیزاستعمال نہیں کرتاکئی مہینوں سےاس کمپنی میں کام کررہاہوں ، اب سوال یہ ہےکہ : اس کام کےبدلےجواجرت ملتی ہے وہ حرام ہےیاحلال؟ یہ جانتےہوئے کہ میں الحمدللہ اپنےکام میں مخلص ہوں ۔ جواب : آپ کےلئےاس سگریٹ بنانےوالی کمپنی میں کام کرناجائزنہیں ہے ،کیونکہ سگریٹ بنانا اوراس کی خریدوفروخت حرام ہے اوراس کمپنی میں کام کرناجو اسےبناتی ہوحرام شئی پرتعاون کرناہوا ، اوراللہ تعالی اپنی کتاب کےاندرارشادفرماتاہے :{وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ } (المائدہ 2) (نیکی اورپرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتےرہواورگناہ اورظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو ) ۔
لہذا اس کمپنی میں آپ کےلئے اپنی ملازمت جاری رکھنا حرام ہے ، اور جواجرت آپ کماتے ہیں وہ بھی حرام ہے ، آپ کے لئے ضروری ہےکہ آپ اللہ کےحضور توبہ کریں اوراس کمپنی میں کام کرناچھوڑدیں، تھوڑی سی حلال کمائی ڈھیروں حرام کمائی سےبہترہے ، اس لئے کہ آدمی کی حرام کمائی کےاندراللہ تعالی برکت نہیں عطافرماتااوراگرصدقہ کرتاہے تواس کاصدقہ قبول نہیں فرماتاہےاوراگراسےچھوڑکرمرجاتاہے تو اسے اس کاخمیازہ بھگتناپڑیگاجبکہ اس کےورثاء مفت کی دولت پائیں گے اور جان لیجئےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرماياہے : " إن الله تعالى طيب لايقبل إلاّطيباً, وإن الله أمرالمؤمنين بماأمربه المرسلين فقال تعالى :{ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَ اعْمَلُوا صَالِحاً إنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ}(المؤمنون 51) وقال جل و علا:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ }(البقرة 172) وذكر الرجل أشعث أغبريمديديه إلى السماء , يارب! يارب! ومطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذى بالحرام فأنى يستجاب لذلك " (مسلم رقم :1015) " اللہ تعالی پاک ہےاور صرف پاک ہی کوپسند کرتاہے،اس نےجن چیزوں کاحکم انبیاء کرام (عليھم السلام ) کودياہے انہيں چیزوں کاحکم مومنوں کوبھی دياہے، فرماياہے : ( اےرسولو! تم لوگ پاک چیزوں ميں سےکھاؤاورنیک اعمال انجام دو( کیونکہ) جوتم کرتےہواس سےمیں بہت زیادہ باخبرہوں) اور (مومنوں کو حکم ديتے ہوئے) فرماياہے :( مومنو! جوکچھـ ميں نےتم کودياہےان میں سے پاک چیزیں کھاؤاوراللہ کاشکریہ ادا کرواگرتم صحیح معنوں میں اس کی عبادت کرتےہو)پھرآپ صلی اللہ عليہ وسلمنےايسےآدمی کاذکرکياجولمبےسفرپرہوتاہے پراگندہ بال اورگردآلودہوتاہےپھرآسمان کی طرف ہاتھـ اٹھاکر دعاءکرتاہے : يارب ! يارب ! جب کہ اس کاکھاناحرام ہے، پینا حرام ہے، پہنناحرام ہےاور اس کی پرورش حرام ميں ہوئی ہے توپھراس کی دعاء کہاں قبول کی جائے گی" دعاء کی قبولیت کےاسباب موجود ہوتےہوئے بھی اللہ کےرسولصلی اللہ علیہ وسلم نےاس آدمی کی دعاء کی قبولیت کوبعید بتایاہے ، کیونکہ اس کاکھانا ، پینا اور پہننا وغیرہ حرام ہے، جب اللہ تعالی دعاء کی قبولیت کےاسباب پائےجانےکے باوجود حرام کاموں کے ارتکاب کی وجہ سےاس دعاءکرنے والے کی دعاء قبول نہیں کرتاہےتو آدمی کوحرام خوری سےبچنا چاہئے،اللہ تعالی فرماتاہے :{وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجاً وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ }( الطلاق 2-3)(جواللہ سے ڈرتاہے تووہ اس کےلئےکشادگی پیدا کردیتاہےاوراسےایسی جگہ سے روزی دیتا ہےجس کااسےگمان بھی نہ ہو ) {وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْراً} (الطلاق 4) (اورجوشخص اللہ تعالی سے ڈریگا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کردیگا ) ۔
لہذا اےمیرے بھائی! آپ کو میری نصیحت ہےکہ آپ اس کمپنی سے نکل کرحلال روزی کی تلاش کیجئے تاکہ اللہ آپ کو اس میں برکت عطافرمائے (فتاوی اسلامیہ:4/310-311)
سوال : دائمی کمیٹی برائےفتوی سےپوچھا گیا : میرا بھائی سگریٹ بیچتا ہےاورمجھےعلم ہےکہ سگریٹ کی خریدوفروخت اوراس کاپینا حرام ہے لیکن جب میں نےاس سےپوچھا تواس نےکہاکہ مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے اور میں اس تجارت کو پھیلانا بھی نہیں چاہتا یعنی میرےپاس دولت ہوجائیگی تو میں دوسری تجارت کرلوں گا، توکیا اس حالت میں سگریٹ بیچناجائزہے؟
جواب : سگریٹ کابیچنا اس کےنقصان ،گندہ ہونےاورفردومعاشرہ پر اس کے بُرےنتائج منتج ہونےکی بےشماردلیلوں کے پیش نظرمطلقًاحرام ہےاورآپکےبھائی نےجوپیسوں کی ضرورت کاتذکرہ کیاہےتوان کےلئے اس سےحرام کے اندرتجارت کرناجائز نہیں ہوجائےگاکیونکہ حلال کے اندرحرام سےبےنیازی ہے ( یعنی حلال کام کرنےسےکبھی بھی حرام کی ضرورت نہیں پڑتی ) ، اللہ تعالی فرماتاہے : {وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجاًوَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ}( الطلاق 2-3) (جواللہ سے ڈرتا ہےتووہ اس کےلئےکشادگی کردیتاہےاوراسےایسی جگہ سےروزی دیتا ہےجس کااسے گمان بھی نہیں ہوتاہے ) (فتوی نمبر : 18441 ( تاريخ 25/12/1416 هـ )
سوال : دائمی کمیٹی برائےفتوی سےسوال کیاگیا :میرےوالد تیس سال سےایک سگریٹ اور تمباکو بنانے والی کمپنی میں کام کرتے ہیں اوراپنی اس کمائی میں سےمجھےکھلاتےہیں،توکیا میرےلئے اورمیرےبال بچوں کےلئےاس کاکھانا حلال ہے؟ اوراس معاملے کاحل کیاہے ؟
جواب : جو کچھ گزرچکا اللہ تعالی اسےمعاف کرےگاآئندہ آپ اپنی اور دوسروں کی حلال وپاک کمائی کھانےکی کوشش کیجئےاوراپنےوالد صاحب کوخیرکی دعوت دیجئےاورحلال چیزوں کی کمائی پرابھاریئےاوران کےساتھ حسن سلوک کیجئے ، شاید اللہ انہیں صحیح راستے کی ہدایت دے (فتاوی اللجنة الدائمة : 22/ 242)
سوال : دائمی کمیٹی برائےفتوی سے سوال کیاگیا : میں ایک تاجرآدمی ہوں اوراپنی تجارت کے ضمن میں سگریٹ وغیرہ بھی بیچتاہوں ، تو کیا یہ میرےلئے جائزہے جبکہ میں خود انہیں نہیں پیتا ؟
جواب :سگریٹ ضرررساں اورگندی چیزہےجس کاپینااوربیچناجائز نہیں ہے،اس لئےکہ اللہ تعالی نےجب کسی چیزکوحرام قراردیاہےتواس کی قیمت کو بھی حرام قراردیاہے ، آپکےلیےضروری ہےکہ سگریٹ بیچنے سےتوبہ کیجئےاورصرف مباح وحلال چیزیں ہی بیچئے، اس کےاندرخیرو برکت ہے اورجو اللہ کے لئے کوئی چیزچھوڑدیتاہے تو وہ اسے اس سے بہترعطا کرتاہے۔۔۔۔ (فتاوی اللجنة الدائمة : 13 /63-64)
سوال : شیخ نصرفرید واصل ( مصرکے معروف مفتی ) سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا گیا :جب سگریٹ نوشی پرحرمت کاحکم صادرہوگیاتواس کےتاجر،بنانے والے اوربیچنےوالےکاعمل حلال ہے یاحرام ؟ اورجو منافع انہیں حاصل ہوتے ہیں وہ حلال ہیں یاحرام ؟
جواب : یہ امرشرعًاثابت شدہ ہےکہ اللہ تعالی نےانسان کوروئے زمین پراپناخلیفہ بناکربھیجاہےتاکہ وہ اسےآبادرکھےاوراسکےاندرسےمال و دولت اورخیرکی چیزیں حاصل کرے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :{وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً}(البقرة 30)( اورجب آپ کے رب نےفرشتوں سےکہاکہ میں زمین میں اپناخلیفہ بناناچاہتا ہوں )
انسان کواللہ تعالی نے روئے زمین پراپناخلیفہ بناکراسے تمام مخلوق پربرتری دی ، ارشاد فرماتاہے :{ وَ لَقَدْ كَرَّمْنَابَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ و َالْبَحْرِ وَ رَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَ فَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً} (الإسراء70) (یقینا ہم نےاولادآدم کو بڑی عزت دی اورانہیں خشکی اورتری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی) اورانسان کو اللہ تعالی نےیہ فضیلت عقل کےذریعہ دی ہےجس سےکہ وہ معبودحقیقی کی عبادت بجالاتاہےجواس روئےزمین پراس کےوجودکاسب سےبڑا مقصد وغایت ہے،اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ} ( الذاريات 56 - 58) ( میں نےجنات اورانسانوں کومحض اسی لیے پیداکیاہےکہ وہ صرف میری عبادت کریں، نہ میں ان سےروزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہےکہ یہ مجھے کھلائیں ، اللہ تو خود ہی سب کاروزی رساں توانائی والا اورزورآورہے )
اللہ تعالی نےانسان کوجوتکریم وعزت عطاکی ہےاسکےبہت سارے مظاہرہیں جن میں سے ایک یہ ہےکہ اس نےانسان کوحکم دیا ہےکہ وہ اپنےاوردوسروں کےجسم وجان کی حفاظت کرے،اس کےلئے یہ جائزنہیں ہےکہ وہ اپنی اور دوسروں کی زندگی کسی بھی ‍ قسم کی تباہی وہلاکت کی نظرکرے، اسی لئے اس نےارشادفرمایا :{وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}(البقرة195) (اپنےآپکوہلاکت ميں مت ڈالو اور احسان کرو کیوں کہ اللہ تعالی احسان کرنے والوں کو پسند فرماتاہے)اسکےاندراس بات کی تاکیدہےکہ شریعت اسلامیہ کےمقاصد اوراس کی ضرورتیں پانچ ہیں : دین کی حفاظت ، نفس کی حفاظت ، نسل کی حفاظت،عقل کی حفاظت اورمال کی حفاظت، اورجب یہ مقاصد مفقود ہوں گےتومفاسداورخرابیاں درآئیں گی جن سےدوری لازم ہے،اس لئےکہ انسان اللہ وحدہ لاشریک کی ملکیت اوراس کی کاریگری کا مظہرہے اورکسی بھی فردبشرکےلئےاس وجودمیں ایساتصرّف جواسکےلئےضرر رساں اور اس کی تباہی وہلاکت کاسبب بنےجائز نہیں ہے ۔
شریعت اسلامیہ نےانسان کو اپنی یا دوسرے کی ذات یاجسم کےکسی بھی حصےّ کونقصان وضررپہنچانےکوحرام قرار دیاہےاورجس نے اس کا ارتکاب کیا اسےجہنم میں ہمیشہ رہنے کی دھمکی دی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :" من قتل نفسه بحديدة فحديدته فى يده يتوجأبها فى بطنه فى نارجهنّم خالداًمخلداًفيها أبداً "( مسلم , الإيمان : 175 / 109 )"جس نے دھاردار آلہ سےخود کوہلاک کيا تو اس کا آلہ جنّمی ميں اس کے ہاتھـ ميں ہوگا اوروہ ہمیشہ اس سے اپنےپیٹ ميں گھونپتا رہيگا "جیساکہ اس نے ہران وسائل کواختیارکرنےکاحکم دیاہےجواس کی ذات ، زندگی اورصحت کی حفاظت کرسکیں، اوراس کواوردوسروں کوضرر وہلاکت سےمحفوظ رکھیں ، اوربلاشبہ اسےاوردوسروں کو نقصان پہنچانے والی ہرچیزشرعًاحرام ہے ،اورہروہ شخص حرام کا مرتکب ہےجوکسی کوکسی بھی طریقہ سےتکلیف و نقصان پہنچانے میں شریک و مددگارہوگا ، کیوں کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : {مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَاعَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً}(المائدة 32) ( اسی لیے ہم نےبنواسرائیل پریہ لکھـ دیاکہ جوشخص کسی کوبغیر اس کےکہ وہ کسی کا قاتل ہویازمین میں فساد مچانےوالاہوقتل کرڈالےتو گویا اس نے تمام لوگوں کوقتل کردیا)
سگریٹ نوشی سگریٹ نوش ، اور اردگرد کے لوگوں کے لیے نقصان دہ ہونے کی وجہ سےشریعت کے تمام اصول وقواعد کےمطابق حرام ہے بلکہ اس کی حرمت شراب سےبھی زیادہ سخت ہے ، کیونکہ شراب صرف پینےوالےکونقصان پہنچاتی ہے جبکہ لاشعوری طور پر سگریٹ نوشی سگریٹ پینےوالوں اوران کے اردگردکے لوگوں کونقصان پہنچاتی ہےاوریہ بات قطعی متحقق ہےاس لئے جب حدیث رسولصلی اللہ علیہ وسلم میں شراب پینےوالے،بیچنےوالے،ڈھونےوالے ، بنانے والےاورجن کےلیےلے جایاجائےان کےاوپرلعنت بھیجی گئی ہےتو اس میں سگریٹ نوشی کے اندر بہت زیادہ نقصان ہونےکی وجہ سےسگریٹ نوش بھی شامل ہے اورجب سگریٹ نوشی شرعًاحرام ہوئی تواسکےتاجر،بنانےوالےاورخرید و فروخت کرنےوالے کا کام قطعًاحرام ہوا اوراس سے جو منافع حاصل ہوں گےوہ حرام کمائی ہوگی ۔۔۔۔۔۔ (فتوی نمبر: 872 السوال الاول )
سوال : دا‏ئمی کمیٹی برائےفتوی سےسوال کیا گیا:جولوگ فحش و عریاں مجلاّت ، سگریٹ اورشراب بیچتے ہیں انکی تنخواہیں حلال ہیں یاحرام ؟
جواب : ان دکانوں میں کام کرناجہاں سگریٹ، فحش وعریاں میگزین (Naked Magazines) اورشراب بکتے ہوں حرام ہے، اس لئے کہ یہ سب خبائث (گندی چیزیں) ہیں اوران کی آمدنی خبیث ہےاور اس لئےکہ جس کی اصل حرام ہے اس کی خرید و فروخت اوراس کی قیمت سےاستفادہ بھی حرام ہےاسی بنیاد پر ان جگہوں پر کام کرنے سے جہاں یہ حرام چیزیں بیچی جاتی ہوں جوتنخواہ ملتی ہےوہ حرام ہےکیونکہ(ان دکانوں میں کام کرنا ) ان (حرام چیزوں ) کوعام کرنا اورلوگوں کی دنیا وآخرت خراب کرنا اور باطل وگناہ پرمددکرناہے،جبکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :{ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} (المائدہ 2) ( نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں تعاون نہ کرو اوراللہ سےڈرتےرہو بے شک اللہ تعالی سخت سزادینے والاہے )
اورمسند میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کیاہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" لعـنت الخمـرعلى عشرة وجـوه :لعـنت الخمـرة بعينها , وشاربها و ساقيها و بائعها ومبتاعها وعاصرها ومعتصرها وحاملها والمحمولـة إليهوآكل ثمنها "( ابن ماجة : (3380 ) أحمد (2/25, 71 ) شیخ البانی نے اس روایت کوصحیح کہاہے ، دیکھئے : صحیح الجامع (1591) و ارواء الغلیل ( 1529)" شراب دس وجہوں کےساتھـ ملعون ہے: فی نفسہ شراب، پینےوالا، پلانے والا، خریدنےوالا، دوسروں کےلئے بنانے والا ، اپنےلئےبنانے والا، اسے اٹھانےوالا، جس کےلئے اٹھایا جائے اوراس کی قیمت کھانے والا" .
جولوگ مذکورہ قسم کی دکانوں میں کام کرتےہیں ان پر واجب ہےکہ ان سےحاصل شدہ مال خیرونیکی کی راہ میں خرچ کرکےان سےچھٹکارہ حاصل کرلیں،مثلاً :حسب استطاعت انہیں غریبوں اورمسکینوں کودے دیں اورساتھ ساتھ اللہ تعالی سے توبہ کریں اور یہ کام چھوڑ کر ایسا کام کریں جس کی کمائی حلال وصاف ستھری ہو اورجس نےبھی اللہ کے لئے کوئی چیزچھوڑدیا اللہ تعالی اسے اس سے بہترعوض وبدلہ دیگا ، ارشاد فرماتاہے :{وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجاً وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ}( الطلاق 2-3) "جواللہ سےڈرتاہےتووہ اسکےلئےکشادگی کر دیتاہے اوراسے ایسی جگہ سےروزی دیتا ہےجس کا اسے گمان بھی نہ ہو"اور فرماتا ہے : { وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْراً }( الطلاق 4) (اورجوشخص اللہ تعالی سےڈرےگا اللہ اس کے ( ہر ) کام میں آسانی کر دےگا ) (فتاوی اللجنة الدائمة :14/460-461)
سوال : دائمی کمیٹی برائےفتوی سے سوال کیا گیا :میرےوالدصاحب کی ایک دکان ہےجس میں وہ چیلم بیچتےہیں میں نےاس معاملے میں انہیں کافی نصیحت کی ہےاوروہ اس بات کومانتے بھی ہیں کہ تمباکونوشی حرام ہے لیکن کہتےہیں کہ چیلم کابیچناحرام نہیں ہے،کیا یہ ممکن ہےکہ آپ مجھےتمباکونوشی کےآلات بیچنےکےحکم سے متعلق فتوی مرحمت فرمائیں؟
جواب : چیلم اوراس کے پینے میں استعمال کئے جانے والے تمام اشیاء حرام ہیں کیونکہ اس کے بڑے نقصانات ہیں (فتاوی اللجنة الدائمة :13/65 )
سوال : شیخ نصرفرید واصل ( مفتی الدیارالمصریہ ) سے سوال کیا گیا : تمباکووغیرہ بنانے والی کمپنیوں کے شئرز خریدنا جائز ہے یا ناجائز ؟
جواب : تمباکوسازکمپنیوں کےشیرصزکےساتھ کوئی بھی تجارتی ومالی عمل شرعًا جائزنہیں ہے،کیونکہ یہ کمپنیاں تمباکواوراس سےبنی چیزوں کوبنانے اوران میں تجارت کاکاروبارکرتی ہیں اورتمباکوکانقصان انسان کےلئے قطعی طورپرثابت شدہ ہےجونفس اورمال کےلئے کلیا اورجزئیا ہلاکت خیزہےجسے مسلمان اورغیرمسلمان ہرقسم کےطبّی ماہرین اورصحت کے عالمی اداروں نے بیان کردیا ہے اورباجماع واتفاق علمائےدین ہرنقصان دہ شئی حرام اورمنہی عنہ ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :{وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} (البقرة 195) ( اپنے آپ کو ہلاکت ميں مت ڈالو ) نیزارشادفرمایا:{وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيماً‎}(النساء 29) (اپنے آپ کوقتل نہ کرو يقينًا اللہ تعالی تم پر نہایت مہربان ہے )
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" لاضررو لاضرار " یعنی " نہ نقصان اٹھایاجائے اور نہ ہی بدلےمیں نقصان پہونچایا جائے " حقائق وتجربات سےیہ بات ثابت ہےکہ تمباکوشراب اوردیگرنشہ آور اشیاءجونصوص واجماع کی بنیادپراسلام میں قطعًاحرام ہے، سےزیادہ ضرر رساں ہے ، لہذاشراب پرقیاس کرتےہوئےتمباکو اسی کی طرح حرمت کےعام دلائل کی اکثریت اسکےمتعلق ضرورتوں اورہمارےبیان کردہ نکتوں کی بنیاد پراپنےنقصان وضررکی وجہ سےحرام ہے،اس سےقبل مصرکےدارالافتاءسےسگریٹ اورتمباکووغیرہ کےاستعمال کی حرمت سے متعلق ایک شرعی و قانونی فتوی صادرہوچکاہے کیونکہ وہ نفس اورمال دونوں کے لئے ہلاکت خیز ہے اور چونکہ وسائل شریعت کی نگاہ میں مقاصدکےحکم میں ہیں اس لئے وہ وسائل جن سےحرام کی راہ کھلے حرام ہیں اورتمباکوساز کمپنیاں حرام وسائل و ذرائع ہیں کیونکہ ان سے ایسی چیزیں بنائی جاتی ہیں جن کا استعمال نفس اور مال کو یقینی ومتحقق نقصان پہونچاتاہےاس لئےتمباکوسازکمپنیوں کےشیئرزوغیرہ خریدنا حرام ہے اوران کےساتھـ معاملات کرنادرست نہیں ہےاوران کےخرید وفروخت سےبچنالازم ہے (فتوى نمبر (872 ) السوال الخامس ) ۔

کوئی تبصرے نہیں: